Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 188
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اَتَوْا وَّ یُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
لَا تَحْسَبَنَّ : آپ ہرگز نہ سمجھیں الَّذِيْنَ : جو لوگ يَفْرَحُوْنَ : خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس پر جو اَتَوْا : انہوں نے کیا وَّيُحِبُّوْنَ : اور وہ چاہتے ہیں اَنْ : کہ يُّحْمَدُوْا : ان کی تعریف کی جائے بِمَا : اس پر جو لَمْ يَفْعَلُوْا : انہوں نے نہیں کیا فَلَا : پس نہ تَحْسَبَنَّھُمْ : سمجھیں آپ انہیں بِمَفَازَةٍ : رہا شدہ مِّنَ : سے الْعَذَابِ : عذاب وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ اپنے (ناپسند) کاموں سے خوش ہوتے ہیں اور (پسندیدہ کام) جو کرتے نہیں ان کے لیے چاہتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے ان کی نسبت خیال نہ کرنا کہ وہ عذاب سے رستگار ہوجائیں گے اور انہیں درد دینے والا عذاب ہوگا۔
آیت نمبر : 188۔ یعنی (وہ عذاب سے امن میں نہیں ہیں) اس فعل کے سبب جو انہوں نے غزوہ سے پیچھے رہ جانے اور گھر میں ہی بیٹھے رہنے کا کیا اور انہوں نے اس کے بارے عذر پیش کردیئے، صحیحین میں حضرت ابو سعیدخدری ؓ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں منافقین میں سے کچھ لوگ تھے کہ جب حضور نبی کریم ﷺ غزوہ کے لئے تشریف لے جاتے تو وہ آپ سے پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ ﷺ کے خلاف اپنے بیٹھے رہنے پر خوش ہوتے، اور جب حضور نبی مکرم ﷺ واپس تشریف لاتے تو آپ کے پاس عذر پیش کرتے اور حلف دے دیتے اور یہ چاہتے اور پسند کرتے کہ ان کی تعریف کی جائے ایسے کاموں سے جو انہوں نے نہیں کئے تو یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) ” لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا “۔ الایہ (1) (صحیح بخاری، التفسیر، جلد 6، صفحہ 656، ایضا صحیح بخاری، حدیث نمبر 4201، ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور صحیحین میں یہ بھی ہے (2) (صحیح بخاری، کتاب تفسیر سورة آل عمران، حدیث نمبر 4202، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) کہ مروان نے اپنے دربان کو کہا : اے رافع، حضرت ابن عباس ؓ کے پاس جا اور انہیں کہہ کہ اگر ہم میں سے ہر آدمی اس سے خوش ہو جو کچھ اسے عطا کیا گیا ہے اور یہ پسند کرے کہ اس کی اس کام کے عوض تعریف کی جائے جو اس نے نہیں کیا (اور اس پر) وہ عذاب دیا جائے تو یقینا ہم تمام عذاب دیئے جائیں گے، تو حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تمہیں کیا ہے اس آیت کے ہوتے ہوئے بلاشبہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل کی گئی ہے۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) ” واذخذاللہ میثاق الذین اوتوالکتب لتبیننہ للناس ولاتکتمونہ “۔ اور لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا وویحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا “۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 552 دارالکتب العلمیہ) اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ؛ حضور نبی مکرم ﷺ نے ان سے کسی شے کے بارے پوچھا تو انہوں نے اسے چھپا لیا، اور انہوں نے آپ کو کسی اور شے کے بارے بتایا اور نکل گئے حالانکہ انہوں نے آپ کے سامنے ظاہر یہ کیا کہ انہوں نے آپ کو اسی کے بارے خبر دی ہے کہ جس کے بارے آپ نے ان سے پوچھا ہے اور اس پر انہوں نے آپ سے تعریف کی بھی خواہش کی اور اس پر بہت خوش ہوئے جو انہوں نے آپ سے اس شے کو چھپانے کا فعل کیا، اور جس کے بارے آپ نے ان سے پوچھا (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 552 دارالکتب العلمیہ) اور محمد بن کعب قرظی نے کہا ہے : یہ آیت بنی اسرائیل کے ان علماء کے بارے نازل ہوئی ہے جنہوں نے حق کو چھپایا، اور وہ اپنا بادشاہوں کے پاس ایسی چیزوں کا علم لے کر آتے تھے جو ان کے ساتھ ان کے باطل نظریات میں موافقت کرتا تھا، (آیت) ” واشتروا بہ ثمنا قلیلا “۔ (اور انہوں نے اس کے عوض تھوڑی سی قیمت خرید لی) یعنی اس کے عوض انہوں نے وہ دنیا خرید لی جو بادشاہوں نے انہیں عطا کی، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو ارشاد فرمایا : (آیت) ” اور لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا وویحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا فلا تحسنھم بمفازۃ من العذاب، ولھم عذاب الیم “۔ پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے اس کے بدلے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے بندوں میں دین کے بارے فساد برپا کیا اور ضحاک (رح) نے کہا ہے : یہود بادشاہوں کو کہتے تھے بلاشبہ ہم اپنی کتاب میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک نبی مبعوث فرمائے گا اور اس کے ساتھ (سلسلہ) نبوت ختم ہوجائے گا، پس جب اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مبعوث فرمایا تو بادشاہوں نے ان سے پوچھا : کیا یہی وہ نبی ہے جس کا ذکر تم اپنی کتاب میں پاتے ہو ؟ تو یہودیوں نے بادشاہوں کے اموال میں حرص اور لالچ رکھنے کی بنا پر کہا : وہ اس کے سوا ہے، (یعنی یہ وہ نہیں ہے) تو بادشاہوں نے انہیں خزانے عطا کردیئے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : (آیت) ” اور لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا “۔ یعنی وہ خوش ہوتے ہیں اس جھوٹ سے جو انہوں نے بادشاہوں کے سامنے بولا یہاں تک کہ انہوں نے دنیوی سازوسامان حاصل کرلیا (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 256) پہلی حدیث دوسری حدیث کے مقتضی کے خلاف ہے اور یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ اس آیت کا نزول دونوں سبیوں کی بنا پر ہو کیونکہ وہ دونوں ایک ہی زمانہ میں جمع تھے اور یہ دونوں فریقوں کا جواب ہو، واللہ اعلم۔ اور آپ کا قول : واستحمدوا بذالک الیہ “۔ کا معنی ہے انہوں نے آپ سے مطالبہ اور خواہش کی کہ ان کی تعریف کی جائے اور مروان کا قول : لئن کان کل امری مناالخ اس پر دلیل ہے کہ عموم کے لئے مخصوص صیغے ہیں، اور یہ کہ الذی ان میں سے ہے (2) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 258) اور یہ یقینی اور قطعی بات ہے جس نے اسے قرآن وسنت سے سمجھا۔ اور قولہ تعالیٰ : (آیت) ” ویحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا “۔ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں ہے نہ کہ پیچھے رہنے والے منافقین کے بارے میں، کیونکہ وہ کہتے تھے : ہم دین ابراہیم پر ہیں حالانکہ وہ آپ کے دین پر نہ تھے اور وہ کہتے تھے : ہم نماز، روزے اور کتاب والے ہیں، وہ اس سے ارادہ رکھتے تھے کہ اس کے سبب ان کی تعریف کی جائے، اور الذین ‘، یحسبن بالیاء سے فاعل ہے، اور یہی نافع، ابن عامر، ابن کثیر، اور ابو عمرو، کی قرات ہے، یعنی خوش ہونے والے یہ گمان نہ کریں کہ ان کی خوشی انہیں عذاب سے نجات دلانے والی ہے، اور کہا گیا ہے کہ پہلا مفعول محذوف ہے، اور وہ انفسہم ہے۔ اور دوسرا بمفازۃ ہے، اور کو فیوں نے تحسبن “ تا کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ خطاب حضور نبی مکرم ﷺ کو ہے، یعنی اے محمد ! ﷺ آپ گمان نہ کریں کہ خوش ہونے والے عذاب سے امن میں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” فلا تحسبنھم “۔ تا اور با کے فتحہ کے ساتھ ہے اور یہ تاکید کے لئے دوبارہ مذکور ہے، اس کا پہلا مفعول ھم ضمیر ہے اور دوسرا مفعول محذوف ہے، اور وہ کذالک ہے، اور فاعاطفہ ہے یا زائدہ ہے اس بنا پر کہ دوسرا فعل پہلے سے بدل ہے، ضحاک (رح) اور عیسیٰ بن عمر (رح) نے تا کے ساتھ اور با کو ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے یعنی ” فلا تحسبنھم “ اور مراد حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے اصحاب کو خطاب ہے، اور مجاہد، ابن کثیر اور ابو عمرو اور یحییٰ بن یعمر نے یا کے ساتھ اور با کو ضمہ (1) (زاد المسیر، جلد 1۔ 2، صفحہ 417) کے ساتھ فارحین سے خبر بناتے ہوئے پڑھا ہے۔ یعنی فلا یحسبن انفسھم “۔ (اور وہ اپنے آپ کو گمان نہ کریں) بمفازۃ یہ مفعول ثانی ہے، اور فلا یحسبنھم تاکید ہوگا، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ الذین یحسبن “ سے فاعل ہے، اور اس کے دونوں مفعول محذوف ہیں کیونکہ یحسبنھم اس پر دال ہے۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : بای کتاب ام بایۃ ایۃ تری حبھم عارا علی وتحسب “۔ اس میں ایک مفعول کے ذکر کے سبب دوسرے مفعول کے ذکر کی ضرورت نہ رہی، اور بمفازۃ مفعول ثانی ہے اور یہ پہلے فعل سے بدل ہے اور اس نے اس سے بدل ہونے کے سبب اس کے دونوں مفعولوں کے ذکر سے غنی کردیا ہے اور فا زائدہ ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : کبھی یہ افعال ملغی آتے ہیں جملہ مفیدہ کے حکم میں نہیں ہوتے، جیسے شاعر کا قول ہے : وما خلت ابقی بیننا من مودۃ عراض المذا کی المسنفات القلائصا : المذاکی سے مراد وہ گھوڑا ہے جس پر اس کے دانت نکلنے کے بعد ایک سال یا دو سال گزر جائیں اس کا واحد مذک ہے، جیسا کہ اونٹوں میں سے مخلف ہوتا ہے، اور مثال میں یہ جری المذکیات غلاب (یعنی طاقتور گھوڑے غالب آتے ہیں) اور المسنفات اسم مفعول ہے، کہا جاتا ہے : سنفت البعیر اسنفہ سنفا جب تو اونٹ کا اسی کی رسی کے ساتھ تنگ کس لے اور تو اس پر سوار ہو۔ اور اسنف البعیر لغۃ سنفہ کی مثل ہے، اور اسنف البعیر بنفسہ جب اونٹ چلنے کے لئے اپنا سر اوپر اٹھائے یہ کبھی متعدی ہوتا ہے اور کبھی متعدی نہیں ہوتا، اور عرب اونٹ پر سوار ہوتے تھے اور گھوڑے سے اجتناب کرتے تھے اور وہ کہتے تھے : الحرب لا تبقی مودۃ (جنگ محبت کو باقی نہیں رکھتی) اور کعب بن ابی سلمی نے کہا ہے : ارجو وامل ان تدنو مود تھا وما اخال لدینا منک تنویل : میں امید اور آرزو رکھتا ہوں کہ اس کی محبت قریب ہو اور میں یہ خیال نہیں کرتا کہ تیری طرف سے ہمارے پاس کوئی بخشش اور عطا ہو۔ جمہور قراء سبعہ وغیرہم نے اتوا الف مقصورہ کے ساتھ پڑھا ہے، یعنی اس کے عوض جو وہ جھوٹ اور کتمان (چھپانا) میں سے لائے، اور مروان بن حکم، اعمش اور ابراہیم نخعی، نے اتوامد کے ساتھ پڑھا ہے، اور یہ بمعنی اعطوا ہے، (یعنی جو انہوں نے دیا (مراد جو انہوں نے برتاؤکیا) اور سعید ابن جبیر (رح) نے اوتوا صیغہ مجہول کی صورت میں قرات کی ہے، بمعنی اعطوا اور المفازۃ بمعنی المنجاۃ (جائے نجات) ہے، یہ مفعلۃ کے وزن پر فازیفوز سے ہے جب کوئی نجات پاجائے، یعنی وہ نجات پانے والے نہیں، اور خوف اور ڈر کی جگہ کو اچھی فال لینے کے طور پر مفازۃ کا نام دیا گیا ہے، اصمعی نے یہی کہا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 553 دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے : کیونکہ یہ موت کی جگہ ہے اور ہلاکت کا ظن غالب ہے، عرب کہتے ہیں فوز الرجل ‘ جب آدمی مر جائے، ثعلب نے کہا ہے : میں نے ابن اعرابی کے سامنے اصمعی کا قول بیان کیا تو اس نے کہا : انہوں نے خطا کی ہے، مجھے ابو المکارم نے کہا ہے : اسے مفازۃ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ جس نے اسے طے کرلیا وہ کامیاب ہوگیا (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 553 دارالکتب العلمیہ) نجات پا گیا اور اصمعی نے کہا ہے : لدیغ (جس کو ڈس لیا جائے) کو بطور اچھی فال کے سلیم کا نام دیا گیا ہے۔ (3) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 553 دارالکتب العلمیہ) ابن اعرابی نے کہا ہے : کیونکہ وہ اس تکلیف اور مصیبت سے بچ نکلنے والا ہے جو اسے پہنچی ہے (4) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 553 دارالکتب العلمیہ) اور یہ بھی کہا گیا ہے آپ انہیں عذاب سے کہیں دور جگہ میں گمان نہ کریں، کیونکہ فوز (کامیابی اور نجات) مکروہ (عذاب اور تکلیف) سے دور ہونا ہے۔ واللہ اعلم۔
Top