Al-Qurtubi - Al-Ankaboot : 41
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ١ۚۖ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا١ؕ وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
مَثَلُ : مثال الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے اتَّخَذُوْا : بنائے مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ : اللہ کے سوا اَوْلِيَآءَ : مددگار كَمَثَلِ : مانند الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی اِتَّخَذَتْ : اس نے بنایا بَيْتًا : ایک گھر وَاِنَّ : اور بیشک اَوْهَنَ : سب سے کمزور الْبُيُوْتِ : گھروں میں لَبَيْتُ : گھر ہے الْعَنْكَبُوْتِ : مکڑی کا لَوْ كَانُوْا : کاش ہوتے وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے
جن لوگوں نے خدا کے سوا (اوروں کو) کارساز بنا رکھا ہے ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک (طرح کا) گھر بناتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تمام گھروں سے کمزور مکڑی کا گھر ہے کاش یہ (اس بات کو) جانتے
اخفش نے کہا : کمثل العنکبوت پر وقف تام ہے۔ پھر اس کے قصہ کو بیان کیا اور کہا : ابن انباری نے کہا : یہ غلط ہے : کیونکہ یہ عنکبوت کا صلہ ہے : گویا فرمایا : موصول کے بغیر صلہ پر وقف اچھا نہیں۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح فرمایا : (الجمعہ 5) یحمل، حمار کا صلہ ہے یحمل کی بجائے حمار پر وقف کرنا اچھا نہیں۔ فراء نے کہا : یہ ضرب المثل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لئے بیان کی ہے جو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان کو معبود بناتا ہے جو نہ نفع دیتے ہیں اور نہ نقصان دیتے ہیں جس طرح مکڑی کا گھر نہ اسے گرمی سے بچاتا ہے اور نہ ٹھنڈ سے بچاتا ہے۔ عنکبوت پر وقف اچھا نہیں کیونکہ اس گھر جو اسے کسی چیز سے نہیں بچاتا اس کی تشبیہ کا قصد کیا تو معبود ان باطلہ جو نہ نفع دیتے ہیں اور نہ نقصان، ان کو اس کے گھر کے ساتھ تشبیہ دی۔ گھروں میں سے سب سے کمزور مکڑی کا گھر ہے۔ بیت العنکبوت کے متعلق ہے یعنی اگر وہ جانتے ہو کہ بتوں کی عبادت مکڑی کے گھر بنانے کی طرح ہے جو انہیں کچھ نفع نہیں دیتی تو وہ اس کی عبادت نہ کرتے یہ ان کی مثال ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ کاش وہ جانتے کہ مکڑی کا گھر تو کمزور ہے۔ نحویوں نے کہا : عنکبوت کے آخر میں تاء زائدہ ہے کیونکہ یہ تصغیر ہے اور جمع بناتے وقت گر جاتی ہے، یہ لغت ہے فراء نے حکایت بیان کی کہ یہ مذکر ہے اور یہ کہا : ان کے پہاڑ پر گھر ہیں۔ گویا عنکبوت نے انہیں بنایا۔ محل استدلال قد ابتنا ھا۔ اسے روایت کیا گیا ہے : جوہری نے کہا : فطال پہاڑ کا نام ہے عنکبوت معروف کیڑا ہے جو ہوا میں باریک اور ہلکا سا جالا بناتا ہے۔ اس کی جمع عناکیب، عنکاب، اور اعکب آتی ہے اس عنکتب اور عنکبناۃ بھی حکایت کیا جاتا ہے، شاعر نے کہا : محل استدلال عکنابۃ ہے۔ اس کی تصغیر بنائی جاتی ہے تو عنکیب کہا جاتا ہے یزید بن میسرہ سے مروی ہے کہ عنکبوت شیطان ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مسخ کیا (2) ۔ عطا خراسانی نے کہا : عنکبوت نے دو دفعہ جالا بنایا ایک دفعہ حضرت دائود (علیہ السلام) پر جب جالوت آپ کی تلاش میں تھا اور ایک دفعہ نبی کریم ﷺ پر اس وجہ سے اس کے قتل سے منع کیا گیا ہے (3) حضرت علی شیر خدا سے مروی ہے فرمایا : اپنے گھروں کو مکڑی کے جالوں سے پاک کرو کیونکہ گھروں میں اس کا چھوڑنا فقر کو لازم کرتا ہے اور خمیر نہ دینا یہ بھی فقر لاتا ہے۔ (4) مایہ الذی کے معنی میں ہے من یہ بعضیہ ہے۔ اگر تاکید کے لئے زائدہ ہوتا تو معنی بدل جاتا۔ معنی ہے جس کی وہ عبادت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے ضعف کو جانتا ہے۔ عاصم، ابو عمرو اور یعقوب نے پڑھا یدعون یاء کے ساتھ (5) یہ ابو عبیدہ کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے کیونکہ پہلے امتوں کا ذکر ہے باقی قراء نے تاء کے ساتھ پڑھا ہے یہ خطاب کا صیغہ ہے۔ یہ مثال اور اس کے علاوہ سورة البقرہ، سورة حج اور دوسری سورتوں میں گزر چکی ہیں۔ ہم انہیں بیان کرتے ہیں۔ اسے اللہ تعالیٰ سے آگاہی رکھنے والے ہی سمجھتے ہیں جس طرح حضرت جابر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے، عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا عرفان رکھتا ہو، اس کے احکام کی اطاعت کرتا ہو اور اس کی ناراضگی سے بچتا ہو (6) ۔
Top