Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 62
وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الَّیْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ یَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا
وَهُوَ : اور وہی الَّذِيْ جَعَلَ : جس نے بنایا الَّيْلَ : رات وَالنَّهَارَ : اور دن خِلْفَةً : ایک دوسرے کے پیچھے آنیولا لِّمَنْ اَرَادَ : اس کے لیے جو چاہے اَنْ يَّذَّكَّرَ : کہ وہ نصیحت پکڑے اَوْ اَرَادَ : یا چاہے شُكُوْرًا : شکر گزار بننا
اور وہی تو ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے جانے والا بنایا (یہ باتیں) اس شخص کے لئے جو غور کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے (سوچنے اور سمجھنے کی ہیں )
(وھو الذی جعل۔۔۔۔۔ ) مسئلہ نمبر 1 :۔ خلفۃ ابو عبید نے کہا : خلفہ سے مراد ہر ایسی چیز ہے جو کسی چیز کے بعد ہو۔ رات اور دن میں سے ہر ایک دوسرے کے بعد آتا ہے۔ پیٹ کے مرض میں مبتلا لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے : اصابتہ خلفۃ یعنی وہ یکے بعددیگرے اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اسی سے خلفۃ النبات ہے یہ ایسا پتہ ہے جو موسم سرما میں پہلے پتے کے بعد نکلتا ہے۔ اسی معنی میں زہیر بن ابی سلمیٰ کا قول ہے : بھا العین والارام یمثین خلفۃ وہاں نیل گائیں اور ہرن کے بچے یکے بعد دیگرے چلتے ہیں۔ رثم ہرن کے بچے کو کہتے ہیں اس کی جمع آرام ہے۔ وہ کہتا ہے : جب ایک جماعت چلی جاتی ہے تو دوسری آجاتی ہے۔ اسی معنی میں ایک اور شاعر کے اشعار ہیں وہ ایک عورت کی صفت بیان کرتا ہے جو موسم سرما کی منزل سے موسم گرما کی منزل کی طرف منتقل ہوگی ہے۔ مجاہد نے کہا : خلفۃ یہ خلاف سے مشتق ہے یہ سفید ہے اور یہ سیاہ ہے، پہلا قول زیادہ قوی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ روشنی تاریکی، زیادتی اور کمی میں ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کلام ایسی ہے جس کا مضاف حذف ہے، تقدیر کلام یہ ہوگی : جعل اللیل والنھا ذوق خلقۃ اس صورت میں خلفۃ کا معنی اختلاف ہوگا۔ لمن اراد ان یذکر جو ارادہ کرے کہ وہ غور و فکر کرے تو اسے علم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فضول نہیں بنایا تو وہ اللہ تعالیٰ کی مصنوعات میں غور و فکر کرے گا۔ وہ عقل، فکر اور فہم میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر بجا لائے گا۔ حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابن عباس اور حضرت حسن بصری نے کہا : اس کا معنی ہے جس سے رات کے وقت کوئی بھلائی فوت ہوجائے تو وہ دن کے وقت اس کو پا لے اور جس سے دن کے وقت بھلائی فوت ہوجائے وہ رات کے وقت اسے پالے۔ صحیح یہ ہے ما من امری تکون لہ صلوۃ بالنیل فغلبہ علیھا نوم فیصلی ما بین طلوع الشمس الی صلاۃ الظھر الا کتب اللہ لہ اجر صلاتہ وکان نومہ علیہ صدقہ (1) جب آدمی کی رات کے وقت کی کوئی نماز ہو اس میں نیند غالب آجائے تو وہ سورج کے طلوع ہونے سے لے کر ظہر کی نماز تک نماز پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کی نماز کا اجر لکھ دیتا ہے اور اس کی نیند اس کا صدقہ ہوتا ہے۔ امام مسلم نے حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’ ’ جو آدمی اپنا وظیفہ کرنے سے سو گیا تو اس نے اسے نماز فجر اور نماز ظہر کے درمیان پڑھ لیا تو اس کے حق میں اسے لکھ لیا جاتا ہے گویا اس نے اسے رات کے وقت پڑھ لیا ہو “۔ 1 ؎۔ سنن ابی دائود، باب من نومی القیام فنام، حدیث نمبر 1119، ضیاء القرآن پبلی کیشنز مسئلہ نمبر 2 :۔ ابن عبی نے کہا : میں نے شہید اکبر کو کہتے ہوئے سنا : اللہ تعالیٰ نے بندے کو زندہ اور عالم پیدا کیا اس کے ساتھ اس کا کمال ہے، اس پر نیند کی آفت، حدث کی ضرورت اور خلقت کا نقصان مسلط کردیا کیونکہ کمال پہلے خالق کے لیے ہے بندے کے لیے جو ممکن ہے کہ وہ تھوڑا کھانے اور اللہ تعالیٰ کی طاعت میں جاگنے کے ساتھ نیند کو دور کرے تو وہ ایسا کرے۔ غبن عظیم میں سے یہ ہے کہ انسان ساٹھ سال تک زندہ رہے ساری رات سو یا رہے تو اس کی نصف عمر لغو چلی گئی۔ ہو دین کا 6/1 حصہ آرام کرنے کے لیے سوتا ہے تو اس کے دو تہائی چلے جاتے ہیں اور اس کے بیس سال باقی رہ جاتے ہیں یہ امر جہالت اور سفاہت سے تعلق رکھتا ہے کہ انسان اپنی عمر کا دو تہائی فانی لذت میں گزار دیتا ہے اور وہ اپنی عمر بیدار ہو کر ایسی لذت میں نہیں گزارتا جو باقی رہنے والی ہے اور وہ اس غنی کے پاس ہے جو پورا پورا حق دینے والا ہے جو نہ معدوم ہونے والا ہے اور نہ ہی ظلم کرنے والا ہے۔ مسئلہ نمبر 3 :۔ اشیاء اپنی ذات کے اعتبار سے کوئی فضلیت نہیں رکھتیں کیونکہ جواہر اور اعراض وجود کے اعتبار سے باہم مماثل ہیں۔ تفاضل صفات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اختلاف اس میں ہے کہ کون سا وقت افضل ہے رات یا دن ؟ جہاں تک روزے کا تعلق ہے اس کے بارے میں رہنمائی کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے : یہ ابن عربی نے کہا ہے۔ میں کہتا ہوں : رات کی بڑی شان ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو قیام کا حکم دیا فرمایا : ” وَمِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ق “ (الاسرائ : 79) ” قیم الیل (السجدہ : 16) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” الصدقۃ تطفی الخطیئۃ کما یطفی الماء النار وصلاۃ الرجل فی جوف اللیل و فیہ ساعۃ یستجاب فیھا الدعاء و فیہ ینزل تبارک و تعالیٰ (1) صدقہ خطاء کی آگ کو بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، رات کے وسط میں آدمی کا نماز پڑھنا یہ بھی خطائوں کو مٹا دیتا ہے اس میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے اس میں رب تبارک و تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ جس کی وضاحت انشاء اللہ آئے گی۔ مسئلہ نمبر 4 :۔ صرف حمزہ نے یذکر ذال کے سکون اور کاف کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، یہ ابن و ثاب، طلحہ اور نخعی کی قرأت ہے۔ حضرت ابی کے مصحف میں یتذکر تاء کی زیادتی کے ساتھ ہے۔ باقی قراء نے یذکر تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے یعنی اس نے دونوں وقتوں میں سے جو بولا وہ دوسرے وقت میں اسے یاد کرے گا یا وہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہ اور تسبیح کو یاد کرلے گا۔ اذا رادشکورا یہ جملہ بولا جاتا ہے شکر یشکر شکرا و شکور جس طرح کفر یکفر کفراوکفورا ہے یہ شکر اسی بناء پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ان کی زندگی کا سہارا بنا دیا گویا جب انہوں نے کہا : وما الرحمن، جواب دیا : رحمن وہ ہے جو ان اشیاء پر قادر ہے۔ 1 ؎۔ سنن ترمذی، باب ما جاء لی حرمۃ الصلاۃ، حدیث نمبر 2541۔ سنن ابن ماجہ، باب کف اللسان الفتۃ، حدیث نمبر 3982، ضیاء القرآن پبلی کیشنز۔
Top