Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 5
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِفُرُوْجِهِمْ : اپنی شرمگاہوں کی حٰفِظُوْنَ : حفاطت کرنے والے
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں
مسئلہ نمبر 4 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذین ھم لفروجھم حفظون۔ ابن عربی نے کہا : قرآن کے غرائب میں سے ہے کہ یہ دس آیات مردوں اور عورتوں میں عام ہیں جیسے باقی قرآن کے الفاظ ہیں جو احتمال رکھتے ہیں کہ وہ مردوں اور عورتوں میں عام ہیں لیکن والذین ھم لفروجھم حفظون۔ کا قول اس کے مخاطب صرف مرد ہیں عورتوں کو اس میں خطاب نہیں کیونکہ آگے الا علی ازواجھم اومالکت ایمانھم کا قول آیا ہے اور عورتوں کا اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دوسرے دلائل سے ثابت ہے جیسے عموما اور خصوصا آیات احصان اور اس کے علاوہ جو دلائل موجود ہیں۔ میں کہتا ہوں : اس تاویل پر آیت میں یہ عورت کے لئے حلال نہیں کہ اس سے وہ شخص وطی کرے جس کی وہ مالک ہے اس پر علماء کا اجماع ہے کیونکہ وہ اس آیت میں داخل نہیں لیکن اگر وہ عورت غلام کو آزاد کردے تو اس غلام کے لئے اس عورت سے نکاح کرنا چائز ہے جس طرح دوسروں کے لئے جائز ہے، یہ جمہور کے نزدیک ہے۔ عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، شعبی اور نخعی سے مروی ہے کہ اگر وہ اپنے غلام کو آزاد کردے جب وہ اس کی مالک ہو تو وہ اپنے نکاح پر باقی رہیں گے۔ ابوعمر نے کہا : فقہاء الامصار میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کیونکہ جمہور علماء کے نزدیک اس کے مالک ہونے سے ان کے درمیان نکاح باطل ہوجائے گا اور یہ طلاق نہیں ہے۔ یہ نکاح کا فسخ ہے اگر مالک ہونے کے بعد اسے آزاد کردے تو رجوع نہیں ہوسکتا مگر حدیث نکاح کے ساتھ اگرچہ ہو عدت میں ہی ہو۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ محمد بن عبد الحکم نے کہا میں نے حرملہ بن عبد العزیز کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے امام مالک سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو استمناء کرتا ہے تو انہوں نے جوابا یہ آیت پڑھی۔ والذین ھم لفروجھم حفظون۔۔۔۔۔ العدون۔ عرب آلہ تناسل کو عمیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ شاعر نے کہا ہے۔ اذا حللت بواد لا انیس بہ فاجلد عمیرۃ لاداء ولا حرج اہل عراق اس کو الاستمناء کہتے ہیں یہ منی سے باب استفعال ہے۔ امام احمد بن حنبل اپنے تقوی وورع کے باوجود اسکو جائز قرار دیتے ہیں ان کی حجت یہ ہے کہ یہ بدن سے فضلہ کا اخراج ہے اور حاجت کے وقت یہ جائز ہے اور اس کی اصل پچھنے لگوانا اور خون نکلوانا ہے۔ اکثر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں۔ بعض علماء نے کہا : یہ اپنے ساتھ برائی کرنا ہے یہ وہ معصیت ہے جس کو شیطان نے ایجاد کیا ہے اور لوگوں میں اس کو پھیلا دیا حتیٰ کہ اس پر بات ہونے لگی کاش یہ نہ کی جاتی اگر اس کے جواز پر دلیل بھی ہوتی تو ایک صاحب مروت اس کی خست کی وجہ سے اعراض کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ استمنائ، لونڈی سے نکاح کرنے سے بہتر ہے۔ ہم کہیں گے لونڈی سے نکاح کرنا بہتر ہے خواہ کافرہ بھی ہو۔ یہ بعض علماء کے مذہب پر ہے۔ اگر کوئی یہ کہے۔ تو بھی استمناء کی دلیل ضعیف ہے اور خسیس آدمی کے لئے بھی عار اور شرم کا باعث ہے پھر ایک عظیم آدمی کے لئے کیسے درست ہوگا ؟ مسئلہ نمبر 6 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : الا علیٰ ازواجھم، فراء نے کہا یعنی وہ عورتیں جو اللہ نے ان کے لیے حلال کی ہیں ان سے تجاوز نہیں کرتے۔ او مالکت ایمانھم، یہ محل جر میں ہے اور ازواجھم پر معطوف ہے اور ما مصدر یہ ہے یہ زنا استمناء اور نکاح متعہ کی تحریم کا تقاضا کرتی ہے کیوں کہ جس عورت سے متعہ کیا گیا ہے وہ زوجات کے قائم مقام نہیں ہے وہ نہ وارث ہوتی ہے نہ اس کی میراث لیجاتی ہے۔ اور اس کا بچہ اس کے ساتھ لاحق نہیں کیا جاتا اور نکاح متعہ سے عورت کو طلاق دینے کے ساتھ نکاح سے خارج نہیں کرتا بلکہ اسی مدت کے گزرنے کے ساتھ اسے خارج کرتا ہے جو مدت انہوں نے متعین کی تھی وہ مستاجرہ کی طرح ہوتی ہے۔ ابن عربی نے کہا : اگر ہم کہیں کہ متعہ جائز ہے اور یہ ایک مدت تک زوجہ ہے تو اس پر زوجیت کے اسم کا اطلاق ہوگا اور اگر ہم وہ حق بات کہیں جس پر اجماع امت ہے کہ نکاح متعہ حرام ہے تو وہ اس کی زوجہ نہیں ہے اور وہ اس آیت کے تحت داخل نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : اس اختلاف کا فائدہ یہ ہے کہ کیا حد واجب ہوگی اور صریح زنا کی طرح بچہ لاحق نہیں کیا جائے گا یا شبہ کی وجہ سے حد نہیں لگائی جائے گی اور بچہ لاحق کیا جائے گا ؟ ہمارے اصحاب کے دو قول ہیں۔ (1) متعہ کی تحلیل وتحریم کے احوال تھے۔ اسی وجہ سے پہلے مباح تھا پھر نبی پاک ﷺ نے خیبر کے زمانہ میں اس کو حرام کیا تھا پھر اسے فتح مکہ کے موقع پر حلال کیا تھا پھر اس کے بعد اس کو حرام کیا تھا۔ یہ ہمارے اصحاب میں سے ابن خویز منداد وغیرہ کا قول ہے۔ ابن عربی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سورة النساء میں متعہ پر گفتگو گزرچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فمن ابتغی وراء ذالک فاولئک ھم العدون۔ جو ایسی عورت سے نکاح کرے جو حلال نہ ہو اسے عادی کہا گیا ہے اور اس کے حد سے تجاوز کی وجہ سے اس پر حد واجب کی ہے۔ اور لواطت کرنے والا قرآن اور لغت کے اعتبار سے حد سے تجاوز کرنے والا ہے۔ اسکی دلیل اللہ کا ارشاد ہے۔ بل انتم قوم عدون۔ (الشعرائ) جیسا کہ سورة الاعرف میں گزر چکا ہے پس ایسے لوگوں پر حد قائم کرنا واجب ہے یہ ظاہر ہے اس پر کوئی غبار نہیں۔ میں کہتا ہوں : اس میں نظر ہے جب تک وہ جاہل نہ ہو یا تاویل کرنے والا نہ ہو اگرچہ اجماع منعقد ہے کہ والذین ھم لفروجھم حفظون۔۔۔۔۔۔ الخ سے مراد صرف مرد ہیں عورتیں اس میں شامل نہیں۔ معتمر نے قتادہ سے روایت کیا ہے فرمایا : ایک عورت نے اپنے غلام سے ہم بستری کی اس کا ذکر حضرت عمر ؓ سے کیا گیا تو آپ نے عورت سے پوچھا کہ اس عمل پر تجھے کس نے ابھارا ؟ اس عورت نے کہا : میں خیال کرتی تھی کہ وہ میرا غلام ہے جس طرح مرد کے لئے لونڈی حلال ہوتی ہے یہ میرے لئے حلال ہوگا۔ حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے اس عورت کو رجم کرنے کا فیصلہ کیا تو صحابہ کرام نے کہا : اس نے کتاب اللہ کی غلط تاویل کی ہے اس پر رجم نہیں ہوگا۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اللہ کی قسم میں اس کے بعد کبھی تجھے کسی آزاد کے لئے حلال نہیں کروں گا۔ حضرت عمر ؓ نے اسے یہ سزا دی اور حد دور کردی اور غلام کو آپ نے اس کے قریب نہ جانے کا حکم دیا۔ ابو بکر بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس تھا ایک عورت اپنے خوبصورت غلام کے ساتھ آئی اور کہنے لگی۔ میں اس کے ساتھ ہم بستر ہوتی ہوں اور میرے چچا کے بیٹے مجھے اس سے منع کرتے ہیں میں بھی تو اس مرد کی طرح ہوں جس کے لئے لونڈی ہوتی ہے تو وہ اس کے ساتھ وطی کرتا ہے۔ پس آپ میرے چچا کے بیٹوں کو مجھ سے باز رکھیں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : کیا تو نے اس سے پہلے نکاح کیا ہوا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا : اللہ کی قسم اگر تیری جہالت نہ ہوتی تو میں تجھے پتھروں کے ساتھ رجم کرتا لیکن تم اسے لے جائو اور اس کو فروخت کردو کسی ایسے شخص سے جو اس غلام کو شہر سے باہر لے جائے۔ وراء بمعنی سویٰ ہے یہ ابتغی کا مفعول ہے یعنی جس نے بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ طلب کیا۔ زجاج نے کہا : اس کے بعد جس نے طلب کیا۔ پس ابتغی کا مفعول محذوف ہے اور وراء ظرف ہے۔ اور ذالک اس کے ساتھ ہر مذکور، مذکر اور مونث کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ فاولئک ھم العدون۔ حد سے تجاوز کرنے والے یہ عدا سے مشتق ہے یعنی حد سے تجاوز کیا۔
Top