Al-Qurtubi - Al-Baqara : 27
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ١۪ وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ
الَّذِیْنَ : جو لوگ يَنْقُضُوْنَ : توڑتے ہیں عَهْدَ اللہِ : اللہ کا وعدہ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد مِیْثَاقِهِ : پختہ اقرار وَيَقْطَعُوْنَ : اور کاٹتے ہیں مَا۔ اَمَرَ : جس۔ حکم دیا اللّٰهُ : اللہ بِهٖ : اس سے اَنْ يُوْصَلَ : کہ وہ جوڑے رکھیں وَيُفْسِدُوْنَ : اور وہ فساد کرتے ہیں فِي : میں الْاَرْضِ : زمین أُوْلَٰئِکَ : وہی لوگ هُمُ : وہ الْخَاسِرُوْنَ : نقصان اٹھانے والے ہیں
جو خدا کے اقرار کو مضبوط کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس چیز (یعنی رشتہ قرابت) کے جوڑے رکھنے کا خدا نے حکم دیا ہے اس کو قطع کئے ڈالتے ہیں اور زمین میں خرابی کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں
آیت نمبر 27 اس آیت میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین یہ فاسقین کی لغت ہونے کی بنا پر منصوب ہے اگر تو چاہے تو مبتدا محذوف کی خبر بنا کر حالت رفع میں کر دے یعنی ھم الذین۔ اس کی مزید بحث پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ینقضون النقض کسی دیوار، یا رسی یا عہد کو توڑ دینا۔ النقاضۃ، بالوں کی رسی کو توڑ دینا۔ المناقضۃ، ایسا کلام جس کے معنی میں تناقض ہو۔ النقیضۃ فی الشعی ایسا شعر جو کسی کے جواب میں کہا جائے۔ النقض۔ توڑی ہوئی چیز۔ علماء کا اس عہد کی تعیین میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی آدم سے لیا تھا جب انہیں آدم کی پیٹھ سے نکالا تھا۔ بعض نے فرمایا : یہ اللہ کی اپنی مخلوق کو وصیت اور اس کا امر ہے جو اس نے انہیں اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے اور نہی ہے جو اس نے اپنے رسل کی زبان کے ذریعے اپنی کتب میں اپنی معصیت سے روکا ہے اور اس کا نقض اس کے احکام پر عمل کا ترک ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد وہ دلائل ہیں جو اس نے آسمانوں، زمین اور دوسری اپنی کرشمہ سازیوں کے ذریعے اپنی واحدانیت پر دئیے ہیں یہ عہد کے قائم مقام ہیں اور ان کا توڑنا ان میں غوروفکر کو ترک کرنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد وہ عہد ہے جو ان لوگوں سے کیا گیا جنہیں کتاب دی گئی تھی کہ وہ محمد ﷺ کی نبوت کو بیان کریں اور ان کے امر کو نہ چھپائیں۔ اس صورت میں یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں ہوگی۔ ابو اسحاق الزجاج نے کہا : اس عہد سے مراد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء اور ان کے متبعین سے لیا کہ وہ نبی مکرم ﷺ کا انکار نہ کریں۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے واذا اخذا للہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤ منن بہ ولتنصرنہ قالء اقررتم واخذتم علیٰ ذلکم اصری (آل عمران : 81) میں کہتا ہوں : اس آیت کے ماقبل اور مابعد کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت کفار کے بارے میں ہے۔ یہ پانچ اقوال ہیں اور دوسرا قول سب کو جامع ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من بعد میثاقہ، میثاق اس عہد کو کہا جاتا ہے جس کو قسم کے ساتھ مؤکد کیا گیا ہو۔ الوثاقہ والمعاھدہ (٭) سے مفعال کا وزن ہے۔ اس کا معنی عقد اور باندھنے میں شدت کرنا۔ اصل پر اس کی جمع المواثیق ہے کیونکہ میثاق کی اصل موثاق ہے۔ ما قبل کسرہ کی وجہ سے واؤ یاء سے بدل گئی، اس کی جمع میاثق اور میاثیق بھی آتی ہے۔ ابن عربی نے کہا : حمی لا یحل الدھر الا باذننا ولا نسال الأقوام عھد المیاثیق چراگاہ ہمارے اذن کے بغیر زمانہ اسے حلال نہیں کرتا اور قوموں سے عہدو پیمان کا مطالبہ نہیں کرتے۔ الموثق، المیثاق، المواثقۃ سب کا معنی معاہدہ ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ومیثاقہ الذی واثقکم بہ (المائدہ :7) ( اور اس کے وعدہ کو جو اس نے پختہ کیا تھا تم سے ) ۔ مسئلہ نمبر 4: ویقطعون، القطع یہ معروف ہے۔ قطع تعلقی میں مصدر القطیعۃ استعمال ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے : قطیعۃ فھو رجل قطع وقطعۃ جیسے ھمزۃٌ۔ قطعت الحبل قطعاً میں نے رسی کو توڑ دیا۔ قصعت النھر قطوعا۔۔۔۔ قطعت الضیر قصوعا و قصٰاعاً وقطاعاً جب کوئی پرندہ ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہر میں چلا جائے۔ اصاب الناس قطعۃ جب لوگوں کے پانی کم ہوجائیں۔ ورجل بہ قطع جب آدمی کا سانس تھکاوٹ کی وجہ سے متواتر پے در پے آنے لگے۔ مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ما امر اللہ بہ ان یوصل اس میں (ما) یقطعون کی وجہ سے محل نصب میں ہے اور اگر تو چاہے تو ان کو ما سے بدل بنا دے اور اگر چاہے تو بہ میں جو ضمیر ہے اس سے (ان) کو بدل بنا دے۔ یہ ترکیب بہتر ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ نئلا یوصل ہو یعنی کراھۃ ان یوصل۔ اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس چیز کو ملانے کا حکم دیا ؟ بعض نے فرمایا : صلہ رحمی۔ بعض نے فرمایا : صلہ رحمی۔ بعض نے فرمایا : قول کو عمل کے ساتھ ملانے کا حکم ہے۔ پس انہوں نے قول وعمل کو جدا جدا کردیا۔ اس طرح کہ جو انہوں نے نے کہا اس پر عمل نہیں۔ بعض نے فرمایا : تمام انبیاء کی تصدیق کو ملانے کا حکم دیا۔ پس انہوں نے بعض انبیاء کی تصدیق اور بعض کی تکذیب کر کے اس کو توڑا۔ بعض نے فرمایا : یہ اللہ کے دین اور زمین میں اس کی عبادت، شریعت کا قائم کرنا اور شرعی حدود کی حفاظت کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ ہر اس صورت کو شامل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ملانے کا حکم دیا۔ یہ جمہور علماء کا قول ہے اور الرحم اس کا ایک جز ہے۔ مسئلہ نمبر 6 : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ویفسدون فی الارض یعنی وہ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور افعال میں ظلم کرتے ہیں کیونکہ ان کے افعال ان کی شہوات کے مطابق ہوتے ہیں (1) ۔ یہ فساد کی حد ہے۔ اولئک ھم الخسرون۔ یہ مبتدا خبر ہیں۔ اور ھم زائدہ ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ ھم دوسرا مبتدا ہو اور الخسرون اس کی خبر ہو اور پھر مبتدا خبر دونوں پہلے مبتدا کی خبر ہوں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ الخاسر وہ شخص ہے جو فلاح وفوز میں سے اپنا حصہ ہی کم کر دے۔ الخسران کا مطلب نقصان ہے خواہ وہ میزان میں ہو یا کسی اور چیز میں۔ جریر نے کہا : ان سلیطا فی الخسار انہ اولاد قوم خلقوا اقنہ بے شک سلیط خسارے میں ہے وہ ایک قوم کی اولاد ہے جو غلام پیدا کئے گئے ہیں۔ یعنی اپنے حظوظ اور شرف میں کمی کرنے کی وجہ سے خسارہ میں ہیں۔ جوہری نے کہا : خسرت الشیء واخسرتہ کا معنی ہے : کمی کرنا۔ الخساروالخسارۃ والخیسری۔ کا معنی گمراہ ہونا اور ہلاک ہونا ہے۔ ہلاک ہونے والے کو خاسر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قیامت کے روز اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو خسارہ دینے والا ہے اور وہ جنت میں اپنی منزل سے روکے گئے ہیں۔ مسئلہ نمبر 7: اس آیت میں دلیل ہے کہ عہد کو پورا کرنا، اس کا التزام کرنا ہے اور ہر عہد جس کو انسان نے اپنے اوپر لازم کیا ہو اسے کے لئے توڑنا حلال نہیں ہے، خواہ وہ مسلمان کے ساتھ ہو یا کسی غیر مسلم کے ساتھ ہو اللہ تعالیٰ نے عہد توڑنے والے کی مذمت کی ہے۔ فرمایا : اوفوا بالعقود (المائدہ :1) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا واما تخافن من قوم خیانۃ فانبذ الیھم (انفال : 58) پس اللہ تعالیٰ نے غدر (عہد شکنی) سے منع فرمایا ہے اور یہ نہیں ہوتا مگر عہد توڑنے کی وجہ سے جیسا کہ اس کا بیان آگے آئے گا۔
Top