Al-Qurtubi - An-Nahl : 161
وَ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ١ؕ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ١ۚ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَمَا : اور نہیں كَانَ : تھا۔ ہے لِنَبِيٍّ : نبی کے لیے اَنْ يَّغُلَّ : کہ چھپائے وَمَنْ : اور جو يَّغْلُلْ : چھپائے گا يَاْتِ : لائے گا بِمَا غَلَّ : جو اس نے چھپایا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن ثُمَّ : پھر تُوَفّٰي : پورا پائے گا كُلُّ نَفْسٍ : ہر شخص مَّا : جو كَسَبَتْ : اس نے کمایا وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت کریں اور خیانت کرنے والوں کو قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیز (خدا کے روبرو) لا حاضر کرنی ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور بےانصافی نہیں کی جائے گی
آیت نمبر : 161۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) جب احد کے دن تیراندازوں نے اپنے مرکز کو خالی کیا، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے اس خوف سے کہ مسلمان مال غنیمت کے والی بن جائیں گے اور انہیں کوئی شے بھی نہیں دی جائے گی تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بیان فرمایا کہ نبی مکرم ﷺ تقسیم میں زیادتی نہیں کریں گے، پس تمہارا کوئی حق نہیں ہے کہ تم انہیں متہم کرو، اور حضرت ضحاک (رح) نے کہا ہے : بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعض غزوات میں لشکر بھیجے پھر ان کے آنے سے پہلے مال غنیمت حاصل کرلیا، پس اسے لوگوں میں تقسیم کردیا، اور لشکروں کے لئے تقسیم نہ کیا، (یعنی انہیں کوئی حصہ نہ دیا) تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر بطور عتاب یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” وما کان لنبی ان یغل، ومن یغلل “ یعنی نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ بعض کی حصہ دے اور بعض کو چھوڑ دے، اور اس قول کی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے، اور حضرت ابن عباس نے بھی، عکرمہ، ابن جبیر، وغیرہم نے کہا ہے کہ یہ آیت ایک سرخ کپڑے کے سبب نازل ہوئی جو بدر کے دن مال غنیمت میں سے گم ہوا (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 574) تو وہ لوگ جو حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے ان میں سے بعض نے کہا : شاید حضور نبی مکرم ﷺ نے اسے لے لیا ہو، پس یہ آیت نازل ہوئی اسے ابو داؤد اور ترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (2) (سنن ابی داؤد، کتاب الحروف والقراء ات حدیث 3457، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابن عطیہ نے کہا ہے : کہا گیا ہے یہ قول مومنین کی جانب سے تھا انہوں نے یہ گمان نہیں کیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول منافقین کی جانب سے تھا اور یہ روایت بھی ہے کہ گم ہونے والی شے تلوار تھی، یہ اقوال بیان کئے جاسکتے ہیں، اس بنا پر کہ قرات یغل یا کے فتحہ اور غین کے ضمہ کے ساتھ ہو۔ ابوصخر نے محمد بن کعب سے روایت کیا ہے (آیت) ” وماکان لنبی ان یغل “۔ فرمایا یہ آیت کہہ رہی ہے کہ نبی کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کتاب اللہ میں سے کوئی شے چھپائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں لام منقولہ ہے، یعنی ” وماکان لنبی ان لیغل “۔ جیسا کہ یہ ارشاد ہے : (آیت) ” ما کان للہ ان یتخذ من ولد سبحانہ “۔ ای ما کان للہ لیتخذ ولدا “۔ (یعنی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ وہ کسی کو بیٹا بنا لے) (تو اس میں بھی لام منقولہ ہے) اور یغل یعنی یاء کے ضمہ اور غین کے فتحہ کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے اور ابن السکیت نے کہا ہے : (ہم نے غنیمت کے بارے میں نہیں سنا مگر غل غلولا اور اسی طرح بھی پڑھا گیا ہے) ” وماکان لنبی ان یغل ویغل “۔ فرمایا : یغل کا معنی ہے یخون خیانت کرنا اور یغل کا معنی ہے یکوان اور یہ لفظ دونوں معنوں کا احتمال رکھتا ہے ان میں سے ایک یخان ہے، یعنی وہ شے جو مال غنیمت سے لی جاتی ہے اور دوسرا یخون ہے، یعنی جسے غلول کی طرف منسوب کیا جاتا ہے : پھر کہا جاتا ہے ہر وہ جس نے کوئی شے چھپ کرلے لی تو اس نے ” غل یغل غلولا “ کا ارتکاب کیا، ابن عرفہ نے کہا ہے اس کا نام غلول اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ اس سے ہاتھوں کو باندھ دیا گیا ہے، یعنی روک دیا گیا ہے۔ اور ابوعبید نے کہا ہے : الغلول (خیانت) مال غنیمت کے ساتھ ہی خاص ہے اور ہم اسے نہ خیانت گمان کرتے ہیں اور نہ ہی کینہ اور حقد۔ اور جو اس کی وضاحت کرتا ہے کہ اسے خیانت کہا جاے وہ اغل لیغل ہے اور اسے حقد کہا جائے اس کے لئے غل یغل کسرہ کے ساتھ ہے، اور اسے غلول کہا جائے، وہ غل یغل غین کے ضمہ کے ساتھ ہے، اور غل البعیر بھی ہے۔ (یغل غلۃ) بھی ہے جب وہ اپنا کثیر پانی پورا نہ کرے، اور اغل الرجل کا معنی ہے آدمی نے خیانت کی۔ النمر نے کہا ہے : جزی اللہ عنا حمزۃ ابنۃ نوفل جزاء مغل بالامانۃ کاذب : اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے حمزہ بنت نوفل کو جزا دے (جیسا کہ) امانت میں خیانت کرنے والے جھوٹے کی جزا۔ اور حدیث طیبہ میں ہے : لا اغلال ولا اسلال (1) (سنن ابی داؤد کتاب الجہاد، حدیث 2385، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) یعنی نہ کوئی خیانت ہے اور نہ کوئی سرقہ (چوری) ہے (2) (احکام القرآن، جلد 1، صفحہ 300) اور کہا جاتا ہے : لا رشوۃ (اور نہ ہی کوئی رشوت ہے) اور شریح نے کہا ہے : خیانت کرنے والے سوا کسی مستعیر (ادھار لینے والا) پر ضمان نہیں ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا :” تین (چیزیں) ہیں جن پر مومن کا دل حقد وکینہ نہیں کرتا (3) (سنن ابن ماجہ کتاب المناسک باب الخطبۃ یوم النحر، صفحہ 226، وزارت تعلیم، اسلام آباد) جس نے اسے فتحہ کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس کا معنی حقد اور کینہ ہے۔ اور غل (بمعنی دخل) کبھی متعدی ہوتا ہے اور کبھی متعدی نہیں ہوتا کہا جاتا ہے : غل فلان المفادز، یعنی فلاں جنگل میں داخل ہوا اور اس کے وسط تک پہنچا، اور غل من المغنم غلولا، یعنی اس نے مال غنیمت میں خیانت کی۔ اور غل الماء بین الأشجار (تب کہا جاتا ہے) جب پانی درختوں میں داخل ہوجائے (جاری ہوجائے) ان تمام میں ” یغل ‘ گین کے ضمہ کے ساتھ ہے اور بعض نے کہا ہے : الغلول کا لغوی معنی یہ ہے کہ ہو مال غنیمت سے کوئی شے لے لے اور اسے اپنے ساتھیوں سے چھپالے اور اسی سے تغلغل الماء فی الشجر بھی جبکہ پانی اس میں داخل ہوجائے اور الغلل کا معنی درخت کی جڑوں میں جاری پانی ہے، کیونکہ وہ درختوں کی چھپانے اور ڈھانپنے والا ہوتا ہے۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے : لعب السیول بہ فاصبح ماؤہ غللا یقطع فی اصول الخروع : اور اس سے غلالہ اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو کپڑوں کے نیچے پہنا جاتا ہے اور الغال، اس سے مراد درختوں والی ہموار زمین ہے۔ اور سلم اور طلع کے درخت اگنے کی جگہ کی غال کہا جاتا ہے اور غال بھی ایک بوٹی ہے، اور اس کی جمع ” غلان غبن “ کے ضمہ کے ساتھ ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے : ” یغل کا معنی ہے یوجد غالا۔ (اسے غال پایا جاتا ہے) جیسا کہ آپ کہتے ہیں : احمدت الرجل وجدتہ محمودا “ یعنی میں نے فلاں آدمی کی تعریف کی (تو) میں نے اسے محمود پایا) اس تاویل کی بنا پر یہ قرات یغل یا کے فتحہ اور غین کے ضمہ کے ساتھ ہی کی طرف راجع ہوتی ہے اور یغل کا معنی جمہور اہل علم کے نزدیک اس طرح ہے لیس الاحدان یاتہ یعنی کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مال غنیمت میں خیانت کرے۔ پس آیت میں مقصود لوگوں کو مال غنیمت میں خیانت کرنے سے روکنا اور منع کرنا ہے، اور اس پر وعید سنانا ہے، اور جس طرح یہ جائز نہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ سے خیانت کی جائے اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ آپ کے سوا کسی اور سے خیانت کیجائے، لیکن ذکر خاص طور پر آپ کا کیا گیا ہے کیونکہ آپ ﷺ کے ساتھ خیانت کرنا از روئے وقوع کے زیادہ شدید اور سخت ہے اور از روئے بوجھ اور ثقل کے بہت بڑی اور بھاری ہے، کیونکہ آپ کی موجود گی میں معصیت کا ارتکاب کرنا بہت بڑا جرم ہے کیونکہ آپ کی عزت توقیر کرنا لازم ہے اور ایسے والی جو حضور نبی مکرم ﷺ کے حکم پر ہوں تو ان کے لئے بھی عزت و توقیر میں سے حصہ ہے، اور کہا گیا ہے : یغل “ کا معنی ہے نبی (علیہ السلام) نے کبھی بھی خیانت کی اور مقصود نہی نہیں۔ مسئلہ نمبر : (2) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ومن یغلل یات بما غل یوم القیمۃ “۔ یعنی وہ اس (خیانت کی ہوئی شے) کے ساتھ آئے گا درآنحالیکہ وہ اسے اپنی پیٹھ اور گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا، اور وہ اسے اٹھانے اور اس کے بوجھ کے سبب کبڑا ہوگا اور اس کی آواز سے خوفزدہ ہوگا اور تمام کے سامنے کی خیانت کا اظہار کرکے اسے زجر وتوبیخ کی جائے گی، جیسا کہ آگے آئے گا۔ اور یہی وہ رسوائی جس میں اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والے کو واقع کرے گا اور یہ اس رسوائی اور ذلت کی مثل ہے جس میں وہ دھوکہ دینے اور عہد توڑنے والے کو واقع کرے گا، اس طرح کہ اس کی سرین (بیٹھنے کی جگہ) کے پاس اس کے عذر اور خیانت کی مقدار جھنڈا نصب کیا جائے گا (1) (صحیح بخاری، کتاب الجزیۃ، حدیث نمبر 2950، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور اللہ تعالیٰ نے یہ سزائیں مقرر کی ہیں انکے بارے جن کا انسان اس سے عہد کرتا ہے اور وہ اسے سمجھتے ہیں۔ کیا آپ شاعر کے اس قول کی طرف نہیں دیکھتے : اسمی ویحک ھل سمعت بعذرۃ رفع اللواء لنا بھا فی المجمع : اے سمی تیری ہلاکت ہو کیا تو نے غذر اور خیانت کے بارے سنا ہے کہ ہمارے لئے اس کے سبب جمع ہونے کی جگہ (میدان حشر) میں جھنڈا کھڑا کیا جائے گا۔ عرب لوگ معاہدہ توڑنے والے کے لئے جھنڈا بلند کرتے تھے اور اسی طرح جرم کرنے والے کو اس کی جنایت سمیت پھرایا جاتا تھا، اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان فرمایا : ایک دن رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور غلول (خیانت) کا ذکر کیا اور اسے بہت بڑا (جرم) قرار دیا اور اس کے امر کو عظیم اور شدید قرار دیا پھر فرمایا : ”’ میں تم میں سے کسی کو پاؤں گا وہ قیامت کے دن آئے گا اور اس کی گردن پر اونٹ اپنی آواز نکال رہا ہوگا وہ کہے گا یا رسول اللہ ﷺ میری مدد فرمائیے تو میں کہوں گا میں تیرے لئے کسی شے کا مالک نہیں ہوں تحقیق میں نے تجھے (پیغام) پہنچا دیا تھا، میں تم میں سے کسی کو پاؤں گا وہ قیامت کے دن آئے گا اور اس کی گردن پر ایک آدمی چیخ و پکار کر رہا ہوگا تو وہ کہے گا یا رسول اللہ ﷺ میری مدد فرمائیے تو میں کہوں گا میں تیرے لئے کسی شے کا مالک نہیں ہوں تحقیق میں نے تجھے (پیغام) پہنچا دیا تھا، میں تم میں سے کسی کو پاؤں گا وہ قیامت کے دن آئے گا اور اس کی گردن پر لکھے ہوئے کاغذ حرکت کر ہرے ہوں گے (مراد وہ کاغذ ہیں جن پر اسکے ذمہ واجب الاداء حقوق لکھے ہوں گے اور وہ کہے گا یا رسول اللہ ﷺ میری مدد فرمائیے تو میں کہوں گا میں تیرے لئے کسی شے کا مالک نہیں ہوں تحقیق میں نے تجھے (پیغام) پہنچا دیا تھا، میں تم میں سے کسی کو پاؤں گا وہ قیامت کے دن آئے گا اور اس کی گردن پر سونا چاندی ہوگا تو وہ کہے گا یا رسول اللہ ﷺ میری مدد فرمائیے تو میں کہوں گا میں تیرے لئے کسی شے کا مالک نہیں ہوں تحقیق میں نے تجھے (پیغام) پہنچا دیا تھا، میں تم میں سے کسی کو پاؤں گا وہ قیامت کے دن آئے گا اور اس کی گردن پر ایک (1) (مسلم کتاب الامارۃ جلد 2 صفحہ 123، 122، قدیمی کتب خانہ کراچی صحیح کتاب جہاد والسیر، حدیث نمبر 2844، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور ابو داؤد نے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت بیان کی ہے انہوں نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب مال غنیمت پاتے تھے تو آپ حضرت بلال ؓ کو حکم دیتے تو وہ لوگوں میں اعلان کردیتے اور وہ اپنے غنائم لے کر آجاتے تھے اور آپ ﷺ اس کا خمس نکالتے تھے اور اسے تقسیم کردیتے، پس ایک دن اعلام کے بعد ایک آدمی بالوں کی رسی لے کر آیا اور اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ یہ اس مال میں سے تھی جو ہم نے غنیمت کے طور پر حاصل کیا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیا تو نے بلال کو سنا ہے وہ تین بار اعلام کرتا ہے ؟ “ اس نے عرض کی : جی ہاں : آپ نے فرمای : ” تجھے کس نے روکا ہے کہ تو اسے لے کر آئے ؟ “ تو اس نے معذرت پیش کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” خبردار ! تو قیامت کے دن اس کے ساتھ آئے گا اور میں اسے تجھ سے قبول نہ کروں گا۔ (1) بعض علماء نے کہا ہے : مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن اس بوجھ کا عوض پورا پورا دیا جائے گا جیسا کہ دوسری آیت میں کہا ہے : (آیت) ” وھم یحملون اوزارھم علی ظھورھم، الا سآء مایزرون “۔ (الانعام) ترجمہ اور وہ اٹھائے ہوئے ہیں اپنے بوجھ اپنی پشتوں پر ارے کتنا بوجھ ہے جسے وہ اٹھائے ہوئے ہیں) اور یہ بھی کہا گیا ہے : خبر امر کے مشہور ہونے پر محمول ہے، یعنی وہ قیامت کے دن آئے گا اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ اس کے امر کی تشہیر کرے گا جیسا کہ تشہیر کی جاتی ہے اگر اس نے اونٹ کو اٹھایا اس کی آواز ہوگی یا گھوڑا اٹھایا (تو) اس کی آواز ہوگی۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ حقیقت سے مجاز اور تشبیہ کی طرف عدول ہے اور جب کلام حقیقت اور مجاز کے درمیان دائر ہو تو حقیقت اصل ہے جیسا کہ کتب اصول میں ہے، تحقیق نبی مکرم ﷺ نے حقیقت کے بارے خبر دی ہے ” شادی کے بعد عطر نہیں ہے “ اور کہا جاتا ہے : بیشک جس نے دنیا میں کسی شے کی خیانت کی قیامت کے دن جہنم میں اس کی تمثیل بنائی جائے گی پھر اسے کہا جائے گا : اس کی طرف اترو اور اسے پکڑ لو، پھر وہ اس کی طرف اترے گا۔ پس جب وہ اس تک پہنچے تو اسے اٹھالے گا، یہاں تک کہ جب دروازے تک پہنچے گا تو اس سے جہنم کے نچلے حصے کی طرف گر جائے گا، پھر وہ اس کی طرف لوٹ آئے گا اور اسے پکڑ لے گا، جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا اسی طرح ہوتا رہے گا اور کہا جاتا ہے : ” وہ اس کے ساتھ آئے گا جس کی اس نے خیانت کی “ یعنی قیامت کے دن وہ خیانت اور غلول اس پر شہادت دیں گے۔ مسئلہ نمبر : (3) علماء نے بیان کیا ہے : غلول (خیانت کرنا) کبائر میں سے ایک کبیر گناہ ہے اور اس پر دلیل یہ آیت اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی وہ حدیث ہے جو ہم نے ذکر کی ہے کی وہ اسے اپنی گردن پر اٹھائے گا، تحقیق آپ ﷺ نے مدعم کے بارے میں فرمایا : ” قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے بیشک وہ چادر جو خیبر کے دن اس نے مال غنیمت سے اٹھائی اور وہ تقسیم میں شامل نہ ہوئی یقینا وہ اس پر آگ بھڑکائے گی، فرمایا : پس جب لوگوں نے یہ سنا تو ایک آدمی ایک یا دو تسمے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ایک یا دو تسمے بھی آگ میں سے ہیں “ اسے مؤطا نے نقل کیا ہے (2) (موطا امام مالک، کتاب الجہاد، صفحہ 475، اسلام آباد، ایضا صحیح بخاری کتاب المغازی، حدیث 3908، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) پس آپ ﷺ کا ارشاد : والذین نفسی بیدہ “۔ اور آپ ﷺ کا خیانت کرنے والے پر نماز (جنازہ) پڑھنے سے انکار کرنا غلول (خیانت) کے بہت بڑا ہونے اس میں بہت بڑا گناہ ہونے پر دلیل ہے اور یہ کہ کبائر میں سے ہے اور یہ آدمیوں کے حقوق میں سے ہے اور اس میں نیکیوں اور بدیوں کے بارے میں قصاص ضروری ہے، پھر اس کے مالک کی مرضی ہے، اور آپ ﷺ کا قول : شراک او شراکان من نار آپ ﷺ کے اس قول کی مثل ہے : اذوا الخیاط والمخیط (1) (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد حدیث نمبر 2319، ضیا القرآن پبلی کیشنز) (دھاگہ اور سوئی ادا کرو) اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ غزوہ میں تقسیم سے پہلے تھوڑا اور زیادہ مال لینا حلال نہیں ہے، مگر وہ جس پر تمام کا اجماع ہوجائے مثلا جنگ کی زمین میں کھانے کی اشیاء ایندھن کی لکڑیاں اور شکار وغیرہ۔ اور زہری سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان کیا : دشمن کی زمین میں امام کی اجازت کے بغیر کھانے کی کی کوئی شے نہیں لی جائے گی۔ اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے، کیونکہ آثار اس کے خلاف ہیں جیسا کہ آگے بیان ہوگا، حسن نے کہا ہے : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب جب کوئی شہر یا قلعہ فتح کرتے تھے تو ستو، آٹا، گھی، اور شہد کھالیا کرتے تھے، اور ابراہیم نے کہا ہے : وہ دارالحرب میں دشمن کی زمین سے خمس نکالنے سے پہلے کھانے کی اشیاء اور جانوروں کا چارہ وغیرہ لے لیا کرتے تھے، اور عطا نے کہا ہے : لشکری سریہ میں ہوتے تھے اور وہ گھی کے مشکیزے، شہد اور طعام پاتے تھے اور انہیں کھاتے تھے اور جو کچھ باقی رہ جاتا وہ اسے اپنے امام کے پاس لوٹا دیتے تھے اور جماعت علماء کا نظریہ یہی ہے۔ مسئلہ نمبر : (4) اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ غلول کرنے والے کا سامان جلایا نہیں جائے گا، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس آدمی کا سامان نہیں جلایا جس نے چادر اٹھائی تھی اور نہ ہی آپ نے اس موتیوں والے کا سامان جلایا تھا جس پر آپ نے نماز جنازہ چھوڑ دی تھی، اگر اس (خیانت کرنے والے) کا سامان جلانا واجب ہوتا تو آپ ﷺ یقینا اس پر عمل کرتے، اور اگر آپ ایسا کرتے تو یقینا وہ حدیث میں نقل کیا جاتا (2) (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد حدیث نمبر 2335، ضیا القرآن پبلی کیشنز، ایضا، ابن ماجہ، کتاب الجہاد حدیث نمبر 2837 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور رہی وہ روایت جو حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جب تم کسی آدمی کو پاؤ اس حال میں کہ اس نے (مال غنیمت میں) خیانت کی ہو تو تم اس کا سازوسامان جلا دو اور اسے مارو (3) (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد باب فی عقوبۃ الغال، جلد 2، صفحہ 15، اسلام آباد، ایضا ابی داؤد حدیث نمبر 2338، ضیا القرآن پبلی کیشنز) “ تو اسے ابو داؤد اور ترمذی نے صالح بن محمد بن زائدہ کی حدیث سے روایت کیا ہے اور یہ ضعیف راوی ہے اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا۔ ترمذی نے کہا ہے : میں نے اس حدیث کے بارے محمد بن اسماعیل بخاری (رح) سے پوچھا تو انہوں نے کہا : بلاشبہ اسے صرف صالح بن محمد (رح) نے روایت کیا ہے اور وہ ابو واقد اللیثی ہے اور وہ منکر الحدیث ہے اور ابو داؤد نے بھی اس سے روایت کیا ہے اس نے کہا ہے : ہم نے ولید بن ہشام کی معیت میں جنگ لڑی اور ہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علہیم بھی تھے پس ایک آدمی نے سامان (غنیمت) خیانت کی، پس ولید نے اس کے سامان کے بارے حکم دیا اور اسے جلا دیا، اور سے پھرایا گیا اور اسے اس کا حصہ بھی نہ دیا، ابو داؤد نے کہا ہے : یہ دونوں حدیثوں میں سے زیادہ صحیح ہے۔ اور عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہ “ کی حدیث سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمر ؓ نے (مال غنیمت میں) خیانت کرنے والے کا سامان جلادیا اور انہوں نے اسے مارا (4) (سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد حدیث نمبر 2340، ضیا القرآن پبلی کیشنز) ابو داؤد نے کہا ہے : اور اس میں علی بن بحر نے ولید سے یہ زیادہ کیا ہے۔۔۔ ولم اسمعہ منہ (اور میں نے اسے اس سے نہیں سنا) ومنعوہ سھمہ (اور انہوں نے اسے اپنے حصہ سے روک دیا) ابو عمر نے بیان کیا ہے : اس حدیث کے بعض راویوں نے کہا ہے : اور تم اس کی گردن مار دو اور اس کا سازو سامان جلا دو ، اور یہ حدیث صالح بن محمد کے اردگرد گھومتی ہے اور یہ راوی ان میں سے نہیں ہے جنہیں حجت بنایا جاسکتا ہے، اور تحقیق حضور نبی کریم ﷺ سے یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” کسی آدمی کا خون حلال نہیں ہوتا مگر تین میں سے کسی ایک کے ساتھ (1) (صحیح بخاری، کتاب الدیات جلد 2، صفحہ 1016، اسلام آباد، ایضا صحیح بخاری حدیث نمبر 6370، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور یہ روایت غلول کی صورت میں قتل کی نفی کرتی ہے، اور ابن جریج نے ابو الزبیر سے انہوں نے حضرت جابر سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” خیانت کرنے والے چھیننے والے اور اچک کرلے جانے والے پر قطع (ید) نہیں ہے (2) (جامع ترمذی، کتاب الحدود جلد 1، صفحہ 175، اسلام آباد، ایضا ابی داؤد، حدیث نمبر 13817، ضیا القرآن پبلی کیشنز، ایضا ابن ماجہ حدیث نمبر 2580، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور غال (مال غنیمت سے مال اٹھانے والا) لغت میں خائن (خیانت کرنے والا) ہی ہے اور شریعت نے اس سے جب قطع ید کی نفع کردی ہے تو پھر قتل کی نفی بدرجہ اولی ہوگی۔ اور امام طحاوی نے کہا ہے : اگر صالح کی مذکورہ حدیث صحیح ہو تو پھر یہ احتمال ہے کہ اس وقت یہ مالوں میں سزا ہو، جیسا کہ زکوۃ کا انکار کرنے والے کے بارے میں فرمایا :” بیشک ہم زکوۃ اور اس کے مال کا نصف حصہ لیں گے (کیونکہ) یہ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور واجبات میں سے ایک حق اور واجب ہے۔ (3) (سنن ابو داؤد، کتاب الزکوۃ باب فی زکوۃ السائمۃ جلد 1، صفحہ 221، اسلام آباد) اور اسی طرح حضرت ابوہریرہ ؓ نے چھپائے ہوئے اونٹ کے گم ہونے کی صورت میں کہا ہے : اس میں اس (اونٹ) کا تاوان بھی ہے اور اس کے ساتھ اس کی مثل (اونٹ) بھی ہے (4) (سنن ابو داؤد، کتاب اللقطۃ حدیث نمبر 1460، ضیا القرآن پبلی کیشنز) اور اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص نے لٹکے ہوئے پھل کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اس میں اس کی دو مثل تاوان ہے اور سزا کے کوڑے بھی ہیں (5) (سنن ابو داؤد، کتاب اللقطۃ حدیث نمبر 1455، ضیا القرآن پبلی کیشنز) یہ سب روایات منسوخ ہیں، واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (5) جب کسی آدمی نے مال غنیمت سے خیانۃ کچھ لے لیا اور پھر وہ پایا گیا وہ اس سے لے لیا جائے اور اسے ادب سکھایا جائے اور تعزیری سزا دی جائے، اور امام مالک، امام شافعی، اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علہیم اور اس کے اصحاب اور امام لیث رحمۃ اللہ علہیم کے نزدیک یہ ہے کہ اس کا سامان نہیں جلایا جائے گا، اور امام شافعی، لیث اور داؤد رحمۃ اللہ علہیم نے کہا ہے : اگر وہ نہی کو جانتا ہو (یعنی اگر اسے یہ معلوم ہو کہ ایسا کرنا ممنوع ہے) تو اسے سزا دی جائے گی، اور امام اوزاعی نے کہا ہے : (مال غنیمت میں) خیانت کرنے والے کا تمام سامان جلا دیا جائے گا سوائے اس کے ہتھیار اور ان کپڑوں کے جو وہ پہنے ہوئے ہو اور اس کی زین کے اور اس کی سواری اس سے نہیں چھینی جائے گی اور نہ ہی وہ شے جلائی جائے گی جو خیانۃ اٹھائی گئی اور امام احمد اور اسحاق رحمۃ اللہ علہیم کا قول ہے، اور حسن (رح) نے یہی کہا ہے مگر یہ کہ وہ حیوان یا مصحف ہو (تو پھر یہ سزا نہیں دی جائے گی) اور ابن خویز منداد نے کہا ہے : روایت بیان کی گئی ہے، کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ دونوں نے غلول کرنے والے کو مارا اور اس کا سامان جلا دیا، ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہنے بیان کیا ہے جنہوں نے یہ کہا ہے کہ غلول کرنے والے کا کجاوہ اور اس کا سامان سب جلا دیا جائے گا اس میں سے مکحول اور سعید بن عبد العزیز (رح) ہیں۔ اور جنہوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے ان کی دلیل صالح مذکور کی حدیث ہے اور ہمارے نزدیک وہ ایسی حدیث ہے جس کے ساتھ تیرا کسی حرمت کو ختم کرنا ثابت نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی حکم کو نافذ کرنا (ثابت ہوتا ہے) کیونکہ اس کے معارض ایسے آثار ہیں جو اس کی نسبت زیادہ قوی ہیں، اور جو موقف امام مالک (رح) اور آپ کے متبعین نے اس مسئلے میں اختیار کیا ہے وہ نظروفکر اور اثر کے صحیح ہونے کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (6) بدنی سزا میں امام مالک (رح) کا مذہب مختلف نہیں ہے، اور رہی مالی سزا تو انہیں نے اس ذمی کے بارے میں کہا ہے جو شراب کسی مسلمان کو فروخت کرتا ہے کہ مسلمان کے پاس شراب کو بہا دیا جائے گا، اور ذمی سے بطور سزا ثمن چھین لئے جائیں گے تاکہ وہ مسلمانوں کو شراب کی فروخت نہ کرے تو اس بنا پر یہ کہنا جائز ہے کہ مال میں سزا دینا جائز ہوتا ہے، تحقیق حضرت عمر ؓ نے وہ دودھ بہا دیاجس میں پانی ملایا گیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (7) علماء نے اس پر اجماع کیا ہے کہ (مال غنیمت سے) خیانۃ مال لینے والے کے لئے لازم ہے کہ وہ تمام مال جو بطور خیانت اس نے اٹھایا اسے لوگوں کے منتشر ہونے سے پہلے تقسیم کرنے والے کے پاس لوٹا دے اگر وہ اس تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ پا لے، اور بلاشبہ جب اس نے ایسا کرلیا تو یہی اس کی توبہ ہوگی اور گناہ سے بچ نکلنے کا ذریعہ ہوگا، اور جب اہل لشکر منتشر ہوجائیں اور وہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جو کچھ اس کے ساتھ کیا جائے گا اس میں اختلاف ہے، علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے : وہ اس کا خمس امام کا دے دے اور باقی صدقہ کر دے گا، یہ امام زہری، مالک، اوزاعی، لیث اور ثوری رحمۃ اللہ علہیم کا مذہب ہے، اور حضرات عبادہ بن صامت، معاویہ اور حسن بصری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے مروی ہے اور یہ حضرت ابن مسعود ؓ اور حضرت ان عباس ؓ کے مذہب سے مشابہت رکھتا ہے، کیونکہ یہ دونوں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ مال صدقہ کردیا جائے جس کے مالک کا علم نہ ہو، اور یہی امام احمد بن حنبل (رح) کا مذہب ہے اور امام شافعی (رح) نے کہا ہے : اس کے لئے غیر کا مال صدقہ کرنا درست نہیں، ابو عمر ؓ نے کہا ہے : میرے نزدیک یہ ایسی صورت میں سے جب اس کے مالک کو پانا، اس تک پہنچنا یا اس کے ورثا تک پہنچنا ممکن ہو، اور اگر ان میں سے کوئی شے بھی نہ ہو تو اس صورت میں امام شافعی (رح) بھی صدقہ کرنے کو مکروہ نہیں قرار دیں گے انشاء اللہ تعالیٰ ۔ تمام نے اس پر اجماع کیا ہے کہ لقط (گری ہوئی چیز جو مل جائے) کو صدقہ کرنا جائز ہے جبکہ پہلے اس کی تشہیر کی جائے اور اس کے مالک کا عمل نہ ہو سکے، اور پھر اس کے بارے یہ حکم لگایا ہے کہ اگر وہ (مالک) آجائے۔۔۔۔ تو اسے اجرت اور ضمان کے درمیان اختیار دیا جائے گا، اور اسی طرح غصب کی ہوئی شے کا حکم بھی ہے، وباللہ التوفیق۔ اور غلول کے علیحدہ ذکر میں اس پر دلیل ہے کہ مال غنیمت میں تمام غانمین (لشکری) شریک ہیں، پس کسی کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ اس میں سے کوئی شے دوسرے (کی اجازت) کے بغیر لے، پس جس نے بھی اس میں سے کوئی شے غصب کی تو بالاتفاق اسے تادیبی سزا دی جائے گی، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (8) اگر کسی نے کسی لونڈی کے ساتھ وطی کی یا نصاب کے برابر (دس درہم) مال چوری کیا تو اس پر حد قائم کرنے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے اور ایک جماعت کی رائے یہ ہے کہ اس پر قطع ید نہ ہوگی۔ مسئلہ نمبر : (9) عمال کے ہدایا اور تحایف بھی غلول میں سے ہیں، اور آخرت میں ذلت ورسوائی کے اعتبار سے اس کا حکم غلول کرنے والے کے حکم کی طرح ہے، ابو داؤد نے اپنی سنن میں (1) (سنن ابو داؤد، کتاب الخراج والا مارۃ والغیء حدیث نمبر 2557، ضیا القرآن پبلی کیشنز، ایضا ؟ صحیح بخاری کتاب الاحکام حدیث نمبر 6639، ایضا) اور مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابو حمید الساعدی سے روایت بیان کی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے قبیلہ ازد کے ایک آدمی کو صدقہ وصول کرنے عامل مقرر کیا اسے ابن اللتبیہ کہا جاتا تھا (ابن سرح نے ابن الاتبیہ کہا ہے) پس وہ آیا اور اس نے کہا : یہ تمہارے لئے ہے اور یہ مجھے بطور ہدیہ دیا گیا ہے تو حضور نبی مکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور پھر فرمایا :” عامل کو کیا ہوگیا ہے جسے ہم بھیجتے ہیں اور وہ آ کر یہ کہتا ہے یہ تمہارے لئے ہے اور یہ (مال) مجھے بطور ہدیہ دیا گیا ہے خبردار سنو ! وہ اپنی ماں یا اپنے باپ کے گھر بیٹھا رہے اور پھر دیکھے کیا اسے کوئی ہدیہ دیا جاتا ہے یا نہیں، تم میں سے کوئی بھی ان میں سے جو شے بھی لائے گا قیامت کے دن وہ اس کے ساتھ آئے گا اگر وہ اونٹ ہوا تو اس کی آواز ہوگی، اور اگر وہ گائے ہوئی تو اس کی آواز ہوگی اور اگر وہ بکری ہوئی تو وہ اس کی آواز نکالے گا۔ “۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ بلند فرمائے یہاں تک کہ ہم نے آپ ﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی پھر آپ نے کہا : اللھم ھل بلغت اللھم ھل بلغت (2) (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ جلد 2، صفحہ 123، قدیمی کتب خانہ کراچی، ایضا سنن ابی داؤد، کتاب الخراج والامارۃ والغیء، جلد 2، صفحہ 53، اسلام آباد) (اے اللہ ! کیا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے اے اللہ کیا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے ؟ ) اور ابوداؤد نے حضرت بریدہ ؓ سے اور انہوں نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے آپ نے فرمایا : ’ جسے ہم کسی عمل پر عامل مقرر کرتے ہیں تو ہم اس کے لئے مناسب وظیفہ مقرر کردیتے ہیں پس اس کے بعد اس نے جو کچھ لیا تو وہ غلول (خیانت) ہوگا۔ “ (3) اور انہوں نے حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے ساعی (عامل) بنا کر بھیجا، اور پھر فرمایا : ابا مسعود ! تو جا اور میں تجھے قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ تیری پشت پر صدقہ کے اونٹوں میں سے کوئی اونٹ آئے اور وہ اپنی آواز نکال رہا ہو کہ تو نے اسے بطور خیانت حاصل کیا تھا “ انہوں نے عرض کی : تب میں نہیں جاؤں گا، آپ نے فرمایا : ” سو میں تجھے مجبور نہ کروں گا (4) (ایضا صفحہ 53، اسلام آباد) جو روایت ابو داؤد نے ہی مستورد بن شداد سے نقل کی ہے اس نے ان احادیث کو مقید کردیا ہے، انہوں نے بیان کیا ہے : میں نے حضور نبی مکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :” جو ہمارا عامل ہو اسے چاہیے کہ وہ بیوی حاصل کرلے (یعنی نکاح کرلے) اور اگر اس کے پاس خادم نہ ہو تو وہ خادم حاصل کرلے اور اگر اس کے پاس مسکن (رہنے کے لئے گھر) نہ ہو تو رہائش گاہ بنا لے (1) (سنن ابی داؤد کتاب الخراج والامارۃ الغی، جلد 2، صفحہ 53، 52، اسلام آباد) ۔ فرمایا پس ابوبکر نے بیان کیا ہے : مجھے خبر دی گئی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” جس نے اس کے سوا کچھ لیا تو وہ غلول کرنے والا اور سارق (چوری کرنے والا) ہے۔ “ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر : (10) کتب کو ان کے مالکوں سے روک کر رکھنا بھی غلول میں سے ہے اور ان کے علاوہ دیگر چیزیں بھی ان کے معنی میں داخل ہیں، زہری نے کہا ہے : کتب کی خیانت سے بچ، پرہیز کر، تو انہیں نے کہا گیا : کتب کا غلول کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : انہیں ان کے اصحاب سے روک کر رکھنا، تحقیق اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تاویل میں کہا گیا ہے : (آیت) ” وما کان لنبی ان یغل “ یعنی نبی کی شان نہیں ہے کہ وہ بطور رغبت یارہبت یا مداہنت کے وحی میں سے کوئی شے چھپا لے، اور وہ اس لئے کہ قرآن کریم میں انکے دین کے عیب بیان کئے گئے ہیں اور انکے معبودان باطلہ کو جو برا کہا گیا ہے وہ اسے ناپسند کرتے تھے، تو انہوں نے آپ ﷺ سے کہا کہ آپ اسے لپیٹ دیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، محمد بن بشار نے اسے بیان کیا ہے اور ہم نے اس کے بارے جو ابتداء میں بیان کیا ہے وہ جمہور کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (11) قولہ تعالیٰ (آیت) ” ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون “ اس کے بارے کلام پہلے گزر چکی ہے۔
Top