Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا و رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے
آیت نمبر : 172۔ (آیت) ” الذین مبتدا ہونے کی بنا پر محل رفع میں ہے اور اس کی خبر (آیت) ” من بعد ما اصابھم القرح “ ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ محل جر میں ہو، اس صورت میں یہ (آیت) ” المؤمنین “ سے یا (آیت) ” بالذین لم یلحقوا “۔ سے بدل ہوگا۔ (آیت) ” استجابوا “۔ یعنی اجابوا ہے اور اس میں سین اور تا دونوں زائدہ ہیں۔ اور اسی معنی میں یہ قول بھی ہے۔ فلم یستجبہ عند ذالک مجیب “۔ اور صحیحین میں حضرت عروہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا : مجھے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : تیرا باب ان میں سے تھا جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول معظم ﷺ کی دعوت پر لبیک کہی اس کے بعد کہ انہیں گہرا زخم لگ چکا تھا یہ مسلم کے الفاظ ہیں (1) (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، جلد 2، صفحہ 282، ایضا صحیح بخاری، باب الذین استجابوا اللہ والرسول، حدیث نمبر 3769، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور انہی کی وساطت سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے : اے میرے بھانجے تیرے دونوں باپ یعنی حضرت زبیر اور حضرت ابو بکرصدیق ؓ ان میں سے تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ اور رسول معظم ﷺ کی دعوت پر لیبک کہی اس کے بعد کہ انہیں گہرا زخم لگ چکا تھا اور انہوں نے فرمایا : جب مشرک میدان احد سے واپس لوٹے اور حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو وہ مصیبت اور اذیت پہنچی جو انہیں پہنچی تو آپ کو خوف لاحق ہوا کہ (ممکن ہے) وہ واپس پلٹ آئیں تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کون ان کے مقابلہ کی دعوت پر لبیک کہے گا تاکہ یہ جان لیں کہ ہمارے پاس قوت ہے ؟ “ پس حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت زبیر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ان ستر افراد میں تھے جو اس کے لئے تیار ہوئے، چناچہ یہ اس قوم کے پیچھے نکلے اور انہیں اپنی آواز پہنچائی اور اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے، اور ام المومنین عائشہ صدیقہ ؓ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے جو غزوہ حمراء الاسد میں پیش آیا، اور یہ مدینہ طیبہ سے تقریبا آٹھ میل کے فاصلے پر ہے اور وہ اس طرح ہوا کہ جب اتوار کا دن تھا اور یہ غزوہ احد کا دوسرادن تھا، رسول اللہ ﷺ نے لوگوں میں مشرکین کا پیچھا کرنے کا اعلان کیا اور فرمایا ” ہمارے ساتھ صرف وہی نکلے گا جو کل اس میں حاضر تھا ، “ تو آپ ﷺ کے ساتھ مومنین میں سے دو سو آدمی اٹھے، بخاری میں ہے کہ آپ نے فرمایا : ” کون ان کے پیچھے جائے گا ؟ “ تو ان میں سے ستر آدمی تیار ہوئے، فرمایا : ان میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور حضرت زبیر ؓ بھی تھے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ (1) (صحیح بخاری، کتاب المغازی جلد 2 صفحہ 584، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر 3769، ضیا القرآن پبلی کیشنز) یہاں تک کہ آپ حمرء الاسد پہنچ گئے، دشمن کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لئے، ان میں ایسا بھی تھا جو زخم لگنے کے سبب شدید تکلیف میں تھا وہ چلنے کی استطاعت نہ رکھتا تھا اور وہ کوئی سواری بھی نہ پاتا تھا اور کبھی گھوڑے پر سوار ہوتا تھا اور یہ تمام کے تمام رسول اللہ ﷺ کے حکم کی پیروی اور جہاد کی رغبت میں تھے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت بنی عبدالاشہل کے دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے وہ دونوں زخم لگنے کے سبب انتہائی کمزور اور نحیف تھے، ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھ پر ٹیک اور سہارا لگا کر چلتا تھا اور یہ دونوں حضور نبی مکرم ﷺ کے ساتھ نکلے، پس جب حمرآء الاسد پہنچے تو نعیم بن مسعود ان سے ملا اور اس نے انہیں یہ خبر دی کہ ابو سفیان ابن حرب اور جو قریش کے افراد اس کے ساتھ ہیں وہ لشکر جرار کی صورت میں اکٹھے ہیں اور انہوں نے اپنی رائے کو اس پر پختہ کرلیا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کی طرف لوٹ کر آئیں اور وہاں کے باسیوں کو ہلاک وبرباد کردیں، تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کے بارے خبر نہیں دی ہے : (آیت) ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ اور اسی اثنا میں کہ قریش اس رائے پر جمع ہوچکے تھے کہ اچانک ان کے پاس معبد الخزاعی آگیا اور قبیلہ خزاعہ حضور نبی مکرم ﷺ کا حلیف اور آپ کی نصیحتوں کا راز داں تھا اور وہ حضور نبی کریم ﷺ کے اصحاب کا حال اور جس کیفیت پر وہ تھے اسے دیکھ چکا تھا اور جب اس نے قریش کے واپس پلٹنے کے عزم کو دیکھا تاکہ وہ اہل مدینہ کو تباہ و برباد کر دے تو اسے اس کا خوف لاحق ہوگیا اور حضور نبی کریم ﷺ کے لئے اور آپ کے اصحاب کے لئے اس کے اخلاص نیت نے اسے اس سے برانگیختہ کیا کہ وہ قریش کو ڈرائے چناچہ اس نے انہیں کہا : میں نے ابھی حضرت محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب کو حمرا الاسد کے مقام پر بہت بڑے لشکر کی صورت میں چھوڑا ہے اور جو کوئی ان سے پیچھے رہ گیا تھا وہ بھی ان کے ساتھ جمع ہوچکا ہے اور وہ تم پر (غصہ سے) جلے ہوئے ہیں، پس تم بچ جاؤ بچ جاؤ، پس میں تجھے اس سے روک رہا ہوں قسم بخدا جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس نے مجھے اس پر ابھارا ہے کہ میں اس کے بارے کچھ اشعار لکھوں۔ اس (ابو سفیان) نے پوچھا، تو نے کیا کہا ہے ؟ اس نے جواب دیا : میں نے کہا ہے : کادت تھد من الاصوات راحلتی اذ سالت الارض بالجرد الابابیل : قریب تھا کہ میری سواری کا جانور لشکروں کے شوروغل کی ہولناکی کی وجہ سے گر پڑتا جب زمین پر جوق درجوق کم مو گھوڑوں کا سیلاب آگیا : تردی باسد کرام لا تنابلۃ عند اللقآء ولا میل معاذیل : جو ایسے ذی شان شیروں کو اٹھائے دوڑ رہے تھے جو مقابلہ کے وقت نہ سست اور بزدل ہوں گے اور نہ ہتھیاروں سے خالی ہوں گے۔ فظلت عدوا اظن الارض مائلۃ لما سموا برئیس غیر مخذول : جب وہ گھوڑے ایک ایسے سردار کے ساتھ بلند ہوئے جو بےیارومددگار نہیں چھوڑا گیا تھا تو میں تیز دوڑنے لگا، مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے زمین جھکی جارہی ہے۔ فقلت ویل ابن حرب من لقائکم اذا تغطمطت البطحاء بالخیل : میں نے کہا تمہاری ملاقات سے ابو سفیان بن حرب کے لئے ہلاکت ہے جب وادی بطحاء گھوڑوں سے تھر تھرا اٹھے گی۔ انی نذیر لاھل البسل ضاحیۃ لکل ذی اربۃ منھم ومعقول بے شک میں سورض کی دھوپ میں چمکنے والی سرزمین کے رہنے والوں (یعنی قریش مکہ) میں سے ہر صاحب عقل و دانش کو ڈرانے والا ہوں۔ من جیش احمد لا وخش قنابلہ ولیس یوصف ما انذرت بالقیل (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، 4، صفحہ 224) (سیدنا) احمد (مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لشکر سے جو سست اور کوتاہ قد نہیں ہیں اور جس بات سے میں نے ڈرایا ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ پس اس طرح اس نے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو واپس لوٹا دیا اور اللہ تعالیٰ نے انکے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ ڈرتے ہوئے تیزی کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ آئے اور حضور نبی مکرم ﷺ اپنے اصحاب کے ہمراہ اس حال میں مدینہ منورہ کی طرف لوٹے کہ آپ کی مدد ونصرت فرمائی گئی تھی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” فانقلبوا بنعمۃ من اللہ وفضل لم یمسسھم سوء “۔ اس میں سوء سے مراد قتال اور رعب ہے (آل عمران : 174) ترجمہ : ان کے عزم و توکل کا نتیجہ یہ نکلا کہ “ واپس آئے یہ لوگ اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ نہ چھوا ان کو کسی برائی نے۔ اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے آپ کی معیت میں نکلنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت عطا فرمادی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ اس واپس پلٹنے کے ساتھ انہیں اجر عظیم حاصل ہوا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” بلاشبہ یہ عزوہ ہے۔ “ یہی جمہور نے اس آیت کی تفسیر کی ہے اور حضرت مجاہد (رح) اور عکرمہ (رح) کا قول شاذ ہے ان دنوں نے کہا ہے : بیشک یہ آیت اس قول میں سے ہے : (آیت) ” الذین قال لھم الناس “۔ تاقولہ۔۔۔۔ عظیم۔ یہ حضور نبی مکرم ﷺ کے بدر صغری کی جانب خروج کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نکلے ابو سفیان کے اس وعدہ کے مطابق جو اس نے میدان احد میں کیا تھا، کیونکہ اس نے کہا تھا : آنے والے سال ہمارا مقابلہ میدان بدر میں ہوگا، تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تم جوابا کہو : ہاں (ہمیں منظور ہے) پس آپ ﷺ بدر کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں بہت بڑی منڈی لگی ہوئی تھی، پس رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کو دراہم عطا فرمائے۔ “ اور آپ بدر کے قریب جاپہنچے تو آپ ﷺ کے پاس نعیم بن مسعود اشجعی آیا اور اس نے آپ کو خبر دی کہ قریش جمع ہوچکے ہیں اور آپ کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں وہ اور جو ان کی طرف منسوب ہیں پس اس وجہ سے مسلمان خوفزدہ ہوگئے، لیکن انہوں نے کہا : (آیت) ” حسبنا اللہ ونعم الوکیل “۔ پس وہ چلتے رہے یہاں تک کہ بدر میں پہنچ گئے اور وہاں کسی ایک کو بھی نہ پایا۔ اور انہوں نے منڈی اور بازار لگا ہوا پایا پس انہوں نے اپنے دراہم کے ساتھ کچھ چمڑا اور سامان تجارت خریدا اور واپس لوٹ گئے، اور انہوں نے کوئی جنگ اور مکر نہ پایا اور اپنی تجارت میں نفع کمایا، پس اسی لئے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” فانقلبوا بنعمۃ من اللہ وفضل “۔ (یعنی ان تجارات میں فضل و احسان کے ساتھ واپس لوٹے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 543 دارالکتب العلمیہ) ۔ واللہ اعلم۔
Top