Al-Qurtubi - Al-Baqara : 233
وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْنِ كَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ١ؕ وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا١ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا وَ لَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ١ۗ وَ عَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ١ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا١ؕ وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
وَالْوَالِدٰتُ : اور مائیں يُرْضِعْنَ : دودھ پلائیں اَوْلَادَھُنَّ : اپنی اولاد حَوْلَيْنِ : دو سال كَامِلَيْنِ : پورے لِمَنْ : جو کوئی اَرَادَ : چاہے اَنْ يُّتِمَّ : کہ وہ پوری کرے الرَّضَاعَةَ : دودھ پلانے کی مدت وَعَلَي : اور پر الْمَوْلُوْدِ لَهٗ : جس کا بچہ (باپ) رِزْقُهُنَّ : ان کا کھانا وَكِسْوَتُهُنَّ : اور ان کا لباس بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق لَا تُكَلَّفُ : نہیں تکلیف دی جاتی نَفْسٌ : کوئی شخص اِلَّا : مگر وُسْعَهَا : اس کی وسعت لَا تُضَآرَّ : نہ نقصان پہنچایا جائے وَالِدَةٌ : ماں بِوَلَدِھَا : اس کے بچہ کے سبب وَلَا : اور نہ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ : جس کا بچہ (باپ) بِوَلَدِهٖ : اس کے بچہ کے سبب وَعَلَي : اور پر الْوَارِثِ : وارث مِثْلُ : ایسا ذٰلِكَ : یہ۔ اس فَاِنْ : پھر اگر اَرَادَا : دونوں چاہیں فِصَالًا : دودھ چھڑانا عَنْ تَرَاضٍ : آپس کی رضامندی سے مِّنْهُمَا : دونوں سے وَتَشَاوُرٍ : اور باہم مشورہ فَلَا : تو نہیں جُنَاحَ : گناہ عَلَيْهِمَا : ان دونوں پر وَاِنْ : اور اگر اَرَدْتُّمْ : تم چاہو اَنْ : کہ تَسْتَرْضِعُوْٓا : تم دودھ پلاؤ اَوْلَادَكُمْ : اپنی اولاد فَلَا جُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اِذَا : جب سَلَّمْتُمْ : تم حوالہ کرو مَّآ : جو اٰتَيْتُمْ : تم نے دیا تھا بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ بِمَا : سے۔ جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا ہے
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے
آیت نمبر : 233۔ اس میں اٹھارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” والوالدت “۔ یہ مبتدا ہے، (آیت) ” یرضعن اولادھن “۔ یہ محل خبر میں ہے۔ (آیت) ” حولین کاملین “۔ یہ ظرف زمان ہے جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ نکاح اور طلاق کا ذکر کرچکا تو پھر اس نے اولاد کا ذکر کیا کیونکہ کبھی زوجین آپس میں جدا ہوتے ہیں اور ان کے پاس بچہ ہوتا ہے۔ پس تب یہ آیت ان مطلقہ عورتوں کے بارے میں ہے جن کی ان کے خاوندوں سے اولاد ہو، سدی اور ضحاک وغیرہ نے یہی کہا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 311 دارالکتب العلمیہ) یعنی وہ خود اجنبی عورتوں کی نسبت اپنی اولاد کو دودھ پلانے کا زیادہ حق رکھتی ہیں کیونکہ وہ زیادہ شفیق اور زیادہ نرم ہیں اور صغیر بچے کو چھین لینا بچے اور اس کی ماں دونوں کے لئے تکلیف دہ اور ضرر رساں ہے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ بچے کو اگر دودھ چھڑا دیا جائے تو ماں ہی زیادہ شفیق اور مہربان ہونے کی وجہ سے اس کی پرورش کا زیادہ حق رکھتی ہے اور وہی پرورش کی زیادہ حقدار ہوتی ہے جب تک وہ شادی نہ کرے جیسا کہ آگے آرہا ہے اور اس پر یہ قول اشکال پیدا کرتا ہے۔ : (آیت) ” وعلی المولودلہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف “۔ کیونکہ مطلقہ عورت تو لباس کی مستحق نہیں ہوتی جب طلاق رجعی نہ ہو بلکہ وہ اجرت کی مستحق ہوتی ہے مگر یہ کہ اسے مکارم اخلاق پر محمول کیا جائے اور کہا جائے : اولی اور بہتر یہ ہے کہ اجرت اس سے کم نہ ہو جو اس کی خوراک اور لباس کے لئے کافی ہوتا ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ یہ آیت عام ہے ان مطلقات کے بارے میں بھی جن کی اولاد ہو اور بیویوں کے بارے میں بھی (یعنی تمام کو شامل ہے) اور اظہر یہی ہے کہ یہ آیت ان بیویوں کے بارے میں ہے جن کا نکاح ابھی باقی ہو، کیونکہ وہ نفقہ اور لباس دونوں کی مستحق ہوتی ہیں اور زوجہ نفقہ اور لباس کی مستحق ہوتی ہے چاہے وہ دودھ پلائے یا نہ پلائے، نفقفہ اور لباس دونوں تمکین (قدرت) کے مقابلہ میں ہیں، اور جب وہ دودھ پلانے میں مشغول ہوجائے گی تو قدرت کامل نہ رہے گی اور کبھی یہ وہم کیا جاتا ہے کہ نفقہ ساقط ہوجاتا ہے پس اس وہم کو اس ارشاد کے ساتھ زائل کردیا : (آیت) ” وعلی المولودلہ “۔ مراد زوج (بچے کا باپ) ہے (آیت) ” رزقھن وکسوتھن “۔ یعنی دودھ پلانے کی حالت میں (ان کا نفقہ اور لباس زوج پر ہے) کیونکہ یہ زوج کے مصالح اور منافع میں مشغول ہونا ہے تو یہ اسی طرح ہوگیا جیسا کہ اگر وہ خاوند کے کام کی غرض سے اس کی اجازت کے ساتھ سفر پر چلی جائے تو نفقہ ساقط نہیں ہوتا۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یرضعن “۔ یہ خبر ہے۔ اس کا معنی ہے کہ یہ امر بعض والدات کے لئے وجوب کے معنی پر ہے اور بعض کے لئے مستحب کے معنی پر (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 310 دارالکتب العلمیہ) جیسا کہ آگے آ رہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس کے مشروع ہونے کی خبر ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (3) اور دودھ پلانے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے کہ کیا یہ ماں کا حق ہے یا یہ اس پر لازم ہے لفظ دونوں کا احتمال رکھتا ہے کیونکہ اگر ماں پر اس کے لازم ہونے کی تصریح مراد ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا : ” وعلی الوالدات رضاع اولادھن “۔ (ماؤں پر اپنی اولاد کو دودھ پلانا لازم ہے) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا : (آیت) ” وعلی المولودلہ رزقھن وکسوتھن “۔ لیکن یہ اس پر زوجیت کی حالت میں ہے اور یہی عرف ہے جس سے لازم آتا ہے کہ یہ شرط کی طرح ہوگیا ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 310 دارالکتب العلمیہ) مگر یہ کہ وہ شریف اور خوشحال ہو تو اس کا یہ ہے کہ وہ دودھ نہ پلائے اور یہ شرط کی طرح ہے اور اس پر دودھ پلانا واجب ہے اگر بچہ کسی غیر کو قبول نہ کرے، تو دودھ پلانا اس پر واجب ہے اس کے اختصاص کی وجہ سے بشرطیکہ اور معدوم ہو۔ اور اگر باپ فوت ہوجائے اور بچے کا کوئی مال نہ ہو تو المدونہ میں امام مالک کا یہ مذہب بیان ہوا ہے کہ دودھ پلانا ماں کے لئے لازم ہے بخلاف نفقہ کے اور ابن الجلاب کے کتاب میں ہے : اسے دودھ پلانے کا انتظام کرنا بہت المال کے ذمہ ہوگا۔ اور عبدالوہاب نے کہا ہے، وہ (بچہ) بھی مسلمان فقراء میں سے ایک فقیر ہے۔ اور رہی وہ عورت جسے طلاق بائن دی گئی ہو تو اس پر رضاء نہیں ہے، بلکہ رضاع خاوند پر لازم ہے مگر یہ کہ وہ عورت چاہے تو اجرت مثل کے عوض یہ زیادہ ہوگی اور یہ اس صورت میں ہے جبکہ خاوند خوشحال ہو اور اگر وہ تنگ دست ہو تو پھر اس مطلقہ عورت کے لئے دودھ پلانا لازم نہیں مگر یہ کہ بچہ اس کے سوا کسی کو قبول نہ کرتا ہو تو اس وقت اسے دودھ پلانا پر مجبور کیا جائے گا اور وہ تمام جو دودھ پلانا اس پر لازم نہیں مگر یہ کہ بچہ اس کے سوا کسی کو قبول نہ کرتا ہو تو اس وقت اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا اور وہ تمام جو دودھ پلانا اس پر لازم کرتے ہیں (ان کا موقف ہے) کہ اگر اسے کوئی عذر لاحق ہوجائے جو اسے دودھ پلانے سے مانع ہو تو دودھ پلانے کا امر باپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور امام مالک (رح) سے مروی ہے کہ باپ جب مفلس ہو اور بچے کا کوئی مال نہ ہو تو دودھ پلانا ماں پر لازم ہے (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 311 دارالکتب العلمیہ) اور اگر اس کا دودھ نہ ہو لیکن اس کے پاس مال ہو تو پھر اپنے مال سے دودھ پلانے کا انتظام کرنا اس پر لازم ہوگا۔ امام شافعی نے فرمایا : دودھ پلانے کا اہتمام لازم نہیں ہوتا مگر باپ پر یا دادا پر اور جو بھی اس سے اوپر ہوں اس بارے میں علماء کا نظریہ اس ارشاد کے تحت آئے گا (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ کہ جاتا ہے : رضع یرضع رضاعۃ ورضاعا “ اور ” رضع یرضع رضاعا و رضاعۃ (یعنی پہلے میں را مکسور ہے اور دوسرے میں مفتوح ہے) اور دونوں میں اسم فاعل راضع ہے اور الرضاعۃ کا معنی اللوم (بخل کرنا) بھی ہے۔ (یہ لفظ فقط راء کے فتحہ کے ساتھ ہے) مسئلہ نمبر : (4) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” حولین “ یعنی دو سال ‘ یہ حال الشیء سے ماخوذ ہے جب کوئی شے پلٹ جائے پس حول اول وقت سے دوسرے کی طرف پلٹنے والا ہے اور کہا گیا ہے کہ سال کو حول اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اغلبا امور بدل جاتے ہیں، کاملین یہ کامل ہونے کے لئے قید ہے کیونکہ کبھی کوئی کہنے والا کہتا ہے : اقمت عند فلان حولین اور اس سے وہ ایک سال اور دوسرے سال کا کچھ حصہ مراد لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” فمن تعجل فی یومین “۔ یعنی جو کوئی ایک دن اور دوسرے دن کے کچھ حصے میں جلدی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” لمن اراد ان یتم الرضاعۃ “ اس پر دلیل ہے کہ دو سال دودھ پلانا حتمی نہیں ہے کیونکہ دو سال سے پہلے بھی دودھ چھڑانا جائز ہے، لیکن یہ حد اس لئے بیان کی گئی ہے تاکہ زوجین کے درمیان مدت رضاع کے بارے میں تنازع ختم ہوجائے۔ لہذا خاوند پر دو سال سے زیادہ عرصہ اجرت دینا واجب نہیں ہے اور اگر باپ اس مدت سے پہلے دودھ چھڑانا چاہے اور ماں اس پر راضی نہ ہو تو وہ ایسا نہیں کرسکتا اور دو سال میں زیادتی یا کمی تب ہو سکتی ہے جب بچے کے لئے اس میں کوئی نقصان نہ ہو اور والدین رضا مند ہوں۔ حضرت مجاہد اور ابن محیصن نے (آیت) ” لمن اراد ان یتم الرضاعۃ “۔ پڑھا ہے یعنی تاء کو فتحہ کے ساتھ اور الرضاعۃ کو رفع کے ساتھ۔ یعنی فعل کی نسبت اس کی طرف کی ہے۔ اور ابو حیوہ، ابن ابی عبلہ، جارود بن ابی سبرہ نے ” الرضاعۃ “ کو راء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ بھی ایک لغت ہے جیسا کہ الحضارۃ اور الحضارۃ ہے۔ اور حضرت مجاہد سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے انفعلۃ کے وزن پر الرضعۃ پڑھا ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ” ان یکمل الرضاعۃ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 311 دارالکتب العلمیہ) قرات کی ہے۔ نحاس نے کہا ہے کہ بصری ” الرضاعۃ “ کو صرف راء کے فتحہ کے ساتھ اور الرضاع کو صرف راء کے کسرہ کے ساتھ پڑھتے ہیں مثلا القتال اور کوفی ” الرضاعۃ “ کو راء کے کسرہ کے ساتھ اور الرضاع کو راء کے فتحہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (5) امام مالک (رح) آپ کے تابعین اور علماء کی ایک جماعت نے اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکالا ہے کہ وہ رضاعت جو حرمت میں نسب کے قائم مقام ہے وہ یہی ہے جو دو سال میں ہو، کیونکہ دو سال گزرنے کے ساتھ رضاعت کی مدت مکمل ہوگئی اور دو سال کے بعد کی رضاعت معتبر نہیں ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 311 دارالکتب العلمیہ) آپ کا یہ قول مؤطا میں ہے اور یہ آپ سے محمد بن عبدالحکم کی روایت ہے اور یہی حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے اور حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے اور یہی حضرت زہری، قتادہ، شعبی، سفیان ثوری، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق، ابو یوسف، محمد اور ثور رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے۔ اور ابن عبد الحکم نے آپ سے دو سال اور کچھ تھوڑے دن زیادہ کا قول روایت کیا ہے۔ عبدالملک نے کہا ہے کہ وہ مہینہ اور اس طرح کی مدت ہے۔ اور ابن القاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : رضاعت کی مدت دو سال اور دو مہینے ہے (3) (المدونۃ الکبری، کتاب الرضاع، جلد 5، صفحہ، 90 السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) اور ولید بن مسلم نے آپ سے بیان کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : دو سالوں کے بعد دودھ پلانے کی جو مدت ہوگی ایک مہینہ یا دو مہینے یا تین مہینے وہ دو سالوں میں ہی شمار ہوگی اور جو اس سے زائد ہوگی وہ عبث ہوگی۔ اور حضرت نعمان سے بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا : دو سالوں کے بعد چھ ماہ تک جو مدت ہوگی وہ رضاع میں ہی شمار ہوگی ان میں پہلا قول صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “۔ یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ بچے نے جو دو سال کے بعد دودھ پیا ہے اس کے لئے یہ حکم نہیں ہے۔ اور حضرت سفیان نے عمرو بن دینار سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لا رضاع الا ما کان فی الحولین “۔ (رضاع نہیں ہے مگر وہی جو دو برس میں ہو) دارقطنی نے کہا ہے : اسے ابن عیینہ سے ہیثم بن جمیل کے سوا کسی نے بیان نہیں کیا ہے اور یہ ثقہ اور حافظ راوی ہے۔ (1) (دارقطنی، کتاب الرضاع، جلد 4، صفحہ 174، دارالمحاسن قاہرہ) میں (مفسر) کہتا ہوں کہ یہ خبر آیت اور معنی کے ساتھ موافق ہے۔ یہ کبیر کی رضاعت کی نفی کرتی ہے اور یہ کہ اس کے لئے حرمت کا حکم ثابت نہ ہوگا۔ اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بھی اسی طرح کا قول مروی ہے اور علماء میں سے لیث بن سعد بھی یہی کہتے ہیں اور حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ وہ بڑے کی رضاعت کا لحاظ رکھتے ہیں اور آپ کا اس سے رجوع بھی مروی ہے (2) ۔ عنقریب سورة النساء میں یہ مسئلہ تفصیل سے آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر : (6) جمہور مفسرین نے کہا ہے : یہ دو سال ہر بچے کے لئے ہیں اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : یہ اس بچے کے بارے میں جو چھ ماہ تک پیٹ میں رہتا ہے اور اگر وہ سات ماہ تک پیٹ میں رہے تو پھر اس کی رضاعت کی مدت تیئس ماہ ہے اور اگر آٹھ مہینے رہے تو اس کی مدت رضاعت بائیس مہینے ہے اور اگر وہ نو مہینے رہے تو پھر اس کی مدت رضاعت اکیس مہینے ہے (3) (احکام القرآن للجصاص، جلد 1 صفحہ 410، دارالکتب العربیۃ) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وحملہ وفصالہ ثلاثون شھرا “ ترجمہ : اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے) اس بناء پر مدت حمل اور مدت رضاعت دونوں ایک دوسرے میں داخل ہیں اور ایک دوسرے سے اپنا حصہ لے لے گئیں۔ مسئلہ نمبر : (7) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وعلی المولودلہ “ یعنی باپ پر ہے اور عربی میں وعلی المولودلھم کہنا جائز ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” ومنھم من یستمعون الیک “۔ کیونکہ معنی ہے : ” وعلی الذی ولدلہ “ اور اس پر جس کا بیٹا ہے اور الذی کے ساتھ واحد اور جمع دونوں کو تعبیر کیا جاسکتا ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” رزقھن وکسوتھن “ اس حکم میں رزق سے مراد وہ طعام (کھانا) ہے جو کافی ہو اور اس میں اس پر دلیل موجود ہے کہ بچے کا نفقہ والد پر واجب ہے، چاہے وہ کمزور اور عاجز ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے مال کے لئے مقرر فرمایا ہے کیونکہ رضاع کی صورت میں ماں کے واسطہ سے غذا بچے تک پہنچتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا : (آیت) ” وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن “۔ (الطلاق : 6) ترجمہ : اور اگر وہ حاملہ ہوں تو تم ان پر خرچہ کرو۔ کیونکہ انہی کے سبب غذا پہنچتی ہے۔ اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ آدمی پر اپنی اولاد میں سے ان بچوں کا نفقہ واجب ہے جن کا کوئی مال نہ ہو، اور حضور ﷺ نے ہند بنت عتبہ کو فرمایا اس حال میں کہ اس نے آپ سے عرض کی تھی کہ ابو سفیان انتہائی بخیل آدمی ہے وہ مجھے اتنا نفقہ نہیں دیتا جو میرے لئے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہو تو پھر میں اسے بتائے بغیر اس کے مال سے لے لیتی ہوں، کیا مجھ پر اس میں گناہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف “۔ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارت جلد 1، صفحہ 167، وزارت تعلیم) (تو اتنا مال لے لے مناسب طریقے سے جو تیرے لئے اور تیری اولاد کے لیے کافی ہو) اور الکسوۃ کا معنی لباس ہے اور (آیت) ” قولہ بالمعروف “ کا معنی ہے جو عرف شرع میں بغیر افراط اوتفریط کے متعارف ہو، پھر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ نفقہ خاوند کی دولت اور اس کے منصب کے مطابق ہوگا مد یا کسی اور پیمانے کے ساتھ اندازے کی ضرورت نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” لا تکلف نفس الا وسعھا “۔ اس کا بیان سورة الطلاق میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے : عورت کو اجرت میں کنجوسی پر صبر کرنے کا پابند اور مکلف نہیں کیا جائے گا اور خاوند کو اسراف (فضول خرچی) کا پابند نہیں کیا جائے گا بلکہ میانہ روی کا لحاظ رکھا جائے گا۔ مسئلہ نمبر : (9) اس آیت میں امام مالک (رح) کی اس پر دلیل موجود ہے کہ پرورش کا حق ماں کو ہے اور یہ بچے میں اس کے بالغ ہونے تک ہے اور بچی میں نکاح تک ہے اور یہ ماں کا حق ہے اور یہی امام ابوحنیفہ (رح) نے بھی کہا ہے۔ اور امام شافعی نے کہا ہے : جب بچہ آٹھ برس کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ وہ عمر ہے جس میں وہ تمیز کرسکتا ہے، لہذا اسے والدین کے درمیان اختیار دیا جائے گا کیونکہ اس کی یہ حالت قرآن کریم کی تعلیم، ادب، اور دیگر وظائف عبادات کے لئے اس کی ہمت اور استعداد کو متحرک کرنے کی ہے اور اس میں بچہ اور بچی دونوں برابر ہوتے ہیں۔ اور امام نسائی وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ ایک عورت حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی : میرا خاوند چاہتا ہے کہ وہ میرا بیٹا مجھ سے لے لے تو حضور ﷺ نے اس بچے کو فرمایا : یہ ” تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے تو ان میں سے جسے چاہے پکڑ لے “ تو اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا (2) (سنن نسائی، کتاب الطلاق، جلد 2، صفحہ 112، وزارت تعلیم، ایضا ابن ماجہ، باب تخییر الصبی ابویہ، حدیث نمبر 2341، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ابو داؤد کی کتاب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ایک عورت حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو اس نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ میرا خاوند چاہتا ہے کہ وہ میرا بیٹا لے جائے، حالانکہ یہ ابو عنبہ کے کنوئیں سے مجھے پانی لا کردیتا ہے اور میرے لئے بہت نفع بخش ہے، تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تم دونوں اس کے بارے میں قرعہ اندازی کرلو “۔ تو اس کے خاوند نے کہا : میرے بیٹے کے بارے میں کون میرے ساتھ جھگڑ سکتا ہے ؟ پھر حضور ﷺ نے بیٹے کو فرمایا : ” یہ تیرا باپ ہے اور یہ تیری ماں ہے تو جس کا چاہے ان دو میں سے ایک کا ہاتھ پکڑ لے۔ “ تو اس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا اور وہ اسے لے کر چلی گئی۔ (1) (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، جلد 1، صفحہ 310، وزارت تعلیم) اور ہماری دلیل وہ ہے جسے ابو داؤد نے امام اوزاعی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : مجھے عمرو بن شعیب نے اپنے باپ کے واسطہ سے اپنے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے حدیث بیان کی ہے کہ ایک عورت حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ بیشک یہ میرا بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لئے جائے حفاظت رہا، میرے پستان اسے سیراب کرتے رہے اور میری گود اس کے لئے گھر بنی رہی اور اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی اور اب اس نے اسے مجھ سے چھیننے کا ارادہ کیا ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : ” انت احق بہ مالم تنکحی “۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، جلد 1، صفحہ 310، وزارت تعلیم، ایضا، باب من احق بالولد، حدیث نمبر 1938، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) تو اس کا زیادہ حق رکھتی ہے جب تک تو نکاح نہ کرے۔ ابن منذر نے کہا ہے : اہل علم میں سے جن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے ان تمام نے اس پر اجماع کیا ہے کہ زوجین جب آپس میں علیحدہ علیحدہ ہوجائیں اور ان دونوں کا بچہ ہو تو ماں اس بچے کا زیادہ حق رکھتی ہے جب تک وہ نکاح نہ کرے، اسی طرح ابو عمر نے کہا ہے : میں علماء سلف میں سے کہیں بھی مطلقہ عورت کے بارے میں اختلاف نہیں جانتا کہ جب تک ہو شادی نہ کرے تو وہ باپ کی نسبت اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہے جس وقت تک وہ چھوٹا بچہ ہے اور کسی شے کی تمیز نہیں کرسکتا بشرطیکہ اس کے پاس وہ حفاظت میں ہو اور (اخراجات کی) کفایت بھی ہو اور اس عورت میں فسق اور اجنبیوں کے سامنے زینت کا اظہار ثابت نہ ہو، پھر اس کے بعد اسے اختیار دینے میں اختلاف ہے جبکہ وہ اپنے باپ اور اپنی ماں کے درمیان تمیز کرسکتا ہو اور یہ عقل رکھتا ہو کہ ان میں سے کون اس کے حق میں اولی اور بہتر ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : یہ ثابت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی کے بارے میں بغیر تخییر کے خالہ کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ ابو داؤد نے حضرت علی ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : حضرت زید بن حارثہ ؓ مکہ مکرمہ گئے اور حضرت حمزہ ؓ کی بیٹی کو لے آئے تو حضرت جعفر ؓ نے کہا : میں اسے لوں گا اور میں ہی اس کا زیادہ حقدار ہوں، یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور اس کی خالہ میرے گھر ہے اور خالہ ماں ہوتی ہے اور حضرت علی ؓ نے کہا : میں اس کا زیادہ حق رکھتا ہوں۔ کیونکہ یہ میرے چچا کی بیٹی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی میرے گھر ہے اور وہ اس کی زیادہ حقدار ہے۔ اور حضرت زید ؓ نے کہا : میں اس کا زیادہ حق رکھتا ہوں، میں اس کے لئے (گھر سے) نکلا اور میں نے سفر کیا اور میں اسے لے کر آیا، پھر حضور نبی مکرم ﷺ تشریف لائے اور یہ حدیث فرمائی، فرمایا : ” واما الجاریۃ فاقضی بھا الجعفر تکون مع خالتھا وانما الخالۃ ام “ (3) (سنن ابی داؤد، کتاب الطلاق، جلد 1، صفحہ 311، وزارت تعلیم، ایضا، باب من احق بالولد، حدیث نمبر 1940، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور رہی بچی تو میں حضرت جعفر ؓ کے حق میں اس کا فیصلہ کرتا ہوں یہ اپنی خالہ کے پاس رہے گی۔ بلاشبہ خالہ ماں ہوتی ہے۔ مسئلہ نمبر : (10) ابن منذر نے کہا ہے : تمام معتمد اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ بچے میں ماں کا حق نہیں ہے جب وہ شادی کرلے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی طرح انہوں نے اپنی ” کتاب الاشراف “ میں کہا ہے اور قاضی عبدالوہاب نے ” شرح الرسالۃ “ میں حسن سے ذکر کیا ہے کہ شادی کے سبب پرورش میں اس کا حق ساقط نہیں ہوتا، اور امام مالک، امام شافعی، نعمان اور ابو ثور رحمۃ اللہ علہیم نے اس پر اجماع کیا ہے کہ نانی بچے کی پرورش کا زیادہ حق رکھتی ہے۔ اور انہوں نے اختلاف کیا ہے کہ جب بچے کی ماں نہ ہو اور اس کی دادی ہو تو امام مالک (رح) نے کہا ہے : جب بچے کی خالہ نہ ہو تو پھر دادی زیادہ حقدار ہے۔ (1) (المدونۃ الکبری، کتاب الرضاع، جلد 5، صفحہ 40، السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) اور ابن القاسم نے بیان کیا ہے کہ امام مالک (رح) نے کہا : مجھ تک آپ سے یہ خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے کہا : خالہ دادی سے زیادہ اولی اور بہتر ہے۔ (2) (المدونۃ الکبری، کتاب الرضاع، جلد 5، صفحہ 39، السعادۃ بجوار الحافظۃ مصر) اور امام شافعی اور نعمان کے قول میں ہے کہ دادی خالہ سے زیادہ حق رکھتی ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک باپ دادی کی نسبت اپنے بیٹے کے لئے زیادہ اولی ہے (3) (ایضا۔ ) ابو عمر نے کہا ہے : یہ میرے نزدیک ہے بشرطیکہ اس کی کوئی اجنبی بیوی نہ ہو۔ پھر باپ کے بعد بہن اور پھر پھوپھی کا حق ہے اور یہ تب ہے جبکہ ان میں سے ہر ایک کے پاس بچہ محفوظ ومامون ہو اور وہ اس کے پاس حفاظت و کفایت میں ہو اور جب اس طرح نہ ہو تو پھر کسی کو حق خضانت نہیں، بلکہ اس کے بارے میں غور وفکر کیا جائے گا جس کے بچہ زیادہ محفوظ ہوگا اور وہ اس کی حفاظت اور خیر اور بھلائی کی تعلیم کے سلسلہ میں انتہائی اچھا اور حسین سلوک کرے گا اور یہ ان کے قول کے مطابق ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ پرورش بچے کا حق ہے اور یہی امام مالک (رح) سے مروی ہے اور آپ کے اصحاب میں سے بھی ایک جماعت نے یہی کہا ہے اور اسی طرح فاجرہ عورت، ضعیف اور بیماری یا اپاہج ہونے کی وجہ سے جو بچے کا حق ادا کرنے سے عاجز ہو اور اسے حق حضانت نہیں دیتے۔ ابن حبیب نے مطرف سے اور ابن ماجشون نے امام مالک سے ذکر کیا ہے کہ پرورش کا حق پہلے ماں کو ہے، پھر نانی کو، پھر خالہ کو، پھر دادی کو پھر بچے کی بہن کو پھر بچے کی پھوپھی کو پھر بچے کی بھتیجی کو اور پھر باپ کو ہے، دادی بہن سے اولی ہے اور بہن پھوپھی سے اولی ہے اور پھوپھی اپنے مابعد افراد سے اولی اور بہتر ہے۔ اور تمام مردوں میں سے اولیاء زیادہ ارجح اور اولی ہیں اور خالہ کی بیٹی کے لئے، پھوپھی کی بیٹی کے لئے اور بچے کی بھانجیوں کے لئے اس کی پرورش میں سے کوئی حق نہیں ہے۔ اور جب پرورش کرنے والے کی جانب سے بچے پر ضائع ہونے یا فساد برپا ہونے کا کوئی اندیشہ اور خوف نہ ہو تو وہ اس کی مسلسل پرورش کرتا رہے یہاں تک کہ وہ سن بلوغت کو پہنچ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہاں تک کہ وہ بچہ ہونے کے اطلاق سے نکل جائے، اور یہاں تک کہ بچی شادی کرلے مگر یہ کہ باپ سفر پر نکلنے اور وطن سے منتقل ہونے کا ارادہ رکھتا ہو تو اس وقت وہ ماں اور کسی غیر کی نسبت اپنے بچے کا زیادہ حقدار ہے اگر وہ (بچے کی ماں) منتقل نہ ہونا چاہے اور اگر باپ نے تجارت کے لئے نکلنے کا ارادہ کیا تو پھر اس کے لئے حق حضانت نہیں اور اسی طرح بچے کے وہ اولیاء ہیں جن کے ساتھ وہ رہتا ہے جب وہ وطن بنانے کے لئے کہیں اور منتقل ہوجائیں۔ اور ماں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بچے کو باپ کے رہنے کی جگہ سے منتقل کرے مگر اس صورت میں کہ وہ اتنی مسافت سے بھی قریب ہو جس میں نماز قصر ہوجاتی ہے اور اگر آدمی نے عورت کے شہر سے منتقل ہوتے وقت اس پر یہ شرط عائد کردی کہ وہ اس کے پاس اپنا بچہ نہیں چھوڑے گا مگر یہ کہ اس کا نفقہ اور اس کی مشقت معین سالوں تک اس پر لازم ہوگی، تو اگر عورت نے اپنے ذمہ لازم کرلیا تو وہ اس پر لازم ہوجائے گا، اور اگر وہ فوت ہوگئی تو پھر اس کے ترکہ میں سے اس کے لئے اس کے روثاء کی طرف رجوع نہیں کیا جائے گا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ قرض ہے جو اس کے ترکہ میں سے لیا جائے گا، اور پہلا قول اصح ہے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ جیسا کہ اگر بچہ فوت ہوجائے یا جیسا کہ اگر وہ حمل اور رضاع کے خرچہ کی بھی اس سے صلح کرلے اور وہ اسے ساقط کر دے تو پھر اس میں سے کسی شے کے لئے اس کا پیچھا نہ کیا جائے۔ مسئلہ نمبر : (11) جب ماں شادی کرلے تو اس سے اس کا بچہ نہ چھینا جائے یہاں تک کہ اس کا خاوند اس سے دخول کرلے (1) (المدونۃ الکبری، کتاب جلد 5، صفحہ، 40، السعادۃ بجوارمحافظۃ مصر) یہ امام مالک (رح) کے نزدیک ہے۔ اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : جب اس نے نکاح کرلیا تو اس کا حق حضانت ختم ہوگیا۔ اور اگر اس نے اسے طلاق دے دی تو امام مالک (رح) کے نزدیک اس میں اس کے لئے رجوع کا حق نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک آپ کا مشہور مذہب یہی ہے اور قاضی اسماعیل نے ذکر کیا ہے اور اسے ابن خویز منداد نے بھی امام مالک سے ذکر کیا ہے کہ اس بارے میں آپ کا قول مختلف ہے۔ سو ایک بار کہا : وہ بچہ اس کی طرف لوٹا دیا جائے گا اور ایک بار کہا : وہ نہیں لوٹایا جائے گا۔ ابن منذر نے کہا ہے : جب ماں اس شہر سے نکل گئی جس میں اس کا بیٹا تھا، پھر اس کی طرف واپس آگئی تو پھر یہی اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہوگی، یہ امام شافعی، ابو ثور اور اصحاب الرائے کا قول ہے۔ اور اسی طرح اگر اس نے شادی کی پھر اسے طلاق ہوگئی یا اس کا خاوند فوت ہوگیا تو بچہ بھی اس کے حق میں لوٹا دیا جائے گا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اسی طرح قاضی ابو محمد عبدالوہاب نے کہا ہے : پس اگر خاوند نے اسے طلاق دی یا وہ فوت ہوگیا تو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ بچے کو لے لے کیونکہ وہ عذر زائل ہوچکا ہے جس کے سبب بچے کو چھوڑنا جائز ہوا تھا۔ مسئلہ نمبر : (12) اگر عورت نے اپنے بچے کی پرورش چھوڑ دی اور اس نے اسے لینے کا ارادہ ہی نہ کیا حالانکہ وہ فارغ تھی وہ زوج کے سبب مشغول نہ تھی، پھر اس کے بعد اس نے بچے کو لینے کا ارادہ کیا تو اس کے بارے میں غور وفکر کی جائے گی۔ پس اگر اس کا بچے کو چھوڑنا کسی عذر کے باعث تھا تو اس کے لئے اسے لینا جائز ہے اور اگر اس کا ترک اسے چھوڑنے اور نفرت کے سبب ہو تو اب اس کے بعد اس کے لئے بچے کو لینا جائز نہیں۔ مسئلہ نمبر : (13) اور علماء نے ایسے زوجین کے بارے اختلاف کیا ہے جو طلاق کے سبب جدا ہوجاتے ہیں اور زوجہ ذمیہ ہے تو ایک گروہ نے کہا ہے : ذمیہ اور مسلم میں کوئی فرق نہیں ہے اور یہی اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہے۔ یہ قول ابو ثور، اصحاب الرائے اور ابن القاسم صاحب مالک رحمۃ اللہ علہیم کا ہے۔ ابن منذر نے کہا ہے : تحقیق ہم نے حدیث مرفوع روایت کی ہے جو اس کے موافق ہے اور اس کی اسناد میں کلام ہے اور اس میں دوسرا قول یہ ہے کہ بچہ ان میں سے مسلمان کے ساتھ ہوگا۔ یہ قول امام مالک، سوا اور عبداللہ بن حسن کا ہے اور یہی حضرت امام شافعی (رح) نے بھی بیان کیا گیا ہے۔ اور اسی طرح ان کا ان زوجین میں بھی اختلاف ہے جو آپس میں جدا ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک آزاد ہے اور دوسرا مملوک، پس ایک گروہ نے کہا ہے : آزاد اولی ہے، یہ قول حضرت عطا، ثوری، امام شافعی، اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علہیم کا ہے۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : باپ جب آزاد ہو اور اس کا بیٹا ہو اور ماں مملوکہ (کنیز) ہو تو بلاشبہ ماں اس کی زیادہ حقدار ہوگی مگر یہ کہ اسے بیچ دیا جائے اور وہ کہیں اور منتقل ہوجائے تو پھر باپ کا حق زیادہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (14) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” لا تضار والدۃ بولدھا ولا مولودلہ بولدہ “۔ اس کا معنی یہ ہے کہ ماں بچے کے باپ کو ضرر اور تکلیف پہنچانے کے لئے اسے دودھ پلانے سے انکار نہ کرے یا وہ اجرت مثل سے زیادہ کا مطالبہ کرے اور باپ کے لئے بھی حلال نہیں ہے کہ ماں کو دودھ میں اس کی رغبت کے باوجود اس سے منع کرے، یہ قول جمہور مفسرین کا ہے۔ نافع، عاصم، حمزہ اور کسائی نے تضار راء مشددہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ نہیں کی بنا پر محل جزم میں ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 312 دارالکتب العلمیہ) اور اس کی اصل لا تضار ہے اور پہلی راء کو دوسری میں ادغام کیا گیا اور ساکن ملنے کی وجہ سے دوسری کو فتحہ دے دیا گیا، اسی طرح مضاعف میں کیا جاتا ہے جبکہ اس سے پہلے فتحہ یا الف ہو، تو کہتا ہے : عض یا رجل (تو کاٹ اے آدمی) اور ضار فلانایارجل (توفلاں کو ضرر پہنچا اے آدمی) یعنی بچہ ماں سے نہیں چھینا جائے گا جب وہ دودھ پلانے پر راضی ہو اور بچہ اس سے مانوس ہو۔ ابو عمرو، ابن کثیر اور ابان نے حضرت عاصم اور ایک جماعت سے تضار سے رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور اس کا عطف (آیت) ” تکلف نفس “ پر کیا ہے اور یہ خبر ہے اور اس سے مراد امر ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 312 دارالکتب العلمیہ) اور یونس نے حسن سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں : ” لاتضار زوجھا “ (یعنی وہ اپنے خاوند کو ضرر نہ پہنچائے) کہ وہ یہ کہے : میں اسے دودھ نہیں پلاؤں گی اور نہ خاوند اسے ضرر پہنچائے کہ وہ اس کا بیٹا چھین لے حالانکہ وہ کہہ رہی ہو : میں اسے دودھ پلاؤں گی، اور یہ احتمال ہے کہ یہ اصل میں تضارر، ہو، اور والدۃ مفعول مالم یسم فاعلہ ہو۔ اور حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے لاتضارر پڑھا ہے یعنی دوراء میں سے پہلی مفتوح ہے۔ اور ابو جعفر بن قعقاع نے ” تضار “ یعنی راء کو اسکان اور تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے اور اسی طرح (آیت) ” لایضار کاتب ہے۔ اور یہ بعید ہے کیونکہ دو ہم مثل لفظ جب جمع ہوجائیں اور وہ دونوں اصلی ہوں تو ان میں سے ایک کو تخفیف کے لئے حذف کرنا جائز نہیں، پس یا ادغام ہوگا یا اظہار ہوگا۔ اور آپ سے اس کا ن اور تشدد بھی مروی ہے اور حضرت ابن عباس ؓ اور حسن ؓ سے ” لاتضارر “ پہلی راء کے کسرہ کے ساتھ مروی ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 2 31 دارالکتب العلمیہ) مسئلہ نمبر : (15) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ یہ قول باری تعالیٰ : (آیت) ” وعلی المولود “ پر معطوف ہے، اس کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے۔ پس حضرت قتادہ، سدی، حسن، اور حضرت عمر بن خطاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کہا ہے کہ وارث سے مراد بچے کا وارث ہے کہ اگر وہ فوت ہوجائے۔ بعض نے کہا ہے : مراد بچے کا ایسا وارث ہے جو صرف مردوں میں سے ہو کر دودھ پلانے کا اہتمام کرنا اس کے ذمہ لازم ہوگا جیسا کہ یہ بچے کے باب پر لازم تھا اگر وہ زندہ ہوتا اور حضرت مجاہد اور حضرت عطا نے یہی کہا ہیں۔ اور حضرت قتادہ ؓ وغیرہ نے کہا ہے : مراد بچے کا وارث ہے مردوں اور عورتوں میں سے جو بھی ہو، اسے دودھ پلانے کا اہتمام کرنا لازم ہوتا ہے اتنی مقدار جتنا اس کی میراث میں ان کا حصہ ہے۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 2 31 دارالکتب العلمیہ) اور یہی امام احمد (رح) اور اسحاق (رح) نے کہا ہے۔ اور قاضی ابو اسحاق اسماعیل بن اسحاق نے اپنی کتاب ” معانی القرآن “ میں کہا ہے : ” پس رہے امام ابوحنیفہ (رح) تو انہوں نے کہا ہے : صغیر کا نفقہ اور اسے دودھ پلانا ہر ذی رحم محرم پر واجب ہوتا ہے۔ مثلا ایک آدمی کی بہن کا صغیر اور محتاج بیٹا ہو اور چچا کا بیٹا صغیر اور مھتاج ہو اور وہی اس کا وارث ہو، تو نفقہ ماموں پر واجب ہوگا اور اپنے اس بھانجے کے لئے جس کا وہ وارث نہیں ہے اور چچا کے بیٹے سے اپنے چچا کے اس بیٹے کے لئے جس کا وہ وارث ہے نفقہ ساقط ہوجائے گا “۔ ابو اسحاق نے کہا ہے : انہوں نے ایسا قول کیا ہے جو نہ کتاب اللہ میں ہے اور نہ ہم کسی کو جانتے ہیں جس نے یہ کہا ہو۔ علامہ طبری نے امام ابوحنیفہ اور آپ کے صاحبین رحمۃ اللہ علہیم سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے کہا : وہ وارث جس پر بچے کو دودھ پلانے کا اہتمام کرنا لازم ہوتا ہے وہی اس کا وارث ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اس کا ذی رحم محرم ہو اور اگر چچا کا بیٹا وغیرہ ذی رحم محرم کے ساتھ نہیں ہے تو اس پر کوئی شے لازم نہ ہوگی۔ (3) (جامع البیان للطبری، جلد 1 صفحہ 600، داراحیاء التراث العربیۃ) اور کہا ہے : (الوارث) سے مراد باپ کا حصہ ہے ان پر نفقہ اور لباس دونوں واجب ہوں گے۔ ضحاک نے کہا ہے : اگر بچے کا باپ فوت ہوجائے اور بچے کا مال ہو تو اسے دودھ پلانے والا اس مال سے لے لے گا اور اگر اس کا کوئی مال نہ ہو تو پھر وہ عصبہ سے لے گا اور اگر عصبہ کے پاس بھی مال نہ ہو تو پھر ماں کو دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔ اور قبیصہ بن زؤیب، ضحاک اور بشیر بن نصر قاضی عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : الوارث سے مراد بچہ بذات خود ہے اور انہوں نے علی الوارث کی تاویل المولود سے ہے جیسا کہ ما علی المولودلہ ہے، یعنی اس پر اپنے مال میں سے اپنے آپ کو دودھ پلانا واجب ہے جب وہ اپنے باپ کا وارث بن جائے۔ اور سفیان نے کہا ہے : یہاں وارث سے مراد بچے کے والدین میں سے ایک کے فوت ہونے کے بعد جو باقی رہ جائے۔ (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 2 31 دارالکتب العلمیہ) وہ ہے، پس اگر باپ فوت ہوجائے تو ماں پر بچے کی کفالت اور دیکھ بھال کرنا لازم ہے جبکہ بچے کا مال نہ ہو اور عصبہ بچے کو دودھ پلانے کا اہتمام کرنے میں اس کے ساتھ اتنی مقدار شراکت کرے گا جتنا میراث میں سے اس کا حصہ ہے۔ ابن خویز منداد نے کہا ہے : اگر یتیم فوت ہو، اس کا کوئی مال نہ ہو، تو امام وقت پر بیت المال سے اس کا انتظام کرنا واجب ہے اور اگر امام ایسا نہ کرے تو پھر مسلمانوں پر ایسا کنا واجب ہے اخص فالاخص کے طریقہ پر۔ اور ماں بچے کے ساتھ سب سے زیادہ مختص ہے لہذا اس پر اسے دودھ پلانا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہوگا نہ وہ بچے کی طرف رجوع کرے گی اور نہ کسی اور کی طرف (یعنی بچے پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے بچے یا کسی اور طرف متوجہ نہ ہوگی) اور دودھ پلانا واجب ہے اور نفقہ مستحب ہے اور وجہ استحباب اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” والوالدت یرضعن اولادھن حولین کاملین “۔ اور ازواج پر ان کے ساتھ حقوق کا قیام واجب ہے اور جب خاوند کے فوت ہوجانے یا اس کے تنگدست ہوجانے کے سبب ان کے حق کا پورا ہونا متعذر اور مشکل ہوجائے تو حق ان سے ساقط نہیں ہوتا، کیا آپ جانتے نہیں ہیں کہ عدت ان (عورتوں) پر واجب ہے اور نفقہ اور سکنی ان کے خاوندوں پر لازم ہے اور جب ان کے لئے نفقہ متعذر ہوجائے تو ان سے عدت ساقط نہیں ہوتی۔ عبدالرحمن بن قاسم نے الاسدیہ میں امام مالک بن انس (رح) سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے کہا : آدمی کے ذمہ بھائی رشتہ دار اور ذو رحم محرم کا نفقہ لازم نہیں ہوتا۔ (1) (المدونۃ الکبری، کتاب ارخاء الستور، جلد 5، صفحہ 48، السعادۃ بجوارمحافظۃ مصر) ۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ یہ منسوخ ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ امام مالک کے الفاظ ہیں اور آپ نے یہ بیان نہیں کیا کہ اس کا ناسخ کون ہے اور نہ ہی عبدالرحمن بن قاسم (نے بیان کیا ہے) اور نہ مجھے معلوم ہوسکا ہے کہ ان کے اصحاب میں سے کسی نے اسے بیان کیا ہو اور وہ جو یہ شبہ ڈالتا ہے کہ وہ ان کے نزدیک اس کا ناسخ ہو۔ واللہ اعلم، وہ یہ کہ وہ عورت جس کا خاوند فوت ہوجائے جب اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ایک سال کا نفقہ اور سکنی متوفی کے مال سے واجب کیا پھر اسے منسوخ کردیا اور اسے اٹھا لیا، اسی طرح وارث سے بھی اسے منسوخ کردیا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : پس اسی بنا پر نفقہ بچے کی اپنی ذات پر اس کے مال سے ہوتا ہے اور وارث پر اس میں سے کوئی شے نہیں ہوتی اس بنا پر جو آرہا ہے۔ ابن عربی نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ ابن قاسم نے امام مالک (رح) سے بیان کیا ہے کہ یہ منسوخ ہے اور یہ ایسا کلام ہے جس میں غافلوں کے دل خوفزدہ ہوجاتے ہیں اور تھوڑے لوگوں کی عقلیں اس میں حیرت زدہ ہوجاتی ہیں، حالانکہ اس میں امر قریب ہے اور وہ یہ کہ فقہاء ومفسرین میں سے علماء متقدمین تخصیص کو نسخ کا نام دیتے تھے، کیونکہ اس میں ان بعض افراد سے حکم کو اٹھانا ہوتا ہے جنہیں عموم شامل ہوتا ہے، یہ ان کا تسامح تھا اور وہ ان کی زبانوں پر جاری رہا یہاں تک کہ اس نے ان کے بعد والے لوگوں کو اشکال میں ڈال دیا۔ اور اس میں قول کی تحقیق یہ ہے کہ قول باری تعالیٰ (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ یہ ماتقدم کی طرف اشارہ ہے، پس لوگوں میں سے وہ جنہوں نے ایجاب نفقہ اور تحریم اضرار میں سے تمام کی طرف لوٹایا ان میں فقہاء میں سے امام ابوحنیفہ (رح) اور سلف میں سے حضرت قتادہ اور حسن رحمۃ اللہ علہیم ہیں اور یہ حضرت عمر ؓ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اور علماء کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ کا معنی تمام ماتقدم کی طرف نہیں لوٹتا، بلکہ یہ صرف تحریم اضرار کی طرف لوٹتا ہے اور معنی یہ ہے کہ وارث پر بھی ماں کو ضرر پہنچانا اسی طرح حرام ہے جس طرح باپ پر ہے اور یہ ہی اصل ہے پس جو یہ دعوی کرے کہ اس میں عطف جمیع ماتقدم کی طرف راجع ہے تو دلیل لانا اس پر لازم ہے (1) (احکام القرآن لابن العربی، جلد 1، صفحہ : 205، دارالفکر) میں (مفسر) کہتا ہوں کہ ان کا قول ھذا ھو الاصل اس سے مراد قریب ترین مذکور کی طرف ضمیر کو لوٹانا ہے اور یہی صحیح ہے کیونکہ اگر وہ ان تامم کا ارادہ کرتا یعنی دودھ پلانا، نفقہ مہیا کرنا اور ضرر نہ پہنچانا تو یقینا فرماتا : ” وعلی الوارث مثل ھؤلائ “ پس یہ اس پر دلیل ہیں کہ اس کا عطف ضرر سے روکنے پر ہے۔ اور اسی بنا پر تمام مفسرین نے اس کی تاویل اس معنی میں کی ہے جسے قاضی عبدالوہاب نے بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کو اس طرح ضرر نہ پہنچائے کہ باپ جب اسے اجرت مثلی دے (تو وہ کہے) کہ وہ اسے دودھ نہیں پلائے گی اور نہ باپ اپنے بچے کے باعث ضرر پہنچائے، اس طرح کہ ماں جب تیار ہو کہ وہ اسے اجرت مثلی کے عوض دودھ پلائے گی تو پھر اسی کا وہ حق ہے، (باپ انکار نہ کرے) کیونکہ ماں بچے کے لئے زیادہ نرم اور زیادہ محبت و شفقت سے پیش آنے والی ہے اور اس کا دودھ کسی بھی اجنبیہ عورت کے دودھ کی نسبت زیادہ بہتر اور نفع بخش ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : امام مالک (رح) آپ کے تمام اصحاب، شعبی، زہری، ضحاک اور علماء کی ایک جماعت رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) مثل ذلک “۔ سے مراد ہے کہ ضرر نہ پہنچایا جائے۔ رہا رزق (نفقہ) اور لباس تو ان میں سے کوئی شے واجب نہ ہوگی۔ اور ابن قاسم نے امام مالک (رح) سے روایت کیا ہے کہ آیت اس معنی کو متضمن ہے کہ نفقہ اور لباس وارث پر ہے پھر اسے اجماع امت کے ساتھ اس معنی میں منسوخ کردیا گیا ہے کہ وارث کو ضرر نہ پہنچایا جائے اور اختلاف اس میں ہے کہ کیا اس پر نفقہ اور لباس ہے یا نہیں ؟ اور یحییٰ بن یعمر نے ” وعلی الورثۃ جمع کے ساتھ پڑھا ہے اور یہ عموم کا تقاضا کرتا ہے، پس اگر وہ حضور ﷺ کے اس ارشاد سے استدلال کریں ” لایقبل اللہ صدقۃ وذو رحم محتاج “ کہ اللہ تعالیٰ کوئی صدقہ اس حال میں قبول نہیں فرماتا کہ ذو رحم محتاج ہو، تو انہیں کہا جائے گا کہ الرحم ہر ذی رحم کے لئے عام ہے، چاہے وہ محرم ہو یا غیر محرم اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ذو رحم پر صدقہ خرچ کرنا اولی اور ارجح ہے، کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا : اجعلھا فی الاقربین “۔ (2) (صحیح بخاری، کتاب الوصایا، جلد 1، صفحہ 385، وزارت تعلیم) (تم صدقہ کو اقربین میں خرچ کرو) پس حدیث کو اس معنی پر محمول کیا گیا ہے اور اس میں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے جس کا انہوں نے قصد کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اور نحاس نے کہا ہے : رہا اس کا قول جس نے کہا : (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ کہ اسے ضرر نہ پہنچایا جائے تو یہ قول حسن اور اچھا ہے کیونکہ لوگوں کے اموال ممنوع ہیں اور اس میں کوئی شے بغیر دلیل قطعی کے نہیں نکل سکتی اور جنہوں نے علی ورثۃ الاب مراد لیا ہے تو ان کی دلیل یہ ہے کہ نفقہ باپ پر لازم ہے۔ لہذا اس کے وارث بیٹے کے وارثوں سے اولی ہوں گے اور ان کی دلیل جنہوں نے کہا : مراد بیٹے کے وارث ہیں، تو وہ کہتے ہیں جس طرح وہ اس کے وارث ہوتے ہیں (اسی طرح) وہ اس کے حقوق کو بھی ادا کرتے ہیں، نحاس نے کہا ہے : محمد بن جریر ان کے قول کو پسند کرتے تھے جنہوں نے کہا ہے کہ یہاں مراد بیٹے کے وارث ہیں، یہ اگرچہ قول غریب ہے لیکن اس سے استدلال صحیح ہے اور اس کی دلیل بالکل ظاہر ہے کیونکہ اس کا مال اسی کے زیادہ قریب اور اولی ہے۔ اور فقہاء نے اجماع کیا ہے سوائے اس کے جو ان سے الگ ہوگیا کہ ایک آدمی کا اگر چھوٹا بچہ ہو اور بچے کا مال بھی ہو اور باپ خوشحال ہو تو باپ پر نفقہ اور رضاع واجب نہ ہوگا بلکہ وہ بچے کے مال سے ادا ہوگا۔ اور اگر کہا جائے : تحقیق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : (آیت) ” وعلی المولودلہ رزقھن وکسوتھن بالمعروف “۔ کہا جائے گا کہ یہ ضمیر مؤنث کے لئے ہے اور اس کے ساتھ اجماع آیت کی حد ہے، اس کی وضاحت کرنے والا ہے، کوئی مسلمان اس سے نکلنے کی وسعت نہیں رکھتا۔ اور رہا وہ جس نے کہا کہ اس سے مراد وہ ہے جو والدین میں سے ایک کے مرنے کے بعد باقی رہے، تو اس کی دلیل یہ ہے کہ ماں کے لئے اپنے بچے کو ضائع کرنا جائز نہیں، حالانکہ وہ فوت ہوجائے جو بچے پر اور اس کی ماں پر خرچ کرتا تھا۔ اور امام بخاری نے اس قول کے رد میں ایک باب بیان کیا ہے اس کا عنوان ہے ” باب “۔ (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ و ھل علی المراۃ منہ شیء اور آگے ام سلمہ اور ہند کی حدیث بیان کی ہے۔ اس میں معنی یہ ہے کہ ام سلمہ ؓ کے حضرت ابو سلمہ ؓ سے بیٹے تھے اور ان کا کوئی مال نہ تھا تو اس نے حضور نبی مکرم ﷺ سے عرض کی تو آپ ﷺ نے اسے بتایا کہ اس کے لئے اس میں اجر ہے۔ پس یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے بیٹوں کا نفقہ اس پر واجب نہیں اور اگر واجب ہوتا تو وہ حضور نبی کریم ﷺ کے پاس یہ نہ کہتی : اور میں نے اسے چھوڑا نہیں (1) ۔ (صحیح بخاری، کتاب النفقات، جلد 2، صفحہ 809، وزارت تعلیم، ایضا کتاب النفقات، حدیث نمبر 4950، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور وہی ہند کی حدیث تو اس میں حضور نبی کریم ﷺ نے اسے باپ کے مال سے اپنا نفقہ اور اپنے بچے کا نفقہ لینے کے لئے چھوڑ دیا اور آپ نے نفقہ اس پر واجب نہیں کیا جیسا کہ اسے باپ پر واجب کیا، پس امام بخاری نے اس سے اس پر استدلال کیا ہے کہ جب باپوں کی زندگی میں بیٹوں کا خرچہ ماؤں پر لازم نہیں ہے تو اسی طرح باپوں کے فوت ہوجانے کے بعد بھی ان پر لازم نہ ہوگا۔ اور رہا ان کا قول جنہوں نے کہا کہ بلاشبہ نفقہ اور لباس ہر ذی رحم محرم پر لازم ہے اور ان کی دلیل یہ ہے کہ آدمی پر لازم ہے کہ وہ ہر ذی رحم محرم پر خرچ کرے جب وہ فقیر ہو۔ نحاس نے کہا ہے : اس قول کا معارض یہ ہے کہ نہ اسے کتاب اللہ سے لیا گیا ہے نہ اجماع سے اور نہ ہی سنت صحیحہ سے۔ بلکہ جو قول ہم نے ذکر کیا ہے اس کے سوا یہ کہیں معروف ہی نہیں ہے۔ پس رہا قرآن کریم تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” وعلی الوارث مثل ذلک “۔ پس اگر وارث پر نفقہ اور لباس ہے تو انہوں نے اس کی مخالفت کی ہے اور انہوں نے کہا ہے : جب وہ اپنا ماموں اور اپنے چچا کا بیٹا چھوڑے تو نفقہ اس کے ماموں پر ہے۔ اور اس کے چچا کے بیٹے پر کوئی شے نہیں ہے تو یہ قرآن کریم کی نص کے خلاف ہے کیونکہ ماموں چچا کے بیٹے کے ساتھ کسی کے قول کے مطابق بھی وارث نہیں بن سکتا اور نہ ہی وہ اکیلا کثیر علماء کے قول کے مطابق وارث بن سکتا ہے اور وہ جنہوں نے اس سے ہر ذی رحم محرم پر نفقہ کا استدلال کیا ہے، اکثر اہل علم اس کے خلاف ہیں۔ مسئلہ نمبر : (16) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فان ارادا فصالا “ اس میں ارادا میں ضمیر والدین کے لیے ہے اور فصالا کا معنی ہے دودھ چھڑانا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 3 31 دارالکتب العلمیہ) یعنی ماں کے دودھ کے سوا کسی اور خوراک کو غذا بنانا اور الفصال اور الفصل کا معنی الفطام ہے اور اس کا اصل معنی التفریق ہے اور یہ بچے اور پستان کے درمیان تفریق اور جدائی کرنا ہے اور اسی سے الفصیل ہے (یعنی اونٹنی یا گائے کا بچہ) کیونکہ اسے اپنی ماں سے جدا کیا جاتا ہے۔ (آیت) ” عن تراض منھما “ یعنی وہ راضی ہوجائیں دو سالوں سے پہلے۔ (آیت) ” فلا جناح علیھما “۔ یعنی اس کا دودھ چھڑانے میں ان پر کوئی گناہ نہیں اور وہ یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے جب مدت رضاع دو سال مقرر کی تو اس نے بیان کردیا کہ ان دونوں کا دودھ چھڑانا وہی فطام ہے اور ان دونوں کا جدا کرنا وہی فصال ہے اس سے کسی کو مفر نہیں، مگر یہ کہ والدین اس مدت سے کم پر بچے کو نقصان پہنچائے بغیر متفق ہوجائیں اور وہ اس بیان کے ساتھ جائز ہے۔ اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے کہ دو سال دودھ پلانا واجب تھا اور اس سے دودھ چھڑانا حرام تھا، پھر اس میں تخفیف کی گئی اور دو سال سے کم مدت دودھ پلانا مباح کردیا گیا، اس قول کے ساتھ (آیت) ” فان ارادافصالا “۔ الآیہ۔ اور اس میں احکام میں اجتہاد کے جائز ہونے پر دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے والدین کے لئے مشاورت مباح قرار دی ہے ایسے امور میں جو صغیر کی اصلاح کرنے والے ہوں اور یہ ان دونوں کے ظن غالب پر موقوف ہے نہ کہ حقیقت ویقین پر۔ اور التشاور کا معنی ہے : رائے کا اظہار کرنا، اسی طرح المشاورۃ اور المشورۃ ہے جیسا کہ المعونۃ اور شرت العسل کا معنی ہے میں نے اسے (شہد کو) نکالا۔ اور شرت الدابۃ وشور تھا “۔ یعنی میں نے اسے چلایا اس کی چال کو تیز کرنے کے لئے اور المشوار کا معنی ہے گھر کا سامان، کیونکہ وہ دیکھنے والے کے لئے ظاہر ہوتا ہے اور الشارۃ کا معنی ہے آدمی کی ہیئت اور الاشارۃ کا معنی ہے جو تیرے دل میں سے اسے نکالنا اور اس کا اظہار کرنا۔ مسئلہ نمبر : (17) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وان اردتم ان تسترضعوا اولادکم “۔ یعنی لاولادکم غیر الوالدۃ اگر تم چاہو تو اپنی اولاد کو دودھ پلواؤ والدہ کے علاوہ (دایہ سے) زجاج نے یہی کہا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : عربی میں تقدیر عبارت یہ ہے (آیت) ” ان تسترضعوا اجنبیۃ لاولادکم “۔ (کہ تم اجنبی عورت سے اپنی اولاد کو دودھ پلواؤ) اس کی مثل یہ ارشاد ہے : (آیت) ” کالوھم او وزنوھم “۔ (المطففین : 3) یعنی کالوالھم او وزنوالھم اور لام کو حذف کردیا گیا ہے کیونکہ یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوتے ہیں ان میں سے ایک حرف کے ساتھ ہوتا ہے اور سیبویہ نے شعر کہا ہے : امرتک الخیر فافعل ما امرت بہ فقد ترکتک ذا مال وذانشب : میں نے تجھے خیر کا حکم دیا ہے پس تو وہ کر جس کا تجھے حکم دیا گیا ہے، تحقیق میں نے تجھے صاحب مال اور صاحب جائیداد چھوڑا ہے۔ اور یہ جائز نہیں ہے : دعوت زیدا، ای دعوت لزید، کیونکہ یہ تلبیس (حقیقت کو چھپانا) تک پہنچا دیتا ہے اور اس نوع میں سماع معتبر ہوتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اس بنا پر اس آیت میں دایہ بنانے کے جواز پر دلیل موجود ہے جبکہ آباء اور مائیں اس پر متفق ہوجائیں اور عکرمہ نے قول باری تعالیٰ (آیت) ” لا تضآر والدۃ “۔ میں کہا ہے۔ اس کا معنی ہے دایہ۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 2 31 دارالکتب العلمیہ) اور اصل یہ ہے کہ ہر ماں پر اپنے بچے کو دودھ پلانا لازم ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے، پس اس نے زوجات کو اپنی اولاد کو دودھ پلانے کا حکم دیا ہے اور ان کے لئے ازواج پر نفقہ اور لباس واجب کیا ہے اور زوجیت قائم رہے گی اور اگر دودھ پلانے کا انتظام کرنا باپ پر لازم ہوتا تو جب اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کے نفقہ اور لباس کے لازم ہونے کا ذکر کیا ہے تو وہ اس کا بھی ذکر کردیتا۔ مگر امام مالک (رح) نے دیگر فقہاء امصار کے ہوا حسیبہ (خاندانی شرف والی عورت) کی استثنا کی ہے اور کہا ہے : اس پر دودھ پلانا لازم نہ ہوگا۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 311 دارالکتب العلمیہ) اور اسے آیت سے نکال دیا ہے اور اصول فقہ کے ایک اصول کے ساتھ اس کی تخصیص کردی ہے۔ اور وہ ہے ” العمل بالعادۃ “ عمل عادت اور رواج کے مطابق ہوتا ہے اور ویہ وہ اصول ہے جسے امام مالک (رح) کے سوا کوئی نہیں سمجھا، اور اس میں عمدہ اصول یہ ہے کہ یہ امر دورجاہلیت میں صاحب حسب وشرف لوگوں میں رائج تھا، پھر اسلام آیا اور اس نے اسے تبدیل نہیں کیا اور آپ کے زمانے تک صاحب ثروت وحسب لوگ بچوں کو دودھ پلانے والیوں کے حوالے کرنے کے ساتھ ماؤں کو استمتاع کے لئے فارغ کرنے پر مصر رہے، تو آپ نے یہ کہہ دیا اور رہا ہمارے زمانے کا حکم تو ہم نے اسے شرعا ثابت کردیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (18) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” اذا سلمتم “۔ جب تم یعنی آباء اجرت دودھ پلانے والی دایہ کو دا کر دو ، سفیان نے یہی کہا ہے اور مجاہد نے کہا ہے : جب تم ماؤں کو ان کی اجرت اس حساب سے ادا کر دو جس کے مطابق انہوں نے دودھ پلانے کے وقت تک دود پلایا (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 313 دارالکتب العلمیہ) سات قراء میں سے چھ نے ما آتیتم بمعنی اما اعطیتم پڑھا ہے اور ابن کثیر نے اتیتم بمعنی ما جئتم وفعلتم “۔ (جو تم لائے اور تم نے کیا) پڑھا ہے، جیسا کہ زہیر نے کہا ہے : وما کان من خیر اتوہ فانما توارثہ اباء آبائھم قبل (4) (ایضا) جو انہوں نے کہا ہے وہ خیر اور بھلائی نہیں ہے، بلاشبہ ان کے آباء کے آباء اس سے پہلے اس کے وارث بنیں ہیں۔ حضرت قتادہ اور زہری رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے اس کا معنی ہے جب تم وہ ادا کر دو جو تم نے دودھ پلوانے کے ارادہ سے طے کیا ہے یعنی والدین میں سے ہر ایک حوالے کر دے اور راضی ہوجائے اور یہ ان دونوں کے اتفاق کی بنا پر ہو اور خیر کے قصد اور امر معروف کے ارادہ سے ہو اور اس احتمال پر سلمتم کے خطاب میں مرد اور عورتوں سبھی داخل ہوں گے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 313 دارالکتب العلمیہ) اور پہلے دونوں قولوں کی بنا پر خطاب مردوں کو ہے۔ ابو علی نے کہا ہے : اذا سلمتم ما آتیتم معنی ہے نقدہ اواعطاءہ ہے پھر مضاف کو حذف کردیا گیا ہے اور ضمیر کو اس کے قائم مقام رکھا گیا ہے اور تقدیر کلام ہے : (آیت) ” ما اتیتموہ “ پھر ضمیر کو صلہ سے حذف کردیا گیا اور اس تاویل کی بنا پر خطاب مردوں کو ہوگا، کیونکہ وہی دودھ پلانے کی اجرت ادا کرتے ہیں، ابو علی نے کہا ہے : اور یہ احتمال بھی ہے کہ مامصدریہ ہو یعنی اذا سلمتم الایتان اور معنی پہلے کی طرح ہی ہے۔ لیکن یہ مضاف کے حذف اور پھر ضمیر کے حذف کے طریقہ سے مستغنی ہوجائے گا۔
Top