Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 103
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاعْتَصِمُوْا : اور مضبوطی سے پکڑ لو بِحَبْلِ : رسی کو اللّٰهِ : اللہ جَمِيْعًا : سب مل کر وَّلَا : اور نہ تَفَرَّقُوْا : آپس میں پھوٹ ڈالو وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِذْ كُنْتُمْ : جب تم تھے اَعْدَآءً : دشمن (جمع) فَاَلَّفَ : تو الفت ڈال دی بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں میں فَاَصْبَحْتُمْ : تو تم ہوگئے بِنِعۡمَتِهٖۤ : اس کی نعمت سے اِخْوَانًا : بھائی بھائی وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ حُفْرَةٍ : گڑھا مِّنَ : سے (کے) النَّارِ : آگ فَاَنْقَذَكُمْ : تو تمہیں بچا لیا مِّنْھَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِھٖ : اپنی آیات لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَھْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ
آیت نمبر : 103۔ اس میں دو مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (1) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واعتصموا۔ العصمۃ کا معنی ہے المنعۃ (یعنی عزت اور قوت) اور اسی وجہ سے بدرقہ کو عصمۃ کہا جاتا ہے اور بذرقہ : قافلہ کی حفاظت کرنے والے کو کہتے ہیں، (یعنی محافظ ونگران) اور وہ یہ ہے کہ وہ قافلہ کے ساتھ ایسے افراد کو بھیجے جو اس کی ان سے حفاظت کریں گے جو اسے اذیت اور تکلیف پہنچائیں گے۔ ابن خالویہ نے کہا ہے : البذرقہ عربی زبان کا لفظ نہیں ہے بلکہ یہ فارسی کلمہ ہے اور عربوں نے اسے عربی بنا لیا ہے، کہا جاتا ہے : بعث السلطان بذرقۃ مع القافلۃ (سلطان نے قافلہ کے ساتھ محافظ بھیجے، ) اور لفظ ” الحبل “ مشترک ہے اور لغت میں اس کا اصلی معنی یہ ہے، السبب الذی یوصل بہ الی البغیۃ والحاجۃ وہ جب جس کے ذریعہ مقصد اور حاجت تک پہنچا جاتا ہے اور حبل کا معنی حبل العاتق (کندھے کا پٹھا) بھی ہے اور حبل سے مراد ریت کا ایک لمبا اور طویل قطعہ بھی ہے اور اسی معنی میں ایک حدیث ہے : واللہ ماترکت من حبل الا وقفت علیہ، فھل لی من حج (1) (ابن ماجہ، باب الی عرفۃ قبل الفجر لیلۃ جمع، حدیث نمبر 3006، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (قسم بخدا میں نے کوئی ریت کالمبا ٹکڑا نہیں چھورا مگر میں نے اس وقوف کیا تو کیا میرا حج ہوگیا ؟ ) اور حبل کا معنی رسی بھی ہے اور اس کا معنی عہد بھی ہے۔ اعشی نے کہا ہے : واذا تجوزھا حبال قبیلۃ اخذت من الاخری الیک حبالھا : اس میں حبل سے مراد امان اور پناہ ہے۔ اور حبل کا معنی مصیبت بھی ہے۔ کثیر نے کہا ہے : فلا تعجلی یا عز ان تتفھی بنصح اتی الواشون ام بحبول : اس میں حبول مصائب کے معنی میں ہے۔ اور حبالۃ کا معنی شکاری کا پھندا (اور جال) ہے۔ اور آیت میں سوائے عہد کے معنی کے کوئی معنی مراد نہیں ہے یہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے۔ اور حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : حبل اللہ سے مراد قرآن کریم ہے اور اسے حضرت علی ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے۔ (2) (سنن ترمذی، باب ماجاء فضل القرآن، حدیث نمبر 2831، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت مجاہد (رح) اور حضرت قتادہ (رح) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ اور ابو معاویہ نے ھجری (مراد ابراہیم بن مسلم العبدی ہے) سے، انہوں نے ابو الاحوص سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بلاشبہ یہ قرآن ہی حبل اللہ (اللہ کی رسی) ہے۔ “ اور تقی بن مخلد نے اسی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے، حدثنا یحییٰ بن عبدالحمید حدثنا حثیم عن العوام بن حوشب عن الشعبی عن عبداللہ بن مسعود، واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا “۔ فرمایا : حبل اللہ سے مراد جماعت ہے اور آپ سے اور کئی دوسروں سے یہ کئی وجوہ سے مروی ہے اور تمام کا معنی باہم متقارب اور ایک دوسرے میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ الفت و محبت کا حکم ارشاد فرما رہا ہے اور فرقت وجدائی سے منع فرما رہا ہے، کیونکہ فرقت ہلاکت ہے اور جماعت واتفاق (باعث) نجات ہے، اور اللہ تعالیٰ ابن مبارک پر رحم فرمائے۔ اس نے کہا : ان الجماعۃ حبل اللہ فاعتصموا منہ بعروہ الوثقی لمن دانا۔ اس میں حبل اللہ سے مراد جماعت ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ولا تفرقوا “۔ یعنی تم اپنے دین میں جدا جدا نہ ہونا جیسا کہ یہود ونصاری اپنے ادیان میں جدا دجدا ہوگئے یہ حضرت ابن مسعود ؓ وغیرہ سے منقول ہے اور یہ معنی مراد لینا بھی جائز ہے کی مختلف اغراض اور خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے جدا جدا نہ ہوجانا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین کے سلسلہ میں بھائی بھائی ہوجاؤ تو وہ ان کے لئے باہمی قطع تعلقی اور باہمی عداوت و دشمنی سے ڈھال اور روکنے کا ذریعہ بن جائیگا اور اس کا مابعد ارشاد گرامی اسی پر دلالت کرتا ہے اور وہ یہ ہے : (آیت) ” واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعدآء افالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا “۔ اور اس میں فروعات میں اختلاف کے حرام ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے، کیونکہ وہ کوئی اختلاف نہیں، جبکہ اختلاف وہ ہوتا ہے جس کے ہوتے ہوئے آپس میں محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونا متعذر ہو اور رہا مسائل اجتہادیہ کا حکم تو ان میں اختلاف فرائض اور معانی شرع کی باریکیاں اور لطائف نکالنے اور مستنبط کرنے کے سبب سے ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پیش آنے والے حوادث وواقعات کے احکام میں مسلسل اختلاف بھی کرتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے محبت اور الفت سے پیش آتے تھے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” میری امت کا اختلاف رحمت ہے “ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ایسے اختلاف سے منع فرمایا ہے جو جھگڑے اور فساد کا سبب ہے۔ امام ترمذی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یہودی اکہتر فرقوں میں یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور عیسائی بھی اسی کی مثل (فرقوں میں تقسیم ہوئے) اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی۔ “ ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث صحیح ہے۔ (1) (ابن ماجہ، باب افتراق الامم، حدیث نمبر 3980، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور انہوں نے اسے حضرت ابن عمر ؓ سے بھی نقل کیا ہے (1) (سنن ترمذی، باب ماجاء فی افتراق ھذہ الامۃ حدیث نمبر 2565، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” یقینا میری امت پر بالکل برابر برابر وہی حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی آدمی اپنی ماں کے پاس اعلانیہ (برائی کے لئے) آتا تھا تو یقینا میری امت میں سے بھی ایسا ہوگا جو اسی طرح کا فعل کرے گا اور بلاشبہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی سوائے ایک گروہ کے وہ تمام کے تمام جہنم میں ہوں گے “ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ وہ ایک کون سا فرقہ ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ما اناعلیہ و اصحابی جو اس (دین پر ہوگا جس پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں۔ انہوں نے اسے عبداللہ بن زیاد الافریقی کی حدیث سے عبداللہ بن یزید عن ابن عمر ؓ کی سند سے بیان کیا ہے اور کہا ہے : یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسے اس سند کے سوا سے نہیں پہچانتے، ابو عمر نے کہا ہے : عبداللہ افریقی ثقہ راوی ہے، اس کی قوم نے اس کی توثیق کی ہے اور انہوں نے اس کی تعریف کی ہے اور دوسروں نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ابو داؤد نے اسے اپنی سنن میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ کی حدیث سے بیان کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” خبردار ! سنو تم سے پہلے اہل کتاب بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے اور یہ ملت عنقریب تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی بہتر جہنم میں ہوں گے اور ایک فرقہ جنت میں ہوگا اور الجماعۃ ہے، بلاشبہ عنقریب میری امت سے کچھ تجارتی گروہ نکلیں گے ان کے ساتھ خواہشات اس طرح ہوگی جس طرح الکلب (باولا کتا کاٹے کی بیماری) اپنے مریض کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور اس کے بدن کی کوئی رغ اور کوئی جوڑ باقی نہیں رہتا مگر وہ اس میں داخل ہوجاتی ہے۔ (2) (ابی داؤد، کتاب السنۃ، حدیث نمبر 3981، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور سنن ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو دنیا سے اس حال میں جدا ہوا کہ اس میں اللہ تعالیٰ وحدہ کے بارے میں اخلاص ہو، اس کی عبادت میں کوئی اور شریک نہ ہو، وہ نماز قائم کرے اور زکوۃ ادا کرتا رہے تو وہ اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔ “ حضرت انس ؓ نے بیان فرمایا : اور وہ اللہ تعالیٰ وہ دین ہے جسے رسل (علیہم السلام) لے کر آئے اور انہوں نے اسے اپنے رب کی طرف سے پہنچایا اس سے پہلے کہ احادیث میں فساد اور بگاڑ پیدا ہو اور اھواء و خواہشات میں اختلاف ہو اور اس کی تصدیق سب سے آخر میں نازل ہوئی کتاب اللہ میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، (آیت) ’ فان تابوا “ فرمایا : پس اگر وہ بتوں اور انکی عبادت کو چھوڑ دیں۔ (آیت) ” واقامو الصلوۃ واتوالزکوۃ “۔ اور دوسری آیت میں فرمایا۔ (آیت) ” فان تابو واقاموا الصلوۃ واتوالزکوۃ فاخوانکم فی الدین “۔ (التوبہ : 11) ترجمہ : پس اگر یہ توبہ کرلیں اور قائم کریں نماز اور ادا کریں زکوۃ تو تمہارے بھائی ہیں دین میں۔ انہوں نے اسے نصر بن علی جہضمی عن ابی احمد بن ابی جعفر الرازی عن الربیع بن انس عن انس ؓ کی سند سے روایت کیا ہے۔ (3) (ابن ماجہ باب فی الایمان، حدیث نمبر 68، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو الفرض جوزی نے کہا ہے : اگر کہا جائے یہ فرقے تو معروف ہیں ؟ تو جواب یہ ہے کہ ہم افتراق اور اصولی فرقوں کو جانتے ہیں اور پھر فرقوں میں سے ہر گروہ کئی فرقوں میں تقسیم ہوا ہے، اگرچہ ہم نے ان فرقوں کے اسماء اور ان کے مذاہب کا احاطہ نہیں کیا ہے، لیکن اصولی فرقوں میں سے یہ ہمارے لئے بالکل ظاہر ہیں حروریہ، قدریہ، جھمیہ، مرجئہ، رافضہ، اور جبریہ، اور بعض اہل علم نے کہا ہے : اصل گمراہ فرقے یہی چھ فرقے ہیں اور ان میں سے ہر فرقہ بارہ فرقوں میں منقسم ہے تو اس طرح بہتر فرقے ہوگئے۔ حروریہ بارہ فرقوں میں تقسیم ہوئے ہیں ان میں سے پہلا ازرقیہ ہے، انہوں نے یہ کہا ہے کہ ہم کسی کو مومن نہیں جانتے اور انہوں نے اہل قبلہ کو کافر قرار دیا سوائے انکے جنہوں نے ان کے قول کو قبول کیا۔ (2) اباضیۃ : انہوں نے کہا ہے : جس نے ہمارے قول کو لے لیا تو وہ مومن ہے اور جس نے اس سے اعرض کیا تو وہ منافق ہے۔ (3) ثعلییہ : ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی فیصلہ نہیں فرمایا اور نہ کوئی تقدیر بنائی۔ (4) خازمیہ : انہوں نے کہا ہے : ہم نہیں جانتے ایمان کیا ہے اور تمام مخلوقو معذور ہے۔ (5) خلفیہ : ان کا گمان ہے کہ مرد یا عورت میں سے جس نے بھی جہاد ترک کیا تو وہ کافر ہوگیا۔ (6) کو زیہ : انہوں نے کہا ہے : کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کو مس کرے کیونکہ پاک چیز کو نجس سے نہیں پہچانا جاسکتا اور نہ کوئی اپنے ساتھ کسی کو کھانا کھلائے یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے اور غسل کرلے۔ (7) کنزیہ : انہوں نے کہا ہے : کوئی کسی کو یہ اختیار اور گنجائش نہ دے کہ وہ اپنا مال کسی کو دے دے، کیونکہ بسا اوقات وہ مستحق نہیں ہوتا بلکہ وہ اسے زمین میں جمع کرتارہتا ہے یہاں تک کہ اہل حق ظاہر ہوجائیں۔ (8) شراخیہ : انہوں نے کہا ہے : اجنبی عورتوں کو مس کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ خوشبودار پودین (پھول) ہیں۔ (9) اخنسیہ : انہوں نے کہا ہے : میت کو اس کی موت کے بعد کوئی خیر وشر لاحق نہیں ہوتا۔ (10) حکمیہ : انہوں نے کہا ہے : جس نے مخلوق کی طرف بلایا تو وہ کافر ہے۔ (11) معتزلہ : انہوں نے کہا ہے : ہم پر حضرت علی ؓ اور حضرت امیر معاویہ ؓ کا معاملہ مشتبہ ہے لہذا ہم دونوں فریقوں سے بری الذمہ ہیں۔ (12) میمونیہ : انہوں نے کہا ہے : ہمارے اہل محبت کی رضا کے بغیر کوئی امام نہیں ہو سکتا۔ اور قدریہ بھی بارہ فرقوں میں تقسیم ہوئے۔ (1) احمریہ : یہ وہ فرقہ ہے جن کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے عدل کی شرط میں سے یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان کے امور کا مالک بنائے اور وہ ان کے اور ان کے گناہوں کے درمیان حائل رہے۔ (2) ثنویۃ : ان کا خیال ہے کہ خیر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور شر شیطان کی طرف سے ہے۔ (3) معتزلہ : یہ وہ ہیں جنہوں نے کہا کہ قرآن کریم مخلوق ہے اور انہوں نے (صفات) ربوبیۃ کا انکار کیا ہے۔ (4) کیسانیہ : انہوں نے کہا ہے : ہم نہیں جانتے کہ یہ افعال اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں یا بندوں کی جانب سے اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ کیا اس کے بعد لوگوں کو ثواب دیا جائے گا یا انہیں سزادی جائے گی۔ (5) شیطانیہ : ان کا کہنا ہے : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو پیدا نہیں کیا ہے۔ (6) شریکیہ : انہوں نے کہا ہے : بیشک کفر کے سوا تمام برائیاں مقدر ہیں۔ (7) وہمیہ : انہوں نے کہا ہے : مخلوق کے افعال اور انکے کلام کے لئے کوئی ذات نہیں اور نہ ہی نیکی اور بدی کے لئے کوئی ذات ہے۔ (8) زبریہ : انہوں نے کہا ہے : ہر کتاب جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوئی ہے اس کے مطابق عمل کرنا فرض ہے چاہے وہ ناسخ ہو یا منسوخ۔ (9) مسعدیہ : انہوں نے گمان کیا ہے کہ جس نے نافرمانی کی پھر توبہ کی تو اس کی توبہ قبول نہ کی جائے گی۔ (10) ناکثیہ : انہوں نے گمان کیا ہے کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کی بیعت توڑ دی تو اس کوئی گناہ نہٰن۔ (11) قاسطیہ : انہوں نے ابراہیم بن نظام کی اس کے اس قول میں اتباع اور پیروی کہ جس نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ شے ہے تو وہ کافر ہے۔ اور جھیمہ بارہ فرقوں میں منقسم ہیں۔ (1) معطلہ : انہوں نے خیال کیا ہے کہ ہر وہ شے جس پر انسان کا وہم واقع ہو سکتا ہے تو وہ مخلوق ہے اور یہ کہ جس نے یہ دعوی کیا کہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا جاسکتا ہے تو وہ کافر ہے۔ (2) مریسیہ : انہوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کی اکثر صفات مخلوق ہیں۔ (3) مکتزقہ : انہوں نے یہ نظریہ اختیار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ میں موجود ہے۔ (4) واردیہ : انہوں نے کہا ہے : وہ آتش جہنم میں داخل نہ ہوگا جس نے اپنے رب کو پہچان لیا اور جو اس میں داخل ہوا وہ اس سے کبھی نہ نکالا جائے گا۔ (5) زنادقہ : انہوں نے کہا ہے : کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے لئے رب ثابت کرے، کیونکہ جو اس کے ادراک کے بغیر اثابت نہیں ہو سکتا اور جس کا ادراک نہ ہو وہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ (6) حرقیۃ : انہوں نے یہ گمان کیا ہے کہ کافر کو ایک بار آگ جلا دے گی پھر وہ ہمیشہ جلا ہوا باقی رہے گا اور وہ آگ کی حرارت کو نہیں پائے گا۔ (7) مخلوقیہ : انہوں نے گمان کیا ہے کہ قرآن مخلوق ہے۔ (8) فانیہ : ان کا گمان ہے کہ جنت اور جہنم دونوں فناہ ہوجائیں گی اور ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے کہا کہ انہیں پیدا ہی نہیں کیا گیا۔ (9) عبدیہ : انہوں نے رسل (علیہم السلام) کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ حکماء تھے۔ (10) واقفیہ : انہوں نے کہا ہے : نہ ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مخلوق ہے اور نہ یہ کہتے ہیں کہ وہ غیر مخلوق ہے۔ (11) قبریہ : یہ عذاب قبر اور شفاعت کا انکار کرتے ہیں۔ (12) لفظیہ : انہوں نے کہا ہے : ہمارا قرآن کا تلفظ کرنا مخلوق ہے۔ اور مرجئہ بھی بارہ فرقوں میں منقسم ہیں : (1) تارکیہ : انہوں نے کہا ہے : اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی مخلوق پر کوئی فریضہ نہیں ہے سوائے اس کے ساتھ ایمان لانے کے، پس جو کوئی اس کے ساتھ ایمان لایا تو اسے چاہیے وہ جو چاہے کرے۔ (2) سائبیہ : انہوں نے کہا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو آزاد چھوڑ دیا ہے تاکہ وہ جو چاہیں کریں۔ (3) راجیہ : انہوں نے کہا ہے : کہ اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے کو طائع اور گناہ کرنے والے کو عاصی نہیں کہا جائے گا کیونکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے پاس کیا ہے۔ (4) سالبیہ : انہوں نے کہا ہے : کہ طاعت ایمان میں سے نہیں ہے۔ (5) بھیشیہ : انہوں نے کہا ہے : کہ ایمان علم ہے اور جو حق کو باطل سے اور حلال کو حرام سے نہیں پہچان سکتا تو وہ کافر ہے۔ (6) علمیہ : انکا کہنا ہے کہ ایمان عمل کا نام ہے۔ (7) منقوصیہ : انہوں نے کہا ہے : ایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے۔ (8) مستشنیہ : انہوں نے کہا ہے : استثناء ایمان میں سے ہے۔ (یعنی انشاء اللہ کہنا) (9) مشبہ : انہوں نے کہا ہے : آنکھ آنکھ کی طرح ہے اور ہاتھ ہاتھ کی طرح ہے۔ (یعنی یہ اللہ تعالیٰ کے لئے جسم چابت کرتے ہیں ’ نعوذ باللہ من ذالک) (10) حثویہ : انہوں نے کہا ہے : تمام احادٰث کا حکم ایک ہے پس ان کے نزدیک نفل کو ترک کرنے والا فرض کو چھوڑنے والے کی طرح ہے۔ (11) ظاھریہ : یہ وہ ہیں جنہوں نے قیاس کی نفی کی ہے۔ (12) بدعیہ : وہ پہلا آدمی جس نے اس امت میں ان واقعات کا آغاز کیا۔ اور رافضیہ بھی بارہ فرقوں میں منقسم ہیں : (1) علویہ : انہوں نے کہا رسول حضرت علی ؓ کو بنایا گیا تھا لیکن حضرت جبریل امین (علیہ السلام) نے خطا کی (اور پیغام رسالت حضور نبی مکرم ﷺ کو پہنچا دیا) (2) امریہ : انہوں نے کہا ہے : بیشک حضرت علی ؓ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ساتھ ان کے کام میں شریک ہیں۔ (3) شیعیہ : ان کا موقف ہے کہ حضرت علی ؓ رسول اللہ ﷺ کے وصی ہیں اور آپ کے بعد آپ کے ولی ہیں، بلاشبہ امت نے دوسروں کی بیعت کے سبب کفر کیا ہے۔ (4) اسحاقیہ : انہوں نے کہا ہے : بیشک نبوت یوم قیامت تک متصل ہے اور ہر وہ جو اہل بیت کا علم جانتا ہے تو وہ نبی ہے۔ (5) نادوسیہ : انہوں نے کہا ہے : حضرت علی ؓ ساری امت سے افضل ہیں، اور جس کسی نے کسی غیر کو آپ فضیلت دی تو وہ کافر ہوگیا۔ (6) امامیہ : انہوں نے کہا ہے : کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں حضرت امام حسین ؓ کی اولاد میں سے کسی امام کے بغیر ہو، بلاشبہ امام کو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) تعلیم دیتے ہیں اور جب ایک فوت ہوجائے تو اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتے ہیں۔ (7) زیدیہ : انہوں نے کہا ہے : کہ حضرت امام حسین ؓ کی تمام اولاد نمازوں میں ائمہ ہوں گے پس جب ان میں سے کوئی موجود ہو تو پھر کسی غیر کے پیچھے نماز جائز نہیں ان کے نیکو کار اور ان کے فاجر (سبھی برابر ہیں) (8) عباسیہ : ان کا گمان ہے کہ حضرت عباس ؓ کا کسی غیر کی نسبت خلافت کا حق زیادہ ہے۔ (9) تناسخیہ : انہوں نے کہا ہے : نے کہا ہے کہ ارواح میں تناسخ ہوتا رہتا ہے پس جو کوئی محسن اور نیکو کار ہو اس کی روح نکلتی ہے اور ایسی مخلوق میں داخل ہوجاتی ہے جو اپنی زندگی کے ساتھ سعادت اندوز ہو رہی ہوتی ہے۔ (10) رجعیہ : ان کا نظریہ ہے کہ حضرت علی ؓ اور آپ کے اصحاب دنیا کی طرف لوٹ کر آئیں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لیں گے۔ (11) لاعنہ : یہ وہ لوگ ہیں جو حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت معاویہ، حضرت ابو موسیٰ ، اور حضرت عائشہ صدیقہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وغیرہ پر لعن کرتے ہیں۔ (12) متربصہ : یہ زاہدوں کے لباس کی طرح لباس پہنتے ہیں اور ہر زمانے میں ایک آدمی کھڑا کرتے ہیں جس کی طرف امر کی نسبت کرتے ہیں اور یہ گمان کرتین ہیں کہ اس امت کا امام مہدی ہے اور جب وہ فوت ہوجائے تو اس کی جگہ دوسرا مقرر کردیتے ہیں۔ پھر جبریہ بھی بارہ فرقوں میں منقسم ہیں : (1) مضطریہ : انہوں نے کہا ہے : آدمی کا کوئی فعل (اور اختیار) نہیں ہے بلکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ (2) افعالیہ : انہوں نے کہا ہے : ہمارے لئے افعال ہیں لیکن ہمارے پاس ان کے لئے استطاعت اور قدرت نہیں ہے، بلاشبہ ہم چوپاؤں کی مانند ہیں کہ ہم انہیں رسی ڈال کر ہانکتے اور چلاتے ہیں۔ (3) مفردغیہ : انہوں نے کہا ہے : تمام اشیاء پیدا کردی گئی ہیں اور اب کوئی شے پیدا نہیں کی جائے گی۔ (4) نجاریہ : ان کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو اپنے فعل پر عذاب دے گا نہ کہ ان کے فعل پر۔ (5) منانیہ : انہوں نے کہا ہے : تجھ پر اس کے بارے عمل کرنا لازم ہے جو تیرے دل میں کھٹکے پس تو وہ کام کر جس میں تجھے بھلائی اور خیر معلوم ہو۔ (6) کسبیہ : انہوں نے کہا ہے : بندہ نہ ثواب طلب کرے گا نہ سزا۔ (7) سابقیہ : ان کا کہنا ہے : جو چاہے وہ عمل کرے اور جو چاہے وہ عمل نہ کرے، کیونکہ سعید کو اس کے گناہ کوئی ضرر اور نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور شقی اور بدبخت کو اس کی نیکی کوئی فائدہ نہ دے گی۔ (8) حبیہ : انہوں نے کہا ہے : جس نے اللہ تعالیٰ کی محبت کا جام پی لیا تو اس سے ارکان کی عبادت ساقط ہوگئی۔ (9) خوفیہ : ان کا نظریہ ہے : جس نے اللہ تعالیٰ کی ساتھ محبت کی اس کے لئے یہ گنجائش نہیں کہ وہ اس سے ڈرے، کیونکہ ایک دوست اپنے دوست سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ (10) فکریہ : انہوں نے کہا ہے : جس نے علم میں اضافہ کیا تو اس نے اپنی مقدار عبادت اس سے ساقط کردی۔ (11) خشیبہ : انہوں نے کہا ہے : دنیا بندوں کے درمیان برابر ہے، ان کے درمیان اس میں کوئی فضیلت نہیں جس کے لئے ان کے باپ آدم نے انہیں وارث بنایا ہے۔ (12) منیہ : انہوں نے کہا ہے : ہماری طرف سے فعل ہے اور ہمارے لئے استطاعت وقدرت ہے۔ وہ فرقے جو اس امت میں زائد ہوئے ان کا بیان عنقریب سورة الانعام کے آخر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے سماک الحنفی کو کہا : اے حنفی، جماعت کو لازم پکڑ لے جماعت کو اختیار کرلے، کیونکہ سابقہ امتیں اپنے تفرقہ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا (آیت) ” واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا۔ اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین چیزیں پسند فرماتا ہے اور تین چیزیں ناپسند فرماتا ہے : وہ تمہارے لئے پسند فرماتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور یہ کہ تم سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو اور وہ تمہارے لئے یہ تین چیزیں ناپسند کرتا ہے، قیل وقال کثرۃ سوال اور مال کو ضائع کرنا “۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر اپنی کتاب اور اپنے نبی ﷺ کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا واجب قرار دیا ہے اور اختلاف کے وقت ان دونوں کی طرف رجوع کرنا لازم قرار دیا ہے، اور اس نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم اعتقاد اور عملا کتاب وسنت کو مضبوط پکڑنے پر اجماع کریں اور یہی کلمات میں اتفاق لانے اور متفرقات کو منظم کرنے کا وہ سبب ہے جس کے ساتھ دنیا اور دین کے مصالح مکمل ہوتے ہیں اور (اسی میں) اختلاف سے بچاؤ اور سلامتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جمع اور اکٹھا رہنے کا حکم دیا ہے اور اس افتراق سے منع کیا ہے جو اہل کتابین (یہود ونصاری) میں موجود تھا مکمل آیت کا یہی معنی ہے اور اس میں اس اجماع کے صحیح ہونے پر دلیل بھی موجود ہے جو اصول فقہ میں مذکور ہے واللہ اعلم۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعدآء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا، وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا “۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کو یاد کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور سب سے عظیم اور بڑی نعمت اسلام اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی اتباع ہے، کیونکہ اس کے سبب عدوات اور نفرت وفرقت زائل ہوگئی اور باہمی محبت والفت پیدا ہوگئی، اور اس میں مراد قبیلہ اوس اور خزرج ہیں اور یہ آیت عام ہے۔ اور (آیت) ” فاصبحتم بنعمتہ اخوانا “۔ کا معنی ہے کہ تم نعمت اسلام کے سبب دین میں بھائی بھائی ہوگئے اور قرآن کریم میں جہاں (آیت) ” اصبحتم “ ہے اور بمعنی صرتم ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ان اصبح ماؤکم غورا۔ ای صار غائرا۔ اخوان اخ کی جمع ہے اور اس کا نام اخا اس کے لئے رکھا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے بھائی کے مذہب کا قصد و ارادہ کرتا ہے اور شفا ہر شے کی طرف اور اس کے کنارے کو کہتے ہیں، اور اسی طرح شفیر بھی ہے اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” علی شفا جرف ھار “۔ (التوبہ : 109) (وادی کے کھوکھلے دھانے کے کنارے پر) راجز نے کہا : نحن حضرنا للحجیع سجلۃ نابتۃ فوق شفاھا بقلہ۔ اس میں بھی شفا طرف اور کنارہ کے معنی میں ہے۔ اور اشفی علی الشی کا معنی ہے اشرف علیہ یعنی وہ اس پر جھانکا اور اسی سے ہے اشفی المریض علی الموت یعنی مریض موت پر جھانکنے لگا (مراد یہ ہے کہ وہ قریب الموت ہوگیا) اور مابقی منہ الا شفا ای قلیل یعنی اس سے تھوڑا باقی رہ گیا۔ ابن السکیت نے کہا ہے : آدمی کے لئے اس کی موت کے وقت چاند کے لئے اس کی آخری راتوں میں اور سورج کے لئے اس کے غروب ہونے کے وقت کہا جاتا ہے، : مابقی منہ الا شفا ای قلیل۔ عجاج نے کہا ہے : ومریاء عال لمن تشرفا اشرفتہ بلا شفی او بشفی۔ قولہ بلاشفی۔ ای غابت الشمس یعنی مراد ہے سورج غروب ہوگیا اور بشفی کا معنی ہے تحقیق اس سے تھوڑا سا باقی ہے، اور یہ لفظ دوات الیاء (یائی) میں سے ہے اور اس میں ایک لغت یہ بھی ہے کہ یہ وادی ہے۔ اور نحاس نے کہا ہے : شفا اصل میں شفو ہے، اسی لئے اس کو الف کے ساتھ لکھا جاتا ہے اور اس میں امالہ نہیں کیا جاتا، اور اخفش نے کہا ہے : جب اس میں امالہ جائز نہیں تو یہ معلوم ہوگیا کہ یہ وادی کلمات میں سے ہے اور اس لئے بھی کہ امالہ یا کو واضح کرتا ہے اور اس کا تثنیہ شفوان ہے۔ مہدوی نے کہا ہے : یہ تمثیل ہے اس سے انکاکفر سے ایمان کی طرف نکلنا مراد لیا جارہا ہے۔
Top