Al-Qurtubi - Al-Baqara : 241
وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ
وَلِلْمُطَلَّقٰتِ : اور مطلقہ عورتوں کے لیے مَتَاعٌ : نان نفقہ بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق حَقًّا : لازم عَلَي : پر الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
اور مطلقہ عورتوں کو بھی دستور کے مطابق نان نفقہ دینا چاہئے پرہیزگاروں پر (یہ بھی) حق ہے
آیت نمبر : 241 تا 242۔ اس آیت میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، ابو ثور (رح) نے کہا ہے : یہ محکم آیت ہے اور متعہ ہر مطلقہ عورت کے لئے لازم ہے اسی طرح زہری نے کہا ہے (زہری نے کہا) یہاں تک کہ ایسی لونڈی کے لئے بھی جسے اس کا خاوند طلاق دے دیتا ہے۔ اسی طرح حضرت سعید بن جبیر ؓ نے کہا ہے، ہر مطلقہ کے لئے متعہ ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 326 دارالکتب العلمیہ) اور اس آیت کی وجہ سے یہی امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک ہے۔ اور امام مالک نے کہا ہے : ہر مطلقہ کے لئے متعہ ہے چاہے اسے دو طلاقیں ہوں یا ایک طلاق وہ اس کے پاس جائے یا نہ جائے اس کے لئے مہر مقرر کرے یا نہ کرے، سوائے اس عورت کے جس کے پاس جانے سے پہلے اسے طلاق ہوجائے اور اس کے لئے مہر مقرر ہو تو اس کے لئے نصف مہر کافی ہوگا اور اگر اس کے لئے مہر مقرر ہو تو اس کے لئے متعہ ہوگا چاہے وہ مہر مثلی سے کم ہو یا زیادہ اور اس متعہ کی کوئی حد نہیں ہے، اسے آپ سے ابن قاسم نے بیان کیا ہے اور ابن قاسم نے المدونہ سے پردے ڈالنے کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے مطابق ہر مطلقہ کے لئے متعہ مقرر کیا ہے، پھر دوسری آیت میں اس کی استثناء کردی ہے جس کے لئے مہر مقرر کیا گیا اور اس کے ساتھ دخول نہ ہوا تو اسے متعہ سے خارج کردیا اور ابن زید نے گمان کیا ہے کہ اس آیت نے اسے منسوخ کردیا ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے کہ ابن قاسم نے لفظ نسخ سے لفظ استثاء کی طرف فرار اختیار کیا ہے، اس محل میں استثناء کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی، بلکہ وہ تو صرف نسخ ہے جیسا کہ زید بن اسلم نے کہا ہے اور ابن قاسم نے لازم قرار دیا ہے کہ قولہ (آیت) ” وللمطلقت “۔ ہر مطلقہ کو شامل ہے، تو پھر نسخ کا قول لازم اور ضروری ہے، اور حضرت عطا بن ابی رباح ؓ وغیرہ نے کہا ہے : یہ آیت ان ثیبہ عورتوں کے بارے میں ہے جن سے جماع کیا گیا کیونکہ اس آیت کے سوا دوسری میں ان عورتوں کے لئے متعہ کا ذکر گزر چکا ہے جن کے ساتھ دخول نہیں کیا گیا، پس یہ قول اسی عورت کے بارے میں ہے جس کیلئے مس سے پہلے مہر مقر کردیا گیا یہ کبھی عموم میں داخل نہیں ہوئی، اور یہ اس بنا پر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ (آیت) ” وان طلقتموھن من قبل ان تمسوھن “۔ یہ عورتوں میں سے اس صنف کو خاص کر رہا ہے اور جب کہا گیا ہے کہ یہ عموم اس قسم کا بھی شامل ہے تو پھر یہ نسخ ہوگا تخصیص نہیں۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 327 دارالکتب العلمیہ) اور امام شافعی (رح) نے دوسرے قول میں کہا ہے : بلاشبہ متعہ نہیں ہے مگر اس عورت کے لئے جسے قبل از دخول طلاق دی جائے اور وہاں نہ مس ہو اور نہ مہر مقرر ہو، کیونکہ جو مہر میں سے کسی شے کی مستحق ہوجائے تو وہ اپنے حق میں متعہ کی محتاج نہیں رہتی، اور حضور نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد : (آیت) ” فتعالین امتعکن “۔ (الاحزاب : 28) اس پر محمول ہے کہ یہ حضور نبی کریم ﷺ کی جانب سے ایک حسان ہے، نہ کہ آپ کے لئے واجب ہے اور قول باری تعالیٰ (آیت) ” فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن “۔ (الاحزاب : 49) بھی غیر مفروضہ پر محمول ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : وہ عورت جس کا مہر مقرر کیا جائے اس کے لئے مہر ہوگا جب اسے قبل المسیس طلاق دی جائے، اس کے لئے کوئی متعہ نہ ہوگا، کیونکہ اس نے مجامعت کے بغیر نصف مہر لے لیا ہے، اور مدخول بہا کو جب طلاق دی جائے تو اس کے لئے متعہ ہوگا، کیونکہ مہر وطی کے مقابلہ میں واقع ہوتا ہے اور متعہ عقد کے ساتھ انتہائی استعمال کے سبب (لازم ہے) اور امام شافعی نے خلع اور مبارات کرنے والی کیلئے بھی متعہ واجب کیا ہے اور امام مالک کے اصحاب نے کہا ہے : فدیہ دینے والی کے لئے کیسے متعہ ہو سکتا ہے حالانکہ وہ خود دیتی ہے تو وہ متعہ کیسے لے گی اور جدائی اور فراق کو اختیار کرنے والی کے لئے کوئی متعہ نہیں ہے چاہے، وہ خلع لینے والی ہو یا فدیہ دینے والی یا مبارات کرنے والی یا صلح کرنے والی یا لعان کرنے والی یا آزاد ہونے والی فراق اور جدائی کو اختیار کرلے، اس کیساتھ دخول ہو یا نہ ہو، اس کے لئے مہر مقرر ہو یا نہ ہو، تفصیلی بیان پہلے گزر چکا ہے۔
Top