Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں
آیت نمبر : 104۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں گفتگو اسی سورة میں گزر چکی ہے۔ اور ” منکم “ میں من تبعیضیہ ہے اور اس کا معنی ہے کہ حکم دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ علماء ہوں اور تمام لوگ علماء نہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ بیان جنس کے لئے ہے اور معنی ہے چاہیے کہ تم تمام کے تمام اسی طرح ہو۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : پہلا قول زیادہ صحیح ہے، کیونکہ وہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرض کفایہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس قول کے ساتھ انہیں معین کیا : (آیت) ” الذین ان منکنھم فی الارض اقاموا الصلوۃ “۔ الایۃ (الحج : 41) ترجمہ : وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں اقتدار بخشیں زمین میں تو وہ صحیح صحیح ادا کرتے ہیں نماز کو۔ اور تمام لوگوں کو قدرت نہیں دی گئی اور ابن زبیر نے پڑھا ہے۔ ” ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویستعینون اللہ علی ماصابھم “۔ ترجمہ : اور وہ اس پر اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں جو کچھ انہیں پہنچے۔ ابو بکر الانباری نے کہا ہے : یہ زیادتی ابن زبیر کی طرف سے تفسیر ہے اور یہ ان کا اپنا کلام ہے اس میں نقل کرنے والوں میں سے بعض نے غلطی کی ہے اور اس نے اسے الفاظ قرآن کے ساتھ ملا دیا ہے جو کچھ بیان کر رہا ہوں اس کی صحت پر وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو میرے باپ نے مجھے اس سند سے بیان کی ہے۔ حدثنا (حسن) بن عرفۃ حدثنا وکیع عن ابی عاصم بن ابی عون عن صبیح، انہوں نے کہا : میں نے حضرت عثمان بن عفان ؓ کو اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ” یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر ویستعینون اللہ علی ماصابھم “۔ اور کوئی عقلمند اس میں شک نہیں کرسکتا کہ حضرت عثمان ؓ اس زیادتی کے قرآن میں سے ہونے کا اعتقاد نہ رکھتے تھے، کیونکہ آپ نے اسے اپنے اس مصحف میں نہیں لکھا جو امام المسلمین ہے بلکہ آپ نے اسے وعظ ونصیحت کرنے کے لئے اور ماقبل رب العالمین کے کلام کو موکد کرنے کے لئے اس کا ذکر کیا ہے۔
Top