Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 36
وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ١ؕ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے لِمُؤْمِنٍ : کسی مومن مرد کے لیے وَّلَا مُؤْمِنَةٍ : اور نہ کسی مومن عورت کے لیے اِذَا : جب قَضَى : فیصلہ کردیں اللّٰهُ : اللہ وَرَسُوْلُهٗٓ : اور اس کا رسول اَمْرًا : کسی کام کا اَنْ يَّكُوْنَ : کہ (باقی) ہو لَهُمُ : ان کے لیے الْخِيَرَةُ : کوئی اختیار مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ : ان کے کام میں وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی کرے گا اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول فَقَدْ ضَلَّ : تو البتہ وہ گمراہی میں جا پڑا ضَلٰلًا : گمراہی مُّبِيْنًا : صریح
اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ قتادہ، حضرت ابن عباس اور مجاہد نے اس آیت کے سبب نزول کے بارے میں روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینب بنت حجش کو دعوت نکاح دی وہ آپ ﷺ کی پھوپھی زاد تھیں حضرت زینب نے یہ گمان کیا کہ دعوت نکاح حضور ﷺ نے اپنے لیے دی ہے جب انہیں یہ پتہ چلا کہ حضور ﷺ حضرت زید کا ارادہ رکھتے ہیں تو انہوں نے اسے ناپسند کیا، انکار کیا اور ایسا کرنے سے مانع ہوگئیں، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس وقت حضرت زینب نے بات مان لی اور حضرت زید سے شادی کرلی۔ ایک روایت میں ہے یہ خود بھی اس سے انکاری ہوئیں اور انکا بھائی عبدا للہ بھی اس سے انکاری ہوا کیونکہ قریش میں ان کا بڑا ذیشان خاندان تھا۔ حضرت زید پہلے غلام تھے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی ان کے بھائی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : جو چاہیں مجھے حکم دیں، اور حضرت زینب کی شادی حضرت زید سے کردی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت حضرت ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی، اس نے اپنا آپ نبی کریم ﷺ کو ہبہ کیا تو حضور ﷺ نے اس کی شادی حضرت زید بن حارثہ سے کردی، تو حضرت ام کلثوم اور اس کے بھائی نے اسے ناپسند کیا۔ دونوں نے کہا : ہم نے رسول اللہ ﷺ کا ارادہ کیا تو آپ نے ہمارا رشتہ کسی اور سے کردیا، تو اس وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی تو دونوں نے حضرت زید سے شادی کو قبول کرلیا ؛ یہ ابن زید کا قول ہے (1) ۔ حضرت حسن بصری نے کہا : کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو زیبا نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول اسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی نافرمانی کریں (2) ۔ مسئلہ نمبر 2۔ آیت ماکان، یا ینبغی اور اس جیسے جو الفاظ ہیں ان کا معنی حظر اور منع ہے بعض اوقات ہی الفاظ حضر شی اور حضر حکم کے لیے آتا ہے یعنی ایسا نہیں ہوگا، جس طرح اس آیت میں ہے بعض اوقات وہ شی عقلا ممتنع ہوتی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت ماکان لکم ان تنبتو شجرھا ( النمل : 60) بعض اوقات اس کے ممتنع ہونے کا علم شرعی طور پر ہوتا ہے۔ آیت وماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورای حجاب ( الشوری : 51) بعض اوقات یہ امر مندوبات میں ہوتا ہے جس طرح تو کہتا ہے : ماکان لک یا فلان ان تترک النوافل اے فلاں ! تیرے لیے مناسب نہیں کہ تو نوافل کو ترک کر دے، اس کی مثل دو مثالیں ہیں۔ مسئلہ نمبر 3۔ اس آیت میں دلیل ہے بلکہ یہ اس امر میں نص ہے کہ حسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہوتا دیانت میں کفاءت کا اعتبار ہوتا ہے۔ امام مالک، امام شافعی، مغیرہ اور سحنون نے اس میں اختلاف کیا ہے اس کی وجہ ہے کہ غلاموں نے قریش میں شادیاں کیں۔ حضرت زید بن حارثہ نے حضرت زینب بنت حجش سے شادی کی۔ حضرت مقداد بن اسود نے حضرت ضباعہ بنت زبیر سے شادی کی۔ حضرت ابو حذیفہ نے حضرت سالم کی شادی حضرت فاطمہ بنت ولید بن عقبہ سے کی۔ حضرت بلال نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کی بہن سے شادی کی۔ یہ بحث کئی مواقع پر گزرچکی ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ آیت ان یکون لھم الخیرۃ من امرھم کو فیوں نے ان یکون یاء کے ساتھ قراءت کی ہے ؛ یہ ابو عبیدہ کا پسندیدہ نقطہ نظر ہے، کیونکہ فعل اور فاعل جو مونث ہے اس میں فاصلہ ہے۔ باقی قراء نے تاء کے ساتھ قراءت کی ہے کیونکہ لفظ مونث ہے اور فعل کی تانیث اچھی ہے اور فعل کو مذکر لانا اختیاری ہوتا ہے۔ رحمۃ اللہ علیہالخیرۃ مصدر ہے جو اختیار کے معنی میں ہے۔ ابن سمقیع نے رحمۃ اللہ علیہالخیرۃ یاء کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے۔ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے ارشاد : آیت النبی اولی بالمومنین من انفسھم کے معنی کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہے پھر اللہ تعالیٰ نے دھمکی دی اور خبر دی کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ گمراہ ہوجاتا ہے، یہ وہ سب سے قوی دلیل ہے جس کی طرف ہمارے فقہاء کے جمہور گئے ہیں، امام شافعی کے بعض اصحاب اور بعض اصولی گئے ہیں کہ فعل کا صیغہ اپنی اصل وضع میں وجوب کے لیے ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا اور سننے کے بعد مکلف سے اختیار کی نفی کی ہے، پھر امر کے صادر ہونے کے بعد جس کے لیے اختیار باقی ہو اس کے لیے معصیت کا اسم ذکر کیا پھر معصیت پر ضلال کو معلق کیا پس امر کا وجوب پر حمل لازم آگیا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے (رح)۔
Top