Al-Qurtubi - An-Naml : 88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ
وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْجِبَالَ : پہاڑ (جمع) تَحْسَبُهَا : تو خیال کرتا ہے انہیں جَامِدَةً : جما ہوا وَّهِىَ : اور وہ تَمُرُّ : چلیں گے مَرَّ السَّحَابِ : بادلوں کی طرح چلنا صُنْعَ اللّٰهِ : اللہ کی کاری گری الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَتْقَنَ : خوبی سے بنایا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّهٗ : بیشک وہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو تو خیال کرتے ہو کہ (اپنی جگہ پر) کھڑے ہیں مگر وہ (اس روز) اس طرح اڑے پھریں گے جیسے بادل (یہ) خدا کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا بیشک وہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے
وتری الجبال تحسبھا جامدۃ وھی تمرمر الحساب حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جامدۃ سے مراد ہے ٹھہرے ہوئے جب کہ وہ تیزی سے چل رہے ہیں۔ قتبی نے کہا : اس کی وجہ یہ ہے کہ پہاڑ بہت زیادہ ہیں اور انہیں چلایا جاتا ہے آنکھ کے دیکھنے میں وہ کھڑے ہیں جب کہ وہ چل رہے ہیں اسی طرح ہر عظیم شے اور جمع کثیر ہوتی ہے آنکھ جس سے قاصر ہوتی ہے کیونکہ وہ بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اس کی اطراف میں بہت دوری ہوتی ہے۔ وہ دیکھنے والے کے گمان میں واقف کی طرح ہوتے ہیں جب کہ وہ چل رہے ہوتے ہیں۔ نابغہ نے لشکر کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا : بارعن مثل الطود تحسب انھم وقوف بحاج والرکاب تھملج ارعن کے مقام پر بڑے ٹیلے کی ماند تو انہیں گمان کرے گا کہ یہ حج کا وقوف ہے اور اونٹ نرم اور تیز چال چل رہے ہیں۔ قشیری نے کہا : یہ یوم قیامت ہے یعنی وہ کثرت کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے۔ وہ جامد ہیں آنکھ کے دیکھنے میں کھڑے ہیں اگرچہ وہ بادل کے چلنے کی طرح تیزی سے چل رہے ہیں۔ تیرے بادلوں کے بارے میں گمان کیا جاتا ہے کہ و ٹھہرے ہوئے ہیں جب کہ وہ چل رہے ہیں وہ بادل کے گزرنے کی طرح گزر جاتے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی باقی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : و سیرت الجبال فکانت سراباً ۔ (النبائ) یہ جملہ کہا جاتا ہے : اللہ تعالیٰ نے پہڑاوں کی مختلف صفات بیان کی ہیں پس اس امر کی طرف لوٹتی ہیں کہ انہیں زمین کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے اور جن چیزوں کو یہ پوشیدہ کئے ہوتے تھے ان کو یہ ظاہر کرتے ہیں، ان صفات میں سے پہلی صفات ان کا باسم ٹکرانا اور ریزہ ریزہ ہونا ہے یہ زلزلہ سے قبل ہوگا۔ پھر وہ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجائیں گے یہ اس وقت ہوگا جب آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوجائے گا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو جمع کیا فرمایا : یوم تکون السمآء کالمھل۔ و تکون الجبال کالعھن۔ (المعارج) تیسری حالت یہ ہے کہ وہ باریک ذرات کی طرح ہوجائیں گے۔ پہلے وہ دھنکی ہوئی روئی کی طرح تھے پھر وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ چوتھی حالت یہ ہے کہ انہیں اڑا دیا جائے گا کیونکہ احوال متقدمہ کے باوجود وہ اپنی حد پر قائم ہوں گے زمین اس کے نیچے ظاہر نہ ہوگی زمین سے ان پہاڑوں کو اڑا دیا جائے گا تاکہ وہ ظاہر ہوجائے گا جب انہیں اڑایا جائے گا تو ہوائوں کو ان پر بھیجا جائے گا۔ پانچویں حالت یہ ہوئی کہ ہوائیں پہاڑوں کو روئے زمین سے اٹھا لیں گی اور ہوا میں شعاع کی حیثیت سے انہیں ظاہر کریں گی گویا وہ غبار ہیں۔ جو آدمی دور سے انہیں دیکھے گا تو اس غبار کے گھنا ہونے کی وجہ سے جامد جسم خیال کرے گا۔ وہ حقیقت میں چل رہے ہوں گے مگر ان کا چلنا ہوائوں کے اوپر سے ہوگا، گویا وہ ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں اور ان کے اجزاء بکھر چکے ہوں گے۔ چھٹی حالت یہ ہے کہ وہ سراب ہوں جو دٓمی ان کی جگہوں کو دیکھے گا تو ان میں سے کوئی چیز نہیں دیکھے گا گویا وہ سراب ہو۔ مقاتل نے کہا، وہ پہاڑ زمین پر واقع ہوں گے تو ان کے ساتھ زمین کو برابر کردیا جائے گا۔ پھر ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ بھی ایک مثال ہے ماوردی نے کہا، ضرب الامثال کے بارے میں تین اقوال ہیں (1) یہ ضرب المثل ہے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مثال دی ہے اسے دیکھنے والا گمان کرتا ہے کہ وہ اپنی جگہ کھڑی ہے جس طرح پہاڑ۔ یہ زوال میں سے اپنا حصہ لے رہی ہوتی ہے جس طرح بادل ہیں، یہ سہیل بن عبداللہ کا قول ہے (2) یہ ایک مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایمان کی بیان کی ہے تو اسے دل میں ثابت گمان کرتا ہے جب کہ اس کا عمل آسمان کی طرف بلند ہو رہا ہوتا ہے (3) یہ مثال ہے جو اللہ تعالیٰ نے نفس کی بیان فرمائی ہے جب روح نکلتی ہے اور روح عرش کی طرف جا رہی ہوتی ہے صنع اللہ الذی التقن کل شیء یہ اللہ تعالیٰ کا عمل ہے اور جو اللہ تعالیٰ کا عمل ہوتا ہے وہ بڑا مضبوط ہوتا ہے۔ تری یہ آنکھ کی رئویت ہے۔ اگر یہ دل کی رئویت ہوتی تو فعل دو مفعولوں کی طرف متعدمی ہوتا یہ اصل میں ترای ہے ہمزہ کی حرکت راء کو دی رائہ محترک ہوگئی اور ہمزہ کو حذف کردیا یہ ہمزہ میں تخفیف کا قاعدہ ہے جب اس کا ماقبل ساکن ہو۔ ورنہ تری کو تخفیف لازم ہوتی ہے۔ اہل کوفہ تحسبھا پڑھتے ہیں یعنی سین پر فتحہ ہے یہی قیاس ہے کیونکہ حسب یحسب سے مشتق ہے مگر نبی کریم ﷺ سے اس کے برعکس مرومی ہے۔ مگر مضارع میں کسرہ کے ساتھ قرأت کی ہے اس وقت یہ فعل یفعل سے مشتق ہے جس طرح نعم ینعم بیس بیس اسی طرح بیس بیس ہے سالم سے نعم ینعم ہے۔ ان حروف کے علاوہ عرب میں یہ بات معروف نہیں۔ وھی تمر مرالسحاب تقدیر کلام یہ ہے مرمثل مرالحساب صفت کو موصوف کے قائم مقام رکھا اور مضاف کو مضاف الیہ کے قائم رکھا۔ پہاڑوں کو روئے زمین سے اپنی جگہ سے زائل کردیا جائے گا، انہیں جمع کیا جائے گا اور انہیں چلایا جائے گا جس طرح بادلوں کو چلایا جاتا ہے پھر انہیں توڑا جائے گا اور وہ زمین کی طرف لوٹ آئیں گے۔ جس طرح فرمایا : وبست الجبال بساً ۔ (الواقعہ) صنع اللہ خلیل اور سیبویہ کے نزدیک مفعول مطلق کے طور پر منصبو ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان : وھی تمرمر السحاب اس پر دال ہے کہ اس نے یہ کام کیا۔ اغراء کے طریقہ پر نصب بھی جائز ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت کو دیکھو۔ اس تعبیر کی بنا پر السحاب پر وقف کیا جائے گا اور پہلی تقدیر کی بنا پر اس پر وقف نہیں کیا جائے گا۔ اس تقدیر کی بنا پر صنع الذین اتقن کل شیء اس نے ہر شے کو محکم کردیا۔ اس معنی میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : رحم اللہ من عمل عملا فاتفنہ۔ اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے جو عمل رے تو اسے پختہ کرے (1) قتادہ نے کہا، اس کا معنی ہے ہر چیز سے اچھا۔ اتفاق کا معنی پختہ کرنا ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے رجل تقنایسا آدمی جو اشیاء کی سجھ بوجھ رکھتا ہو۔ زہرمی نے کہا، اصل میں یہ ابن تقن ہے، یہ قوم عاد کا ایک آدمی تھا اس کا کوئی تیر ضائع نہ گرتا تو مثال بیان کی گئی، یہ جملہ کہا جاتا ہے : ارمی من ابن تقن۔ وہ ابن تقن سے بھی زیادہ تیر انداز ہے۔ پھر ہر وہ آدمی جو اشیاء کا ماہر ہوتا ہے اس کے لئے تقن کا لفظ استعمال کیا جاتا انہ خبیر بما تفعلون تاء کے ساتھ خطاب کا صیغہ جمہور کی قرأت ہے۔ ابن کثیر، ابو عمرو اور ہشام نے یاء کے ساتھ قرأت کی ہے۔
Top