Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 146
وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ١ۙ مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌ١ۚ فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْا١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ
وَكَاَيِّنْ : اور بہت سے مِّنْ نَّبِيٍّ : نبی قٰتَلَ : لڑے مَعَهٗ : ان کے ساتھ رِبِّيُّوْنَ : اللہ والے كَثِيْرٌ : بہت فَمَا : پس نہ وَهَنُوْا : سست پڑے لِمَآ : بسبب، جو اَصَابَھُمْ : انہیں پہنچے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ وَمَا : اور نہ ضَعُفُوْا : انہوں نے کمزوری کی وَمَا اسْتَكَانُوْا : اور نہ دب گئے وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الصّٰبِرِيْنَ : صبر کرنے والے
اور بہت سے نبی ہوئے ہیں جن کے ساتھ ہو کر اکثر اہل اللہ (خدا کے دشمنوں سے) لڑے ہیں تو جو مصیبتیں ان پر راہ خدا میں واقع ہوئیں ان کے سبب انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ بزدلی کی نہ (کافروں سے) دبے اور خدا استقلال رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے
آیت نمبر 146 تا 147۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” وکاین من نبی قتل معہ ربیون کثیر “۔ زہری نے بیان کیا ہے : غزوہ احد کے دن شیطان نے چیخ کر کہا : قتل محمد (محمد ﷺ قتل کردیئے گئے) تو اس سے مسلمانوں کی ایک جماعت شکست خوردہ ہوگئی، حضرت کعب بن مالک ؓ نے بیان کیا : میں پہلا آدمی تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کو پہچانا، میں نے خود کے نیچے سے آپ ﷺ کی آنکھوں کو چمکتے ہوئے دیکھا، تو میں نے اپنی بلند آواز کے ساتھ پکار کر کہا : یہ رسول اللہ ﷺ ہیں، تو آپ ﷺ نے میری طرف اشارہ فرمایا کہ تو خاموش رہ، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” وکاین من نبی قتل معہ ربیون کثیر، فماوھنو لما اصابھم فی سبیل اللہ وما ضعفوا “۔ الآیہ۔ اور کاین بمعنی کم ہے، خلیل اور سیبویہ نے کہا ہے : یہ ای ہے اس پر کاف تشبیہ داخل ہوا اور اس کے ساتھ اسے بنایا گیا، پس یہ کلام میں کم کے معنی میں ہے۔ اور اسے مصحف میں نون کے ساتھ لکھا گیا ہے، کیونکہ یہ ایک کلمہ ہے اسے اپنے اصل سے نقل کیا گیا ہے پس اس کے معنی کے تغیر کی وجہ سے اس کے لفظ کو بھی بدل دیا گیا ہے، پھر اس کا استعمال کثیر ہے اور عرب تو اس کے ساتھ کھیلتے رہے اور انہوں نے اس میں قلب اور حذف کا تصرف کیا ہے، اور اس میں چار لغات ہیں جن کے ساتھ اسے پڑھا گیا ہے، ابن کثیر نے اسے وکائن، وکاعن کی مثل فاعل کے وزن پر پڑھا ہے اور اس کی اصل کیء ہے پھر یا کو الف سے بدل دیا گیا جیسا کہ بیاس میں تبدیل کیا گیا اور کہا گیا ہے یاء س۔ وکائن بالاطالح من صدیق یرانی لو اصبت ھو المصابا : اور ایک دوسرے شاعر نے کہا ہے : وکائن رددنا عنکم من مدجج یجی امام الرکب یردی مقنعا : اور ایک اور نے کہا ہے : وکائن فی المعاشر من اناس اخوھم فوقھم وھم کرام : مذکورہ تمام اشعار میں وکائن فاعل کے وزن پر پڑھا گیا ہے۔ اور ابن محیصن نے وکئن پڑھا ہے یعنی مہموز مقصور ہے جیسا کہ وکعن اور یہ کائن سے بنایا گیا ہے اور اس کے الف کو حذف کردیا گیا ہے، اور اس سے ” وکاین “ بھی ہے جیسا کہ وکعین اور یہ کیء مخفف کا مقلوب ہے، اور باقیوں نے ” وکاین “ کعین کی مثل تشدید کے ساتھ پڑھا ہے اور یہی اصل ہے۔ شاعر نے کہا ہے : کعاین من اناس لم یزالوا اخوھم فوقھم وھم کرام : اور ایک دوسرے نے کہا ہے : کاین ابدنا من عدو بعزنا وکائن اجرنا من ضعیف وخائف : اور اسے دو لغتوں کے درمیان جمع کردیا گیا ہے : کاین وکائن، اور ایک پانچویں لغت ہے کیئن جیسا کہ کیعن، گویا یہ کیی سے مخفف ہے اور کاین کا مقلوب ہے، علامہ جوہری نے سوائے دو لغتوں کے کوئی ذکر نہیں کی : کائن مثلا کا عن، اور کاین مثل کعین، آپ کہتے ہیں کاین رجلا لقیت، اس میں رجلا تمیز کی بنا پر کاین کے بعد منصوب ہے، اور آپ یہ بھی کہتے ہیں : کاین من رجل لقیت، کاین کے بعد من داخل کرنا نصب کی نسبت اکثر اور عمدہ ہے۔ اور بکاین تبیع ھذا الثوب ؟ بمعنی بکم تبیع ہے۔ (تم یہ کپڑا کتنے میں بیچوگے) ذوالرمہ نے کہا ہے : وکائن ذعرنا من مھاۃ ورامح بلاد العدا لیست لہ ببلاد : اس میں کاین بمعنی کم استعمال ہو رہا ہے۔ نحاس نے کہا ہے : ابو عمرو نے وقف کیا ہے اور وکای بغیر نون کے پڑھا ہے، کیونکہ یہ تنوین ہے اور سورة ابن مبارک نے کسائی سے اسے روایت کیا ہے، اور باقیوں نے خط مصحف کی اتباع کرتے ہوئے نون کے ساتھ وقف کیا ہے اور آیت کا معنی مومنوں کو تشجیع دلانا اور انبیاء (علیہم السلام) کے بہترین متبعین میں سے جو پہلے گزر چکے ہیں ان کی اقتداء اور پیروی کرنے کا حکم دینا ہے، یعنی کثیر انبیاء (علیہم السلام) ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں کو شہید کیا گیا یا انبیاء (علیہم السلام) میں سے کثیر شہید کردیئے گئے اور ان کی امتیں مرتد نہیں ہوئیں، یہ دو قول ہیں : پہلا حسن اور سعید بن جبیر کا ہے، حسن نے کہا ہے : کوئی نبی کسی جنگ میں کبھی شہید نہیں کیا گیا (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 562) اور ابن جبیر ؓ نے کہا ہے : ہم نے نہیں سنا کہ کوئی نبی (علیہ السلام) جنگ میں شہید کردیا گیا ہو۔ (2) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 562 ) ۔ اور دوسرا قول حضرت قتادہ ؓ اور عکرمہ ؓ سے منقول ہے، اس قول کی بنا پر ” قتل “ پر وقف کرنا جائز ہے اور یہ قرات (قتل) نافع، ابن جبیر، ابو عمرو اور یعقوب کی ہے، اور یہی حضرت ابن عباس ؓ کی قرات ہے اور ابو حاتم نے اسے ہی اختیار کیا ہے اور اس میں دو وجہیں ہیں : ایک یہ کہ قتل صرف نبی پر واقع ہو رہا ہے، اور اس صورت میں قتل پر کلام کی تکمیل ہوجاتی ہے اور کلام میں اضمار ہوگا، یعنی ومعہ ربیون کثیر، جیسا کہ کہا جاتا ہے، قتل الامیر معہ جیش عظیم، یعنی ومعہ جیش عظیم، اور خرجت مع تجارۃ ای ومعی۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ قتل نبی (علیہ السلام) اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو بھی شامل ہو، اور کلام کی توجیہ یہ ہوگی کہ اس میں سے بعض شہید کردیئے گئے جو اس (نبی علیہ السلام) کے ساتھ تھے، عرب کہتے ہیں : قتلنا بنی تمیم وبنی سلیم (یعنی) ان میں سے بعض قتل کردیئے گئے، اور قول باری تعالیٰ (آیت) ” فما وھنوا ان میں سے بابقی کی طرف راجع ہوگا۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ قول نزول آیت کے ساتھ زیادہ مشابہت اور زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ شہید نہیں کیے گئے، بلکہ آپ کے ساتھ زیادہ مشابہت اور زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ شہید نہیں کئے گئے، بلکہ آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام کی ایک جماعت شہید کی گئی، اور کو فیوں اور ابن عامر نے ” قاتل “ پڑھا ہے۔ اور یہی حضرت ابن مسعود ؓ کی قرات ہے، اور اسے ابو عبید نے اختیار کیا ہے، اور کہا ہے : بیشک اللہ تعالیٰ نے جب ان کی مدح اور تعریف کی جنہوں نے جہاد کیا تو جو شہید کردیئے گئے وہ بھی اس میں داخل ہوگئے، اور جب مدح ان کی ہو جو شہید کردئے گئے تو پھر ان کے سوا باقی اس میں داخل نہ ہوئے، پس قاتل اعم (3) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 562) اور زیادہ قابل مدح ہے اور ربیون “ را کے کسرہ کے ساتھ جمہور کی قرات ہے، اور حضرت علی ؓ کی قرات را کے ضمہ کے ساتھ ہے، اور ابن عباس ؓ نے را کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، اس میں تین لغات ہیں، اور ” ربیون “ سے مراد بہت سی جماعتیں ہیں، یہ حضرت مجاہد قتادہ، ضحاک اور عکرمہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے منقول ہے (4) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 562) ان کا واحد ربی را کے ضمہ اور اس کے کسرہ کے ساتھ ہے، یہ ” ربہ “ کی طرف منسوب ہے یہ را کے کسرہ کے ساتھ بھی ہے اور را کے ضمہ کے ساتھ بھی، اور اس کا معنی ہے جماعت، گروہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا ہے : ” الربیون “ سے مراد الوف کثیرہ (یعنی کئی ہزار) ہیں (5) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 562) اور ابن زید نے کہا ہے : البریبیون سے مراد اتباع وپیروی کرنے والے ہیں (6) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 562) پہلا معنی لغت میں زیادہ معروف ہے، اور اسی معنی میں (کپڑے کا) وہ ٹکڑا ہے جس میں جوئے کے تیر جمع کئے جاتے ہیں اسے ” ربۃ “ اور ” ربۃ “ کہا جاتا ہے، اور رباب سے مراد وہ قبائل ہیں جو جمع ہوں، اور ابان بن ثعلب نے کہا ہے : ” الربی دس ہزار ہے : اور حسن نے کہا ہے : اس سے مراد صبر کرنے والے علماء ہیں۔ (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 562) حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ربیع اور سدی نے کہا ہے : اس سے مراد الجمع الکثیر (بہت بڑا اجتماع) ہے۔ حسان نے کہا ہے : اذا معشر تجافوا عن الحق حملنا علیھم ربیا :۔ جب لوگ حق سے دور ہوگئے تو ہم نے ان پر جمع کثیر کو مسلط کردیا۔ اور زجاج نے کہا ہے : یہاں دو قرآتیں ہیں، ” ربیون “ را کے ضمہ کے ساتھ اور ” ربیون “ را کے کسرہ کے ساتھ، رہا ” ربیون “ تو اس کا معنی ہے جماعت کثیرہ اور کہا جاتا ہے ،: دس ہزار۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے ” ربیون را کے فتحہ کے ساتھ یہ رب کی طرف منسوب ہے خلیل نے کہا ہے، الربی ‘ ان بندوں میں سے ایک جو انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ڈٹے رہے اور صبر کیا اور وہی ربانیوں ہیں ان کی اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی معرفت، عبادت اور الوہیت کی طرف نسبت کی گئی ہے، واللہ اعلم۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ “۔ وھنوا وہ کمزور ہوگئے، اس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔ الوھن کا معنی ہے خوف کے سبب ہمت اور قوت کا ٹوٹ جانا، اور حسن اور ابوالسمال نے وھنوا ھا کے کسرہ اور ھا کے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے، یہ دونوں لغتیں ابو زید سے منقول ہیں، وھن المشیء یھن وھنا، اور اوھنتہ انا ووھننتہ “۔ اس کا معنی ہے میں نے اسے کمزور کردیا۔ اور الواھنۃ کا معنی ہے پسلیوں کان نیچے آنا اور ان کا چھوٹا ہونا اور الوھن من الابل سے مراد اونٹ کا بوجھل اور موٹا ہونا ہے اور الوھن سے مراد رات کی وہ ساعت بھی ہے جو گزر جاتی ہے، اور اسی طرح الموھن بھی ہے، اور اوھنا یعنی ہم اس ساعت میں ہوگئے، مراد یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نبی کے شہید ہونے کی وجہ سے یا ان کے قتل کی وجہ سے جو ان میں شہید کردیئے گئے ہمت نہ ہاری یعنی ان کے باقی رہنے والوں نے ہمت نہ ہاری پس اس میں مضاف محذوف ہے۔ (آیت) ” وما ضعفوا “ اور وہ اپنے دشمن کی وجہ سے کمزور نہیں ہوئے۔ (آیت) ” وما استکانوا “۔ یعنی (انہوں نے ہار نہ مانی) اس تکلیف اور مصیبت کی وجہ سے جو انہیں جہاد میں پہنچی۔ اور الاستکانۃ کا معنی ذلت اور خضوع ہے (یعنی نہ وہ جھکے اور نہ عجز کا اظہار کیا) اور اس کی اصل ” واستکنوا، افتعلوا “ کے وزن پر ہے، پھر کاف کے فتہ میں اشباع کیا گیا تو اس سے الف پیدا ہوا۔ اور جنہوں نے اسے کون سے بنایا ہے تو پھر یہ استفعلوا کے وزن پر ہے۔ (یعنی باب استفعال ہے) اور پہلا آیت کے معنی سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ اور فما وھنوا وما ضعفوا “ ھا اور عین کے سکون کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور کسائی نے ضعفو عین کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں خبر دی اس کے بعد کہ ان میں سے کچھ شہید کردیئے گئے یا ان کے نبی (علیہ السلام) کو شہید کردیا گیا یہ کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ بھاگے نہیں اور انہوں نے اپنے آپ کو موت پر پیش کردیا اور انہوں نے مغفرت طلب کی تاکہ ان کی موت گناہوں سے توبہ ہوجائے اگر انہیں شہادت عطا فرما دی جائے، اور انہوں نے ثابت قدم رہنے کی التجا کی یہاں تک کہ وہ شکست خرودہ نہ ہوئے اور اپنے دشمنوں کے خلاف فتح ونصرت کی دعا مانگی اور انہوں نے ثابت بالاقدام کو خاص کیا نہ کہ دیگر اعضائے بدن کو اس لئے کہ اعتماد اور انحصار انہیں پر ہوتا ہے، وہ کہتا ہے : اے اصحاب محمد ! ﷺ تم نے اس طرح کیوں کیا اور کہا ؟ پس اللہ تعالیٰ نے انکی دعا کو قبول فرمایا اور انہیں نصرت، فتح، دنیا میں مال غنیمت اور آخرت میں مغفرت عطا فرمائی جب وہ اس کی طرف چلے گئے، اور اللہ تعالیٰ اپنے مخلص توبہ کرنے والے، سچ بولنے والے اور اپنے دین کی مدد ونصرت کرنے والے بندوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کرتا ہے، جو اس کے دشمنوں کے مقابلے میں اس کے سچے وعدہ اور سچے قول کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں، (آیت) ” واللہ یحب الصبرین “۔ یعنی (اللہ تعالیٰ ان سے پیار اور محبت کرتا ہے) جو جہاد میں صبر اختیار کرتے ہیں اور بعض نے (آیت) ” وما کان قولھم “۔ رفع کے ساتھ پڑھا ہے اس میں قول کو کان کا اسم بنایا گیا ہے، سو اس کا معنی ہوگا۔ (آیت) ” وما کان قولھم الا قولھم “۔ (اور ان کی کوئی گفتگو نہ تھی سوائے اس قول کے) (آیت) ” ربنا اغفرلنا ذنوبنا “۔ (اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے) اس میں مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ ” واسرافنا “۔ اور جو زیادتیاں ہم نے کی ہیں مراد کبیرہ گناہ ہیں۔ اور اسراف کا معنی ہے : الافراط فی الشیء ومجاوزۃ الحد یعنی کسی شے میں زیادتی کرنا اور حد سے تجاوز کرنا، اور صحیح مسلم میں ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ یہ دعا مانگتے تھے ” اللھم اغفرلی خطیئتی و جھلی واسرافی فی امری واما انت اعلم بہ منی (1) (صحیح بخاری، کتاب الدعوت باب قول النبی ﷺ اللہم اغفرلی الخ حدیث نمبر 5919، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) (اے اللہ ! میری خطائیں، میری جہالت (میری عدم علم) میری اپنے معاملے میں زیادتی اور ہو جسے تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے میری مغفرت اور بخشش فرما) اور آگے حدیث ذکر کی (2) (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعوات التعوذ باب فی الادعیۃ جلد 2، صفحہ 349، اسلام آباد) چناچہ انسان پر لازم ہے کہ وہ اس دعا پر عمل کرے جو کتاب اللہ اور صحیح سنت میں ہے اور اس کے سوا کو چھوڑ دے اور یہ نہ کہے : میں اس طرح پسند کرتا ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (علیہ السلام) اور اپنے اولیاء کے لئے پسند فرمایا اور انہیں تعلیم دی کہ وہ کیسے دعا مانگیں۔
Top