Al-Qurtubi - An-Noor : 6
وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ یَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَرْمُوْنَ : تہمت لگائیں اَزْوَاجَهُمْ : اپنی بیویاں وَلَمْ يَكُنْ : اور نہ ہوں لَّهُمْ : ان کے شُهَدَآءُ : گواہ اِلَّآ : سوا اَنْفُسُهُمْ : ان کی جانیں (خود) فَشَهَادَةُ : پس گواہی اَحَدِهِمْ : ان میں سے ایک اَرْبَعُ : چار شَهٰدٰتٍ : گواہیاں بِاللّٰهِ : اللہ کی قسم اِنَّهٗ لَمِنَ : کہ وہ بیشک سے الصّٰدِقِيْنَ : سچ بولنے والے
اور جو لوگ اپنی عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں تو ہر ایک کی شہادت یہ ہے کہ پہلے تو چار بار خدا کی قسم کھائے کہ بیشک وہ سچا ہے
آیت نمبر 6-10 ۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم، انفسھم بدل کی بنا پر مرفوع ہے اور استثناء اور یکن کی خبر کی بنا پر نصب بھی جائز ہے۔ فشھادۃ ا حدھم اربع شھدات کو فیوں کی قرأت مبتدا اور خبر کی بناء پر رفع کے ساتھ ہے یعنی ان میں سے ایک کی شہادت جس کی وجہ سے اس سے حد قذف زائل ہوگئی وہ چار شہادتیں ہیں۔ اہل مدینہ اور ابو عمرو نے اربع کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ فشھادۃ کا معنی ان یشھد ہے۔ تقدیر اس طرح ہے فعلیھم ان یشھد احدھم اربع شھادات یا یہ تقدیر ہوگی : فالامر ان یشھد احدھم اربع شھادات دوسری صورت میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ شہادت کی وجہ سے منصوب ہے۔ الخامسۃ مبتدا کی حیثیت سے مرفوع ہے اور خبر ان اور اس کا صلہ ہے اور ان کا مخففہ کا معنی مثقلہ کے معنی کی طرح ہے کیونکہ اس کا معنی ہے انہ۔ ابو عبدا لرحمن، طلحہ، اور عاصم نے حفص کی روایت میں الخامسۃ نصب کے ساتھ پڑھا ہے بمعنی وتشھد الشھادۃ ا لخامسۃ اور باقی قراء نے ابتدا کی بناء پر رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور خبر ان لعنت اللہ علیہ ہے یعنی الشھادۃ ا لخامسۃ قولہ لعنۃ اللہ علیہ۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اس آیت کے نزول کا سبب وہ حدیث ہے جو دائود نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت بلال بن امیہ نے نبی کریم ﷺ کے پاس اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ بدکاری کرنے کی تہمت لگائی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : دلیل پیش کرو ورنہ پیٹھ پر حد قذف ہوگی۔ اس نے عرض کی : یا رسول اللہ جب ہم میں سے کوئی کسی کو اپنی بیوی پر دیکھے تو وہ دلیل پیش کرے۔ نبی کریم ﷺ یہی فرماتے رہے دلیل پیش کرو ورنہ تیری پیٹھ پر حد ہوگی۔ بلال نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا : میں سچا ہوں۔ اللہ میرے معاملہ میں ایسی چیز نازل فرمائے گا جو پیٹھ کو حد سے بری کرے گی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ والذین یرمون ازواجھم آپ نے لمن الصدقین۔ تک تلاوت کی۔ بعض علماء نے فرمایا جب سابقہ آیت والذین یرمون المحصنت نازل ہوئی اس کا ظاہر ازواج (خاوندوں) اور دوسرے کو شامل تھا۔ حضرت سعد بن معاذ نے کہا : یارسول اللہ اگر میری بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائوں تو میں اسے چھوڑے رکھوں حتیٰ کہ میں چار گواہ لے آئوں۔ اللہ کی قسم میں اسے تلوار کی دھار سے ماروں گا۔ نبی پاک نے فرمایا : کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کررہے ہو میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہے۔ حضرت سعد کے الفاظ میں روایات مختلف ہیں مفہوم ایک جیسا ہے۔ پھر اس کے بعد بلال بن امیہ واقفی آئے اس نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء بلوی کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگائی جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے حد قذف لگانے کا عزم کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ نبی پاک ﷺ نے بلال اور اس کی بیوی کو مسجد میں جمع کیا اور انہوں نے لعان کیا۔ پانچویں مرتبہ قسم اٹھانے سے عورت ہچکچائی جب اسے نصیحت کی گئی اور کہا گیا کہ اس مرتبہ کی گواہی فیصلہ کن ہوگی۔ پھر کہنے لگی : میں ہمیشہ کیلئے اپنی قوم کو رسوا نہیں کرتی پس اس نے لعان مکمل کردیا۔ نبی پاک ﷺ نے ان کے درمیان جدائی کردی اس نے ایک بچہ جنم دیا جو مٹیالے اونٹ کی طرح تھا، اس صفت پر جو ناپسندیدہ تھی پھر اس کے بعد وہ بچہ مصر کا امیر بنا جبکہ وہ اپنا باپ نہیں جانتا تھا۔ عویمر عجلانی آیا تھا اس نے بھی اپنی بیوی پر تہمت لگائی تھی اور لعان کیا تھا۔ مشہور یہ ہے کہ حضرت ہلال کا واقعہ پہلے تھا اورو ہی آیت کے نزول کا سبب تھا۔ بعض نے کہا : عویمر بن اشقر کا واقعہ پہلے تھا۔ یہ حدیث مشہور ہے ائمہ حدیث نے روایت کی ہے۔ ابو عبد اللہ بن ابی صفرہ نے کہا : صحیح یہ ہے کہ اپنی بیوی پر تہمت لگانے والا عویمر بن زید بن الجدبن عجلانی تھا وہ نبی پاک ﷺ کے ساتھ جنگ احد میں شریک ہوا تھا اس نے اپنی بیوی پر شریک ہوا تھا اس نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ بدکاری کرنے کی تہمت لگائی تھی۔ سحماء اس کی والدہ تھی۔ بعض نے کہا ؛ اس کو سحماء اس کے کالے ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ اور وہ ابن عبدہ بن الجد بن عجلانی مورخین اور اہل الاخبار نے اسی طرح کہا ہے۔ بعض علماء نے کہا : نبی پاک ﷺ نے جمعہ کے دن خطبہ میں یہ آیات پڑھیں : والذین یر مون المحصنت تو عاصم بن عدی انصاری نے کہا : اللہ مجھے آپ پر قربان کرے۔ اگر ہم میں سے کوئی کسی کو اپنی بیوی کے پیٹ پر پائے پھر اس نے بات کی اور جو مسئلہ جاری ہوا تھا اس کے متعلق خبردی اسے اسی (80) کوڑے لگائے جائیں گے اور مسلمان اس کو فاسق کہیں گے اور اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔ اس وقت ہم میں سے کسی کے لیے چارگواہ لانا کیسے ممکن ہے۔ اور اگر چار گواہ تلاش کرنے کے لیے جائے گا تو وہ مرد اپنی خواہش پوری کرچکا ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا " : اے عاصم بن عدی ! اسی طرح حکم نازل ہوا ہے "۔ عاصم یہ حکم سنتے ہوئے اور اطاعت کرتے ہوئے باہر نکلا۔ اسے ہلال بن امیہ انا الیہ ر جعون (بقرہ) پڑتے ہوئے ملا۔ عاصم نے پوچھا کیا ہوا۔ اس نے کہا : بہت بُرا ہوا ہے۔ میں نے شریک بن سحماء کو پنی بیوی خولہ کے پیٹ پر اس کے ساتھ زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ خولہ عاصم بن عدی کی بیٹی تھی۔ اس طریق میں اسی طرح ہے کہ جس نے اپنی بیوی کے ساتھ شریک کو پایا تھا وہ ہلال بن امیہ تھا۔ صحیح اس کے خلاف ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ کلبی نے کہا : اظہر یہ ہے کہ جس نے اپنی بیوی کے ساتھ شریک کو پایا تھا وہ عویمر عجلانی تھا کیونکہ کثرت سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عویمر اور اس کی بیوی میں لعان کرایا تھا۔ علماء کا اتفاق ہے کہ زانی شریک بن عبدہ تھا اس کی ماں سحماء تھی۔ عویمر اور خولہ بنت قیس اور شریک عاصم کے چچا کی اولاد تھے۔ یہ واقعہ شعبان 9 ھ میں ہوا تھا جب نبی پاک ﷺ تبعک دے مدینہ لو ٹے تھے ؛ یہ طبری کا قول ہے۔ اور دارقطنی نے حضرت عبداللہ بن جعفر سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نبی پاک ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھا عویمر عجلنی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان ہوا تھا۔ نبی پاک ﷺ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تھے۔ عویمر نے اس کے حمل کا انکار کیا تھا جو اس کے پیٹ میں تھا۔ عویمر نے کہا : یہ ابن سحماء کا ہے۔ نبی پاک ﷺ نے عویمر کو فرمایا :ـ " اپنی بیوی کو لے آئو تمہارے متعلق قرآن نازل ہوا ہے " (1) ۔ پس ان کے درمیان عصر کے بعد ایک قالین پر منبر کے پاس لعان ہوا تھا۔ اس کے طریق میں سے واقدی عن ضحاک بن عثمان عن عمران بن ابی اینس بھی ہے فرمایا : میں نے عبداللہ بن جعفر کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ آگے پورا واقعہ بیان کیا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : والذین یرمون ارواجہم یہ ہر تہمت لگانے والے میں عام ہے۔ خواہ وہ کہے : تو نے زنا کیا ہے یارک ہے : اے زانیہ ! یا کہے : میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھایا کہے : یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ یہ آیت تمام صورتوں کو شامل ہے۔ اگر وہ خاون چار گواہ نہ لائے تو لعان واجب ہوگا ؛ یہ جمہور علماء اور عام فقہاء اور اہل حدیث کی جماعت کا نظریہ ہے۔ امام مالک سے اس کی مثل مروی ہے۔ امام مالک سے اس کی مثل مروی ہے۔ امام مالک فرماتے تھے : لعان نہیں ہوگا مگر یہ کہ خاوند کہے میں نے تجھے زنا کرتے ہوئے دیکھا یا اس کے حمل کی نفی کرے یا اس کے بچہ کی نفی کرے۔ ابوالزناد، یحییٰ بن سعید اور البتی کا قول امام مالک کے قول کی طرح ہے کہ لعان تہمت لگانے سے واجب نہ ہوگا۔ یہ زنا کرتے ہوئے دیکھنے یا استبرا کے دعویٰ کے ساتھ حمل کی نفی کرے۔ یہ امام مالک کے نزدیک مشہو رہے یہ ابن القاسم کا قول ہے۔ صحیح پہلا قول ہے کیونکہ والذین یرمون ازواجہم کا قول عام ہے۔ ابن عربی نے کہا : قرآن کا ظاہر بغیر دیکھنے کے صرف تہمت لگانے سے لعان کے ایجاد کے لیے کافی ہے۔ پس قرآن کے ظاہر پر اعتماد کرو خصوصاً جبکہ حدیث صحیح میں بھی ہے۔ بتائو جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا : ـ" جا اور اپنی بیوی کو لے آ " (2) ۔ آپ نے اسے دیکھنے کے ذکر کرنے کا مکلف نہیں کیا اور علماء کا اجماع ہے کہ اندھا جب اپنی بیوی پر تہمت لگائے گا تو لعان ہوگا اگر دیکھنا لعان کے لیے شرط ہوتا تو اندھا لعان نہ کرتا ؛ یہ ابو عمر کا قول ہے۔ ابن قصار نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ اندھے کا لعان صحیح نہیں ہے مگر یہ کہ وہ کہے : میں نے مرد کی فرج کو عورت کی فرج میں چھوا۔ امام مالک اور اس کے متبعین کی حجت ابودائود کی روایت ہے جو انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے فرمایا : ہلال بن امیہ آیا یہ ان تین افراد میں سے ہے جن کی توبہ قبول کی گئی وہ عشاء کے وقت اپنی زمین سے واپس آیا اس نے اپنے گھروالوں کے پاس ایک شخص کو دیکھا اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا پھر اسے کچھ نہ کہا حتی کہ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا : یارسول اللہ ﷺ میں اپنے گھر والوں کے پاس عشاء کے وقت آیا میں نے ان کے پاس ایک شخص کو پایا میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا (1) ۔ نبی پاک ﷺ نے اس کی بات کو پسند نہ فرمایا اور اس پر سختی کی تو یہ آیت نازل ہوئی : والدین یرمون ازواجہم الخ (2) یہ نص ہے کہ وہ لعان جس کا نبی پاک ﷺ نے فیصلہ فرمایا تھا وہ دیکھنے کی صورت میں تھا۔ پس اس سے تجاوز کرنا درست نہیں جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی اور دیکھنے کا ذکر کیا تو اسے حد لگائی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد عام ہے : والذین یرمون المحصنت۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ جب حمل نفی کرے تو لعان ہوگا کیونکہ یہ دیکھنے سے ا قویٰ ہے اس کے وطی کے نہ کرنے اور استبرا کا ذکر ضروری ہے۔ ہمارے علماء کا استبرا کے بارے میں اختلاف ہے۔ مغیرہ اور ایک قول میں امام مالک نے کہا : اس میں ایک حیض کافی ہے۔ امام مالک نے یہ بھی کہا کہ وہ نفی نہ کرے مگر تین حیض کے ساتھ (3) ۔ صحیح پہلا قول ہے رحم کی برئات تو ایک حیض سے بھی ہوجاتی ہے جیسا کہ لونڈی کے استبرا میں ہے اور ہم نے عدت میں تین حیضوں کی رعا یت رکھی ہے دوسرے حکم کی وجہ سے جس کا بیان انشاء اللہ سورة طلاق میں آئے گا۔ لخمی نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے فرمایا : استبرا کے ساتھ بچے کی نفی نہیں کی جائے گی کیونکہ حیض حمل میں بھی آتا ہے ؛ یہی اشہب ننے ابن المواز کی کتاب کہا ہے۔ یہی قول مغیرہ کا ہے اور انہوں نے کہا : بچے کی نگی نہیں کی جائے گی (4) مگر پانچ سال کے ساتھ کیونکہ یہ اکثر مدت حمل ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 5 ۔ ہمارے نزدیک لعان میاں، بیوی کے درمیان ہوگا خواہ وہ آزاد ہوں، مومن ہوں یا کافر ہوں، فاسق ہوں یا عادل ہوں۔ یہی امام شافعی کا قول ہے۔ آزاد آدمی اور اس کی لونڈی کے درمیان اور ام ولد کے درمیان لعان نہیں ہے۔ بعض علماء نے کہا : لونڈی کے بچے کی نفی نہ ہوگی مگر ایک قسم کے ساتھ بخلاف لعان کے۔ بعض علماء نے کہا : جب ام ولد کے بچے کی نفی کرے گا تو لعان ہوگا۔ پہلا قول امام مالک کا مذہب ہے اور وہی صحیح ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : لعان صحیح نہیں ہے مگر دو آزاد مسلمان میاں بیوی کے درمیان کیونکہ لعان امام ابوحنیفہ کے نزدیک شہادت ہے۔ ہمارے نزدیک اور امام شافعی کے نزدیک قسم ہے اور ہر وہ شخص جس کی قسم صحیح ہے اس کا قذف اور لعان بھی صحیح ہے اور علماء کا اتفاق ہے کہ میاں بیوی کے لیے مکلف ہونا ضروری ہے اور عویمر کے قول ـ" کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے " یہ دلیل ہے کہ لعان میاں، بیوی کے درمیان ہوگا کیونکہ کسی مرد سے مردکو اور عورت کو عورت سے خاص نہیں کیا اور لعان کی آیت اس جواب پر نازل ہوئی فرمایا : والذین یرمون ازواجہم کسی خاوند کو خاص نہیں کیا فرمایا : یہی امام مالک اور اہل مدینہ کا مذہب ہے۔ امام شافعی، احمد، اسحاق، ابوعبید اور ابو ثور کا قول ہے اور لعان نکاح کے فسخ کا موجب ہے پس یہ طلاق کے مشابہ ہے اور جس کے طلاق جائز ہے اس کا لعان بھی جائز ہے۔ لعان قسمیں ہیں شہادت نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو سب کہنے والوں سے سچا ہے : لشحاد تنا احق من شھادت ھما (المائدہ : 107) یعنی ایماننا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اذاجاءک المنفقون قالو انشھد انک لرسول اللہ (المنافقون) پھر فرمایا : اتخذوا ایمانھم جنۃ (المجادلہ : 16) اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : " اگر قسمیں نہ ہو تیں تو میرے لیے اور اس کے لیے، اور معا ملہ ہوتا " (1) اور رہے وہ دلائل جن سے امام ابوحنیفہ اور ثوری نے حجت پکڑی ہے وہ قوی نہیں ہیں ان میں سے ایک حدیث یہ ہے جو عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے انہوں نے اس کے دادا حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت کی ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا : چار افراد ایسے ہیں جن کے درمیان لعان نہیں ہے آزاد اور لونڈی کے درمیان لعان نہیں ہے، آزاد عورت اور غلام خاوند کے درمیان لعان نہیں ہے، مسلمان مرد اور یہودی عورت کے درمیان لعان نہیں ہے "۔ اس حدیث کو دارقطنی نے کئی طریق سے روایت کیا ہے اور تمام کے تمام ضعیف ہیں۔ اوزاعی اور ابن جریج سے مروی ہے وہ دونوں امام ہیں عمروبن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے یہ قول مروی ہے اور انہوں نے اس کو نبی کریم ﷺ تک مرفوع نہیں کیا ہے اور نظریں کی حجت سے اس طرح حجت پکڑی ہے کہ جب خاوند کی جملہ شہدائ (گواہ) سے استثناء کی گئی ہے، ارشاد فرمایا : ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم تو واجب ہے کہ لعان نہ کیا جائے مگر جس کی شہادت جائز ہوا گر یہ قسم ہوتی تو ردنہ کی جاتی اور ران کی تددید میں حکمت تعداد میں اس کو زنا میں شہود کے قائم مقام کرنا ہے۔ ہم کہتے ہیں : یہ قسامت کی یمین کے ساتھ باطل ہے اس کا تکرار کیا جاتا ہے۔ اور بالا جماع وہ شہادت نہیں ہے اور اس کے تکرار میں حکمت فروج اور خونون میں تغلیظ ہے۔ ابن عربی نے کہا : قول فیصل یہ ہے کہ یہ قسمیں ہیں شہادت نہیں کیونکہ خداوند اپنے لیے اپنے دعویٰ کے اثبات میں اور اپنے آپ کو عذاب سے بچانے کے لیے قسمیں اٹھاتا ہے اور کسی کے لیے یہ کیسے جائز ہوگا کہ وہ شریعت میں دعویٰ کرے کہ گواہ اپنے لیے ایسی گواہی دے گا جو غیر پر کوئی حکم ثابت کر دے گی۔ یہ اصل میں بعید ہے اور نظر میں معدوم ہے۔ مسئلہ نمبر 6 ۔ گونگے کے لعان کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام مالک اور امام شافعی نے فرمایا : وہ لعان کرے گا کیونکہ اس کی طلاق، ظہار اور ایلاء صحیح ہے جب اس کے اشارہ میں سمجھا جائے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : وہ لعان نہیں کرے گا۔ کیونکہ وہ اصل اہل شہادت میں سے نہیں ہے کیونکہ زبان سے دی جاتی ہے۔ پس لعان نہیں ہوگا اور ہامرے لیے اس پر حد لگانا ممکن نہیں ہے۔ یہ مفہوم سورة مریم میں گزر چکا ہے۔ اور دلیل بھی بیان ہوچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 7 ۔ ابن عربی نے کہا : امام ابوحنیفہ آیت کے عموم کا اعتبار کرتے ہیں اس لے فرمایا : جب کوئی مرد اپنی بیوی پر اس سے شادی کرنے سے پہلے تہمت زنا لگائے تو وہ لعان کرے گا۔ اور وہ یہ بھول گئے کہ اس کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد : والذین یرمون المحصنت اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے۔ اس نے محصنۃ پر تہمت لگائی ہے ،۔ زوجہ پر تہمت نہیں لگائی ہے۔ لعان اس قذف (تہمت) ہوتا ہے جس میں نسب لا حق ہو اور یہ ایسا قذف ہے جس میں نسب لا حق نہیں ہوتا۔ پس لعان کو ثابت نہیں کرے گا جیسے اگر وہ کسی اجنبیۃ پر تہمت لگاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 8 ۔ جب طلاق کے بعد عورت پر خاوند تہمت لگائے تو وہ دیکھے اگر وہاں نسب ہے جس کی وہ نفی کرنا چاہتا ہے۔ یا کوئی حمل ہے جس سے برائت چاہتا ہے تو لعان ہوگا ورنہ لعان نہیں ہوگا۔ عثمان البیتی نے کہا : کسی حال میں لعان نہ ہوگا کو ین کہ وہ اس کی بیوی نہیں ہے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : دونوں صورتوں میں لعان نہ ہوگا کیونکہ وہ اس کی بیوی نہیں ہے۔ یہ اس مسئلہ کے خلاف ہوجاتا ہے جب زوجیت میں لانے سے پہلے تہمت لگاتا ہے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے بلکہ یہ اولیٰ ہے کیونکہ نکاح ہوچکا ہے اور وہ نسب سے نفی کرنا چاہتا ہے اور اس بچے سے برائت چاہتا جو اسے لا حق کیا جانا تھا پس لعان ضروری ہے جب وہاں ایسا حمل نہ ہو ہو جس کی امید ہو اور نہ نسب ہو جس کے تعلق کا خوف ہو۔ لعان کا کوئی فائدہ نہیں پس لعان کا حکم نہیں کیا جائے گا۔ یہ مطلق قذف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قول : والذین یر مون المحصنت کے عموم کے تحت داخل ہے۔ پس اس حد ہوگی اور جو البیتی نے کہا اس کے فساد کے ظہور کی وجہ سے وہ باطل ہے۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ عدت کے ختم ہونے کے بعد میاں، بیوی میں لعان نہ ہوگا مگر ایک مسئلہ میں وہ یہ ہے کہ مرد غائب ہو اور عورت بچہ جنم دے اس کے غائب ہونے کی حالت میں جبکہ اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے بچہ جنم دیا ہے۔ پس وہ اسے طلاق دیتا ہے پھر اس کی طلاق کی عدت گزر جاتی ہے بعد میں وہ آتا ہے اور اس بچہ کی نفی کرتا ہے تو اس کے لیے اس عورت سے عدد کے بعد لعان کرنا جائز ہے اسی طرح اگر وہ عورت کی وفات کے بعد آیا اور بچے کی نفی کی تو اپنے لیے لعان کرے گا جبکہ وہ عدت کی مدت کے بعد مرچکی ہے اور وہ مرد اس کا وارث بنے گا کیونکہ وہ ان کے درمیان فرقت کے وقوع سے پہلے فوت ہوگئی تھی۔ مسئلہ نمبر 10 ۔ جب حمل کی نفی کرے اور وہ اس کی شرط کے ساتھ واقع ہو تو وضع حم سے پہلے لعان کرے گا ؛ یہ امام شافعی کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : وضع حمل کے بعد لعان کر کرے گا کیونکہ ممکن ہے کہ پیٹ میں ہوا ہو یا کوئی بیماری ہو اور ہماری دلیل نص صریح ہے کہ نبی کریم ﷺ نے وضع سے پہلے لعان کرایا اور فرمایا : ” اگر وہ ایسا ایسا بچہ جنم دے گی تو وہ اپنے باپ کا ہوگا اور اگر ایسا ایسا بچہ جنم دے گی تو وہ فلاں کا ہوگا “ (1) تو اس عورت نے ناپسندیدہ وصفت پر بچہ جنم دیا۔ مسئلہ نمبر 11 ۔ اگر مرد اپنی بیوی پر دبر میں وطی کی تہمت لگائے تو لعان کرے گا۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : لعان نہیں کرے گا۔ ان کی بنیاد ان کی اصل پر ہے کہ لواطت سے حد ثابت نہیں ہوتی۔ یہ فاسد ہے کیونکہ تہمت لگانا ایک فساد ہے اور یہ اس ارشاد کے عموم کے تحت داخل ہے : والذین یرمون ازواجہم یہ مسئلہ سورة الاعراف اور سورة المومنون میں گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر 12 ۔ ابن العربی نے کہا : اس شخص کے عجیب مسئلہ میں سے یہ ہے کہ جب کوئی اپنی بیوی اور بیوی کی ماں پر زنا کی تہمت لگائے اگر اسے ماں کی وجہ سے حد لگائی جائے گی تو بیٹی کی حد ساقط ہوجائے گی اگر بیٹی کی وجہ سے لعان ہوگا تو ماں کیوجہ سے حد ساقط نہ ہوگی۔ اس کی کوئی وجہ سے لعان ہوگا تو ماں کی وجہ سے حد ساقط نہ ہوگی۔ اس کی کوئی وجہ نہیں۔ میں نے اس میں ان کے لئے کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو حکایت کی گئی ہو۔ یہ بالکل باطل ہے کیونکہ آیت کے عموم کو ماں کی حد کی وجہ سے بیٹی میں خاص کیا ہے اور وہ زوجہ ہے۔ اس میں نہ کوئی اثر ہے اور نہ اصل ہے جس پر اس نے قیاس کیا ہو۔ مسئلہ نمبر 13 ۔ جب اپنی بیوی پر تہمت لگائے پھر وہ لعان سے پہلے زنا کرلے تو نہ حد ہوگی اور نہ لعان ہوگا۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔ ثوری اور مزنی نے کہا : قاذف سے حد ساقط نہ ہوگی اور تہمت لگائے جانے کے بعد مقذوف کا زنا اس کی متقدم حصانت میں قدح کا باعث نہیں ہے اور وہ اسے نہیں اٹھائے گا کیونکہ حصانت اور عفت کا اعتبار حالت قذف میں ہے نہ کہ اس کے بعد ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان پر قذفف لگائے پھر مقذوف مرتد ہوجائے قذف کے اور قاذف کو حد لگانے سے پہلے تو اس سے حد ساقط نہ ہوگی۔ نیز حدوس تمام وجوب کے وقت معتبر ہوتی ہیں نہ کہ حدو و کے قائم کرنے کے وقت معتبر ہوتی ہیں۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ لعان اور حد کے حصول سے پہلے ایک معنی ظاہر ہوچکا ہے اگر وہ ابتدا میں موجود ہوتا تو لعان کی صحت اور حد کے وجوب کے مانع ہوتا۔ اسی طرح عفت و احصان کا حکم ظاہر کے طریق سے ہوگا قطع اور یقین کی حیثیت سے نہ ہوگا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مومن کی پیٹھ محفوظ ہے (صحیح بخاری، ظہر المومن حمی الا فی حد اوفی حق، جلد 2، صفحہ 1003) قاذف کو حد نہیں لگے گی مگر دلیل قطعی کے ساتھ۔ مسئلہ نمبر 14 ۔ جس نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی جبکہ وہ اتنی عمر میں بڑی ہو کہ اسے حمل نہیں ہوتا تو لعان ہوگا اور وہ حد کو دور کرنے کے لئے لعان کرے گا اور یہ عذاب کو دور کرنے کے لئے لعان کرے گی۔ ابن الماجشون نے کہا : اس قاذف پر حد نہیں ہے جو نابالغ پر تہمت لگائے۔ (المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 167) ۔ لخمی نے کہا : اس بناء پر چھوٹی بچی کے خاوند پر لعان نہیں ہے جو حاملہ نہیں ہوسکتی۔ مسئلہ نمبر 15 ۔ جب کسی عورت پر چار گواہ زنا کی گواہی دیں ایک ان سے اس کا خاوند ہو۔ خاوند لعان کرے گا اور باقی تین کو حد لگے کی۔ یہ امام شافعی کا ایک قول ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ انہیں حد نہیں لگائی جائے گی۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : جب خاوند اور تین اور شخص ابتداء شہادت دیں تو ان کی شہادت قبول کی جائے گی اور عورت کو حد لگائے جائے گی۔ ہماری دلیل یہ ارشاد ہے۔ والذین یرمون المحصنت اللہ نے خبر دی کہ جس نے محصن پر تہمت لگائیی اور چار گواہ نہ لایا تو اس کو حد لگائی جائے گی اسکا ظاہر تقاضا کرتا ہے کہ تہمت لگانے والے علاوہ چار گواہ لائے اور خاوند اپنی بیوی پر تہمت لگانے والا ہے۔ پس ہو اس سے خارج ہوگیا کہ وہ گواہوں میں سے ایک ہے۔ مسئلہ نمبر 16 ۔ جب عورت کا حمل ظاہر ہوا پھر خاوند نے اسکی نفی کو ترک کردیا تو سکوت کے بعد اس کو نفی کرنے کا حق نہیں۔ شریح اور مجاہد نے کہا : اس کو ہمیشہ نفی کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ خطا ہے کیونکہ علم کے بعد اس کا سکوت رضا ہے جیسے اگر پہلے اقرار کرے پھر نفی کرے تو اس کی نفی قبول نہ ہوگی۔ مسئلہ نمبر 17 ۔ اگر اس نے نفی کو موخر کیا یہاں تک کہ اس نے وضع حمل کرلیا اور اس نے کہا : ہوسکتا ہے ہواہو یا وہ اسے گرادے تو قذف سے میں راحت پائوں گا۔ کیا اس کے وضع حمل کے کچھ عرصہ بعد نفی کرسکتا ہے جب وہ اس عرصہ سے تجاوز کرے گا تو اسے نفی کا اختیار نہ ہوگا۔ اس میں اختلاف ہے ہم کہتے ہیں : جب اس کو سکوت میں کوئی عذر نہ ہو حتیٰ کہ تین دن گزرگئے اور وہ اس پر راضی تھا تو اب اس کے لئے نفی کرنا جائز نہیں ؛ یہ امام شافعی کا قول ہے نیز انہوں نے فرمایا : جب اس کے لئے نفی کرنا ممکن تھا جیسا کہ عادت جاری ہے حاکم کی طرف اس کے لئے نفی ممکن تھی پھر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کے بعد اس کے لئے نفی کرنا جائز نہ ہوگا۔ امام ابو حنفیہ نے کہا : میں مدت کا اعتبار نہیں کرتا۔ ابن القصار نے کہا : ہمارے قول کی دلیل یہ ہے کہ اپنے بچے کی نفی کرنا اس پر حرام کیا گیا ہے۔ اور بچے کا لاحق کرنا اس پر حرام نہیں کیا گیا پس اس پر وسعت کرنا ضروری ہے تاکہ غوروفکر کرلے۔ کیا اس کے لئے نفی کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ امام ابویوسف اور امام محمد کے نزدیک ان کا اعتبار، مدت ولادت اور رضاع کے اعتبار سے اولیٰ نہیں ہے کیونکہ شریعت میں ان کی کوئی شہادت نہیں ہے جبکہ ہم نے شریعت میں مصرات کی مدت سے شاہد ذکر کردیا ہے۔ مسئلہ نمبر 18 ۔ ابن القصار نے کہا : جب عورت اپنے خاوند یا کسی اجنبی شخص کو کہے : یازانیہ ھاء کے ساتھ اور اسی طرح اجنبی، اجنبی کو کہے تو اس میں اپنے اصحاب کی نص نہیں دیکھتا لیکن میرے نزدیک یہ قذف ہوگا اور ایسا کہنے والے پر حد ہوگی اور اس نے ایک حرف زائدہ کیا ہے۔ اور یہی امام شافعی اور امام محمد بن حسن کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ابو یوسف نے کہا : یہ قذف نہ ہوگا اور علماء کا اتفاق ہے جب کوئی اپنی بیوی کو کہے : یازان تو قذف ہوگا۔ اس پر دلیل یہ ہے کہ یہ مراد میں قذف ہے یہ خطاب ہے جب اس کا معنی سمجھا جائیگا تو اس کا حکم ثابت ہوگا خواہ وہ عجمی لفظ ہو یا عربی لفظ ہو۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں کیا کہ اس نے جب عورت کو کہا : زینت تو قذف ہوگا کیونکہ اس کا معنی اس سے سمجھا جارہا ہے۔ کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے : وقال نسوۃ (یوسف :30) تو یا زان کا قول مونث کے لئے قذف ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جب مذخر کا فعل مونث لانا جائز نہیں جب وہ اس پر مقدم ہو اور مونث کو اس کے ساتھ خطاب کرنے کی وجہ سے حکم ثابت نہ ہوگا۔ مسئلہ نمبر 19 ۔ نکاح فاسد میں بھی اپنی بیوی سے لعان کرے گا کیونکہ وہ اس کی فراش ہوگئی تھی اور اس میں نسب لاحق ہوگا ؛ پس اس میں لعان بھی جاری ہوگا۔ مسئلہ نمبر 20 ۔ جب خاوند لعان کرنے سے انکار کردے تو علماء کا اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اس پر حد نہیں ہے کیونکہ اللہ نے اجنبی پر حد رکھی ہے اور خاوند پر لعان۔ امام مالک، امام شافعی اور جمہور نے کہا : جب خاوند لعان نہیں کرے گا تو اسے حد لگائی جائے گی کیونکہ اس کے لئے لعان پر برأت تھی جیسے اجنبی کے لئے شہود (گواہ) ہوتے ہیں اگر اجنبی شخص چار گواہ نہ لائے اسے حد لگائی جائے گی اسی طرح خاوند لعان نہیں کرے گا تو اس کو حد لگائی جائے گی۔ عجلانی کی حدیث میں جو ہے وہ اس پر دلیل ہے اس نے کہا تھا : اگر میں خاموش ہوں گا تو غصہ پر خاموش ہوں گا اگر میں قتل کروں گا تو مجھے قتل کیا جائے گا اور اگر میں بولوں گا تو مجھے کوڑے لگائے جائیں گے۔ مسئلہ نمبر 21 ۔ اس میں اختلاف ہے کہ کیا خاوند کے لئے گواہوں کے ساتھ لعان ہوگا ؟ امام مالک اور امام شافعی نے کہا : وہ لعان کرے گا خواہ اس کے لئے گواہ ہوں یا گواہ نہ ہوں کیونکہ گواہوں کو حد کو دور کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔ رہا فراش کا اٹھنا اور بچے کی نفی تو اس میں ضرور لعان ہوگا۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب نے کہا : لعان خاوند کے لئے ہے جب اس کے لئے اپنی ذات کے علاوہ گواہ نہ ہوں کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے : ولم یکن لھم شھداء الا انفسھم۔ مسئلہ نمبر 22 ۔ لعان میں آغاز اس سے ہوگا جس کے ساتھ اللہ نے آغاز فرمایا اور وہ خاوند ہے اس کا فائدہ اس کا حد کو دور کرنا ہے اور اپنے سے نسب کی نفی کرنا ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا۔ دلیل پیش کرو ورنہ تیری پیٹھ پر حد لگے گی۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے جس کی طرف وہ لوٹے اور نہ کوئی ایسا مفہوم ہے جو اسے تقویت دے بلکہ ہمارے لیے معنی ہے کیونکہ عورت جب لعان سے آغاز کرے گی تو وہ اس کی نفی کرے گی جو اس نے ثابت بھی نہیں کیا اور اس کی کوئی وجہ نہیں۔ مسئلہ نمبر 23 ۔ لعان کی کیفیت یہ ہے کہ حاکم لعان کرنے والے مرد سے کہے تو کہہ : ا شھد باللہ میں نے اسے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے زانی کی فرج اس کی فرج میں اس طرح دیکھی ہے جس طرح سرمہ دانی میں سرمچور اور میں نے اسے دیکھنے کے بعد اس سے وطی نہیں کی۔ اگر چاہے تو کہے اس نے زنا کیا ہے اور اس کے زنا کے بعد میں نے اس سے وطی نہیں کی۔ ان دو لفظوں میں سے جو چاہے چار مرتبہ بیان کرے اگر وہ ان قسموں سے یا ان میں سے ایک سے انکار کرے گا تو اسے حد لگائی جائے گی۔ اور جب وہ حمل کی نفی کرے گا تو کہے گا : ا شہد باللہ میں نے اس سے استبرا کیا ہے اس کے بعد میں نے اس سے وطی نہیں کی تھی اور یہ حمل مجھ سے نہیں ہے اور حمل کی طرف اشارہ کرے اور وہ چار مرتبہ یہ قسم اٹھائے اور ہر قسم میں کہے : جب مرد لعان سے فارغ ہوجائے گا تو اس کے بعد عوت کھڑی ہوگی اور چار قسمیں اٹھائے گی وہ اس میں کہے گی : ا شھد باللہ وہ جھوٹا ہے یا وہ میرے بارے میں اس نے دعویٰ کیا اور جو میرے بارے اس نے ذکر کیا ہے اس میں جھوٹون میں سے ہے۔ امام شافعی نے کہا : لعان کرنے والا کہے : ا شھد باللہ میں سچوں میں سے ہوں اس میں جو میں نے اپنی زوجہ فلانتہ بنت فلاں پر تہمت لگائی ہے اور اگر وہ موجود ہو تو اس کی طرف اشارہ کرے۔ مرد یہ چار مرتبہ کہے : پھر اماما سے وعظ ونصیحت کرے اور اللہ کی ذات اسے یاد دلائے اور کہے : میں ڈرتا ہوں کہ اگر سچا نہیں ہوگا تو اللہ کی لعنت کا مستحق ہوگا اور اگر وہ دیکھے کہ وہ پانچویں مرتبہ کہنا چاہتا ہے تو حاکم کسی کو حکم دے کہ اس کے منہج پر اتھ رکھے اور اسے کہے : تیرا یہ قول کہ مجھ پر اللہ کی لعنت کی لعنت ہو اگر میں جھوٹوں میں ہوں، حکم کو ثابت کردے گا اور وہ انکار کرے کہ وہ قسم اٹھائے گا تو وہ کہے : مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں جھوٹون میں ہوں اس میں جو فلاں پر زنا کی تہمت لگائی۔ انہوں نے ابود ائود کی حدیث سے حجت پکڑی ہے جو انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی پاک نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لعان کرنے والے پر ہاتھ رکھے پانچویں مرتبہ کہنے سے پہلے اور اسے کہے کہ یہ حکم ثابت کردے گی۔ (ابو دائود، کتاب الطلاق، باب فیل اللعان، حدیث 1922، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) مسئلہ نمبر 24 ۔ علماء کا اختلاف ہے اس شخص کے بارے میں جس نے اپنی عورت پر کسی شخص کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگائی اور اس مرد کا نام بھی لے لیا کیا اسے حد لگائی جائے گی یا نہیں ؟ امام مالک نے فرمایا : اس پر اس کی بیوی کی وجہ سے لعان ہوگا اور جس شخص پر اس نے تہمت لگائی اس کی وجہ سے خاوند پر حد ہوگی۔ عجلانی نے اپنی بیوی پر شریک کے ساتھ بدکاری کی تہمت لگائی تھی اسی طرح ہلال ابن امیہ نے کہا تھا تو اسے ایک حد لگائی گئی۔ ابن عربی نے کہا : ہمارے لیے قرآن کا ظاہر ہے کیونکہ اللہ نے اجنبی اور بیوی کے قذف میں مطلق حد رکھی ہے پھر بیوی کی حد کو لعان کے ساتھ خلاصی پانے کے ساتھ خاص کیا ہے اور مطلق آیت پر اجنبی باقی ہے۔ عجلانی کو شریک کیو جہ سے اور ہلاک کو شریک کیوجہ سے لگائی گئی نہیں تھی حد کیونکہ اس نے حد کا مطالبہ ہی نہیں کیا تھا اور حد قذف مطالبہ کے بعد امام ہی قائم کرے گا اس پر اجماع ہے۔ مسئلہ نمبر 25 ۔ جب لعان کرنے والے لعان سے فارغ ہوجائیں تو وہ آپس میں جدا وہجائیں گے ہر ایک اپنے ساتھی سے جدا ہو کر مسجد کے اس دروازے سے نکلے گا جس اس کا ساتھی نہ نکلا ہوگا۔ اگر دونوں ایک دروازہ سے بھی نکلیں تو ان کے لعان کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مستحب قراردیا ہے لعان جامع مسجد میں عصر کے بعد ہو اور نصرانی عورت اپنے مسلمان خاوند سے لعان اس جگہ کرے گی جس کی وہ تعظیم کرتی ہے۔ مسئلہ نمبر 26 ۔ امام مالک اور اس کے اصحاب نے کہا : لعانل مکمل ہونے کے ساتھ لعان کرنے والیوں کے درمیان فرقت واقع ہوجائے گی۔ وہ کبھی جمع نہیں ہوں گے اور کبھی ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے اور مرد کے لئے بھی اس عورت سے رجوع حلال نہیں نئے خاوند سے پہلے بھی اور بعد میں بھی۔ امام شافعی نے فرمایا : جب خاوند شہادت اور لعان کو مکمل کرے گا تو اس کی بیوی کا فراش ہونا زائل ہوجائے گا خواہ عورت لعان کرے یا نہ کرے۔ فرمایا عورت کا لعان کرنا یہ اپنے آپ سے حد کو دور کرنے کے لئے ہے اور کوئی اس کا مقصد نہیں اور عورت کے فراش کے زوال میں عورت کے لعان کا کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ایسا قول ہے جو صحابہ میں سے کسی نے نہیں کیا ہے، نیز البتی کے نزدیک لعان کرنے والے کیلئے مستحب ہے کہ لعان کے بعد طلاق دے۔ اس سے پہلے اس کو اچھا نہیں سمجھتے۔ مشہور مذہب یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان لعان کا مکمل ہونا فرقت ہے۔ اس مقالہ والوں نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ کتاب اللہ میں سے نہیں ہے جب مرد لعان کرے یا عورت لعان کرے گی تو فرقت واقع ہوجائے گی اور عویمر کے قول سے حجت پکڑی ہے کہ اگر میں اس کو روکوں تو میں نے اس پر جھوٹ بولا۔ پس اس نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر کوئی انکار نہ کیا اور اسے نہیں فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا ؟ تو اس کا محتاج نہیں تھا کیونکہ لعان کے ساتھ طلاق ہوچکی تھی۔ امام مالک اور انکی موافقت کرنے والے علماء کی حجت نبی کریم کا ارشاد ہے : لا سبیل لک علیھا اب تجھے اس پر کوئی اختیار نہیں۔ یہ اعلام ہے کہ لعان کا مکمل ہونا اس کی گرفت اس سے اٹھا دیتا ہے اور انکے درمیان جدائی کرنا نئے حکم کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ نافذ کرنا ہے جو اللہ نے ان کے درمیان دوری کو واجب کیا ہے یہی لغت میں لعان ہے۔ مسئلہ نمبر 27 ۔ جمہور علماء کا خیال ہے کہ لعان کرنے والے کبھی آپس میں نکاح نہیں کریں گے اگر مرد اپنے آپ کو جھٹلائے گا تو اسے حد لگائی جائے گی اور بچہ اس کے ساتھ لاحق کردیا جائے گا اور عورت کبھی اس مرد کی طرف نہیں لوٹ سکتی یہی سنت ہے جس میں کوئی شک اور اختلاف نہیں۔ سلمہ کا قول ہے انہوں نے کہا : نکاح حلال ہو کر لوٹ آئے گا جس طرح بچہ بعد میں اس کے ساتھ لاحق کیا گیا کیونکہ اس معاملہ میں کوئی فرق نہیں ہوگا اور جماعت کی حجت یہ کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اب تجھے اس پر کوئی گرفت نہیں اور آپ نے یہ نہیں فرمایا مگر یہ کہ تو اپنے آپ کو جھٹلائے۔ ابن اسحاق اور ایک جماعت نے زہری سے روایت کیا ہے فرمایا : سنت یہ قائم ہوچکی ہے کہ جب میاں بیوی لعان کرین گے توانکے درمیان جدائی کردی جائے گی اور وہ کبھی جمع نہ ہوں گے۔ اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : لعان کرنے والے جب جدا ہوجائین گے تو کبھی جمع نہ ہوں گے۔ حضرت علی اور حضرت عبد اللہ سے مروی ہے ان دونوں نے فرمایا : سنت قائم ہوچکی ہے کہ لعان کرنے والے جمع نہ ہوں گے۔ حضرت علی سے ہمیشہ کا لفظ بھی مروی ہے۔ مسئلہ نمبر 28 ۔ لعان کے لئے چار اشیاء ضروی ہیں۔ 1 ۔ الفاظ کی تعداد : وہ چار شہادتیں ہیں 2 ۔ مکان۔ اس کے لیے شہر میں عمدہ اور معزز جگہ کا قصد کیا جائے اگر مکہ میں ہوں تو لعان رکن اور مقام کے پاس ہو۔ اگر مدینہ میں ہو تو منبر کے پاس ہو۔ اگر بیت المقدس میں تو صخرۃ کے پاس ہو اور دوسرے شہرون میں ہو تو مساجد میں ہو اور اگر وہ کافر ہوں تو انہیں ایسی جگہ بھیجاجائے گا جس کی وہ تو عظیم کرتے ہوں۔ اگر وہ میاں بیوی یہودی ہوں تو کنیسہ میں ہوگا اگر مجوسی ہوں تو آگ کے کمرے کے پاس ہوگا، اگر ان کا کوئی دین نہ ہو جیسے بت پرست ہیں تو انکے درمیان مجلس حکم میں لعان ہوگا۔ 3 ۔ وقت : یہ عصر کے بعد کا وقت ہے۔ 4 ۔ لوگوں کو جمع کرنا۔ چار یا اس سے زاہد لوگ لعان کے وقت موجود ہوں، لوگوں کا جمع کرنا مشروط ہے، زمان اور مکان مستحب ہے۔ مسئلہ نمبر 29 ۔ جس نے کہا : فراق واقع نہیں ہوتا مگر لعان کے مکمل ہونے کیساتھ اس پر یہ لازم آتا ہے کہ اگر ایک لعان کے مکمل ہونے سے پہلے مر جائے تو دوسرا اس کا وارث ہوگا اور جس نے کہا : تفریق واقع نہیں ہوتی مگر امام کی تفریق کے ساتھ تو پھر ایک اس سے پہلے مرجائے اور لعان کے مکمل ہونے سے پہلے مرجائے تو دوسرا اس کا وارث ہوگا اور امام شافعی کے قول پر اگر ایک مرجائے عورت کے لعان کرنے پہلے تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں گے۔ مسئلہ نمبر 30 ۔ ابن القصار نے کہا : ہمارے نزدیک لعان کی تفریق فسخ نہیں ہے ؛ یہ المدونتہ کا مذہب ہے کیونکہ لعان کی تفریق کا حکم طلاق کی تفریق کا حکم ہے۔ غیر مدخول بہا کو نصف مہرد یا جائے گا اور ابن الجلاب کی مختصر میں ہے ایسی عورت کے لئے کچھ نہیں ہوگا یہ اس بناء پر ہے کہ لعان کی تفریق فسخ ہے۔
Top