Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 175
اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَهٗ١۪ فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں ذٰلِكُمُ : یہ تمہیں الشَّيْطٰنُ : شیطان يُخَوِّفُ : ڈراتا ہے اَوْلِيَآءَهٗ : اپنے دوست فَلَا : سو نہ تَخَافُوْھُمْ : ان سے ڈرو وَخَافُوْنِ : اور ڈرو مجھ سے اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تو اگر تم مومن ہو تو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا
آیت نمبر : 175۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ نے کہا ہے : اس کا معنی ہے ” یخوفکم اولیاء “ یعنی وہ تمہیں ڈراتا ہے اپنے دوستوں کے ساتھ یا اپنے دوستوں سے (2) (زادالمسیر جلد 1۔ 2، صفحہ 403) اس سے حرف جر (بایامن) حذف کردیا گیا ہے اور فعل کو اسم کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اور اسے (اسم کو) نصب دی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” لینذر باسا شدیدا “۔ ای لینذر کم بب اس شدید، (تاکہ وہ تمہیں ڈرائے شدید قوت کے ساتھ) یعنی وہ مومن کو کافر سے ڈراتا ہے، اور حسن اور سدی نے کہا ہے : اس کا معنی ہے وہ اپنے منافق دوستوں کو ڈراتا ہے، تاکہ وہ مشرکین کے ساتھ جنگ کرنے بیٹھ جائیں (3) (ایضا، جلد 1، 2 صفحہ 404) اور رہے اللہ تعالیٰ کے دوست تو وہ اس سے نہیں ڈرتے جب وہ انہیں ڈرائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ یہ جو تمہیں کفار کے اجتماع سے ڈرا رہا ہے وہ انسانی شیطانوں میں سے ایک شیطان ہے، چاہے وہ نعیم بن مسعود ہو یا کوئی اور، اس اختلاف کی بنا پر جو پہلے گزر چکا ہے، (آیت) ” فلا تخافوھم “۔ یعنی تم ان کافروں سے نہ ڈرو جن کا ذکر اس قول میں کیا گیا ہے : (آیت) ” ان الناس قد جمعوا لکم “۔ یا (ھم ضمیر) اولیاء کی طرف لوٹ رہی ہے اگر تو کہے کہ معنی یہ ہے وہ تمہیں اپنے دوستوں کے ساتھ ڈراتا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وخافون “۔ یعنی میرا حکم چھوڑنے میں تم مجھ سے ڈرو اگر تم میرے وعدہ کی تصدیق کرتے ہو اور کلام عرب میں خوف سے مراد گھبراہٹ ہے اور خاوفنی فلان فخفتہ (ڈرنے میں فلاں نے مجھ سے مقابلہ کیا تو میں اس پر ڈرنے میں غالب آگیا) یعنی میں اس کی نسبت زیادہ ڈرا اور الخوفاء ایسا جنگل جس میں پانی نہ ہو، اور کہا جاتا ہے : ناقۃ خوفاء یعنی ایسی اونٹنی جس کا دودھ خشک ہوجائے اور الخافۃ مراد چمڑے کا وہ تھیلا ہے جس میں شہد حاصل کیا جاتا ہے، (یا چمڑے کا وہ لباس جو شہد اتارتے وقت پہنا جاتا ہے) حضرت سہل بن عبداللہ نے بیان کیا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس بعض صدیقین جمع ہوئے اور پوچھا خوف کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : تو امن و سکون نہ پائے یہاں تک کہ تو امن والی جگہ پر پہنچ جائے، حضرت سہل (رح) نے کہا ہے : حضرت ربیع بن خیثم ؓ جب لوہار کی بھٹی کے پاس سے گزرتے تو اس کو ڈھانپ دیا جاتا تھا، تو حضرت علی ابن ابی طالب ؓ کو اس بارے بتایا گیا تو آپ نے فرمایا : جب وہ وہاں پہنچیں تو مجھے آگاہ کرنا، پس وہ وہاں پہنچے تو لوگوں نے آپ کو اطلاع دی، چناچہ آپ وہاں آئے اور اپنا ہاتھ ان کی قمیص میں داخل کیا تو آپ نے ان کی (دل کی) حرکت کو بڑا تیز اور بلند پایاتو فرمایا میں شہادت دیتا ہوں کہ یہ تمہارے اہل زمانہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے، پس اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا وہ ہے کہ وہ اس سے ڈرے کہ اللہ تعالیٰ اسے سز دے گا چاہے دنیا میں یا آخرت میں اور اسی وجہ سے کہا گیا ہے : ڈرنے والا وہ نہیں ہے جو رو رہا ہو اور اپنی آنکھیں پونچھ رہا ہو بلکہ ڈرنے والا وہ ہے جو اسے چھوڑ دے جس کے بارے وہ خوف رکھتا ہو کہ اس سے اسے عذاب دیا جائے گا، پس اللہ تعالیٰ نے بندوں پر فرض کردیا ہے کہ وہ اس سے ڈریں چناچہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” وخافون ان کنتم مؤمنین “۔ اور فرمایا (آیت) ” وایای فارھبون “۔ (البقرہ) ترجمہ : اور صرف مجھی سے ڈرا کرو۔ اور مومنین کی خوف کے سبب مدح کرتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” یخافون ربھم من فوقھم (النحل : 50) ترجمہ : ڈرتے ہیں اپنے رب کی قدرت سے۔ اور ارباب اشارات کی خوف کے بارے میں کئی عبارات ہیں جن کا مرجع وہ ہے جو ہم نے ذکر کردیا ہے۔ الاستاذ ابو علی الدقاق نے کہا ہے : میں ابوبکر بن فورک (رح) کی عیادت کرنے کے لئے گیا، پس جب انہوں نے مجھے دیکھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تو میں نے ان سے کہا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت اور شفا عطا فرمائے گا، تو انہوں نے مجھے کہا : کیا تو یہ گمان کر رہا ہے کہ میں موت سے ڈر رہا ہوں ؟ بلاشبہ میں تو موت کے بعد والی کیفیت سے ڈر رہا ہوں، اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں تم نہیں دیکھ سکتے اور میں جو سن رہا ہوں وہ تم نہیں سن سکتے، آسمان چر چرارہا ہے اور اس کے لئے لازم کیا گیا ہے کہ وہ چر چرائے اس میں چار انگلیاں رکھنے برابر بھی کوئی جگہ نہیں ہے مگر اس میں فرشتے اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہوئے اپنی پیشانی رکھے ہوئے ہیں قسم بخدا ! اگر تم جان لو جو میں جانتا ہوں تو یقینا تم بہت تھوڑا ہنسو اور تم بہت زیادہ رو، اور تم بستروں پر عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو اور یقینا تم دشوار گزار گھاٹیوں کی جانب نکل جاؤ جہاں تم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تضرع اور عاجزی کرتے ہوئے دعا مانگو قسم بخدا میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ (1) (سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد، جلد 1، صفحہ 319، ایضا ابن ماجہ حدیث نمبر 4179، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسے ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے : حدیث حسن غریب (یہ حدیث حسن غریب ہے) اور اس سند کے علاوہ اور سے روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو ذر ؓ نے کہا ہے : لوددت انی کنت شجرۃ تعضد (2) (جامع ترمذی، کتاب الزہد، جلد 2 صفحہ 55۔ ) واللہ اعلم۔
Top