Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا
: اور جب ہم نے وعدہ کیا
مُوْسَىٰ
: موسیٰ
اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً
: چالیس رات
ثُمَّ
: پھر
اتَّخَذْتُمُ
: تم نے بنا لیا
الْعِجْلَ
: بچھڑا
مِنْ بَعْدِهِ
: ان کے بعد
وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ
: اور تم ظالم ہوئے
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو (معبود) مقرر کرلیا اور تم ظلم کر رہے تھے
آیت نمبر
51
اس آیت میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃً ابو عمرو نے وعدنا بغیر الف کے پڑھا ہے۔ ابو عبید نے اسے اختیار کیا ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے اور واعدنا کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا : مواعدہ انسان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ وعدہ اور وعید میں منفرد ہے۔ اسی پر ہم نے قرآن کے الفاظ کو پایا۔ جیسے ارشاد ہے : وعدکم وعد الحق (ابراہیم :
22
) (جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ وعدہ سچا تھا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت (نور :
55
) (وعدہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور نیک عمل کیے) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم (انفال :
7
) (اور یاد کرو جب وعدہ تم سے اللہ نے ایک کا ان دو گروہوں سے کہ وہ تمہارے لئے ہے ) ۔ مکی نے کہا : الفاظ کا ظاہر بھی اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے وعدہ ہے اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں ہے۔ پس اس کو واحد پر محمول کرنا واجب ہے ظاہر نص کی وجہ سے کیونکہ فعل صرف اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے۔ یہ حسن، ابو رجاء ابو جعفر، شیبہ اور عیسیٰ بن عمر کی قراءت ہے۔ قتادہ اور ابن ابی اسحاق نے بھی اسی طرح پڑھا ہے۔ ابو حاتم نے کہا : ہمارے عام لوگوں قراءت وعدنا بغیر الف کے ہے کیونکہ المواعدہ زیادہ تر دو شخصوں اور دو بدلہ دینے والوں کے درمیان ہوتا ہے ہر ایک دوسرے سے وعدہ کرتا ہے۔ جوہری نے کہا المیعاد کا معنی باہم وعدہ کرنا، وقت اور جگہ ہے۔ مکی نے کہا : المواعدہ اصل میں دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کبھی کلام عرب میں (باب) مفاعلہ کا صیغہ واحد کے لئے بھی آتا ہے۔ عرب کہتے ہیں : طارقت النعل، داویت العلیل، عاقبت اللص۔ ان تمام جملوں میں باب مفاعلہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے حالانکہ ایک شخص کی طرف سے فعل ہوا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواعدہ کا لفظ خاص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے وعدنا کے معنی کی طرح ہوگا۔ پس دونوں قرأتوں کا ایک معنی ہوجائے گا، واعدنا الف کے ساتھ اختیار کرنا اس لئے ہے کیونکہ یہ وعدنا کے معنی میں ہے اس کے دو معانی میں سے ایک معنی میں، نیز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے وعدہ یا قبول کرنا ضروری ہے جو وعدہ کے قائم مقام ہے۔ پس مفاعلہ کا استعمال صحیح ہے۔ نحاس نے کہا : واعدنا (الف کے ساتھ) پڑھنا اجود اور احسن ہے۔ یہ مجاہد، اعرج، ابن کثیر، نافع، اعمش، حمزہ اور کسائی کی قراءت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ واعدنا موسیٰ یہ باب الموافات ہے۔ وعدہ اور وعید میں سے کوئی شے نہیں ہے، یہ تیرے اس قول سے ہے : موعدک یوم الجمعہ موعدک موضع کذا اس میں فصیح واعدتہ کہنا ہے۔ ابو اسحاق زجاج نے کہا : یہاں واعدنا الف کے ساتھ بہتر ہے کیونکہ طاعت کا قبول کرنا مواعدہ کے قائم مقام ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے قبول اور اتباع ہے۔ یہ مواعدہ کے قائم مقام ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : ابو عبیدہ نے وعدنا کو ترجیح دی ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو قبول کرنا اور اس کا التزام کرنا یہ مواعدہ کے مشابہ ہے۔ مسئلہ نمبر
2
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد موسیٰ یہ عجمی اسم ہے۔ عجمہ اور تعریف کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ ایک روایت کے مطابق قبطی لوگ پانی کو موادر درخت کو شا (سا) کہتے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تابوت میں پانی اور درخت کے پاس پائے گئے تو انہیں موسیٰ کہا گیا (
1
) ۔ سدی نے کہا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو ان پر خوف ہوا تو اس نے انہیں ایک تابوت میں رکھ دیا اور دریا میں پھینک دیا۔۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے الہام کیا تھا۔۔۔۔۔ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ نام رکھا گیا (
2
) ۔ نقاش وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ جس عورت نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھایا تھا اس کا نام صابوت تھا۔ ابن اسحاق نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ موسیٰ بن عمران بن یصہر قاہث بن لاوی بن یعقوب اسرائیل اللہ بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) (
3
) ۔ مسئلہ نمبر
3
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اربعین لیلۃً ، اربعین مفعول ثانی کی بنا پر منصوب ہے اور کلام میں حذف ہے۔ اخفش نے کہا : تقدیر عبارت اس طرح ہے : واذ واعدنا موسیٰ تمام اربعین لیلۃ جیسا کہ وسء ل القریۃ (یوسف :
82
) میں مضاف حذف ہے الاربعون تمام اس وعدہ میں داخل ہیں۔ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ چالیس دن ذی القعدہ کا مہینہ اور دس دن ذی الحجہ کے تھے اور یہ اس کے بعد ہوا جب آپ نے دریا عبور کرلیا تھا اور آپ کی قوم نے آپ سے مطالبہ کیا کہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس کتاب لے آئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ستر چیدہ افراد لے کر باہر نکلے اور ایک پہاڑ پر چڑھے اور ان سے مکمل چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا، تو مفسرین کے قول کے مطابق انہوں نے بیس دن اور بیس راتیں شمار کیں اور کہنے لگے : ہم سے وعدہ خلافی ہوئی ہے۔ پس انہوں نے ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ سامری نے انہیں کہا : یہ تمہارا خدا ہے اور موسیٰ کا خدا ہے، وہ سامری کی اس بات پر مطمئن ہوگئے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انہیں منع فرمایا اور فرمایا : یقوم انما فتنتم بہ وان ربکم الرحمٰن فاتبعونی واطیعوا امری۔ قالوا لن نبرح علیہ عکفین حتی یرجع الینا موسیٰ ۔ (طہٰ ) (اے میری قوم تم تو فتنہ میں مبتلا ہوگئے اس سے اور بلاشبہ تمہارا رب تو وہ ہے جو بےحد مہربان ہے پس تم میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو تو قوم نے کہا ہم تو اسی کی عبادت پر جمے رہیں گے یہاں تک کہ لوٹ آئیں ہماری طرف موسیٰ (علیہ السلام ) ۔ حضرت ہارون کی صرف بارہ ہزار نے بات مانی باقیوں نے بچھڑے کی عبادت ترک کرنے میں حضرت ہارون کی اتباع نہ کی اور تمام لوگ اس بچھڑے کی عبادت میں گر گئے اور وہ دس لاکھ سے زائد تھے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے تو انہیں اس حال میں پایا آپ نے تختیاں نیچے ڈال دیں۔ پس ان میں سے چھ اجزاء اٹھا لئے گئے اور ایک تختی باقی رہ گئی جس میں حرام، حلال اور جن احکام کی انہیں احتیاج تھی وہ باقی رہ گئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ کو سمندر میں بکھیر دیا، بنی اسرائیل نے بچھڑے کی محبت کی وجہ سے اس دریا کا پانی پیا۔ پس ان کے ہونٹوں پر زردی ظاہر ہوئی اور ان کے پیٹ پھول گئے۔ پھر انہوں نے توبہ کی تو ان کی توبہ قبول نہ ہوئی حتیٰ کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فتوبوا الی بارئکم فاقتلوا انفسکم (البقرہ :
54
) پس چاہئے کہ توبہ کرو اپنے خالق کے حضور سو قتل کرو اپنے آپ کو۔ پس انہوں نے خنجر اور تلواریں اٹھائیں اور سورج کے طلوع ہونے سے چاشت کے بلند ہونے تک ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا کسی والد نے اپنے بیٹے کے بارے میں اور کسی بیٹے نے والد کے بارے میں، اور بھائی نے بھائی کے بارے میں نہ پوچھا جو سامنے آیا اسے تلوار سے قتل کردیا اسی طرح ہر ایک نے اپنی مثل کو قتل کیا حتیٰ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر التجا کی : یارب ! بنی اسرائیل تو ختم ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان پر اپنا فضل فرمایا۔ پس جو باقی بچ گئے ان کی توبہ قبول فرمائی اور جو مارے گئے انہیں شہداء میں شمار کردیا جیسا کہ آگے آئے گا مسئلہ نمبر
4
: اگر کہا جائے کہ راتوں کو ذکر کے ساتھ خاص کیوں کیا گیا دنوں کا ذکر کیوں نہیں فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رات دن سے پہلے ہوتی ہے، یہ رتبہ میں دن سے بلند ہے۔ اسی وجہ سے تاریخ راتوں کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ راتیں مہینوں کا آغاز ہیں اور دن ان کے تابع ہیں۔ مسئلہ نمبر
5
: نقاش نے کہا : اس آیت میں صوم وصال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر دنوں کا ذکر فرماتا تو یہ اعتقاد ممکن تھا کہ وہ رات کو افطار کرتے تھے۔ جب راتوں پر نص قائم فرما دی تو کلام کی قوت تقاضا کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن، راتوں سمیت صوم وصال رکھا۔ ابن عطیہ نے کہا : میں نے اپنے باپ سے سنا، وہ فرما رہے تھے : میں نے شیخ، زاہد، امام، واعظ ابو الفضل الجوہری (رح) سے سنا وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور نماز میں اس کے قریب ہونے کے بارے میں وعظ فرما رہے تھے کہ نماز کھانے پینے سے غافل کردیتی ہے اور وہ فرما رہے تھے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا کتنا قرب نصیب ہوگا کہ انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے اپنے نوجوان ساتھی کو کہا تھا : آتنا غداءنا، اس قول کی وجہ سے انہوں نے زمانہ کے اسی روزے وصال کے ساتھ رکھے (
1
) ۔ میں کہتا ہوں : اس آیت سے علماء صوفیہ نے وصال پر استدلال کیا ہے اور ان میں افضل چالیس دن ہیں۔ مزید کلام صوم وصال پر، آیت صیام کے تحت اسی سورت میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ اور اس آیت کے مزید احکام سورة اعراف میں ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃً (اعراف :
142
) کے تحت آئیں گے۔ اور بچھڑے کا قصہ، اس کی کیفیت کا بیان اور اس کا ڈکارنا وغیرہ کا ذکر سورة اعراف میں اور سورة طہٰ میں آئے گا۔ ان شا ءللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے : ثم اتخذتم العجل من بعدہ یعنی تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد۔ اتخذتم اصل میں ائتخذتم تھا یہ الاخذ سے مشتق ہے۔ اس کا وزن افتعلتم ہے دو ہمزوں کے امتناع کی وجہ سے دوسرے ہمزہ میں تسہیل کی گئی پھر ایتخذتم ہوا، اور یاء گردان میں مضطرب رہتی ہے یاتخذ میں الف ہوگئی موتخذ میں واو ہوگی۔ پس یہاں یاء کو ایک پختہ حرف سے بدلا گیا جو ما بعد کی جنس سے تھا اور وہ تاء ہے پھر ادغام کیا گیا پھر الف وصل کو نطق (بولنے) کے لئے لایا گیا۔ کبھی اس الف سے استغناء کیا جاتا ہے جب کلام کا معنی تقریر ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل اتخذتم عند اللہ عھدًا (البقرہ :
80
) الف تقریر کی وجہ سے الف وصل سے استغناء کیا گیا۔ شاعر نے کہا : استحدث الرکب عن اشیاعھم خبراً ام راجع القلب من اطرابہ طرب اس شعر میں الف وصل ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ الف تقریر موجود تھا۔ اسی طرح قرآن میں ہے : اطلع الغیب (مریم :
78
) اصطفی البنات (الصافات :
153
) استکبرت ام کنت من العالمین۔ (ص) ان تینوں مثالوں میں تقریر کی وجہ سے الف وصل ذکر نہیں کیا گیا۔ ابو علی فارسی کا مذہب یہ ہے کہ اتخذتم یہ تخذ سے ہے نہ کہ اخذ سے ہے۔ وانتم ظلمون یہ جملہ حال ہے، ظلم کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔
Top