Al-Qurtubi - Al-Qasas : 78
قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِیْ١ؕ اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا١ؕ وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ
قَالَ : کہنے لگا اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دیا گیا ہے عَلٰي عِلْمٍ : ایک علم (ہنر) سے عِنْدِيْ : میرے پاس اَوَ : کیا لَمْ يَعْلَمْ : وہ نہیں جانتا اَنَّ اللّٰهَ : کہ اللہ قَدْ اَهْلَكَ : بلاشبہ ہلاک کردیا مِنْ قَبْلِهٖ : اس سے قبل مِنَ : سے (کتنی) الْقُرُوْنِ : جماعتیں مَنْ : جو هُوَ اَشَدُّ : وہ زیادہ سخت مِنْهُ : اس سے جو قُوَّةً : قوت میں وَّاَكْثَرُ : اور زیادہ جَمْعًا : جمعیت وَلَا يُسْئَلُ : اور نہ سوال کیا جائے گا عَنْ : سے (بابت) ذُنُوْبِهِمُ : ان کے گناہ الْمُجْرِمُوْنَ : (جمع) مجرم
بولا کہ یہ (مال) مجھے میری دانش (کے زور) سے ملا ہے کیا اس کو معلوم نہیں کہ خدا نے اس سے پہلے بہت سی امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں ہلاک کر ڈالی تھیں ؟ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جائے گا
قال انما اوتیتہ، علی علم عندی، مراد علم تورات ہے یہ اس سے روایت کیا گیا ہے جو تمام لوگوں میں سے زیادہ قاری ہیں اور ان سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ وہ ان ستر علماء میں سے ایک تھا جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے میقات کے لئے منتخب کیا تھا۔ ابن زید نے کہا : مجھے یہ اس لئے عطا کیا گیا کیونکہ وہ میری فضیلت اور اس کی مجھ سے رضا سے آگاہ تھا (2) قول : عندی اس کا معنی ہے میرے ہاں اس کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خزانے عطا کئے ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اپنی فضیلت کی وجہ سے میں ان کا مستحق ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مجھے یہ عطا کیا گیا ہے کہ میرے پاس تجارت اور کمائی کے مختلف ذرائع ہیں، یہ علی بن عیسیٰ کا نقطہ نظر ہے (3) اسے یہ عمل نہیں تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ اس کے لئے مال کمانے کو آسان نہ کرتا تو یہ اموال اس کے پاس جمع نہ ہوتے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : کیونکہ میرے پاس سونے کے کام کا علم ہے۔ اس نے علم کیمیا کی طرف اشارہ کیا۔ نقاش نے بیان کیا ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے کیمیا کی صنعت کا حضرت یوشع کو ایک تہائی اور حضرت ہارون کو ایک تہائی علم عطا کیا۔ قارون نے ان دونوں کے ساتھ دھوکہ کیا کہ جب کہ وہ اس وقت حضرت موسیٰ پر ایمان رکھتا تھا یہاں تک کہ ان دونوں کے پاس جو علم کیمیا تھا وہ بھی سیکھ لیا اور کیمیا کا عمل کیا تو اس کے اموال بہت زیادہ ہوگئے ایک قول یہ کہا گیا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تین افراد کو علم کیمیا سکھایا، یوشع بن نون، کالب بن یوحنا اور قارون از جاج نے پہلے قول کو پسند کیا اور اس کے قول کا انکار کیا جس نے کہا : وہ کیمیا کا علم کرتا تھا۔ اس نے کہا : کیمیا باطل ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بہن کو علم کیمیا سکھایا جو قارون کی بیوی تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن نے قارون کو علم سکھایا : اللہ بہتر جانتا ہے۔ یعنی عذاب کے ساتھ ہلاک کیا۔ گزشتہ کافرامتوں میں سے۔ مال زیادہ جمع کرنے والے تھے۔ اگر مال فضلیت پر دلالت کرتا تو انہیں ہلاک نہ کرتا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : قوت سے مراد آلات ہیں اور جمع سے مراد اعوان و انصار ہیں۔ کلام اللہ تعالیٰ کی جانب سے قارون کے لئے خبردار کرنے کا طریقہ پر واقع ہوئی ہے ؟ یعنی کیا قارون نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے قبل کن امتوں کو ہلاک کیا۔ ان سے سوال رضا مندی طلب کرنے کے لئے نہیں ہوگا جس طرح فرمایا : (الجاثیہ) (فصلت) ان سے سوال ان کو شرمند کرنے کے لئے ہوگا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (الجر) یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے (1) ۔ مجاہد نے کہا : ملائکہ کل قیامت کے روز مجرموں سے سوال نہیں کریں گے کیونکہ وہ ان کو ان کے چہروں سے ہی پہچان لیں گے۔ (2) قیامت کے روز انہیں سیاہ چہروں اور نیلی آنکھوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا۔ قتادہ نے کہا : مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا کیونکہ وہ ظاہر ہوں گے اور کثیر ہوں گے بلکہ وہ بلا حساب آگ میں داخل ہوں گے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس امت کے مجرموں سے سابقہ امتوں کے گناہوں کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا جن کو دنیا میں عذاب دیا گیا : ایک قول یہ کیا گیا ہے : سابقہ امتوں میں سے جن کو بھی ہلاک کیا وہ ان کے گناہوں کو جانتے ہوئے ہلاک کیا ان کے گناہوں کو پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
Top