Al-Qurtubi - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
اور جب ہم نے موسیٰ سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو (معبود) مقرر کرلیا اور تم ظلم کر رہے تھے
آیت نمبر 51 اس آیت میں چھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃً ابو عمرو نے وعدنا بغیر الف کے پڑھا ہے۔ ابو عبید نے اسے اختیار کیا ہے اور اسے راجح قرار دیا ہے اور واعدنا کا انکار کیا ہے۔ انہوں نے کہا : مواعدہ انسان کی طرف سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ وعدہ اور وعید میں منفرد ہے۔ اسی پر ہم نے قرآن کے الفاظ کو پایا۔ جیسے ارشاد ہے : وعدکم وعد الحق (ابراہیم :22) (جو وعدہ تم سے کیا تھا وہ وعدہ سچا تھا) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت (نور :55) (وعدہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے تم میں سے اور نیک عمل کیے) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ یعدکم اللہ احدی الطائفتین انھا لکم (انفال :7) (اور یاد کرو جب وعدہ تم سے اللہ نے ایک کا ان دو گروہوں سے کہ وہ تمہارے لئے ہے ) ۔ مکی نے کہا : الفاظ کا ظاہر بھی اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے وعدہ ہے اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے کوئی وعدہ نہیں ہے۔ پس اس کو واحد پر محمول کرنا واجب ہے ظاہر نص کی وجہ سے کیونکہ فعل صرف اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے۔ یہ حسن، ابو رجاء ابو جعفر، شیبہ اور عیسیٰ بن عمر کی قراءت ہے۔ قتادہ اور ابن ابی اسحاق نے بھی اسی طرح پڑھا ہے۔ ابو حاتم نے کہا : ہمارے عام لوگوں قراءت وعدنا بغیر الف کے ہے کیونکہ المواعدہ زیادہ تر دو شخصوں اور دو بدلہ دینے والوں کے درمیان ہوتا ہے ہر ایک دوسرے سے وعدہ کرتا ہے۔ جوہری نے کہا المیعاد کا معنی باہم وعدہ کرنا، وقت اور جگہ ہے۔ مکی نے کہا : المواعدہ اصل میں دو شخصوں کے درمیان ہوتا ہے۔ کبھی کلام عرب میں (باب) مفاعلہ کا صیغہ واحد کے لئے بھی آتا ہے۔ عرب کہتے ہیں : طارقت النعل، داویت العلیل، عاقبت اللص۔ ان تمام جملوں میں باب مفاعلہ کا صیغہ استعمال ہوا ہے حالانکہ ایک شخص کی طرف سے فعل ہوا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواعدہ کا لفظ خاص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے وعدنا کے معنی کی طرح ہوگا۔ پس دونوں قرأتوں کا ایک معنی ہوجائے گا، واعدنا الف کے ساتھ اختیار کرنا اس لئے ہے کیونکہ یہ وعدنا کے معنی میں ہے اس کے دو معانی میں سے ایک معنی میں، نیز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے وعدہ یا قبول کرنا ضروری ہے جو وعدہ کے قائم مقام ہے۔ پس مفاعلہ کا استعمال صحیح ہے۔ نحاس نے کہا : واعدنا (الف کے ساتھ) پڑھنا اجود اور احسن ہے۔ یہ مجاہد، اعرج، ابن کثیر، نافع، اعمش، حمزہ اور کسائی کی قراءت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد : وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ واعدنا موسیٰ یہ باب الموافات ہے۔ وعدہ اور وعید میں سے کوئی شے نہیں ہے، یہ تیرے اس قول سے ہے : موعدک یوم الجمعہ موعدک موضع کذا اس میں فصیح واعدتہ کہنا ہے۔ ابو اسحاق زجاج نے کہا : یہاں واعدنا الف کے ساتھ بہتر ہے کیونکہ طاعت کا قبول کرنا مواعدہ کے قائم مقام ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے قبول اور اتباع ہے۔ یہ مواعدہ کے قائم مقام ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : ابو عبیدہ نے وعدنا کو ترجیح دی ہے۔ یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ کے وعدہ کو قبول کرنا اور اس کا التزام کرنا یہ مواعدہ کے مشابہ ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد موسیٰ یہ عجمی اسم ہے۔ عجمہ اور تعریف کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ ایک روایت کے مطابق قبطی لوگ پانی کو موادر درخت کو شا (سا) کہتے ہیں۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تابوت میں پانی اور درخت کے پاس پائے گئے تو انہیں موسیٰ کہا گیا (1) ۔ سدی نے کہا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو ان پر خوف ہوا تو اس نے انہیں ایک تابوت میں رکھ دیا اور دریا میں پھینک دیا۔۔۔۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے الہام کیا تھا۔۔۔۔۔ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ نام رکھا گیا (2) ۔ نقاش وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ جس عورت نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھایا تھا اس کا نام صابوت تھا۔ ابن اسحاق نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ موسیٰ بن عمران بن یصہر قاہث بن لاوی بن یعقوب اسرائیل اللہ بن اسحاق بن ابراہیم (علیہ السلام) (3) ۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اربعین لیلۃً ، اربعین مفعول ثانی کی بنا پر منصوب ہے اور کلام میں حذف ہے۔ اخفش نے کہا : تقدیر عبارت اس طرح ہے : واذ واعدنا موسیٰ تمام اربعین لیلۃ جیسا کہ وسء ل القریۃ (یوسف : 82) میں مضاف حذف ہے الاربعون تمام اس وعدہ میں داخل ہیں۔ اکثر مفسرین کا قول ہے کہ یہ چالیس دن ذی القعدہ کا مہینہ اور دس دن ذی الحجہ کے تھے اور یہ اس کے بعد ہوا جب آپ نے دریا عبور کرلیا تھا اور آپ کی قوم نے آپ سے مطالبہ کیا کہ اللہ کی طرف سے ہمارے پاس کتاب لے آئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ستر چیدہ افراد لے کر باہر نکلے اور ایک پہاڑ پر چڑھے اور ان سے مکمل چالیس راتوں کا وعدہ فرمایا، تو مفسرین کے قول کے مطابق انہوں نے بیس دن اور بیس راتیں شمار کیں اور کہنے لگے : ہم سے وعدہ خلافی ہوئی ہے۔ پس انہوں نے ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ سامری نے انہیں کہا : یہ تمہارا خدا ہے اور موسیٰ کا خدا ہے، وہ سامری کی اس بات پر مطمئن ہوگئے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انہیں منع فرمایا اور فرمایا : یقوم انما فتنتم بہ وان ربکم الرحمٰن فاتبعونی واطیعوا امری۔ قالوا لن نبرح علیہ عکفین حتی یرجع الینا موسیٰ ۔ (طہٰ ) (اے میری قوم تم تو فتنہ میں مبتلا ہوگئے اس سے اور بلاشبہ تمہارا رب تو وہ ہے جو بےحد مہربان ہے پس تم میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو تو قوم نے کہا ہم تو اسی کی عبادت پر جمے رہیں گے یہاں تک کہ لوٹ آئیں ہماری طرف موسیٰ (علیہ السلام ) ۔ حضرت ہارون کی صرف بارہ ہزار نے بات مانی باقیوں نے بچھڑے کی عبادت ترک کرنے میں حضرت ہارون کی اتباع نہ کی اور تمام لوگ اس بچھڑے کی عبادت میں گر گئے اور وہ دس لاکھ سے زائد تھے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) واپس آئے تو انہیں اس حال میں پایا آپ نے تختیاں نیچے ڈال دیں۔ پس ان میں سے چھ اجزاء اٹھا لئے گئے اور ایک تختی باقی رہ گئی جس میں حرام، حلال اور جن احکام کی انہیں احتیاج تھی وہ باقی رہ گئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ کو سمندر میں بکھیر دیا، بنی اسرائیل نے بچھڑے کی محبت کی وجہ سے اس دریا کا پانی پیا۔ پس ان کے ہونٹوں پر زردی ظاہر ہوئی اور ان کے پیٹ پھول گئے۔ پھر انہوں نے توبہ کی تو ان کی توبہ قبول نہ ہوئی حتیٰ کہ وہ اپنے آپ کو قتل کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فتوبوا الی بارئکم فاقتلوا انفسکم (البقرہ : 54) پس چاہئے کہ توبہ کرو اپنے خالق کے حضور سو قتل کرو اپنے آپ کو۔ پس انہوں نے خنجر اور تلواریں اٹھائیں اور سورج کے طلوع ہونے سے چاشت کے بلند ہونے تک ایک دوسرے کو قتل کرتے رہے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا کسی والد نے اپنے بیٹے کے بارے میں اور کسی بیٹے نے والد کے بارے میں، اور بھائی نے بھائی کے بارے میں نہ پوچھا جو سامنے آیا اسے تلوار سے قتل کردیا اسی طرح ہر ایک نے اپنی مثل کو قتل کیا حتیٰ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر التجا کی : یارب ! بنی اسرائیل تو ختم ہوگئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور ان پر اپنا فضل فرمایا۔ پس جو باقی بچ گئے ان کی توبہ قبول فرمائی اور جو مارے گئے انہیں شہداء میں شمار کردیا جیسا کہ آگے آئے گا مسئلہ نمبر 4: اگر کہا جائے کہ راتوں کو ذکر کے ساتھ خاص کیوں کیا گیا دنوں کا ذکر کیوں نہیں فرمایا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رات دن سے پہلے ہوتی ہے، یہ رتبہ میں دن سے بلند ہے۔ اسی وجہ سے تاریخ راتوں کے ساتھ واقع ہوتی ہے۔ راتیں مہینوں کا آغاز ہیں اور دن ان کے تابع ہیں۔ مسئلہ نمبر 5: نقاش نے کہا : اس آیت میں صوم وصال کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اگر دنوں کا ذکر فرماتا تو یہ اعتقاد ممکن تھا کہ وہ رات کو افطار کرتے تھے۔ جب راتوں پر نص قائم فرما دی تو کلام کی قوت تقاضا کرتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چالیس دن، راتوں سمیت صوم وصال رکھا۔ ابن عطیہ نے کہا : میں نے اپنے باپ سے سنا، وہ فرما رہے تھے : میں نے شیخ، زاہد، امام، واعظ ابو الفضل الجوہری (رح) سے سنا وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اور نماز میں اس کے قریب ہونے کے بارے میں وعظ فرما رہے تھے کہ نماز کھانے پینے سے غافل کردیتی ہے اور وہ فرما رہے تھے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا کتنا قرب نصیب ہوگا کہ انہوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کی طرف جاتے ہوئے اپنے نوجوان ساتھی کو کہا تھا : آتنا غداءنا، اس قول کی وجہ سے انہوں نے زمانہ کے اسی روزے وصال کے ساتھ رکھے (1) ۔ میں کہتا ہوں : اس آیت سے علماء صوفیہ نے وصال پر استدلال کیا ہے اور ان میں افضل چالیس دن ہیں۔ مزید کلام صوم وصال پر، آیت صیام کے تحت اسی سورت میں آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ اور اس آیت کے مزید احکام سورة اعراف میں ووعدنا موسیٰ ثلثین لیلۃً (اعراف :142) کے تحت آئیں گے۔ اور بچھڑے کا قصہ، اس کی کیفیت کا بیان اور اس کا ڈکارنا وغیرہ کا ذکر سورة اعراف میں اور سورة طہٰ میں آئے گا۔ ان شا ءللہ تعالیٰ ۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشا ہے : ثم اتخذتم العجل من بعدہ یعنی تم نے بچھڑے کو معبود بنا لیا موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد۔ اتخذتم اصل میں ائتخذتم تھا یہ الاخذ سے مشتق ہے۔ اس کا وزن افتعلتم ہے دو ہمزوں کے امتناع کی وجہ سے دوسرے ہمزہ میں تسہیل کی گئی پھر ایتخذتم ہوا، اور یاء گردان میں مضطرب رہتی ہے یاتخذ میں الف ہوگئی موتخذ میں واو ہوگی۔ پس یہاں یاء کو ایک پختہ حرف سے بدلا گیا جو ما بعد کی جنس سے تھا اور وہ تاء ہے پھر ادغام کیا گیا پھر الف وصل کو نطق (بولنے) کے لئے لایا گیا۔ کبھی اس الف سے استغناء کیا جاتا ہے جب کلام کا معنی تقریر ہو جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قل اتخذتم عند اللہ عھدًا (البقرہ : 80) الف تقریر کی وجہ سے الف وصل سے استغناء کیا گیا۔ شاعر نے کہا : استحدث الرکب عن اشیاعھم خبراً ام راجع القلب من اطرابہ طرب اس شعر میں الف وصل ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ الف تقریر موجود تھا۔ اسی طرح قرآن میں ہے : اطلع الغیب (مریم :78) اصطفی البنات (الصافات :153) استکبرت ام کنت من العالمین۔ (ص) ان تینوں مثالوں میں تقریر کی وجہ سے الف وصل ذکر نہیں کیا گیا۔ ابو علی فارسی کا مذہب یہ ہے کہ اتخذتم یہ تخذ سے ہے نہ کہ اخذ سے ہے۔ وانتم ظلمون یہ جملہ حال ہے، ظلم کا معنی پہلے گزر چکا ہے۔
Top