Al-Qurtubi - Al-Baqara : 46
الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۠   ۧ
الَّذِیْنَ : وہ جو يَظُنُّوْنَ : یقین رکھتے ہیں اَنَّهُمْ : کہ وہ مُلَاقُوْ : رو برو ہونے والے رَبِّهِمْ : اپنے رب کے وَاَنَّهُمْ : اور یہ کہ وہ اِلَيْهِ : اس کی طرف رَاجِعُوْنَ : لوٹنے والے
جو یقین کئے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
آیت نمبر 46 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : الذین یظنون، الذین محل جر میں ہے کیونکہ یہ خاشعین کی صفت ہے اور قطع کے اعتبار سے اس کو محل رفع میں کرنا بھی جائز ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک یہاں ظن بمعنی یقین ہے، اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : انی ظننت انی ملقٍ حسابیہ۔ (الحاقہ) (مجھے یقین تھا کہ میں اپنے حساب کو پہنچوں گا) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : النار فظنوا انھم مواقعوھا (الکہف :53) (وہ خیال کریں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں ) ۔ درید بن الصمہ نے کہا : فقلت لھم ظنوا بالفی مدجج سراتھم فی الفارسی المسرد (1) شاعر نے یہاں ظن بمعنی یقین استعمال کیا ہے۔ ابو داؤد نے کہا : رب ھم فرجتہ بغریم وغیوب کشف تھا بظنون یعنی میں نے کتنے ہی غیوب کو یقین کے ساتھ کھولا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس آیت میں ظن اپنے معنی میں صحیح ہے۔ کلام میں ان کے گناہوں کو چھپایا گیا ہے گویا وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی توقع رکھتے ہیں حالانکہ وہ گنہگار ہیں۔ یہ مہدوی اور ماوردی نے ذکر کیا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ تعسف ہے۔ فراء نے کہا : ظن کبھی جھوٹ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ بصری علماء اس معنی کو نہیں جانتے۔ ظن کی اصل اور اس کا فائدہ “ شک ہونا ” ہے جبکہ اپنے معتقدات میں سے کسی ایک کی طرف میلان ہو۔ کبھی ظن یقین کے معنی میں ہوتا ہے جیسا کہ اس آیت اور دوسری آیات میں ہے لیکن جو امر حس کی طرف نکلے اس کے لئے استعمال نہیں ہوتا۔ مثلاً عرب جو شخص دکھائی دے رہا ہو موجود ہو اس کے لئے یہ نہیں کہتے اظن ھذا انساناً ، تو اس کا استعمال اس صورت میں پائے گا جو ابھی حس کے دائرے میں نہ ہو۔ جیسا کہ اس آیت اور شعر میں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : النار فظنوا انھم مواقعوھا (الکہف :53) کبھی یقین بمعنی ظن ہوتا ہے۔ اس کا بیان سورت کے آغاز میں ہوچکا ہے۔ تو کہتا ہے : سؤت بہ ظناً ، واسأت بہ الظن (میں نے اسے برا گمان کیا) جب معرف باللام ہو تو الف داخل کراتے ہیں اور ملقوا ربھم سے مراد ہے جزاء ربھم بعض علماء نے فرمایا : یہ باب مفاعلہ ہے حالانکہ یہ عمل ایک طرف سے ہے۔ (فرمایا) یہ اس طرح ہے : عافاہ اللہ۔ انھم ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ ہے اس کا پہلے ان پر عطف ہے اور قطع کے اعتبار سے اس پر کسرہ پڑھنا بھی جائز ہے الیہ سے مراد الی ربھم ہے بعض نے فرمایا الی جزاءہ ہے۔ رجعون یہ دوبارہ اٹھنے، جزا اور ملک اعلی کے سامنے پیش ہونے کا اقرار ہے۔
Top