Al-Qurtubi - Al-Baqara : 57
وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى١ؕ كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ١ؕ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَظَلَّلْنَا : اور ہم نے سایہ کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْغَمَامَ : بادل وَاَنْزَلْنَا : اور ہم نے اتارا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَنَّ وَالسَّلْوٰى : من اور سلوا كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ ۔ طَيِّبَاتِ : سے۔ پاک مَا رَزَقْنَاكُمْ : جو ہم نے تمہیں دیں وَ مَاظَلَمُوْنَا : اور انہوں نے ہم پر ظلم نہیں کیا وَلَٰكِنْ : لیکن کَانُوْا : تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنی جانیں يَظْلِمُوْنَ : وہ ظلم کرتے تھے
اور بادل کا تم پر سایہ کیے رکھا اور (تمہارے لئے) من وسلوٰی اتارتے رہے کہ جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ پیو (مگر تمہارے بزرگوں نے ان نعمتوں کی کچھ قدر نہ جانی) اور وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ تے تھے بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے تھے
آیت نمبر 57 اس میں آٹھ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وظللنا علیکم الضمام یعنی ہم نے بادل کو تم پر چھتری کی مانند کردیا۔ الغمام جمع ہے غمامۃ کی جیسے سحابۃ اور سحاب۔ یہ اخفش سعید نے کہا ہے۔ فراء نے کہا : غمائم بھی جائز ہے اس سے مراد بادل ہیں کیونکہ وہ آسمان کو ڈھانپ دیتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو ڈھانپی گئی ہو وہ مغموم ہے۔ اسی سے المغموم علی عقلہ اور غم الھلال ہے جب چاند کو بادل ڈھانپ دے۔ الغین بھی الغیم کی مثل ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : انہ لیعان علی قلبی۔ میرے دل پر چھا جائے۔ صاحب العین نے کہا : غین علیہ کا مطلب اسے ڈھانپا گیا۔ الغین گھنے درختوں کو کہتے ہیں۔ سدی نے کہا : الغمام سفید بادلوں کو کہتے ہیں (1) ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ اس لئے یہ کیا تھا تاکہ دن کے وقت انہیں سورج کی گرمی سے بچائے اور دن کے آخر میں بادل چھٹ جاتا تاکہ وہ چاند سے رات کے وقت روشنی حاصل کریں۔ مفسرین نے نقل کیا ہے کہ یہ ان پر مصر اور شام کے درمیان تیہ کے صحراء میں ہوا تھا جب انہوں نے جبار لوگوں کے شہر میں داخل ہونے اور ان سے جنگ کرنے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا : فاذھب انت وربک فقائلا (المائدہ :24) پس انہیں اسی جگہ سزا دی گئی چالیس سال پانچ چھ فراسخ میں گھومتے رہے۔ روایت ہے کہ وہ دن کو چلتے تھے اور رات کو ٹھہرتے تھے۔ پس وہ وہاں ہی صبح کرتے جہاں گزشتہ کل صبح کرتے تھے، جب وہ تیہ میں جمع تھے تو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : ہمارے لئے کھانا کون لائے گا، اللہ تعالیٰ نے ان پر من وسلویٰ اتارا۔ پھر انہوں نے کہا : ہمیں سورج کی گرمی سے کون بچائے گا اللہ تعالیٰ نے ان پر بادلوں کا سایہ کردیا۔ پھر انہوں نے کہا : ہم چراغ کس کے ساتھ جلائیں گے، اللہ تعالیٰ نے ان کے محلے کے درمیان ایک نور کا ستون بنا دیا۔ مکی نے ذکر کیا ہے کہ وہ آگ کا ستون تھا۔ انہوں نے کہا : ہمارے لئے پانی کون لائے گا، اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پتھر پر عصا مارنے کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا : ہمارے لئے لباس کون لائے گا، انہیں ایسا لباس دیا گیا جو نہ پرانا ہوتا، نہ بوسیدہ ہوتا اور نہ میلا ہوتا اور بچوں کے بڑھنے کے مطابق ان کے کپڑے بڑے ہوتے جاتے۔ واللہ اعلم (2) مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانزلنا علیکم المن والسلوٰی۔ المن کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ کیا ہے۔ اس کی تعیین کئی اقوال پر ہے : بعض نے کہا : ترنجبین ہے۔ یہ نحاس نے ذکر کیا ہے۔ الطرنجبین (طا کے ساتھ بھی کہا جاتا ہے) یہ اکثر مفسرین کا قول ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : المن سے مراد میٹھی گوند ہے۔ بعض نے فرمایا : شہد ہے بعض نے فرمایا : میٹھی شراب ہے۔ بعض نے فرمایا : باریک روئی ہے۔ یہ وہب بن منبہ سے مروی ہے۔ بعض نے فرمایا : المن مصدر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بغیر کسی تھکن اور کھیتی باڑی کے احسان فرمایا اس تمام کو شامل ہے (3) ۔ اسی سے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل کی حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : الکمأۃ من المن الذی انزل علی بنی اسرائیل وماء ھا شفاء للعین (4) وفی روایۃ من المن الذی انزل اللہ علی موسیٰ ۔ یعنی کھمبی اس من میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر نازل کیا۔ کھمبی کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے۔ ایک روایت میں ہے، اس من میں سے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا۔ اس کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ کھمبی اس میں سے ہے جو اللہ نے بنی اسرائیل پر نازل کیا یعنی جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے تیہ کے صحرا میں پیدا فرمایا تھا۔ ابو عبیدہ نے کہا : کھمبی کو المن کے ساتھ تشبیہ دی ہے کیونکہ اس میں بیج ڈالنے، پانی لگانے اور دیکھ بھال کرنے کی مشقت نہیں۔ پس یہ کھمبی بنی اسرائیل کے من سے ہے کیونکہ یہ بغیر مشقت کے ملی تھی۔ روایت ہے کہ ان پر من فجر کے طلوع ہونے سے لے کر سورج کے طلوع ہونے تک اولوں کی طرح اترتا تھا۔ ہر شخص اپنے لئے اس دن کی خوراک لے لیتا تھا، جو اس سے ذخیرہ کرتا تھا وہ خراب ہوجاتا تھا، مگر جمعہ کے دن وہ ہفتہ کے دن کے لئے ذخیرہ کرتے تھے تو وہ خراب نہیں ہوتا تھا، کیونکہ ہفتہ ان کی عبادت کا دن تھا، ہفتہ کے دن ان پر کچھ نازل نہیں ہوتا تھا۔ (1) مسئلہ نمبر 3: نبی کریم ﷺ نے نص فرمائی کہ کھمبی کا پانی آنکھ کے لئے شفا ہے۔ بعض علمائے طب نے فرمایا : آنکھ میں جو حرارت ہوتی ہے اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے صرف اس کا پانی استعمال کیا جاتا ہے اور کسی اور مرض کے لئے دوسری دوا میں مرکب ہو کر استعمال ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ آنکھ کی ہر مرض کے لئے خالص اس کا پانی استعمال کرنے کا نظریہ رکھتے تھے (2) ۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ابو وجزہ تمام امراض کے لئے شہد استعمال کرتے تھے حتیٰ کہ آنکھوں کی تکلیف کے لئے بھی شہد استعمال کرتے تھے۔ اس کا بیان سورة النحل میں ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اہل لغت نے کہا : الکم واحد ہے، اس کا تثنیہ کمأن ہے اور تین ہو تو اکمؤ کہا جاتا ہے اور جب زیادہ ہوں تا کمأۃ (تاء کے ساتھ) آتا ہے۔ شجرۃ اور شجر کے برعکس استعمال ہوتا ہے۔ المن اسم جنس ہے لفظوں میں اس کا واحد نہیں ہے جیسے الخیر اور الشر۔ یہ اخفش نے کہا ہے۔ مسئلہ نمبر 4: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : السلوٰی۔ السلوٰی کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ بٹیر ہے۔ یہ ضحاک کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : باجماع مفسرین السلوٰی پرندہ ہے۔ ہذلی نے غلطی کی ہے، اس نے کہا : وقاسمھا باللہ جھداً لانتم الذمن السلوی اذا ما نشورھا اس نے اس شعر میں سلوی سے شہد مراد لیا ہے۔ میں کہتا ہوں : ابن عطیہ نے مفسرین کے اجماع کا جو دعویٰ کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ مؤرج جو لغت اور تفسیر کے علماء میں سے ہے انہوں نے کہا : السلوٰی سے مراد شہد ہے اور اس نے ہذلی کے مذکور شعر سے استدلال کیا ہے۔ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ لغت کنانہ اس طرح ہے۔ اس کو سلوی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے تسلی ہوتی ہے۔ اسی سے عین السلوان ہے (بیت المقدس میں ایک چشمہ ہے جس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔ ) جیسے شعر میں ہے : لو اشرب السلوان ما سلیت ما بی غنی عنک وان غنیت اسی طرح جوہری نے کہا : السلوی۔ شہد ہے اس نے بھی ہذلی کا بیت ذکر کیا ہے۔ الذ من السلوی اذا ما نشورھا اور انہوں نے غلطی کا ذکر نہیں کیا۔ السلوانۃ، یہ ایک سپی ہے۔ لوگ کہتے ہیں جب اس پر بارش کا پانی ڈالا جائے اور پھر عاشق اس کو پی لے تو اسے تسلی ہوجاتی ہے۔ اس پانی کا نام سلوان ہے۔ بعض نے فرمایا : السلوان ایک دوا ہے جس کو غمگین پیتا ہے تو اس کو تسلی ہوتی ہے۔ اطباء اس کو مفرح کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے : سلیت وسلوت یہ دو لغتیں ہیں۔ وھو فی سلوۃٍ من العیش، وہ خوشحال زندگی میں ہے۔ یہ ابو زید سے مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 5: السلوٰی کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ جمع ہے یا مفرد ہے۔ اخفش نے کہا : یہ لفظاً جمع ہے اس کا واحد نہیں ہے جیسے الخیر اور الشر ہے اور اس کا واحد سلویٰ بھی جمع سلویٰ کے مشابہ ہے جیسے کہتے ہیں دفلی یہ واحد اور جمع کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ سمانی شکاعی یہ بھی واحد اور جمع کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ خلیل نے کہا : اس کا واحد سلواۃ ہے جیسے اس شعر میں ہے : (1) انی لتعرونی لذکرک ھذۃٌ کما انتقص السلواۃ من بلل القطر کسائی نے کہا : السلوی واحد ہے اور اس کی جمع سلاویٰ ہے۔ (2) مسئلہ نمبر 6: السلوٰی کا عطف، المن پر ہے۔ اس میں اعراب ظاہر نہیں ہے کیونکہ اسم مقصور ہے اور اسم مقصور میں اعراب ظاہر نہ کرنا واجب ہوتا ہے کیونکہ ہمیشہ اس کے آخر میں الف ہوتا ہے۔ خلیل نے کہا : الف، ہوائی حرف ہے اس کا کوئی مستقر نہیں ہے یہ حرکت کے مشابہ ہے اس کی حرکت محال ہے۔ فراء نے کہا : اگر الف کو حرکت دی جائے تو یہ ہمزہ ہوجاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 7: کلوا من طیبت ما رزقنکم اس میں حذف سے تقدیر کلام اس طرح ہے : وقلنا کلوا۔ اختصار اً ظاہر کی دلالت کی وجہ سے حذف کیا گیا۔ الطیبات کا لفظ یہاں حلال اور لذیذ دونوں معانی میں ہے۔ (3) مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وما ظلمونا اس سے پہلے فعصوا مقدر کیا جائے گا۔ انہوں نے نعمتوں کے مقابل شکر نہ کیا۔ ولکن کانوا انفسھم یظلمون بلکہ انہوں نے نعمتوں کے مقابلہ میں گناہوں کا ارتکاب کر کے اپنے اوپر ظلم کیا۔
Top