Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 118
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ
يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے اِنَّ : بیشک اَرْضِيْ : میری زمین وَاسِعَةٌ : وسیع فَاِيَّايَ : پس میری ہی فَاعْبُدُوْنِ : پس تم عبادت کرو
اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو
یہ آیت نازل ہوئی تاکہ جو مومن مکہ مکرمہ میں ہیں انہیں ہجرت پر برانگختیہ کیا جائے، یہ مقاتل، اور کلبی کا قول ہے : (1) ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی زمین کی وسعت کی خبرد یاور یہ یہ بتایا کہ ایسے علاقے میں رہنا جہاں کفار کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ درست نہیں بلکہ یہ درست ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں کے ساتھ اس کی زمین میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو تلاش کریں یعنی اگر تمہیں ایمان کے اظہار میں تنگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مدینہ کی طرف ہجرت کر جائو وہ وسیع ہے کیونکہ وہاں توحید کا اظہار کرنا ممکن ہے : ابن جبیر اور عطاء نے کہا : جہاں بھی ظلم اور منکر ہو وہاں اس آیت کا حکم مرتب ہوگا اور ایسے ملک کی طرف ہجرت کرنا لازم ہوگا جہاں حق ہو، یہ امام مالک کا قول ہے، مجاہد نے کہا : میری زمین وسیع ہے پس ہجرت کر جائو اور جہاد کرو مطرف بن شخیر نے کہا : معنی ہے میری رحمت وسیع ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے میرا رزق تمہارے لئے وسیع ہے اسے زمین میں تلاش کرو۔ سفیان ثوری نے کہا : جب تو ایسے علاقے میں ہو جہاں مہنگائی ہو تو اس کے علاوہ کسی ایسے علاقے کی طرف ہجرت کر جائو جہاں تیرا تھیلا ایک درہم کے بدلے میں روٹیوں سے بھر جائے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ معنی ہے میری زمین جو جنت کی زمین ہے وہ وسیع ہے۔ فاعبدون میری عبادت کرو تاکہ میں تمہیں اس کا مالک بنا دوں۔ ایای یہ فعل مضمر کے ساتھ منصوب ہے۔ تقدیر کلام یوں ہے یہ ایک فعل کی وجہ سے دوسرے فعل سے مستغنی ہوگیا۔ فا ایای میں فاء شرط کے معنی میں ہے۔ تقدیر کلام یہ ہوگی : یہ آل عمران میں گز چکا ہے۔ یہاں اسے ذکر کیا یہ دنیا کے امرا اور اس کے خوف کو حقیر ثابت کرنے کے لئے ہے، گویا بعض مومنوں نے انجام کے بارے میں یہ سوچا کہ اپنے وطن مکہ سے نکنے میں یہ ہوسکتا ہے کہ وہ مرجائے اور اسے بھوک آئے یا اس طرح کی کوئی مصیبت آجائے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے معاملہ کی حقارت بیان کی، یعنی تم لامحالہ مرو گے اور ہماری طرف اٹھائے جائو گے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کی طرف ہجرت اور اس کے احکام کی بجاآوری کی طرف جلدی کرنی چاہیے۔ پھر ان مومنوں سے وعدہ کیا جو عمل کرتے ہیں کہ انہیں جنت میں رہائش دی جائے گی مقصود اللہ تعالیٰ کی جانب سے انہیں برانگختیہ کرنا ہے اس جزا کا ذکر کیا جس کو وہ پائیں گے پھر وہ اس ارشاد کے ساتھ ان کی صفت بیان کی، ابو عمر، یعقوب، حجدری، ابن اسحاق، ابن محیضن، اعمش، حمزہ کسائی اور خلف نے یاعبادی یاء کے سکون کے ساتھ پڑھا۔ باقی قراء نے اس یاء کو فتحہ بنا دیا۔ ابن عامر نے اسے فتحہ دیا اور باقی نے ہاء کو سکون دیا۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : السلام (1) جو اپنے دین کو بچانے کی خاطر ایک علاقے سے دوسرے علاقے کی طرف بھاگے اگرچہ بالشت بھر ہی ہو تو وہ جنت کا مستحق بن جاتا ہے۔ وہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا رفیق ہوگا۔ سلمیٰ اور ابوبکر نے عاصم سے یہ قرأت نقل کی۔ یرجعون یعنی یاء کے ساتھ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے، باقی قراء نے اسے تاء کے ساتھ پڑھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : بعض نے یہ اشعار پڑھے۔ موت ہر لمحہ کفن کر ذکر کرتی ہے اور ہمارے بارے میں جو ارادہ کیا جارہا ہو ہم اس سے غافل ہیں تو دنیا اور اس کی تروتازگی کی طرف مائل نہ ہو اگرچہ تو اس سے اچھے کپڑے زیب تن کئے ہوئے ہو، محبوب اور پڑوسی کہاں ہیں انہوں نے جو کچھ کہا وہ کہاں ہیں جن کے یہ مکانات ہیں۔ موت نے انہیں ایسا جام پلا دیا جو صاف نہ تھا موت نے انہیں مٹی کے نیچے رہن رکھ دیا ہے۔ حضرت ابن مسعود، اعمش، یحییٰ بن دثاب، حمزہ اور کسائی نے باء کی جگہ ثاء کی قرأت کی ہے (1) اس سے مراد اقامت ہے یعنی ہم انہیں ایسے کمرے عطا کریں گے جن میں یہ قیام کریں گے رویس نے یعقوب حجدری اور سلمی سے نون کی جگہ یاء کے ساتھ قرأت کی ہے۔ باقی قراء نے نون کے ساتھ قرأت کی ہے یعنی ہم انہیں ٹھہرائیں گے۔ غرفا یہ غرفہ کی جمع ہے اس سے مراد بالائی کمرہ ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سہل بن سعد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جنتی اہل غرف کو اپنے اوپر یوں دیکھیں گے جس طرح تم روشن ستارہ دیکھتے ہو جو مشرق و مغرب کے افق میں باق یماندہ دیکھتے ہو۔ “ 2 ۔ صحابہ نے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ وہ انبیاء کی منازل ہیں کوئی اور ان تک نہیں پہنچ سکتا ؟ فرمایا :” کیوں نہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں قدرت میں میری جان ہے : وہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور رسولوں کی تصدیق کی۔ “ امام ترمذی نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جنت میں بالا خانے ہیں جن کے باہر والے حصے اندر سے اور اندر والے حصے باہر سے دکھائی دیتے ہیں “ (3) ایک بدو اٹھا عرض کی، یا رسول اللہ ! یہ کن کے لئے ہوں گے ؟ فرمایا : یہ ان کے لئے ہوں گے جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے، ہمیشہ روزے رکھے اور راتوں کو نماز پڑھے، جبکہ لوگ سوئے ہوئے ہوں۔ “ ہم نے کتاب ” تذکرہ “ میں کچھ زائد چیزیں ذکر کی ہیں، الحمد اللہ۔ واحدی نے یزید بن ہارون سے وہ حجاج بن منہال سے وہ زری یعنی عبدالرحمن بن عطاء سے وہ عطا سے وہ حضرت ابن عمر ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ آپ ﷺ انصار کے ایک باغ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ وہاں سے گرا ہوا پھل چننے لگے، اس سے کھانے لگے، فرمایا :” اے ابن عمر : تجھے کیا ہوگیا ہے تو کھاتا نہیں۔ “ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ مجھے طلب نہیں۔ فرمایا : لیکن مجھے طلب ہے یہ چوتھی صبح ہے میں نے کھانا چکھا تک نہیں اگر میں چاہتا تو اپنے رب سے دعا کرتا تو وہ مجھے قیصر و کسریٰ کے ملک جیسا ملک عطا کردیتا، اے ابن عمر : تیرا کیا حال ہوگا جب تو ایسی قوم میں باقی رہے گا جو سال بھر کا رزق چھپا کر رکھیں گے اور یقین ان کا کمزور ہوتا “ ، فرمایا : تھوڑا وقت بھی نہیں گزرا تھا کہ یہ آیت نازل ہوئی : میں کہتا ہوں : یہ روایت ضعیف ہے اس کو ضعیف حضور ﷺ کا یہ معمول کرتا ہے کہ حضور ﷺ اپنے گھر والوں کے لئے سال بھر کا رزق ذخیرہ کرتے۔ امام بخاری اور امام مسلم اس پر متفق ہیں۔ صحابہ کرام بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے جبکہ وہ مقتدیٰ تھے، اہل یقین تھے اور بعد میں آنے والے متقین او متوکلین کے امام تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں مومنین سے فرمایا : جب مشرکوں نے انہیں اذیتیں دیں :” مدینہ طیبہ کی طرف نکل چلو، ہجرت کرو اور ظالموں کے پڑوس میں نہ رہوے “ عرض کی : وہاں ہمارا کوئی گھر نہیں، کوئی جانتا نہیں اور نہ ہی وہاں ہمارا کوئی ایسا رشتہ دار ہے جو ہمیں کھانا کھلائے اور ہمیں پانی پلائے۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی اس کے پاس ذخیرہ کیا ہوا رزق نہیں ہوتا، یہ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارا دار ہجرت میں رزق عطا فرمائے گا : یہ پہلے قول سے زیادہ مشابہ ہے : کاین کے بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے۔ یہ ای اس پر کاف تشبیہ داخل ہے اور اس میں کم کا معنی پیدا ہوگیا ہے خلیل اور سیبیویہ کے نزدیک اس کی تقدیر عدد کی طرح ہے، یعنی چوپائوں میں سے کثیر تعداد۔ مجاہد نے کہا : یعنی پرندے اور چوپائے جو اپنے منہ سے کھاتے ہیں اور کوئی چیز اٹھا کر نہیں لاتے (1) حضرت حسن بصری نے کہا : وہ اس وقت ہی کھاتے ہیں اور کل کے لئے ذخیرہ نہیں کرتے۔ (2) ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ : وہ اپنے رزق پر قادر نہیں اللہ تعالیٰ جہاں بھی جائیں اللہ تعالیٰ انہیں رزق عطا فرماتا ہے وہ تمہیں بھی رزق عطا فرمائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حمل حمالہ کے معنی میں ہے، نقاش نے حکایت بیان کی ہے : مراد نبی کریم ﷺ کی ذات ہے آپ کھاتے اور ذخیرہ نہ کرتے۔ (3) میں کہتا ہوں : یہ تعبیر کچھ بھی نہیں کیوں کہ دابۃ کا لفظ مطلق ہے عرف میں اس کا استعمال آدمی پر نہیں ہوتا تو نبی کریم ﷺ پر کیسے ہوگا ؟ سورة النمل میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ (النمل 82) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : دواب سے مراد ہر وہ حیوان ہے جو رینگے ان میں سے انسان چیونٹی اور چوہے کے سوا کوئی بھی خوراک کا ذخیرہ نہیں کرتا۔ بعض لوگوں سے یہ مروی ہے کہ میں نے بلبل کو دیکھا وہ اپنے دامن میں ذخیرہ کررہی تھی، عقعق کو مخابئی کہا جاتا ہے مگر وہ اسے بھول جاتا ہے۔ حریص اور جو رزق میں توکل کرتا ہے، رغبت کرنے والا اور قانع، حیلہ کرنے والا اور عاجز میں برابری کرتا ہے تاکہ محنت کرنے والا دھوکہ میں مبتلا نہ ہوجائے کہ وہ اپنی کوشش کی وجہ سے رزق دیا جائے گا اور عاجز تصور نہ کرے کہ عجز کی وجہ سے اسے رزق سے روک دیا جائے گا۔ صحیح میں نبی کریم : سے مروی ہے : اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے جس طرح توکل کرنے کا کا حق تھا۔ تو وہ تمہیں رزق دیتا جس طرح وہ پرندوں کو رزق دیتا ہے وہ صبح خالی پیٹ جاتے ہیں اور بھرے پیٹ واپس آتے ہیں۔ وہ تمہاری دعا قوال کو سنتا ہے کہ ہم مدینہ طیبہ میں ایسی کوئی چیز نہیں پاتے جس کو ہم خرچ کریں اور تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اسے بھی جانتا ہے۔
Top