Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 37
فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ
فَتَلَقّٰى
: پھر حاصل کرلیے
اٰدَمُ
: آدم
مِنْ رَّبِهٖ
: اپنے رب سے
کَلِمَاتٍ
: کچھ کلمے
فَتَابَ
: پھر اس نے توبہ قبول کی
عَلَيْهِ
: اس کی
اِنَّهٗ
: بیشک وہ
هُوَ
: وہ
التَّوَّابُ
: توبہ قبول کرنے والا
الرَّحِیْمُ
: رحم کرنے والا
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کردیا بیشک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحب رحم ہے
آیت نمبر
37
مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فتلقی ادم من ربہ کلمت بعض علماء نے فرمایا : تلقی کا معنی سمجھنا ہے۔ بعض نے فرمایا : قبول کرنا اور لینا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) یتلقی الوحی یعنی وحی حاصل کرتے تھے اسے لیتے تھے۔ تو کہتا ہے : خرجنا تتلقی الحجیج ہم نکلے تاکہ حاجیوں کا استقبال کریں۔ بعض نے فرمایا : تلقی کا معنی تلقین کرنا ہے، یہ معنی صحیح ہے لیکن اصل میں تلقی کا تلقن سے ہونا جائز نہیں کیونکہ جب دو حرف ہم جنس ہوں تو ایک کو یاء سے قلب کیا جاتا ہے مثلاً تظنی، یہ تظنن سے ہے تفضی یہ تفضص اس کی مثل ہے تسریت یہ تسررت سے ہے املیت یہ املک سے ہے اس کی قسم دوسری مثالیں بھی ہیں اسی وجہ سے یہ نہیں کہا جاتا تقبی، تقبل سے ہے اور نہ یہ کہا جاتا ہے کہ تلقی، تلقن سے ہے، مکی نے حکایت کیا حضرت آدم (علیہ السلام) کو کلمات الہام کئے گئے۔ پس حضرت آدم (علیہ السلام) نے ان سے نفع اٹھایا۔ حسن نے کہا : وہ کلمات سیکھے اور ان پر عمل کیا۔ مسئلہ نمبر
2
: کلمت میں مفسرین کا اختلاف ہے، حضرات ابن عباس، حسن، سعید بن جبیر، ضحاک اور مجاہد نے کہا : وہ کلمات یہ تھے : ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنکونن من الخسرین۔ (اعراف) مجاہد سے یہ الفاظ بھی مروی ہیں : سبحانک اللھم لا الہ الا انت ربی ظلمت نفسی فاغفرلی انک انت الغفور الرحیم (
1
) ۔ ایک جماعت نے کہا : انہوں نے عرش کے پائے پر یہ لکھا ہوا دیکھا : محمد رسول اللہ ﷺ تو انہوں نے ان کلمات سے سفارش طلب کی تو ان کی سفارش قبول کی گئی۔ کلمات سے مراد یہ کلمات ہیں۔ ایک گروہ نے کہا : کلمتٍ سے مراد رونا، حیاء کرنا اور دعا کرنا ہے۔ بعض نے فرمایا : ندامت، استغفار اور پریشان ہونا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ قول تقاضا کرتا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) نے معبود استغفار کے علاوہ کچھ نہ کہا (
2
) ۔ بعض نیک لوگوں سے پوچھا گیا کہ گناہ گار کو کیا کہنا چاہئے تو اس نے کہا : جو اس کے والدین نے کہا تھا : ربنا ظلمنا انفسنا (اعراف :
23
) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا : رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی (القصص :
16
) یونس (علیہ السلام) نے کہا تھا : لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ (الانبیاء) حضرت ابن عباس اور وہب بن منبہ سے مروی ہے کہ یہ کلمات تھے : سبحان اللھم وبحمدک لا الہ الا انت عملت سوءً وظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم۔ محمد بن کعب نے کہا : یہ کلمات تھے : لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک عملت سوءًا وظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم لا الہ الا انت سبحانک و بحمد عملت سوءًا وظلمت نفسی فارحمتی انک انت الغفور الرحیم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک عملت سوءًا وظلمت نفسی فارحمنی انک ارحم الراحمین۔ بعض نے فرمایا : کلمات سے مراد چھینک کے بعد الحمد للہ کہنا ہے۔ الکلمات، کلمۃٌ کی جمع ہے۔ الکلمہ کا لفظ قلیل وکثیر پر بولا جاتا ہے۔ یہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فتاب علیہ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی یا توبہ کی توفیق بخشی۔ جمعہ کے دن دس محرم الحرام کو توبہ قبول فرمائی جیسا کہ آگے اس کا بیان آئے گا۔ تاب العبد کا مطلب بندہ اپنے رب کی طاعت کی طرف لوٹ آیا۔ عبد ترابٌ، طاعت کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا۔ توبہ کا اصل معنی لوٹنا ہے۔ کہا جاتا ہے تاب وثاب وأب و اناب ان سب کا معنی لوٹنا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
: اگر کہا جائے کہ علیہ کیوں فرمایا علیھما کیوں نہیں فرمایا، حضرت حوا بھی تو بالا جماع اس کام میں شریک تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو فرمایا تھا : ولا تقربا ھذہ الشجرۃ (البقرہ :
35
) اس درخت کے قریب نہ جانا، اور قالا ربنا ظلمنا انفسنا (اعراف :
23
) دونوں نے کہا ہمارے رب ہم نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قصہ کے آغاز میں جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو اسکن کے ارشاد سے خطاب کیا گیا تو تلقی میں بھی خاص ان کا ذکر فرمایا۔ اسی وجہ سے واقعہ کی تکمیل بھی صرف ان کے ذکر سے کی۔ نیز عورت حرمت اور مستورہ ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر نہ فرما کر اس کے لئے پردہ کا ارادہ فرمایا۔ اسی وجہ سے معصیت میں بھی ان کا ذکر نہیں فرمایا وعصی ادم ربہ فغوی۔ (طہ) ۔ نیز عمومی احکام میں عورت مرد کے تابع ہوتی ہے اس کا ذکر نہیں کیا جاتا، جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جو نوجوان تھا اس کا ذکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ نہیں فرمایا : الم اقل لک (الکہف :
75
) (کیا میں نے تجھے کہا نہیں تھا) بعض علماء نے فرمایا : چونکہ دونوں کا امر برابر تھا حضرت آدم کی توبہ کی قبولیت کا ذکر حضرت حوا کی توبہ کی قبولیت کی دلیل ہے۔ یہ حسن کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مثل ہے واذا واتجارۃً ولھو انفضوا الیھا (الجمعہ :
11
) چونکہ قوم کی مقصود تجارت تھی اس لئے ضمیر کی طرف لوٹا دی اور تثنیہ کی ضمیر ذکر نہیں فرمائی، معنی قریب قریب ہے۔ شاعر نے کہا : رمانی بامر کنت منہ و والدی بریئًا ومن فوق الطوی رمان اس نے مجھ پر ایک امر کی تہمت لگائی میں اور میرا والد اس سے بری تھے اور اس نے ایک کنویں کی وجہ سے مجھ پر تہمت لگائی۔ قرآن حکیم میں ہے اللہ ورسولہ احق ان یرضوہ (توبہ :
62
) (اللہ اور اس کا رسول زیادہ مستحق ہے کہ اسے راضی کریں) یہاں بھی ایجاز واختصار کی خاطر حذف کیا گیا۔ مسئلہ نمبر
5
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انہ ھو التواب الرحیم اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت التواب بیان فرمائی اور قرآن حکیم میں یہ صفت معرفہ، نکرہ، اسم اور فعل کی صورت میں بار بار ذکر فرمائی، کبھی ثواب کا اطلاق بندے پر بھی کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان اللہ یحب التوابین ویحب المتطھرین۔ (البقرہ) (بےشک اللہ دوست رکھتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے صاف ستھرا رہنے والوں کو) ابن عربی نے کہا : اللہ تعالیٰ کا وصف ہونے میں ہمارے علماء کے تین اقوال ہیں :
1
۔ رب تعالیٰ کے حق میں یہ جائز ہے اس نام کے ساتھ اسے پکارا جائے گا جیسا کہ کتاب وسنت میں وارد ہوا ہے اور کوئی تاویل نہیں کی جائے گی۔ دوسرے علماء نے فرمایا : یہ اللہ تعالیٰ کا وصف حقیقی ہے۔ توبۃ اللہ علی العبد کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو معصیت کی حالت سے طاعت کی حالت کی طرف لوٹا دیا۔ بعض دوسرے علماء نے فرمایا : توبۃ اللہ علی العبد کا مطلب اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کی توبہ قبول کرنا یہ احتمال رکھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد قبلت توبتک (میں نے تیری توبہ قبول کی) کی طرف لوٹے اور اس طرف لوٹنے کا احتمال رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مجرم بندے کے دل میں توبہ کرنے اور ظاہری اعضاء پر طاعات کو جاری کرنے کی توفیق بخش دے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کے حق میں تائب کہنا جائز نہیں۔ تائب، اسم فاعل ہے تاب یتوب سے، کیونکہ ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی اسم یا صفت استعمال کریں مگر صرف وہی جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لئے استعمال فرمایا یا نبی کریم ﷺ نے اس کے لئے استعمال فرمایا یا مسلمانوں کی جماعت نے استعمال فرمایا۔ اگرچہ لغت میں وہ جائز بھی ہو۔ اس باب میں نہی صحیح ہے جیسا کہ ہم نے “ الکتاب الاسنیٰ فی شرح اسماء اللہ الحسنیٰ ” میں بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لقد ثاب اللہ علی النبی والمھجرین والانصار (توبہ :
117
) (یقیناً رحمت سے توجہ فرمائی اللہ تعالیٰ نے (اپنے) نبی پر نیز مہاجرین اور انصار پر) اور فرمایا وھو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ (الشوریٰ :
25
) (اور وہی ہے جو توبہ قبول کرتا ہے اپنے بندوں کی) اللہ تعالیٰ کو تواب کہا گیا ہے فعل کے مبالغہ کے لئے اور جو کثرت سے اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے کثرت سے اس کی توبہ قبول کرنے کی وجہ سے۔ مسئلہ نمبر
7
: کسی کو توبہ تخلیق کرنے کی قدرت نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اعمال کی تخلیق میں منفرد ہے جب کہ معتزلہ اور ان کے ہم نواؤں کا مسلک اس سے مختلف ہے۔ اسی طرح کسی کے لئے مجرم کی توبہ قبول کرنا اور اسے معاف کرنا جائز نہیں۔ ہمارے علماء نے فرمایا : یہودونصاریٰ نے دین میں اس اصل کا انکار کیا۔ اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ (توبہ :
31
) (انہوں نے بنا لیا اپنے پادریوں اور اپنے راہبوں کو (اپنے) پروردگار اللہ کو چھوڑ کر) انہوں نے مجرم، گنہگار کے لئے یہ اصول بنایا کہ وہ کسی عالم یا راہب کے پاس جائے اور اسے کوئی چیز (نذرانہ) دے دے تو اس کے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ افترأءً علی اللہ قد ضلوا وما کانوا مھتدین۔ (انعام) (بہتان باندھ کر اللہ پر بیشک وہ گمراہ ہوگئے اور نہ تھے وہ ہدایت پانے والے) ۔ مسئلہ نمبر
8
: ابن کثیر نے فتلقی أدم من ربہ کلماتٌ پڑھا ہے باقی قراء نے أدم کے رفع اور کلمات کی نصب کے ساتھ پڑھا ہے (
1
) دونوں قرائتیں ایک ہی معنی کی طرف لوٹتی ہیں کیونکہ جب حضرت آدم (علیہ السلام) نے کلمات کو پایا تو کلمات انہیں مل گئے۔ بعض علماء نے فرمایا : کلمات ہی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت آدم (علیہ السلام) کو ملنے والے تھے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت آدم نے وہ کلمات قبول کئے اور ان کے ساتھ دعا کی تو یہ کلمات ہی فاعل ہیں۔ گویا اصل اس قراءت پر ہے فتلقت آدم من ربہ کلماتٌ۔ لیکن جب مؤنث اور اس کے فعل کے درمیان بعد اور دوری پائی گئی تو علامت تانیث کو حذف کرنا اچھا ہوا۔ یہ اصل ہے جو قرآن اور کلام میں جاری ہوتی ہے جب مؤنث کا فعل بغیر علامت تانیث کے ہو۔ اسی سے عربوں کا قول ہے۔ حضر القاضی الیوم امرأۃ۔ عورت آج قاضی کے پاس حاضر ہوئی۔ بعض علماء نے فرمایا کلمات کی تانیث جب حقیقی نہ تھی تو اسے الکلم کے معنی پر محمول کیا گیا۔ پس صیغہ مذکر ذکر کیا گیا ہے۔ اعمش نے ادم من رب کو مدغم کر کے پڑھا ہے۔ ابو نوفل بن ابی عقرب نے (أنہ) ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے لانہ کے معنی کی بنا پر۔ باقی قراء نے نئی کلام کی بنا پر کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابو عمرو، عیسیٰ اور طلحہ نے ھا کو ھا میں ادغام کیا ہے۔ یہ ابو حاتم نے ابو عمر ووغیرہ سے حکایت کیا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ جائز نہیں ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان لفظاً واؤ ہے خطاً نہیں۔ نحاس نے کہا : سیبویہ نے اس واؤ کو حذف کرنا جائز قرار دیا ہے اور اس نے یہ شعر پڑھا ہے : لہ زجل کأنہ صوت حاد اذا طلب الوسیقۃ او زمیر اس کے لئے مترنم آواز تھی گویا وہ کسی حدی خوان کی آواز ہے۔ جب اس نے اپنی مادہ کو طلب کیا یا اس کی آواز میں مزمار ہے۔ پس اس صورت میں ادغام جائز ہے۔ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے اور تواب خبر ہے پھر پورا جملہ ان کی خبر ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ ھو ھاء کی تاکید ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ ھو فاصلہ ہو جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر نے کہا : جب حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین کی طرف اتارا گیا تو زمین میں خشکی پر گدھ کے علاوہ کچھ نہ تھا اور دریا میں مچھلی کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ گدھ مچھلی کے پاس پناہ لیتی اور رات گزارتی۔ جب گدھ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو دیکھا تو کہا : اے مچھلی آج زمین کی طرف ایک چیز اتاری گئی ہے جو ٹانگوں پر چلتی ہے اور ہاتھوں سے پکڑتی ہے۔ مچھلی نے کہا : اگر تو سچی ہے تو پھر میرے لئے دریا میں نجات کی جگہ نہیں اور تیرے لئے خشکی میں اس سے خلاصی کی جگہ نہیں۔
Top