Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 36
فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ١۪ وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ
فَاَزَلَّهُمَا
: پھر ان دونوں کو پھسلایا
الشَّيْطَانُ
: شیطان
عَنْهَا
: اس سے
فَاَخْرَجَهُمَا
: پھر انہیں نکلوا دیا
مِمَّا ۔ کَانَا
: سے جو۔ وہ تھے
فِیْهِ
: اس میں
وَقُلْنَا
: اور ہم نے کہا
اهْبِطُوْا
: تم اتر جاؤ
بَعْضُكُمْ
: تمہارے بعض
لِبَعْضٍ
: بعض کے
عَدُوْ
: دشمن
وَلَكُمْ
: اور تمہارے لیے
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
مُسْتَقَرٌّ
: ٹھکانہ
وَمَتَاعٌ
: اور سامان
اِلٰى۔ حِیْنٍ
: تک۔ وقت
پھر شیطان نے دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس (عیش و نشاط) میں تھے اس سے ان کو نکلوا دیا تب ہم نے حکم دیا کہ (بہشت بریں) سے چلے جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لئے زمین میں ایک وقت تک ٹھکانا اور معاش (مقرر کردیا گیا) ہے
آیت نمبر
36
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فازلھما الشیطن عنھا فاخرجھما مما کا نا فیہ اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: فازلھما الشیطن عنھا جماعت نے فازلھا بغیر الف کے الزلۃ سے مشتق کر کے پڑھا ہے۔ الذلۃ کا معنی خطا ہے یعنی ان سے خطا کروائی اور انہیں خطا میں واقع کیا۔ حمزہ نے فازا لھما یعنی الف کے ساتھ پڑھا ہے، اس کا معنی ہے : اس نے انہیں دور کردیا۔ کہا جاتا ہے : ازلتہ فزال، میں نے اسے دور کیا تو وہ دور ہوگیا۔ ابن کیسان نے کہا : فازالھما، زوال سے مشتق ہے یعنی آدم وحوا طاعت پر تھے اس سے اس (شیطان) نے معصیت کی طرف پھیر دیا۔ میں کہتا ہوں : اس مفہوم پر دونوں قراءتوں کا معنی ایک ہوگا مگر جماعت کی قراءت معنی کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہے۔ کہا جاتا ہے : ازللتہ فزل۔ میں نے اسے پھسلایا تو وہ پھسل گیا۔ اس معنی پر یہ قول بھی دلیل ہے : انما استزلھم الشیطن ببعض ما کسبوا (آل عمران :
155
) ان کے بعض کرتوتوں کے سبب شیطان نے انہیں پھسلا دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فوسوس لھما الشیطن (اعراف :
20
) (شیطان نے ان دونوں کے لئے وسوسہ ڈالا) الوسوسہ کا مطلب ہے معصیت کے ساتھ اس نے انہیں خطا میں داخل کیا۔ شیطان کو یہ قدرت نہیں ہے کہ کسی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ ہٹا دے اسے ذلل میں داخل کرنے کی قدرت ہے۔ پس یہ گناہ کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف زوال کا سبب ہوگا۔ بعض نے فرمایا : ازلھما یہ زل عن المکان سے مشتق ہے جب کوئی اپنی جگہ سے ہٹ جائے پھر معنی حمزہ کی قراءت کے مطابق ہوگا یعنی یہ زوال سے مشتق ہوگا۔ امرء القیس نے کہا : یزل الغلام الخف عن صھواتہ ویلوی باثواب العنیف المثقل ہلکا پھلکا غلام گھوڑے سے گرجاتا ہے اور سخت اور بھاری آدمی اسے کپڑوں کے ساتھ لے جاتا ہے۔ ایک اور شاعر کہتا ہے : کمیت یزل اللبد عن حال متنہ کما زلت الصفواء بالمتنزل کمیت گھوڑے سے اس کا کپڑا اس طرح اس کی پیٹھ سے گر جاتا ہے جیسے صاف چٹان اپنے اوپر چڑھنے والے کو گرا دیتی ہے۔ مسئلہ نمبر
2
: فاخرجھما مما کا نا فیہ جب ازال کو زال عن المکان سے مشتق ماناجائے تو فاخرجھما زوال کا بیان اور تاکید ہوگا، کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ جنت میں ہی ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف منتقل ہوگئے ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ جنت سے زمین کی طرف انہیں نکالنا تھا، کیونکہ وہ زمین سے پیدا کئے گئے تھے، تاکہ حضرت آدم (علیہ السلام) زمین میں خلیفہ بنیں۔ ابلیس نے حضرت آدم کو جنت سے نکالنے کا یہ قصد تو نہیں کیا تھا۔ اس نے تو حضرت آدم (علیہ السلام) کو ان کے مرتبہ سے گرانے کا قصد کیا تھا اور انہیں رحمت الٰہی سے دور کرنے کا قصد کیا تھا جیسا کہ وہ خود دور کیا گیا تھا، اس کا مقصد پورا نہ ہوا اور اس کو اپنی مراد نہ ملی بلکہ اس کی آنکھ کی گرمی، نفس کے غصہ اور گمان کے نقصان میں اضافہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ثم اجتبہ ربہ فتاب علیہ وھدی۔ (طہٰ ) پس حضرت آدم (علیہ السلام) اللہ کے گھر میں اس کے پڑوسی ہونے کے بعد اس کی زمین میں اس کا خلیفہ بن گئے خلیفہ اور پڑوسی میں بڑا فرق ہے ﷺ ۔ اس کام کو ابلیس کی طرف منسوب کیا گیا کیونکہ وہ اس کا سبب تھا اس میں مفسرین کا کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کا اغواء ابلیس کے ہاتھوں ہوا لیکن کیفیت میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس اور جمہور علماء نے فرمایا : اس کا اغوا بالمشافہ تھا (
1
) ۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے : وقاسمھما انی لکمال من النصحین۔ (اعراف) مقاسمہ کا ظاہر مشافہ ہوتا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ قول عبد الرزاق نے حضرت وہب بن منبہ سے روایت کیا ہے۔ شیطان سانپ کے منہ میں بیٹھ کر جنت میں داخل ہوا تھا۔ یہ سانپ چار ٹانگوں والا تھا جیسے بختی اونٹ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن جانوروں کو پیدا کیا تھا ان میں سانپ خوبصورت ترین جانور تھا، شیطان نے پہلے اپنے آپ کو تمام حیوانوں پر پیش کیا تھا کہ وہ اسے منہ میں لے کر جنت میں داخل ہوجائیں۔ سوائے سانپ کے کسی نے اسے داخل نہ کیا جب سانپ اسے جنت میں لے گیا تو ابلیس اس کے پیٹ سے نکلا اس نے اس درخت کو لیا جس سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور ان کی زوجہ کو منع کیا تھا۔ ابلیس وہ لے کر حضرت حواء کے پاس آیا اور کہا : اس درخت کو دیکھو اس کی خوشبو کتنی عمدہ ہے، اس کا ذائقہ کتنا عمدہ ہے، اس کا رنگ کتنا پیارا ہے، وہ انہیں اغوا کرتا رہا حتیٰ کہ حضرت حوا نے وہ درخت لے لیا اور کھالیا۔ پھر ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اغوا کیا۔ حضرت حوا نے حضرت آدم سے کہا : کھالو، میں نے کھایا ہے تو مجھے اس نے کوئی تکلیف نہیں دی۔ پس حضرت آدم (علیہ السلام) نے بھی اسے کھالیا۔ ان دونوں کے لباس اتر گئے، اور گناہ کے حکم میں ہوگئے۔ حضرت آدم اس درخت کے پیٹ میں داخل ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آواز دی : تو کہاں ہے ؟ حضرت آدم (علیہ السلام) نے عرض کی : میں یہاں ہوں اے رب ! اللہ تعالیٰ نے پوچھا : کیا تو باہر نہیں نکلے گا ؟ حضرت آدم نے کہا : یا رب ! مجھے تجھ سے شرم محسوس ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اس زمین کی طرف اتر جا جس سے تیری تخلیق کی گئی ہے۔ سانپ پر لعنت کی گئی اور اس کی ٹانگیں اس کے پیٹ میں لوٹا دی گئیں اور اس کی اولاد آدم کے درمیان عداوت ودشمنی بن گئی۔ اسی وجہ سے ہمیں ان کے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے (جیسا کہ وضاحت آگے آئے گا) ۔ حضرت حوا سے کہا گیا جس طرح تو نے اس درخت کا خون بہایا اسی طرح تجھے بھی ہر مہینے خون کی تکلیف لاحق ہوگی تو حمل اٹھائے گی اور بچہ جنم دے گی تکلیف کے ساتھ تو اس کی وجہ سے کئی مرتبہ موت کے قریب ہوجائے گی۔ طبری اور نقاش نے یہ یہ زائد لکھا ہے کہ تو سفیہہ ہوگی حالانکہ تو سیانی تھی، ایک جماعت نے کہا : ابلیس جنت میں نکالے جانے کے بعد حضرت آدم کے پاس نہیں پہنچا تھا اس نے اپنی شیطانیت، سلطنت اور اپنے وسوسہ کے ذریعے حضرت آدم کو اغوا کیا تھا، جس کی اللہ تعالیٰ نے اسے قدرت بخشی تھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان الشیطان یجری من ابن آدم مجری الدم۔ (
1
) شیطان ابن آدم میں خون کے چلنے کی طرح چلتا ہے۔ واللہ اعلم۔ سورة اعراف میں آئے گا کہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے وہ درخت کھایا تو آپ برہنہ ہوگئے اور انہوں نے لباس تلاش کرنے کی کوشش کی تو درخت ان سے دور ہوگئے اور معصیت کی وجہ سے انہیں رلایا اور انجیر کے درخت نے حضرت آدم (علیہ السلام) پر رحم کھایا۔ پس آپ نے اس کے پتے لئے اور اپنے آپ کو ڈھانپا۔ پس آپ برہنہ ہونے ساتھ آزمائے گئے نہ کہ درخت سے۔ واللہ اعلم۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالنے میں حکمت دنیا کو آباد کرنا تھا۔ مسئلہ نمبر
3
: ذکر کیا جاتا ہے کہ سانپ جنت میں حضرت آدم (علیہ السلام) کا خادم تھا۔ اس نے خیانت کی اس طرح کہ اس نے اللہ کے دشمن کو اپنے نفس پر قدرت دی اس وجہ سے اس کے لئے عداوت ظاہر ہوگئی۔ جب وہ نیچے اترے تو عداوت مؤکد ہوگئی اور اس کا رزق مٹی بنائی گئی۔ اسے کہا گیا : تو بنی آدم کا دشمن ہے اور وہ تیرے دشمن ہیں جہاں بھی ان میں کوئی تجھے پائے گا تیرا سر کچل دے گا۔ حضرت ابن عمر نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے، فرمایا : پانچ چیزوں کو محرم قتل کرسکتا ہے (
2
) ۔ ان پانچ چیزوں میں سانپ بھی ہے۔ روایت ہے کہ ابلیس نے سانپ سے کہا : مجھے تو جنت میں لے جا تو میرے ذمہ ہوگا۔ حضرت ابن عباس فرمایا کرتے تھے : ابلیس کے ذمہ کو توڑو۔ ساکنہ بنت جعد نے سراء بنت نبہان غنویہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے : چھوٹے، بڑے، کالے اور سفید سانپوں کو قتل کرو۔ جو ان کو قتل کرے گا اس کے لئے یہ آگ سے فدیہ ہوں گے اور جس کو سانپ قتل کر دے گا وہ شہید ہوگا (
1
) ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : آگ سے فدیہ اس لئے ہوگا کیونکہ یہ ابلیس کے ساتھ شریک تھا اور حضرت آدم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کو تکلیف پہنچانے میں اس کا معاون تھا۔ اسی وجہ سے جس کسی نے سانپ کو قتل کیا گویا اس نے کافر کو قتل کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کافر اور اس کا قاتل کبھی دوزخ میں جمع نہ ہوں گے (
2
) ۔ اس حدیث کو مسلم وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: ابن جریج نے حضرت عمرو بن دینار سے انہوں نے حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ منیٰ میں تھے، ایک سانپ گزرا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اسے قتل کرو۔ وہ ہم سے بھاگ کر غار میں چلا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کھجور کی شاخیں اور آگ لے آؤ اور اس پر آگ جلادو (
3
) ۔ ہمارے علماء نے فرمایا : یہ حدیث اسی نہی کو خاص کرتی ہے جس میں آپ ﷺ نے مثلہ سے منع فرمایا اور اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دے۔ علماء نے فرمایا : اس حدیث نے اس دشمن کے لئے کوئی حرمت نہیں چھوڑی، جہاں بھی یہ چلا جائے حتی ٰ کہ جہاں بھی قدرت ہو اس تک ہلاکت کو پہنچائے، اگر کہا جائے کہ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بچھو کو آگ کے ساتھ جلانے کو ناپسند کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا : یہ مثلہ ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے : ہو سکتا ہے کہ ان کو یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی طرف سے نہ پہنچی ہو اور انہوں نے اس حدیث پر عمل کیا ہو جس میں ہے اللہ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دو ۔ ان کے نزدیک اس پر عمل اس بنا پر ہوگا۔ اگر کہا جائے کہ مسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے، فرمایا : ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ ایک غار میں تھے جبکہ والمرسلت عرفاً ۔ (المرسلات) سورت نازل ہوئی۔ ہم نے اسی وقت آپ ﷺ کے منہ مبارک سے سنی تھی اچانک ہم پر ایک سانپ نکلا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو قتل کرو۔ ہم اسے قتل کرنے کے لئے دوڑے تو وہ ہم سے بھاگ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے شر سے بچا لیا اور تمہیں اس کے شر سے بچا لیا (
4
) ، اس میں تو نہ اس پر آگ جلائی گئی اور نہ اس کے قتل کا کوئی اور حیلہ کیا گیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ہو سکتا ہے وہاں آگ نہ پائی ہو اس لئے اسے ترک کردیا ہو۔ یا اس کی بل ایسی نہ ہو جہاں آگ فائدہ دیتی ہو دھواں بھی نقصان نہ دیتا ہو اور حیوان تک وہ نہ پہنچتا ہو۔ واللہ اعلمحضور ﷺ کا ارشاد اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے شر سے بچا لیا یعنی تم اسے قتل کردیتے اور تمہیں اس کے شر سے بچا لیا یعنی اس کے ڈسنے سے تمہیں بچا لیا۔ مسئلہ نمبر
5
: سانپوں کو قتل کرنے کا حکم تکلیف کو دور کرنے کے ارشاد سے ہے جس نقصان کا سانپوں سے خوف ہوتا ہے۔ جس سانپ کا ضرر یقینی ہو اس کا قتل کرنے کی طرف جلدی کرنا واجب ہے، کیونکہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : اقتلوا ہے۔ الحیات واقتلوا ذا الطفیتین والابتر فانھما یخطفان البصر ویسقطان الحبل (
1
) (یعنی سانپوں کو قتل کرو اور دو دھاریوں والے اور دم کٹے سانپ کو قتل کرو کیونکہ یہ دونوں آنکھوں کو ضائع کردیتے ہیں اور حمل گرا دیتے ہیں) ان دوسانپوں کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا حالانکہ یہ پہلے عموم میں داخل تھے اور ان کے ضرر کے بڑے سبب کی وجہ سے ان پر متنبہ فرمایا اور جس سانپ کا ضرر متحقق نہ ہو پس ان میں سے جو گھروں کے علاوہ کسی جگہ پر ہوں تو ظاہری عمومی حکم کی وجہ سے انہیں قتل کردو کیونکہ سانپوں کی ہر نوع میں ضرر غالب ہے۔ پس اس پر عمل کیا جائے گا، کیونکہ سانپ اپنی صورت کی وجہ سے خوف ناک ہے اور نفوس میں نفرت ہے (اس لئے اسے قتل کرنا چاہئے۔ ) اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ شجاعت کو پسند فرماتا ہے اگرچہ سانپ کے قتل پر ہی ہو۔ آپ ﷺ نے سانپ کے قتل پر تشجیع فرمائی۔ ابو داؤد کی حدیث جو حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مرفوعاً مروی ہے، اس میں فرمایا : تمام سانپوں کو قتل کرو جو ان کے بدلہ لینے سے ڈرا وہ مجھ سے نہیں (یعنی میرے طریقہ پر نہیں (
2
) مسئلہ نمبر
6
: وہ سانپ جو گھروں میں رہتے ہیں ان کو قتل نہ کیا جائے حتیٰ کہ تین دن انہیں تنبیہ کی جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : مدینہ طیبہ میں جن ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو تین دن اسے آگاہ کرو (
3
) بعض علماء نے اس حدیث کو صرف مدینہ کے ساتھ خاص کیا ہے کیونکہ مدینہ طیبہ کے جنوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، ہم نہیں جانتے کہ مدینہ طیبہ کے علاوہ جو جن ہیں وہ اسلام لائے ہیں یا نہیں، یہ ابن نافع کا قول ہے۔ امام مالک نے فرمایا : تمام شہروں میں گھروں کے سانپوں کو قتل کرنے سے منع ہے، یہی قول صحیح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واذ صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القران (احقاف :
29
) صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس جنوں کا داعی آیا میں ان کے ساتھ گیا۔ میں نے ان پر قرآن پڑھا۔ اس حدیث میں ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ سے خوراک کا سوال کیا وہ جزیرہ کے جن تھے (
4
) ۔ اس کی تفصیل سورة جن میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ جب یہ ثابت ہے تو کسی سانپ کو قتل نہیں کیا جائے گا حتیٰ کہ پہلے اس پر تنگی کی جائے گی اور اسے ڈرائے جائے گا۔ مزید بیان انشاء اللہ آگے آئے گا۔ مسئلہ نمبر
7
: ائمہ نے ابو السائب مولیٰ ہشام بن زہرہ سے روایت کیا ہے کہ وہ حضرت ابو سعید خدری کے پاس ان کے گھر میں گئے۔ انہوں نے فرمایا : حضرت ابو سعید خدرمی کو میں نے نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ میں انتظار میں بیٹھ گیا تاکہ وہ نماز کو مکمل کرلیں۔ میں نے گھر کی ایک طرف کھجور کی چھڑیوں میں کچھ حرکت سنی۔ میں متوجہ ہوا تو وہ سانپ تھا۔ میں اسے قتل کرنے کے لئے دوڑا تو حضرت ابو سعید نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ میں بیٹھ گیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو گھر کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : کیا تم یہ کمرہ دیکھ رہے ہو ؟ میں نے کہا : ہاں۔ انہوں نے کہا : اس میں ہمارا ایک نواجوان رہتا تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ فرمایا : ہم خندق کی طرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے وہ نوجوان نصف النہار کے وقت رسول اللہ ﷺ سے اجازت طلب کرتا تھا اور گھر واپس آجاتا تھا۔ ایک دن اس نے اجازت طلب کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنا ہتھیار لے لو مجھے تجھ پر قریظہ (کے حملہ) کا اندیشہ ہے۔ اس شخص نے اپنا ہتھیار لے لیا پھر لوٹ آیا وہ گھر کے قریب پہنچا تو اس کی بیوی دروازے کے درمیان کھڑی تھی۔ اس نے اسے نیزہ مار نے کے لئے نیزہ اس کی طرف جھکایا، کیونکہ اسے غیرت آگئی تھی۔ بیوی نے کہا : اپنا نیزہ دور کرلے اور گھر کے اندر داخل ہوتا کہ تو وہ دیکھ لے جس نے مجھے گھر سے باہر نکالا۔ پس وہ اندر گیا تو زمین پر ایک بہت بڑا سانپ لپٹا پڑا تھا۔ نوجوان نے اس کی طرف نیزہ جھکایا اس میں سانپ کو پرودیا، پھر وہ باہر نکلا اور نیزہ کو گھر کے صحن میں گاڑھ دیا۔ پس اس سانپ نے اس نیزے کے اوپر حرکت کی پھر معلوم نہ ہوسکا کہ کون پہلے مراسا نپ یا وہ نوجوان۔ حضرت ابو سعید نے فرمایا : ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور یہ واقعہ ذکر کیا۔ ہم نے کہا : حضور ! دعا فرمائیں اسے اللہ تعالیٰ ہمارے لئے زندہ کر دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کے لئے استغفار کرو۔۔۔۔ پھر فرمایا۔۔۔۔ مدینہ طیبہ کے جن مسلمان ہوگئے ہیں جب تم ان میں سے کسی کو دیکھو تو تین دن اس کو تنبیہ کرو اگر پھر تمہارے لئے یہ ظاہر ہو تو اسے قتل کردو وہ شیطان ہے۔ دوسری سند سے اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ان گھروں میں رہنے والے سانپ ہیں جب ان میں سے کسی کو دیکھو تو تین دن اس پر تنگی کرو اگر وہ چلا جائے تو فبہا ورنہ اسے قتل کردو وہ کافر ہے۔ آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا : جاؤ اور اپنے ساتھی کو دفن کردو۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اس حدیث سے یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ وہ سانپ جس کو نواجوان نے قتل کیا تھا وہ مسلمان تھا اور جنوں نے اسے قصاصاً قتل کیا تھا کیونکہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ قصاص ہمارے اور جنوں کے درمیان مشروع ہے تو وہ پھر قتل عمد میں ہوگا اور اس نوجوان نے قتل عمد نہیں کیا تھا کیونکہ اسے تو اس کے مسلمان ہونے کا علم نہ تھا، انہوں نے تو اس نوع کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا جس کا قتل کرنا شرعاً مشروع تھا۔ یہ قتل خطا ہے اور اس میں قصاص نہیں ہے۔ پس یہ کہنا بہتر ہے کہ کافر اور فاسق جنوں نے اس نوجوان کو اپنے ساتھی کا انتقام لینے کے لئے قتل کیا تھا۔ جنوں نے حضرت سعد بن عبادہ کو قتل کیا تھا وہ اپنے غسل خانہ میں مروہ پائے گئے تھے اور ان کا جسم سبز ہوچکا تھا اور لوگوں کو ان کی موت کا سبب معلوم نہیں ہو رہا تھا حتیٰ کہ انہوں نے کسی کہنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا جبکہ انہیں کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ قد قتلنا سید الخز رج سعد بن عبادۃ ورمیناہ بسھمیم ن فلم نخط فؤادہ ترجمہ : ہم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کیا۔ اور ہم نے انہیں دو تیر مارے اور ہم نے اس کے دل سے خطا نہیں کی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : (مدینہ طیبہ کے جنوں نے اسلام قبول کرلیا ہے) تاکہ وہ راستہ بیان فرما دیں جس کے ذریعے ان میں سے کسی مسلمان کو قتل کرنے سے بچایا جائے اور ان میں سے کسی کافر کے قتل پر غلبہ پایا جائے۔ حضرت عائشہ ؓ سے کئی سندوں سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک سانپ مارڈالا، پھر انہیں خواب میں دکھایا گیا کہ کوئی انہیں کہہ رہا ہے تو نے ایک مسلمان کو قتل کردیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : اگر وہ مسلمان ہوتا تو نبی کریم ﷺ کی ازواج کے پاس داخل نہ ہوتا۔ اس کہنے والے نے کہا : وہ آپ کے پاس کبھی داخل نہیں ہوا مگر جب آپ باپردہ ہوتی تھیں۔ صبح ہوئی تو حضرت عائشہ نے بارہ ہزار دراہم اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے : وہ آپ پر داخل نہیں ہوا مگر جب آپ باپردہ ہوتی تھیں۔ حضرت عائشہ نے صدقہ کیا اور کئی غلام آزاد کئے۔ ربیع بن بدر نے کہا : الجان ان سانپوں میں سے ہے جن کے قتل سے نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ یہ وہ سانپ جو چلتے ہیں اور دوہرے نہیں ہوتے۔ علقمہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ مسئلہ نمبر
8
: انذار (ڈرانے) کا طریقہ : امام مالک نے فرمایا : میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ تین دن انہیں ڈرایا جائے۔ عیسیٰ بن دینار کا بھی یہی قول ہے اگرچہ ایک دن میں کئی مرتبہ ظاہر ہو۔ ایک دن میں تین مرتبہ ڈرانے پر اکتفا نہیں کیا جائے گا حتیٰ کہ تین دن میں یہ ڈرانا پایا جائے۔ بعض علماء نے فرمایا : تین مرتبہ ڈرانا کافی ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : فلیوذنہ ثلاثاً اس کو تین مرتبہ آگاہ کرو۔ اور فرمایا : حرجوا علیہ ثلاثاً اور اس پر تین مرتبہ تنگی کرو۔ ثلاثاً (تین) کا عدد مؤنث کے لئے ہے پس ظاہر ہوا کہ مراد تین مرتبہ ہے۔۔۔۔ امام مالک کا قول اولیٰ ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ثلاثۃ ایام یہ صحیح نص ہے ان مطلقات کے لئے مقید ہے اور ثلاثا کو تین ایام کی راتوں کے ارادہ پر محمول کیا جائے گا۔ عربوں کی عادت پر تاریخ کے باب میں رات غالب ہے کیونکہ ان میں تانیث غالب ہوتی ہے۔ امام مالک نے فرمایا : ڈرانے میں یہ کہنا کافی ہے : احرج علیک باللہ والیوم الاخر الا تبدوا لنا ولا توذونا یعنی میں تجھ پر اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن کے واسطہ سے تنگی کرتا ہوں کہ تم ہمارے لئے ظاہر نہ ہو اور نہ ہمیں تکلیف دو ۔ ثابت بنانی نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے کہ ان کے سامنے گھروں میں پائے جانے والے سانپوں کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا : جب تم ان میں سے کوئی سانپ اپنے گھروں میں دیکھو تو کہو : انشد کم بالعھد الذی اخذ علیکم نوح (علیہ السلام) وانشد کم بالعھد الذی اخذ علیکم سلیمان (علیہ السلام) ۔ میں تمہیں اس عہد کا واسطہ دیتا ہوں جو تم سے نوح (علیہ السلام) نے لیا تھا اور میں تمہیں اس عہد کا واسطہ دیتا ہوں جو تم سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے لیا تھا۔ پھر جب ان میں سے کسی کو دیکھو تو اسے قتل کردو۔ میں کہتا ہوں : یہ بظاہر ایک دفعہ اذن کی کفایت پر دلیل ہے لیکن حدیث اس کا رد کرتی ہے۔ واللہ اعلم ابن حبیب نے نبی کریم ﷺ سے روایت فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں : انشد کن بالعھد الذی اخذ علیکن سلیمان۔۔۔۔ (علیہ السلام) ۔۔۔۔ الا توذیننا والا تظھرن علینا۔ (
1
) مسئلہ نمبر
9
: جبیر نے نفیر سے انہوں نے حضرت ابو ثعلبہ الخشنی سے روایت کیا ہے۔۔۔۔ ابو ثعلبہ کا نام جرثوم ہے۔۔۔۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنوں کی تین قسمیں ہیں اور سب ایک تہائی ہیں : ایک قسم وہ ہے جن کے پر ہیں وہ ہوا میں اڑتے ہیں اور ایک قسم سانپ اور کتے ہیں اور ایک قسم وہ ہے جو کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے ہیں اور سفر کرتے ہیں (
1
) ۔ حضرت ابو درداء نے روایت کیا ہے۔۔۔ ان کا نام عویمر ہے۔۔۔۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جن تین حصوں میں پیدا کئے گئے ہیں : ایک تہائی کتے، سانپ اور زمین کے کیڑوں کی صورت میں ہوتے ہیں اور ایک تہائی تیز چلنے والی ہوا کی طرح ہوتے ہیں اور ایک تہائی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے لئے ثواب اور عقاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنوں کو تین تہائیوں میں پیدا کیا۔ ایک تہائی کے دل ہوتے ہیں جن کے ساتھ وہ سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہوتی ہیں جن کے ساتھ دیکھتے نہیں اور کان ہوتے ہیں جن کے ساتھ سنتے نہیں وہ نہیں ہیں مگر ڈنگروں کی مانند بلکہ وہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ ہیں اور ایک تہائی جن کے جسم انسانوں جسم جیسے ہوتے ہیں، ان کے دل شیطانوں کے دلوں جیسے ہوتے ہیں اور ایک تہائی اللہ کے (عرش کے) سایہ میں ہوں گے جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا (
2
) ۔ مسئلہ نمبر
10
: ہر وہ جانور جس کی اصل تکلیف پہنچانا ہو تو اسے ابتداءً قتل کیا جائے گا اس کی اذیت پہنچانے کی وجہ سے، اس میں کوئی اختلاف نہیں جیسے سانپ، بچھو، چوہا، چھپکلی اور اس کے مشابہ جانور۔۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : پانچ فواسق ہیں : انہیں، حل اور حرم میں قتل کیا جائے گا (
3
) ۔۔۔ سانپ نے اپنا جو ہر خبیث ظاہر کیا جب اس نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے خیانت کی اس طرح کہ وہ اپنے جبڑوں کے درمیان ابلیس کو جنت میں لے گیا۔ اگر سانپ اسے ظاہر کرتا تو جنت کا دربان اسے داخل نہ ہونے دیتا۔ ابلیس نے سانپ سے کہا : تو میرے ذمہ میں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے سانپوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ فرمایا : سانپ کو قتل کرو اگرچہ تم نماز میں ہو (
4
) (یعنی سانپ اور بچھو کو قتل کرو) ۔ الوزغۃ (چھپکلی) اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر آگ کو پھونکے دئیے تھے جبکہ دوسرے حیوانوں نے ایسا نہیں کیا تھا۔ پس اس پر لعنت کی گئی۔ یہ اس نوع سے ہے جو آپ سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، فرمایا : جس نے چھپکلی کو قتل کیا گویا اس نے ایک کافر کو قتل کیا اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، جس نے چھپکلی کو پہلی ضرب سے مارا اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جس نے دوسری ضرب سے مارا اس کے لئے اس سے کم نیکیاں ہوں گی اور جس نے تیسری ضرب سے مارا اس کے لئے اس سے کم نیکیاں ہوں گی۔ ایک روایت میں ہے، فرمایا : پہلی ضرب پر ستر نیکیاں ہیں (
5
) ۔ چوہیا، اس نے اپنا جوہر خبیث ظاہر کیا کہ اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی رسیاں کاٹنے کا قصد کیا اور انہیں کاٹ دیا۔ عبد الرحمٰن بن ابی نعیم نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : محرم سانپ، بچھو، چیل ایسا درندہ جو حملہ کرے، کاٹنے والا کتا اور فویسقہ (چوہیا) کو قتل کرے (
1
) ۔ رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے تو چوہیا نے چراغ کی وٹ پکڑی ہوئی تھی تاکہ گھر کو آگ لگا دے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا۔ کوا، اس نے اپنا جوہر اس وقت ظاہر کیا جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے اسے کشتی سے بھیجا کہ زمین کی خبر لے آئے تو اس نے نوح (علیہ السلام) کے حکم کو ترک کردیا اور مردار پر جا بیٹھا۔ یہ سب سانپ کے حکم میں ہیں۔ اسی وجہ سے ہم نے ذکر کردیا۔ مزید وضاحت انشاء اللہ سورة مائدہ میں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وقلنا اھبطوا بعضکم لبعض عدوٌ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وقلنااھبطوا، اھبطوا سے لفظاً الف حذف کیا گیا ہے کیونکہ یہ الف وصلی ہے، اور قلنا سے لفظاً الف حذف کیا گیا ہے اس کے اور اس کے بعد ھا کے سکون کی وجہ سے۔ محمد بن مصطفیٰ نے ابو حیوہ سے روایت کیا ہے کہ اھبطوا میں با پر ضمہ ہے یہ ایک لغت ہے۔ اس قول کو یہ بات تقویت دیتی ہے کہ یہ غیر متعدی ہے، اور اکثر غیر متعدی فعل یفعل کے وزن پر آتا ہے۔ یہ خطاب حضرت آدم، حوا، سانپ اور شیطان کو ہے۔ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ حسن نے کہا : حضرت آدم، حوا اور وسوسہ کو (
2
) ، مجاہد اور حسن نے کہا : بنو آدم اور بنو ابلیس کو ہے۔ الھبوط کا معنی اوپر سے نیچے کی طرف اترنا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) ہندوستان میں سرندیپ میں ایک پہاڑ پر اترے جسے بوذ کہا جاتا ہے۔ آپ کے ساتھ جنت کی خوشبو تھی۔ پس اس علاقہ کے درختوں اور وادیوں سے لگی ہر چیز خوشبو سے بھر گئی، اسی وجہ سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی خوشبو سے وہاں سے خوشبو لائی جاتی ہے۔ بادل آپ کے سر کو چھوتا تھا تو آپ گنجے ہوگئے تھے۔ پس گنجا پن آپ کی اولاد کو میراث میں ملا۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے روایت کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو تخلیق فرمایا تو ان کا طول ساٹھ ہاتھ تھا (
3
) ۔ (الحدیث) مسلم نے اس حدیث کو نقل کیا ہے، آئندہ ذکر ہوگی۔ حضرت حواجدہ میں اتریں اور ابلیس ابلۃ میں اور سانپ بیسان میں اترا۔ بعض نے فرمایا : سجستان میں، سجستان میں تمام شہروں سے زیادہ سانپ ہیں۔ اگر عربد سانپ نہ ہوتا جو سانپوں کو کھا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اکثر مر جاتے ہیں سجستان سانپوں کے لئے خالی کردیا جاتا۔ یہ ابو الحسن مسعودی نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
2
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے بعضکم لبعض عدو، بعضکم مبتدا ہے، عدوٌ خبر ہے اور یہ جملہ حال کی بنا پر محل نصب میں ہے۔ تقدیر عبارت یوں ہوگی : وھذہ حالکم۔ واو کو حذف کیا گیا ہے کیونکہ کلام میں ضمیر عائد موجود ہے جیسے کہا جاتا ہے : رایتک السماء تمطر علیک۔ میں نے تجھے دیکھا دراں حالیکہ آسمان تم پر بارش برسا رہا تھا۔ العدو۔ دشمن، یہ صدیق (دوست) کا متضاد ہے یہ عد اسے مشتق ہے جس کا معنی ہے : ظلم کرنا۔ ذئب عدوان (دشمن بھیڑیا) یعدوعلی الناس جو لوگوں پر تجاوز کرتا ہے، العدو ان صریح ظلم۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے : تجاوز کرنا۔ یہ تیرے اس قول سے ہے : لا یعدوک ھذا الامر یعنی یہ امر تجھ سے تجاوز نہیں کرے گا۔ عداہ، اس نے اس سے تجاوز کیا، اس کو عدوٌ اس لئے کہتے ہیں اپنے ساتھی کی ناپسند میں حد سے تجاوز کرتا ہے۔ اسی سے ہے : العدوبالقدم۔ چلنے میں تجاوز کرنا۔ دونوں معانی قریب قریب ہیں کیونکہ جو ظلم کرتا ہے وہ تجاوز کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں : بعض علماء نے بعضکم لبعض عدوٌ کو انسان پر محمول کیا ہے اگرچہ یہ معنی صحیح ہے لیکن یہ بعید ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد اس کی دلیل ہے جب بندہ صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں ہمارے لئے اللہ سے ڈر۔ تو جب سیدھی ہوگی تو ہم سیدھے ہوں گے تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم ٹیڑھے ہوں گے (
1
) ۔ اگر یہ کہا جائے کہ عدو کیسے فرمایا اعداء نہیں فرمایا ؟ اس کے دو جواب ہیں : ایک یہ کہ بعض اور کل کے لفظ کی خبر لفظ کے اعتبار سے واحد لگائی جاتی ہے اور معنی کے اعتبار سے اس کے مطابق لگائی جاتی ہے اور قرآن میں یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کلھم اتیہ یوم القیمۃ فردًا۔ (مریم) یہاں لفظ کا اعتبار کرتے ہوئے مفرد خبر لگائی۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وکل اتوہ داخرین۔ (النمل) یہاں معنی کے اعتبار سے خبر جمع لگا دی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ دو جمع کی جگہ مفرد ذکر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وھم لکم عدوٌ بئس للظلمین بدلاً ۔ (الکہف) (اور وہ سب تمہارے دشمن ہیں ظالموں کے لئے بہت برا بدلہ ہے) اسی طرح فرمایا : یحسبون کل صیحۃ علیھم ھم العدو (المنافقون :
4
) (گمان کرتے ہیں کہ ہر گرج ان کے خلاف ہی ہے۔ یہی حقیقی دشمن ہیں) ابن فارس نے کہا : العدو، اسم ہے جو واحد، تثنیہ، جمع اور تانیث کو جامع ہے، کبھی اس کی جمع بھی بنائی جاتی ہے۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ کا حضرت آدم (علیہ السلام) کو جنت سے نکالنا اور جنت سے اتارنا بطور سزا نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرنے کے بعد انہیں زمین پر اتارا، یا تو تادیب کی خاطر یا محنت میں سختی کی خاطر اتارا۔ اور صحیح یہ ہے کہ ان کو اتارنا اور زمین میں ٹھہرانا حکمت ازلیہ کے سبب تھا اور وہ حکمت یہ تھی کہ زمین میں ان کی نسل پھیلائی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنا مکلف بنائے اور انہیں آزمائے۔ پھر اس پر ان کے ثواب اور اخروی عقاب کو مرتب فرمائے، کیونکہ جنت اور دوزخ ایسی جگہ نہیں ہیں جہاں احکام کا مکلف بنایا گیا ہو۔ پس وہ کھانا جنت سے اتارنے کا سبب بنا اور اللہ تعالیٰ کو زیبا ہے جو چاہے کرے۔ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا تھا : انی جاعل فی الارض خلیفۃً (البقرہ :
30
) یہ منقبت عظیمہ اور فضیلت کریمہ شریفہ ہے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے ساتھ ساتھ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔ ہم نے کہا کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی توبہ قبول کرنے کے بعد زمین پر اتارا کیونکہ دوسری مرتبہ فرمایا : قلنا اھبطوا۔ مسئلہ نمبر
4
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولکم فی الارض مستقر یہ مبتدا خبر ہیں اور مستقر اسم ظرف ہے۔ یہ ابو العالیہ اور ابن زید کا قول ہے۔ سدی نے کہا : مستقر سے مراد قبور ہیں۔ میں کہتا ہوں : اللہ تعالیٰ کا ارشاد جعل لکم الارض قرارًا (غافر :
64
) یہ دونوں معانی کا احتمال رکھتا ہے۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ ارشاد ہے ومتاع، المتاع ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے لطف اٹھایا جائے خواہ کھانا ہو، لباس ہو، زندگی (کی کوئی اور ضرورت ہو) بات ہو، محبت وغیرہ ہو۔ اس سے منفعۃ النکاح کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے لطف اٹھایا جاتا ہے۔ سلیمان بن عبد الملک جب اپنے بیٹے کو دفن کے بعد اس کی قبر پر کھڑا ہوا تو کہا : وقفت علی قبر قریب بقفرۃ متاع قلیل من حبیب مفارق (
1
) میں ایک میدان میں مسافر کی قبر کی کھڑا ہوں۔ یہ جدا ہونے والے دوست سے تھوڑا سا سامان ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الی حین، الحین کے متعلق علماء کے مختلف اقوال ہیں ایک جماعت کا کہنا ہے : اس سے مراد موت ہے (یعنی مرنے تک) یہ ان کا قول ہے جو کہتے ہیں : المستقر دنیا میں ٹھہرنا ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں : اس سے مراد ہے قیامت کے قیام تک۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو کہتے ہیں : المستقر سے مراد قبور ہیں۔ ربیع نے کہا : الی حین سے مراد الی اجل یعنی موت تک۔ الحین سے مراد وقت بعید ہے اس وقت تیرے قول الآن اب سے دور کرنا سے ہے۔ خویلد نے کہا : کابی الرماد عظیم القدر جفنتہ حین الشتاء کحوض المنھل اللقف بہت زیادہ سخی ہے، اس کا پیالہ بہت بڑا ہے، سردیوں کے وقت کھلے گھاٹ والے حوض کی طرح ہے۔ کبھی حین پر تا داخل کرتے ہیں۔ ابو وجزہ نے کہا : العاطفون تحین ما من عاطف والمطعمون زمان أین المطعم وہ مہربانی کرنے والے ہوتے ہیں جبکہ کوئی مہربان نہیں ہوتا اور وہ کھلانے والے ہوتے ہیں جس وقت کہا جاتا ہے کھلانے والا کہاں ہے۔ الحین کا معنی مدت بھی ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ھل اتی علی الانسان حین من الدھر (الدہر :
1
) الحین کا معنی ساعت بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : او تقول حین تری العذاب (زمر :
58
) ، ابن عرفہ نے کہا : الحین زمانہ کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں جیسے ساعت، گھڑی اور اس سے اوپر۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فذرھم فی غمرتھم حتی حین۔ (المومنون) اے محبوب رہنے دو انہیں اپنی مدہوشی میں کچھ وقت۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تؤتی اکلھا کل حین (ابراہیم :
25
) وہ سارا سال پھل لاتا ہے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ہر چھ ماہ بعد پھل لاتا ہے۔ بعض نے فرمایا : صبح وشام پھل دیتا ہے۔ الازہری نے کہا : الحین اسم ہے جیسے الوقت یہ تمام زمانوں کو شامل ہے خواہ وہ لمبا زمانہ ہو یا مختصر۔ مطلب یہ ہے کہ اس سے ہر وقت نفع اٹھایا جاتا ہے اور اس کا نفع کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ فرمایا : الحین سے مراد قیامت کا دن ہے۔ الحین سے مراد صبح وشام بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فسبحن اللہ حین تمسون وحین تصبحون۔ (الروم) (سو پاکی بیان کرو اللہ تعالیٰ کی جب تم شام کرو اور جب تم صبح کرو) کہا جاتا ہے : عاملتہ محاینۃً کچھ میں نے اس کے ساتھ معاملہ کیا۔ احینت بالمکان میں وقت وہاں ٹھہرا۔ حان حین کذا۔ یعنی قریب ہوا۔ بثینۃ نے کہا : وان سلوی عن جمیل لساعۃ من الدھر ما حانت ولا حان حینھا مسئلہ نمبر
7
: جہاں الحین کے متعلق اہل زبان کا اختلاف ہے وہاں ہمارے علماء اور دوسرے علماء کے درمیان بھی اس میں اختلاف ہے۔ فراء نے کہا : الحین کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ جس کی حد پر واقفیت نہیں ہوتی۔ دوسرا حین وہ جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا : تؤتی اکلھا حین باذن ربھا (ابراہیم :
25
) یہاں حین سے مراد چھ مہینے ہیں۔ ابن عربی نے کہا الحین المجھول وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ کوئی حکم متعلق نہیں ہوتا اور الحین المعلوم وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ احکام متعلق ایمان (قسموں) میں اس کو اسماء اور زمانوں میں اعم خیال کرتے ہیں۔ امام شافعی اقل خیال کرتے ہیں، ابوحنیفہ درمیانی مدت مراد لیتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا : چھ ماہ۔ ان کے قول کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ان کے نزدیک مقدرات قیاساً ثابت نہیں ہوتی ہیں اور اس میں صاحب شریعت کی طرف سے کوئی نص نہیں ہے، معنی پر اعتبار کے لفظ کے مقتضیٰ پر لغوی طور پر آگاہی کے بعد ہوتا ہے۔ پس جس نے نذر مانی کہ وہ ایک حین نماز پڑھے گا تو اسے امام شافعی کے نزدیک ایک رکعت پر محمول کیا جائے کیونکہ ایک رکعت نفل میں سے کم از کم ہے۔ انہوں نے وتر کی ایک رکعت پر قیاس کیا ہے۔ امام مالک اور ان کے اصحاب نے کہا : نوافل کم از کم دو ہیں۔ پس زمانہ فعل کی مقدار کے ساتھ مقدر ہوگا۔ ابن خویز منداد نے ذکر کیا ہے کہ جو قسم اٹھائے الا یکلم فلان حینا اولا یفعل کذا حیناً ۔ تو حین سے مراد ایک سال ہوگا اور فرمایا : احکام میں علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی قسم اٹھائے کہ وہ ایک حین ایسا نہیں کرے گا یا فلاں سے ایک حین بات نہیں کرے گا۔ سال پر زیادتی اس کی قسم میں داخل نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ اتفاق ان کے مذہب میں ہے۔ امام مالک نے فرمایا : جس نے قسم اٹھائی کہ وہ ایک حین یا زمانہ، یا دھر ایسا نہیں کرے گا تو سب سے مراد ایک سال ہوگا۔ ابن وہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے، دھر میں ایک سال ہونے میں انہیں شک ہوا۔ ابن منذر نے یعقوب اور ابن الحسن سے حکایت کیا ہے کہ دھر سے مراد چھ ماہ ہے۔ حضرت ابن عباس، اصحاب الرائے، عکرمہ، سعید بن جبیر، عامر الشعبی اور عبیدہ نے تؤتی اکلھا کل حین باذن ربھا (ابراہیم :
25
) کے تحت فرمایا کہ کل حین سے مراد چھ ماہ ہیں۔ اوزاعی اور ابو عبیدہ نے کہا : الحین سے مراد چھ ماہ ہیں۔ امام شافعی کے نزدیک الحین میں کوئی معلوم وقت نہیں ہے اور نہ حین کے لئے کوئی حد ہے کبھی ان کے نزدیک الحین سے مراد دنیا کی مدت ہوتی ہے ہم کبھی بھی اسے حانث نہیں بنائیں گے اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ دن کے ختم ہونے سے پہلے ادا کردے۔ ابو ثور وغیرہ نے کہا : الحین اور الزمان اس پر محمول ہوگا جو لغت کہتی ہے۔ کہا جاتا ہے : قد جئت من حینٍ شاید وہ نصف دن سے نہ آیا ہو، ال کیا طبری شافعی نے کہا : وبالجملہ، الحین کے کئی مصارف ہیں۔ امام شافعی کسی محمل کی تعیین نہیں کرتے کیونکہ یہ محمل ہے لغت میں کسی معین معنی کے لئے وضع نہیں کیا گیا۔ بعض علماء نے فرمایا : الی حین یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے بشارت ہے تاکہ وہ جان لیں کہ انہوں نے ہمیشہ اس دنیا میں باقی نہیں رہنا ہے انہوں نے جنت کی طرف منتقل ہونا ہے جس کی طرف لوٹنے کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے اور یہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے علاوہ لوگوں کے لئے قیامت کے قائم ہونے پر دلیل ہے۔ یہی کافی ہے۔ واللہ اعلم۔
Top