Al-Qurtubi - Al-Baqara : 50
وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰكُمْ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ : اور جب فَرَقْنَا : ہم نے پھاڑ دیا بِكُمُ : تمہارے لیے الْبَحْرَ : دریا فَاَنْجَيْنَاكُمْ : پھر تمہیں بچا لیا وَاَغْرَقْنَا : اور ہم نے ڈبو دیا آلَ فِرْعَوْنَ : آل فرعون وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ : اور تم دیکھ رہے تھے
اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا تو تم کو تو نجات دی اور فرعون کی قوم کو غرق کردیا اور تم دیکھ ہی تو رہے تھے
آیت نمبر 50 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ فرقنا بکم البحرفانجینکم، اذ محل نصب میں ہے اور فرقنا کا مطلب ہے ہم نے پھاڑ دیا، ہر حصہ ایک بڑے پہاڑ کی طرح۔ الفرق کا معنی جدا ہونا ہے۔ اسی سے فرق الشعر اسی سے الفرقان ہے کیونکہ قرآن نے حق و باطل کے درمیان جدائی کی۔ اسی سے فالفا رقات فرقاً ہے یعنی ملائکہ حق و باطل کے درمیان فرق کے ساتھ اترتے ہیں اسی سے یوم الفرقان ہے یعنی جنگ بدر کا دن۔ اس دن حق و باطل کے درمیان فرق ہوا۔ اسی سے وقرآنا فرقناہ یعنی قرآن کو ہم نے بیان کیا اور اسے ہم نے پختہ کیا۔ زہری نے فرقنا را کی شد کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی ہم نے اسے جدا جدا کردیا۔ بکم کا معنی لکم ہے۔ با بمعنی لام ہے۔ بعض نے فرمایا : با اپنے معنی میں ہے۔ مطلب یہ ہے فرقنا البحر بدخولکم ایاہ۔ ہم نے دریا کو پھاڑ دیا تمہارے اس میں داخل ہونے کے ساتھ۔ یعنی وہ دو پانیوں کے درمیان ہوگئے یعنی ان کے ساتھ جدائی ہوگئی۔ یہ اولیٰ ہے فانفلق اس معنی کو بیان کرتا ہے۔ البحر اس کا یہ نام اس کی وسعت کی وجہ سے ہے۔ کہا جاتا ہے : فرس بحرٌ جبکہ گھوڑا زیادہ چلنے والا ہو۔ اسی سے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مندوب گھوڑے کے بارے میں ہے جو ابو طلحہ کا تھا۔ وان وجدناہ لبحر اً ہم نے اسے تیز رفتار پایا (1) ۔ البحر، نمکین پانی کو بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : ابحر الماء پانی نمکین ہوگیا۔ نصیب شاعر نے کہا : وقد عاد ماء الارض بحراً فزادنی الی مرضی ان ابحر المشرب العذب زمین کا پانی نمکین ہوگیا اس نے میری مرض میں اضافہ کیا کہ میٹھا پانی نمکین ہوگیا۔ البحر : شہر کو بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : ھذہ بحرتنا یعنی یہ ہمارا شہر ہے۔ یہ اموی نے کہا ہے۔ البحر اس زخم کو بھی کہتے ہیں جو انسان کے گردے میں لگ جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں : لقیتہ صحرۃً بحرۃً یعنی اس میں سے بالکل واضح اور کھلے انداز میں ملا۔ کعب الاحبار سے ایک خبر میں مروی ہے، فرمایا : اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہے جس کا نام صند فائیل ہے۔ تمام دریا اس کے انگوٹھے کے گڑھے میں ہیں۔ ابو نعیم نے یہ روایت ثور بن یزید عن خالد بن معدان عن کعب کے سلسلہ سے روایت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فانجینکم یعنی ہم نے تمہیں اس دریا سے نکالا۔ کہا جاتا ہے : نجوت من کذا نجاءٌ ونجاۃً میں نے اسے اس سے نکالا۔ اس کا مصدر نجاء (ممدود) اور نجاۃ (مقصور) دونوں طرح آتا ہے۔ الصدق منجاۃٌ سچ نجات دینے والا ہے۔ انجیت غیری ونجیتہ دونوں طرح پڑھا گیا ہے ( واذ نجینا کم اور فانجیناکم) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واغرقنا ال فرعون۔ کہا جاتا ہے : غرق فی الماء غرقا فھو غریق وغارق۔ اسی سے ابو النجم کا قول ہے : من بین مقتول وطافٍ غارقٍ اغرقہ وغرقہ فھو مغرق وغریقٌ۔ لجام مفرق بالفضۃ۔ یعنی چاندی سے مزین لگام۔ التغریق کا مطلب قتل بھی ہے۔ اعشی نے کہا : الا لیت قیسا غرقتہ القوابل (کاش ! قیس کو دایہ عورتیں قتل کر دیتیں) چونکہ دایہ عورت قحط کے سال نومولود کو جیلی کے پانی میں غرق کردیتی تھی خواہ وہ مذکر ہوتا یا مؤنث حتیٰ کہ وہ مرجاتا پھر ہر قتل کو تغریق بنایا گیا۔ اسی سے ذوالرمہ کا قول ہے : اذا غزقت ارباضھا ثنی بکرۃٍ بتیھاء لم تصبح رء وماً سلوبھا یعنی جب رسیوں نے جو ان اونٹنی کے دوسرے بطن کو قتل کر ڈالا تو وہ تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے بچے پر مہربان نہ ہوئی۔ بنی اسرائیل کے نجات پانے کی کیفیت میں علماء کے مختلف اقوال طبری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی کہ وہ مصر سے بنی اسرائیل کو رات کے وقت لے کر چلیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو کہا کہ وہ قبطیوں عاریۃً سامان اور زیورات لیں۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے یہ حلال کردیا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو رات کے ابتدائی حصہ میں لے کر چلے۔ فرعون کو پتا چلا تو اس نے کہا : کوئی شخص ان کا پیچھا نہ کرے حتیٰ کہ مرغ اذان دے۔ اس رات مصر میں کسی مرغ نے اذان نہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات بہت سے قبطیوں کے بیٹوں کو موت دی، وہ ان کے دفن میں مشغول ہوگئے۔ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے اس وقت نکلے جب سورج چڑھ چکا تھا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فاتبعوھم مشرقین۔ (الشعراء) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دریا کی جانب چلے تھے حتیٰ کہ اس کے کنارے پر پہنچ گئے۔ بنی اسرائیل کی تعداد چھ لاکھ سے کچھ زائد تھی اور فرعونیوں کی تعداد بارہ لاکھ تھی (1) ۔ بعض علماء نے فرمایا : فرعونیوں نے دس لاکھ گھوڑوں کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ ان میں مؤنث گھوڑی کوئی نہیں تھی۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت یعقوب (علیہ السلام) مصر میں اپنی اولاد کے ساتھ 76 افراد میں داخل ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد کو بڑھایا اور ان کی اولاد میں برکت دی حتیٰ کہ فرعونیوں سے نکل کر دریا کی طرف گئے تو وہ بوڑھوں اور بچوں اور عورتوں کے علاوہ چھ لاکھ تھے۔ ابوبکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے، فرمایا : ہمیں شبابہ بن سوار نے انہوں نے یونس بن اسحاق سے انہوں نے عمرو بن میمون سے انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت کر کے بتایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب بنی اسرائیل کو لے کر رات کو چلے تو فرعون کو خبر پہنچی۔ اس نے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا۔ وہ ذبح کی گئی۔ پھر اس نے کہا : اس کی کھال اتارنے سے فراغت سے پہلے میرے لئے چھ لاکھ قبطی جمع ہوں۔ فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چلتے رہے حتیٰ کہ دریا تک پہنچ گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریا سے کہا : پھٹ جا۔ دریا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : اے موسیٰ ! تو نے تکبر کیا ہے، کیا میں اولاد آدم میں سے کسی کے لئے پھٹا ہوں کہ تمہارے لئے پھٹ جاؤں ؟ راوی نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ایک شخص اپنے گھوڑے پر سوار تھا۔ اس شخص نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : اے اللہ کے نبی ! کہاں کا حکم ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : مجھے اسی جانب جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پس اس شخص نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ وہ گھوڑا تیرتا ہوا باہر نکل گیا۔ پھر اس شخص نے پوچھا : اب کس سمت کا حکم دیا گیا ہے ؟ فرمایا : اس طرف کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم ! نہ تو نے جھوٹ بولا ہے اور نہ تجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے پھر دوبارہ اس نے گھوڑا دریا میں ڈالا وہ تیرتا ہوا باہر نکل گیا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے نبی ! کہاں کا حکم دیا گیا ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : مجھے اسی طرف جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس شخص نے کہا : اللہ کی قسم ! نہ آپ نے جھوٹ بولا اور نہ آپ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت (علیہ السلام) کی طرف وحی کی۔ ان اضرب بعصاک البحر (الشعراء : 63) (کہ اپنا عصا دریا پر مارو) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عصا مارا تو دریا پھٹ گیا اور ہر حصہ بڑے پہاڑ کی طرح تھا اس میں بارہ راستے تھے کیونکہ بارہ قبائل تھے ہر قبیلہ کا ایک راستہ تھا وہ ایک دوسرے کو دکھائی دیتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پانی کے پہاڑوں میں کھڑکیاں اور سوراخ تھے جس سے وہ ایک دوسرے کو دیکھتے تھے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ باہر نکل گئے اور فرعونی ابھی دریا کے اندر تھے تو دریا نے انہیں طمانچے مارے اور انہیں غرق کردیا۔ ذکر کیا جاتا ہے کہ وہ بحر قلزم تھا اور وہ شخص جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ گھوڑے پر سوار تھا وہ نوجوان یوشع بن نون تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دریا کی طرف وحی فرمائی کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے پھٹ جائے جب وہ تجھ پر ضرب لگائیں۔ وہ دریا اس رات موجیں مارتا رہا جب صبح ہوئی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریا کو مارا اور اس کی کنیت ابو خالد رکھی۔ ابن ابی شیبہ نے بھی اس کو ذکر کیا ہے۔ اکثر مفسرین نے قصص میں یہ معنی بیان کیا ہے اور جو ہم نے ذکر کیا ہے وہ کافی ہے۔ مزید بیان انشاء اللہ تعالیٰ سورة یونس اور سورة الشعراء میں آئے گا۔ فصل : اللہ تعالیٰ نے نجات دینے اور غرق کرنے کا ذکر فرمایا اور اس دن کا ذکر نہیں فرمایا جس میں یہ سب کچھ ہوا۔ مسلم نے حضرت ابن عباس سے روایت فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو یہود کو پایا کہ وہ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو ؟ یہودیوں نے کہا : یہ ایک عظیم دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس دن بطور شکر روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تم سے زیادہ قریبی ہیں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم بھی دیا (1) ۔ یہ حدیث بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا : تم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیروی کرنے کے ان سے زیادہ مستحق ہو۔ پس تم روزہ رکھو۔ مسئلہ : ان احادیث کا ظاہر دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اقتدا میں اس دن کے روزے کا حکم دیا جیسا کہ یہود نے اس کے متعلق بتایا۔ حقیقت اس طرح نہیں کیونکہ حضرت عائشہ ؓ نے روایت کیا ہے، فرمایا : عاشوراء کے دن قریش زمانہ جاہلیت میں روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ زمانہ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے جب آپ ﷺ مدینہ طیبہ آئے تو خود بھی یہ روزہ رکھا اور اس روزے کا حکم بھی فرمایا۔ جب رمضان فرض ہوا تو عاشوراء کے دن کا روزہ ترک کردیا اور فرمایا : جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے یہ روزہ ترک کر دے (1) بخاری اور مسلم نے یہ حدیث نقل کی ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہ احتمال ہے کہ قریش نے یہود کے خبر دینے کی وجہ سے یہ روزہ رکھا ہو کیونکہ وہ ان سے سنتے تھے کیونکہ یہودان کے نزدیک اہل علم تھے۔ پس نبی کریم ﷺ نے اسی طرح زمانہ جاہلیت میں مکہ میں روزہ رکھا ہو۔ جب آپ مدینہ طیبہ آئے اور یہود کو یہ روزہ رکھتے ہوئے پایا تو فرمایا : ہم تمہاری نسبت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زیادہ قریبی اور پیروی کے زیادہ مستحق ہیں (2) ۔ پس آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اتباع میں روزہ رکھا۔ امر بصیامہ یعنی اس دن کے روزہ کے امر کو مؤکد فرمایا حتیٰ کہ چھوٹے بچے بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ ہم کہیں گے : یہ اس شخص کا شبہ ہے جو کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ شاید حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت کے مکلف تھے حالانکہ حقیقت ایسی نہیں جیسا کہ سورة انعام آیت 90 میں فبھدھم اقتدہ کے تحت مزید بیان آئے گا۔ مسئلہ : عاشوراء کے دن میں اختلاف ہے۔ کیا یہ نویں محرم الحرام کا دن ہے یا دسویں کا۔ امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ یہ نویں کا دن ہے۔ ان کی دلیل حکم بن اعرج کی حدیث ہے۔ انہوں نے کہا : میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس گیا وہ زمزم کے پاس اپنی چادر کو تکیہ بنائے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے کہا : مجھے عاشوراء کے روزہ کے متعلق بتاؤ۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جب تو محرم کا چاند دیکھے تو شمار کر اور تو نویں محرم الحرام کو روزہ سے ہو۔ میں نے پوچھا : کیا حضرت محمد ﷺ اس طرح روزہ رکھتے تھے ؟ انہوں نے کہا : ہاں (3) ۔ یہ مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرات سعید بن مسیب، حسن بصری، امام مالک اور سلف کی ایک جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ وہ دسویں کا دن ہے۔ امام ترمذی نے حضرت حکم کی حدیث ذکر کی ہے اور اس پر صحت وحسن کا کوئی حکم بیان نہیں کیا پھر اس کے بعد یہ ذکر کیا : انبانا قتیبۃ انبأنا عبد الوارث عن یونس عن الحسن عن ابن عباس قالامر رسول اللہ ﷺ بصوم عاشوراء یوم العاشر۔ یعنی حضرت ابن عباس نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے دسویں کے دن عاشوراء کے روزے کا حکم دیا (4) ۔ پھر فرمایا : ابو عیسیٰ نے کہا : حضرت ابن عباس کی حدیث حسن، صحیح ہے۔ امام ترمذی نے کہا : حضرت ابن عباس سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا : نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ اس حدیث کی وجہ سے امام شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بھی یہی کہتے ہیں۔ دوسرے علماء نے کہا : حضرت ابن عباس کا سائل کو یہ کہنا : تو شمار کر اور نویں کے دن روزے سے ہو۔ اس میں دسویں کے روزے کے ترک پر کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وعدہ کیا کہ وہ دسویں کے ساتھ نویں کا بھی روزہ رکھے۔ پس دونوں دن روزہ رکھنا دونوں احادیث کو جمع کرنا ہے۔ اور حضرت ابن عباس کا حکم کو جواب جب اس نے پوچھا کیا رسول ﷺ روزہ رکھتے تھے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا : ہاں۔ اس کا مطلب ہے اگر آپ زندہ رہتے۔ وگرنہ نبی کریم ﷺ نے کبھی نویں محرم کا روزہ نہیں رکھا تھا۔ اس کا بیان اس روایت میں ہے جو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں اور مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لئن بقیت الی قابل لأصومن الیوم التاسع (1) اگر میں آئندہ سال تک باقی رہا تو میں نویں (محرم) کا روزہ ضرور رکھوں گا۔ فضیلت : حضرت ابو قتادہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : عاشوراء کے دن کا روزہ، اللہ تعالیٰ سے اس پر امید کی جاتی ہے کہ پچھلے سال کا کفارہ بن جائے (2) ۔ اس روایت کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : ہم کسی روایت کو نہیں جانتے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہو کہ عاشوراء کے دن کا روزہ سال کا کفارہ ہے (3) سوائے حضرت ابو قتادہ کی حدیث کے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانتم تنظرون یہ جملہ حال ہے۔ اس کا معنی ہے تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ فرعونی مردہ حالت میں پانی پر تیرنے لگے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھیوں نے انہیں غرق ہوتے دیکھا اور اپنی نجات کو بھی دیکھا۔ اس میں اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : وانتم تنظرون یعنی تم عبرت کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، کیونکہ وہ آنکھوں کے ساتھ دیکھنے اور آگاہ ہونے سے غافل تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی یہ ہے کہ تم اس آدمی کی حالت میں تھے جو دیکھنا چاہے تو دیکھ سکے جیسے تو کہتا ہے : ھذا الامر منک لمرأی ومسمع یعنی اس حالت میں ہے کہ تو اسے دیکھ سکے اور سن سکے اگر تو چاہے۔ یہ قول اور پہلا قول بنی اسرائیل کے احوال کے زیادہ مطابق ہے کیونکہ دریا سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل سے جو صادر ہوا اس میں متواتر عبرت نہیں ہے۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں نجات دی اور ان کے دشمن کو غرق کیا تو انہوں نے کہا : اے موسیٰ ! ہمارے دل مطمئن نہیں ہیں کہ فرعون غرق ہوگیا ہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا اس نے فرعون کو باہر پھینک دیا اور انہوں نے اسے دیکھا۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے قیس بن عباد سے روایت کیا ہے کہ بنی اسرائیل نے کہا : فرعون نہیں مرا اور وہ کبھی نہیں مرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے سنا کہ وہ اس کے نبی کو جھٹلا رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اسے دریا کے کنارے پر پھینک دیا گویا وہ سرخ بیل ہے۔ بنی اسرائیل نے اسے دیکھا جب وہ مطمئن ہوگئے تو انہیں خشکی کے راستہ سے فرعون کے شہروں کی طرف بھیجا گیا حتیٰ کہ انہوں نے اس کے خزانے منتقل کیے اور نعمتوں میں غرق ہوگئے۔ انہوں نے ایک قوم کو دیکھا کہ وہ بتوں کے پاس معتکف ہے ت، تو بنی اسرائیل نے اسے دیکھا جب وہ مطمئن ہوگئے تو انہیں خشکی کے راستہ سے فرعون کے شہروں کی طرف بھیجا گیا حتیٰ کہ انہوں نے اس کے خزانے منتقل کیے اور نعمتوں میں غرق ہوگئے۔ انہوں نے ایک قوم کو دیکھا کہ وہ بتوں کے پاس معتکف ہے، تو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : اے موسیٰ ! ہمارے لئے ایک معبود بنائیں جس طرح ان کے لئے معبود ہیں۔ حتیٰ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں جھڑکا اور فرمایا : کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ میں تمہارے لئے معبود تلاش کروں ؟ اس نے تمہیں اپنے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی ہے۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں ارض مقدس کی طرف چلنے کا حکم دیا جہاں ان کے آباء و اجداد کے گھر تھے، تاکہ وہ فرعون کی زمین سے پاک ہوجائیں۔ ارض مقدسہ اس وقت جابر لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو اس پر غالب تھے۔ پس انہیں اس زمین سے نکالنے کے لئے جنگ کی ضرورت تھی تو بنی اسرائیل نے کہا : (اے موسیٰ ! ) کیا تم ہمیں جابر لوگوں کے لئے شکار بنانا چاہتے ہو ؟ اگر تم ہمیں فرعون کے ہاتھ میں رہنے دیتے تو ہمارے لئے بہتر تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : یقوم ادخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم۔۔۔۔ الی قعدون۔ (المائدہ :21) (داخل ہوجاؤ اس پاک زمین میں جسے لکھ دیا ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے۔۔۔۔ الخ ) حتیٰ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لئے بد دعا فرمائی اور انہیں فاسقین کا نام دیا۔ پس وہ “ تیہ ” کے صحرا میں چالیس سال بطور سزا رہے پھر ان پر اللہ تعالیٰ نے سلویٰ اور بادل کے ذریعے احسان فرمایا۔۔۔۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔۔۔۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طور سیناء کی طرف چلے تاکہ ان کے لئے تورات لے آئیں۔ پس انہوں نے پیچھے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔۔۔۔ اس کا بیان آگے آئے گا۔۔۔۔ پھر انہیں کہا گیا : تم بیت المقدس پہنچ چکے ہو تو دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو اور حطۃ ٌ کہتے ہوئے داخل ہو۔۔۔۔ اس کا بیان بھی آگے آئے گا۔۔۔۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انتہائی حیاء دار اور پردہ پوش تھے۔ بنی اسرائیل نے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خصیتین کی بیماری ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) غسل کرنے لگے تو اپنے کپڑے ایک پتھر پر رکھے تو وہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بنی اسرائیل کی مجالس کی طرف بھاگ گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) برہنہ اس کے پیچھے دوڑے اور کہہ رہے تھے : اے پتھر ! میرے کپڑے۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے یہی مراد ہے : یایھا الذین امنوا لا تکونوا کالذین اذوا موسیٰ فبراہ اللہ مما قالوا (احزاب :69) (1) اس کا بیان بھی آگے آئے گا۔۔۔۔ پھر جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وصال ہوگیا تو بنی اسرائیل نے کہا : تو نے ہارون کو قتل کیا ہے اور تو نے اس سے حسد کیا ہے حتیٰ کہ ملائکہ ان کی چارپائی لے آئے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) اس پر مردہ تھے۔ اس کا بیان سورة مائدہ میں آئے گا۔ پھر انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ وہ اپنی قربانی کی قبولیت کی نشانی جان لیں۔ پس ایک آگ آسمان سے آتی (اور ان کی قربانیوں کو کھا جاتی) تو یہ ان کی قربانیوں کی قبولیت کی نشانی تھی۔ پھر بنی اسرائیل نے سوال کیا کہ ہمارے لئے آپ دنیا میں گناہوں کے کفارات کو بیان فرمائیں۔ پس جو گناہ کرتا اس کے دروازے پر لکھا جاتا عملت کذا تو وہ پاک نہ ہوتا تھا حتیٰ کہ وہ کپڑے کو کاٹ دیتا تھا اور اپنے بدن سے جلد کو دور کردیتا تھا پھر انہوں نے تورات کو بدلا اور اللہ تعالیٰ پر افترا باندھا، اپنے ہاتھوں سے تورات میں لکھا اور تورات کے عوض سامان زندگی لیا، پھر یہاں تک پہنچے کہ اپنے انبیاء اور رسل کو قتل کیا یہ ان کے معاملات اپنے رب کے ساتھ تھے اور ان میں ان کا یہ کردار تھا اور یہ ان کا برا اخلاق تھا۔ انشاء اللہ ان میں سے ہر فصل کا پورا بیان اپنے مقام پر آئے گا۔ طبری نے کہا : ان مغیبات کا حضرت محمد ﷺ کی زبان کے ذریعے قرآن میں بیان جن کا عربوں کو علم نہ تھا اور یہ بنی اسرائیل کے حق میں واقع ہوئے تھے۔ یہ بنی اسرائیل کے پاس حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی واضح دلیل تھے (2) ۔
Top