Al-Qurtubi - Ash-Shu'araa : 79
وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ
وَالَّذِيْ : اور وہ جو هُوَ : وہ يُطْعِمُنِيْ : مجھے کھلاتا ہے وَيَسْقِيْنِ : اور مجھے پلاتا ہے
اور وہ جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے
والذین یمیتنی ثم یحیین احیاء سے مراد بعث ہے وہ موت کو اسباب کی طرف منسوب کرتے اللہ تعالیٰ نے اس امر کو واضح کیا اللہ تعالیٰ کی ذات ہی موت اور زندگی عطاء کرتی ہے۔ سب ( یھدین اور یشفین) یاء متکلم کے بغیر ہیں کیونکہ آیات کے سروں کا حذف اچھا ہے تاکہ سب متفق ہوجائیں۔ ابن ابی اسحاق نے اپنی جلالت اور لغت عربی میں اپنے مقام کے اعتبار سے سب میں یاء متکلم پڑھی ہے کیونکہ یاء اسم ہے نون علت کی وجہ سے داخل ہوئی۔ اگر یہ سوال کیا جائے یہ تو تمام مخلوق کی صفت ہے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے کیسے ہدایت پر دلیل بنایا ہے اور کسی غیر نے اس سے ہدایت نہ پائی ؟ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اسے ذکر کیا تاکہ اطاعت کے وجوب پر استدلال کریں کیونکہ جو انعام کرے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی نہ کی جائے تاکہ اس نے جس چیز کو خود پر لازم کیا ہے وہ بھی اس پر لازم ہوجائے۔ یہ صحیح الزامی دلیل ہے۔ میں کہتا ہوں : بعض اہل اشاردات نے پوشیدہ معانی مراد لیتے ہیں، جو ہم نے معانی ذکر کیے ہیں ان سے عدول کیا ہے ہدایت عقل جس کا انکار کرتی ہے یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مراد ہے۔ کہا : والذی ھو یطعمی ویسقین وہ مجھے ایمان کی لذت چکھاتا ہے اور قبول کی حلاوت پلاتا ہے ان کے نزدیک واذا مرضت فھویشفین میں وجوہ ہیں (1) جب میں اس کی مخالفت کے ساتھ مریض ہوتا ہوں تو وہ اپنی رحمت کے ساتھ مجھے شفا دیتا ہے (2) جب میں مخلوق کی سختی کے ساتھ مریض ہوتا ہوں تو مشاہدہ حق کے ساتھ مجھے شفاء عطاء کرتا ہے۔ امام جعفر بن محمد صادق نے کہا : جب میں گناہوں کے ساتھ مریض ہوتا ہوں تو وہ توبہ کے ساتھ مجھے شفاء عطا کرتا ہے۔ (1) انہوں نے والذی یمیتنی ثم یحیین کی تین وجوہ بیان کی ہیں۔ (1) جو معاصی کے ساتھ موت عطاء کرتا ہے طاعات کے ساتھ مجھے زندہ کرتا ہے (2) خوف کے ساتھ مجھے موت عطاء کرتا ہے رجا کے ساتھ مجھے زندہ کرتا ہے (3) طمع کے ساتھ مجھے موت عطا کرتا ہے اور قناعت کے ساتھ مجھے زندہ کرتا ہے (4) وہ عدل کے ساتھ موت عطاء کرتا ہے اور فضل کے ساتھ مجھے زندہ کرتا ہے (5) فراق کے ساتھ مجھے موت عطاء کرتا ہے اور اس ملاقات کے ساتھ مجھے زندہ کرتا ہے (6) جہالت کے ساتھ مجھے موت عطاء کرتا ہے اور عقل عطاء فرما کر زندہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں جو آیت کی مراد نہیں۔ یہ مخفی تاویلات اور باطنی امور اس آدمی کے لیے ہیں جو حاذق ہو اور حق کو پہنچانتا ہو، جو حق سے اندھا ہوا اور حق کو نہ پہنچانتا ہو تو اس کے لیے امور باطنہ کی طرف کیسے اشارہ کیا جاسکتا ہے اور ظاہر امور کو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ؟ یہ محال ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔
Top