Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 37
وَ اِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْۤ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِ اَمْسِكْ عَلَیْكَ زَوْجَكَ وَ اتَّقِ اللّٰهَ وَ تُخْفِیْ فِیْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِیْهِ وَ تَخْشَى النَّاسَ١ۚ وَ اللّٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشٰىهُ١ؕ فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا لِكَیْ لَا یَكُوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْۤ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِهِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
وَاِذْ
: اور (یاد کرو) جب
تَقُوْلُ
: آپ فرماتے تھے
لِلَّذِيْٓ
: اس شخص کو
اَنْعَمَ اللّٰهُ
: اللہ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
وَاَنْعَمْتَ
: اور آپ نے انعام کیا
عَلَيْهِ
: اس پر
اَمْسِكْ
: روکے رکھ
عَلَيْكَ
: اپنے پاس
زَوْجَكَ
: اپنی بیوی
وَاتَّقِ اللّٰهَ
: اور ڈر اللہ سے
وَتُخْفِيْ
: اور آپ چھپاتے تھے
فِيْ نَفْسِكَ
: اپنے دل میں
مَا اللّٰهُ
: جو اللہ
مُبْدِيْهِ
: اس کو ظاہر کرنے والا
وَتَخْشَى
: اور آپ ڈرتے تھے
النَّاسَ ۚ
: لوگ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
اَحَقُّ
: زیادہ حقدار
اَنْ
: کہ
تَخْشٰىهُ ۭ
: تم اس سے ڈرو
فَلَمَّا
: پھر جب
قَضٰى
: پوری کرلی
زَيْدٌ
: زید
مِّنْهَا
: اس سے
وَطَرًا
: اپنی حاجت
زَوَّجْنٰكَهَا
: ہم نے اسے تمہارے نکاح میں دیدیا
لِكَيْ
: تاکہ
لَا يَكُوْنَ
: نہ رہے
عَلَي
: پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں
حَرَجٌ
: کوئی تنگی
فِيْٓ اَزْوَاجِ
: بیویوں میں
اَدْعِيَآئِهِمْ
: اپنے لے پالک
اِذَا
: جب وہ
قَضَوْا
: پوری کرچکیں
مِنْهُنَّ
: ان سے
وَطَرًا ۭ
: اپنی حاجت
وَكَانَ
: اور ہے
اَمْرُ اللّٰهِ
: اللہ کا حکم
مَفْعُوْلًا
: ہوکر رہنے والا
اور جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے احسان کیا اور تم نے بھی احسان کیا (یہ) کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دو اور خدا سے ڈر اور تم اپنے دل میں وہ بات پوشیدہ کرتے تھے جس کو خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حالانکہ خدا اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو پھر جب زید نے اس سے (کوئی) حاجت (متعلق) نہ رکھی (یعنی اس کو طلاق دے دی) تو ہم نے تم سے اس کا نکاح کردیا تاکہ مومنوں کے لئے انکے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (کے ساتھ نکاح کرنے کے بارے) میں جب وہ ان سے (اپنی) حاجت (متعلق) نہ رکھیں (یعنی طلاق دے دیں) کچھ تنگی نہ رہے اور خدا کا حکم واقع ہو کر رہنے والا تھا
اس میں نو مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ امام ترمذی نے روایت کیا علی بن حجر، دائود بن زبر قان سے وہ دائود بن ابی ہند سے وہ شعبی سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ وحی میں سے کوئی چیز چھپاتے تو اس آیت کو چھپاتے آیت واذتقول للذی انعم اللہ علیہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت کے ساتھ اس پر انعام کیا (
1
) ۔ آیت وانعمت علیہ اور آپ نے اسے آزاد کرتے ہوئے اس پر انعام کیا آیت امسک علیک زوجک واتق اللہ وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ وتخشی الناسو اللہ احق ان تخشہ فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا لکی لا یکون علی المومنین حرج فی ازواج ادعیاء ھم اذا قضوا منھن وطراوکان امر اللہ مفعولا رسول اللہ ﷺ نے جب اس سے شادی کی تو لوگوں نے کہا : آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کی تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن الرسول اللہ وخاتم النبین حضور ﷺ نے اس کو متبنی بنایا تھا جب وہ چھوٹا تھا وہ آپ کے پاس ہی رہا یہاں تک کہ وہ جوان ہوگیا، اسے زید بن محمد کہا جاتا، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت ادعوھم لاباء ھم ھو اقسط عنداللہ فان لم تعلموا اباء ھم فاخوانکم فی الدین وموالیکم فلاں فلاں کا مولی ہے اور فلاں فلاں کا بھائی ہے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مناسب اور قرین انصاف ہے۔ ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث غریب ہے۔ دائود بن ابی ہند نے شعبی سے وہ مسروق سے وہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں اگر نبی کریم ﷺ وحی میں سے کسی چیز کو چھپاتے تو اس آیت کو چھپاتے : آیت واذتقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ یہ الفاظ اپنی طوالت کے ساتھ مروی نہیں (
1
) ۔ میں کہتا ہوں : اتنی مقدار ہی کو امام مسلم نے اپنی صحیح روایت میں کیا ہے (
2
) ۔ اسی کو امام ترمذی نے اپنی جامع میں صحیح قرار دیا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیہ حضرت زینب بنت حجش اور حضرت زید بن حارثہ کے حق میں نازل ہوئی۔ حضرت عمر، حضرت ابن مسعود، حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حسن بصری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس آیت سے بڑھ کر شدید کوئی آیت رسول اللہ پر نازل نہیں کی (
3
) ۔ حضرت حسن بصری اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ اگر وحی میں سے کوئی چیز چھپاتے تو اس آیت کو چھپاتے کیونکہ یہ آیت آپ پر بہت شدید تھی۔ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت زید نے شام کی اور اپنے بستر پر لیٹے، حضرت زینب نے کہا : زید نے مجھ پر استطاعت نہ رکھی میں اس سے نہیں بچتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اسے مجھ سے روک دیا تھا، وہ مجھ پر قدرت نہیں رکھتا تھا۔ یہ روایت ابو عصمہ نوح بن ابی مریم کی روایت ہے۔ حدیث کو زینب تک پہنچایا ہے کہ انہوں نے یہ قول کیا ہے۔ بعض روایات میں ہے : حضرت زید بن حارثہ حضرت زینب کے قریب ہونا چاہتے تو انہیں اس وجہ سے ورم لاحق ہوجاتا۔ یہ بھی پہلی روایت کے قریب ہی ہے۔ حضرت زید رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے۔ عرض کی : حضرت زینب اپنی زبان سے مجھے اذیت دیتی ہیں اور یہ کہتی ہیں، میں یہ ارادہ کرتا ہوں کہ میں اسے طلاق دے دوں۔ حضور ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا : ” اپنی بیوی اپنے پاس روکے کھو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو “۔ حضرت زید نے حضرت زینب کو طلاق دے دی تو یہ آیت نازل ہوئی : آیت واذتقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت علیہ۔ لوگوں نے اس آیت کی تاویل میں اختلاف کیا ہے، قتادہ، ابن زید اور مفسرین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے ان میں طبری وغیرہ بھی ہے (
4
) کہ حضرت زینب بنت حجش نبی کریم ﷺ کو اچھی لگیں جب کہ وہ حضرت زید کے عقد میں تھیں۔ حضور ﷺ اس کے حریص تھے کہ حضرت زید اسے طلاق دے دیں اور حضور ﷺ خود اس سے شادی کریں۔ پھر جب حضرت زید نے نبی کریم ﷺ کو اس امر کی خبر دی کہ وہ ان سے جدائی کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کی زبان کی سختی اور نافرمانی، زبانی اذیت اور شرف میں بڑائی کی شکایت کرتے ہیں تو حضور ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا : ” اللہ سے ڈر جو تو اس کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے اور اپنی بیوی اپنے پاس روک لے “۔ جب کہ آپ اس کے حریص تھے کہ حضرت زید اسے طلاق دے دیں۔ یہی وہ امر تھا جو آپ اپنے دل میں چھپائے ہوئے تھے، مگر جو امر بالمعروف واجب تھا اس کو لازم پکڑا۔ مقاتل نے کہا : نبی کریم ﷺ نے حضرت زینب بنت جحش کی شادی حضرت زید سے کردی۔ حضرت زینب ان کے پاس کچھ عرصہ تک رہیں پھر حضور ﷺ حضرت زید کی تلاش میں ان کے پاس آئے، تو آپ نے حضرت زینب کو کھڑے ہوئے دیکھا وہ سفید رنگ کی خوبصورت اور جسیم عورت تھی اور قریش کی کامل ترین عورت تھی، تو حضور ﷺ ان سے محبت کرنے لگے۔ اور کہا : سبحان اللہ مقلب القلوب (
1
) میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہوں اے دلوں کے پھیرنے والے ! حضرت زینب نے تسبیح کو سن لیا اور اس کا ذکر حضرت زید سے کیا۔ حضرت زید اسے سمجھ گئے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ! ﷺ مجھے حضرت زینب کو طلاق دینے کی اجازت دیجئے کیونکہ اس میں کبر اور مجھ پر بڑائی کا احساس ہے اور مجھے اپنی زبان سے اذیت دیتی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اپنی بیوی اپنے پاس رکھو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو “۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے ہوا بھیجی اس نے پردہ کا ہٹا دیا اور حضرت زینب اپنے گھر میں کام کاج والا لباس پہنے ہوئے تھیں۔ حضور ﷺ نے حضرت زینب کو دیکھا تو وہ حضور ﷺ کے دل میں ذیشان محسوس ہوئیں۔ اور حضرت زینب کے دل میں خیال گزرا کہ وہ نبی کریم ﷺ کو بھلی لگی ہیں یہ اس وقت ہوا تھا جب نبی کریم ﷺ حضرت زید کی تلاش میں آئے تھے حضرت زید آئے تو حضرت زینب نے انہیں بتایا تو حضرت زید کے دل میں خیال گزرا کہ وہ حضرت زینب کو طلاق دے دیں۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : آیت وتخفی فینفسک آپ اپنے دل میں ان کی محبت کو چھپاتے ہیں آیت وتخشی الناس آپ لوگوں سے حیا محسوس کرتے ہیں (
2
) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آپ ڈرتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے ناپسند کرتے ہیں اگر آپ اسے کہیں کہ اسے طلاق دے دے وہ کہیں گے : حضور ﷺ نے ایک آدمی کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا پھر جب اس نے طلاق دے دی تو اس سے نکاح کرلیا۔ آیت واللہ احق ان تخشہ اللہ تعالیٰ اس امر کا زیادہ حق دار ہے کہ آپ ہر حال میں اس سے ڈریں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس سے حیا کریں۔ آپ ﷺ زید کو حکم نہ دیں کہ وہ اپنی بیوی کو روکے رکھے بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا ہے کہ وہ عنقریب آپ کی بیوی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے اس تمام امر پر آپ کو عتاب کیا۔ حضرت علی بن حسین ؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی طرف وحی کی کہ حضرت زید، حضرت زینب کو طلاق دیں گے اور آپ اس سے شادی کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی شادی اس سے کر دے گا (
3
) ۔ جب حضرت زید نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حضرت زینب کے اخلاق کی شکایت کی اور یہ شکایت کی کہ وہ ان کی اطاعت نہیں کرتی، اور یہ بتایا کہ وہ انہیں طلاق دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے بطور ادب و وصیت اسے فرمایا : ” اپنی بات میں اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی اپنے پاس روکے رکھو “ جب کہ آپ جانتے تھے کہ حضرت زید، حضرت زینب سے جدائی اختیار کرلیں گے اور حضور ﷺ خود اس سے شادی کریں گے۔ یہی وہ بات تھی جو آپ نے اپنے دل میں چھپائی ہوئی تھی۔ حضور ﷺ نے یہ ارادہ کیا کہ اسے طلاق کا حکم دیں اس وجہ سے کہ آپ جانتے تھے کہ آپ عنقریب اس سے نکاح کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ ڈرے کہ آپ کو لوگوں کی یہ بات لاحق ہوگی کہ آپ نے حضرت زید کے بعد حضرت زینب سے شادی کی ہے جب کہ حضرت زید آپ کے غلام تھے۔ اور حضور ﷺ نے اسے طلاق کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی بات پر عتاب کیا کہ آپ لوگوں سے اس معاملہ میں ڈر رہے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے مباح کردیا ہے کہ آپ نے کہا اپنی بیوی کو اپنے پاس روکنے کے لیے جب کہ آپ کو علم تھا کہ حضرت زید، حضرت زینب کو طلاق دے دیں گے۔ اور یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے یعنی ہر حال میں ڈرا جائے۔ ہمارے علماء نے کہا : اس آیت کی تاویل میں جو کچھ کہا گیا ہے یہ ان سب سے احسن ہے۔ محقق مفسرین اور راسخ علماء کا یہی نقطہ نظر ہے جس طرح زہری، قاضی بکر بن علا، قشیری، قاضی ابوبکر بن عربی وغیرہم۔ آیت وتخشی الناس سے مراد یہ ہے کہ منافقین شور مچائیں گے کہ آپ نے اپنے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح کرنے سے منع کیا اور خود اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کرلی۔ جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت زید کی بیوی سے محبت کرنے لگے اور بعض محبت کرنے والوں نے اس کے لیے لفظ عشق استعمال کیا یہ ایسے آدمی سے اس قسم کا لفظ صادر ہو سکتا ہے جو عصمت نبی ﷺ سے عاری ہے یا آپ کی حرمت کی پامالی کرنے والا ہے۔ ترمذی حکیم نے ” نوادر الاصول “ میں کہا اور اپنے قول کی نسبت حضرت علی بن حسین ؓ کی طرف کی : حضرت علی بن حسین اسے خزانہ علم سے جواہرات میں سے ایک جواہر اور موتیوں میں سے ایک موتی لائے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر عتاب اس لیے کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتادیا تھا کہ یہ آپ ﷺ کی بیوی ہوگی تو پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت زید سے کیسے فرمایا : ” اپنی بیوی اپنے پاس روکے رکھو “ اور تجھے لوگوں کے خوف نے آلیا کہ وہ کہیں گے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ اس کے زیادہ لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔ نحاس نے کہا : بعض علماء نے کہا یہ نبی کریم ﷺ کی خطا نہیں کیا تو نہیں دیکھتا کہ اس امر پر آپ ﷺ کو نہ تو توبہ کا حکم دیا گیا اور نہ ہی استغفار کا حکم دیا گیا۔ بعض اوقات ایک امر خطا نہیں ہوتا مگر اس کا غیر اس سے احسن ہوتا ہے، آپ نے اسے دل میں اس لیے پوشیدہ رکھا کہ لوگ فتنہ میں مبتلا ہوجائیں گے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ ابن عربی نے کہا : اگر یہ سوال کیا جائے کہ کس وجہ سے نبی کریم ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا : ” اپنی بیوی اپنے پاس رکھو “ (
1
) ۔ جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو آگاہ کردیا تھا کہ حضرت زینب آپ ﷺ کی بیوی ہونے والی ہیں ؟ ہم کہیں گے : حضور ﷺ نے ارادہ کیا کہ اس امر کو جان لیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو آگاہ نہیں کیا تھا کیا حضرت زید اس میں رغبت رکھتے ہیں یا اس سے اعراض کرنے والے ہیں ؟ تو حضرت زید نے ان سے اپنی نفرت اور کراہت کو ظاہر کردیا جس کے بارے میں حضور ﷺ حضرت زید کے حضرت زینب کے بارے میں رویہ سے آگاہ نہ تھے۔ اگر یہ سوال کیا جائے : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ اسے اپنے پاس روکنے کا کہیں جب کہ آپ جانتے تھے کہ جدائی تو ضروری ہے ؟ یہ تو تناقض ہے۔ ہم کہیں گے : بلکہ یہ مقاصد صحیحہ کے لیے صحیح رویہ ہے تاکہ حجت قائم ہوجائے اور عاقبت کا پتہ چل جائے کیا تو نہیں دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ بندے کا ایمان کا حکم دیتا ہے جب کہ اسے علم ہوتا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائے گا۔ امر کا متعلق علم کے متعلق کے خلاف ہونا ایسی چیز نہیں جو امر کے مانع ہو نہ یہ عقلا ایسا ہے اور نہ یہ حکما ایسا ہے۔ یہ نفس علم ہے اس پر یقین رکھو اور اسے قبول کرو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت واتق اللہ اسے طلاق دینے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اسے طلاق نہ دو یہاں نہی تنزیہی کا ارادہ کیا ہے نہی تحریمی کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ اولی یہی ہے کہ وہ اسے طلاق نہ دے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ سے ڈر، اس کی مذمت اس بنا پر نہ کر کہ تو اس کی طرف کبر اور خاوند کو اذیت دینے کی نسبت کرے۔ آیت وتخفی فی نفسک ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد حضور ﷺ کا یہ جاننا ہے کہ حضرت زید اسے عنقریب طلاق دے دیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے آگاہ کردیا تھا کہ ایسا ہوگا۔ مسئلہ نمبر
3
۔ نبی کریم ﷺ سے یہ مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا : ” میں تجھ سے زیادہ اپنے لیے کسی کو قابل اعتماد نہیں سمجھتا جائو حضرت زینب کو میری طرف سے دعوت نکاح دو “ (
1
) ۔ حضرت زید نے کہا : میں گیا اور انہیں اپنی پشت کی جانب رکھا مقصود نبی کریم ﷺ کی توقیر و تعظیم تھی میں نے انہیں دعوت نکاح دی تو وہ اس سے خوش ہوگئیں اور کہا : میں کوئی کام کرنے والی نہیں یہاں تک کہ میں اپنے رب سے مشورہ کرلوں۔ تو وہ اپنی مسجد کی طرف اٹھیں اور قرآن کا حکم نازل ہوا تو نبی کریم ﷺ نے ان سے شادی کی اور انہیں اپنے حرم میں داخل کیا۔ میں کہتا ہوں : اس حدیث کا معنی صحیح میں ثابت ہے اور امام نسائی نے یہ باب باندھا ہے۔ صلاۃ المراۃ اذا خطبت واستخار تھا ربھا۔ ائمہ نے اسے روایت کیا الفاظ مسلم کے ہیں۔ حضرت انس سے مروی ہے : جب حضرت زینب کی عدت ختم ہوگئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید سے فرمایا : ” اسے میری جانب سے دعوت نکاح دو “ (
2
) ۔ کہا : حضرت زید گئے یہاں تک کہ ان تک پہنچے جب وہ آٹا گوند رہی تھیں۔ حضرت زید نے کہا : جب میں نے حضرت زینب کو دیکھا تو اس کی وجہ سے میرے اوپر ہیبت طاری ہوگئی یہاں تک کہ میں انہیں دیکھ بھی نہ سکا اور اس کی جرات بھی نہ ہوئی کہ میں کہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کا ذکر کیا ہے، میں نے انہیں اپنی پشت کی جانب کیا اور پنی ایڑیوں پر پلٹا میں نے کہا : اے زینب ! رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے آپ تیرا ذکر کر رہے تھے۔ حضرت زینب نے کہا : میں کوئی چیز کرنے والی نہیں یہاں تک کہ میں اپنے رب سے مشورہ کروں، وہ اپنی مسجد کی طرف اٹھیں قرآن نازل ہوا۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور بغیر اجازت اندر تشریف لائے۔ کہا : ہم نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں روٹی اور گوشت کھلایا جب دن طویل ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے : یہاں تک کہ صحابہ نے آپ کو چھوڑا۔ حضرت انس کی روایت میں ہے میں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ حضور ﷺ نے کی کسی عورت سے شادی پر ایسا ولیمہ کیا ہو جیسا ولیمہ حضرت زینب کے ساتھ شادی پر کیا۔ آپ نے ایک بکری ذبح کی۔ ہمارے علماء نے کہا : حضور ﷺ کا زید کو یہ فرمانا فاذکر ھاعلی سے مراد اسے دعوت نکاح دو ، جس طرح پہلی حدیث وضاحت کرتی ہے۔ یہ حضرت زید کا امتحان تھا تاکہ ان کا صبر، اطاعت اور رضامندی ظاہر ہو۔ اس سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ کائی آدمی اپنے ساتھی کو کہے : فلاں کو میری طرف سے دعوت نکاح دو یعنی جو اس دوست کی مطلقہ بیوی تھی۔ اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر
4
۔ جب حضرت زینب نے اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا اور اس کا سپرد کرنا صحیح ثابت ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے نکاح کے عمل کو اپنے ذمہ لے لیا، اسی وجہ سے فرمایا : فلما قضی زید منھا وطرا زوجنکھا۔ امام جعفر صادق بن محمد اپنے آباء سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے بارے میں آگاہ کیا تو بغیر اجازت کے آپ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔ نہ نیا نکاح کیا گیا اور نہ ہی مہر مقرر ہوا (
1
) ۔ اور ہمارے حقوق میں جو شرط ہے اور جو ہمارے لیے مشروع ہے اس میں سے کوئی بھی چیز نہ ہوئی۔ یہ حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے جن میں کوئی آپ کے ساتھ شریک نہیں، اس پر مسلمانوں کا اجتماع ہے، اسی وجہ سے حضرت زینب نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتی تھیں اور کہتی تھیں : تمہاری شادیاں تمہارے آباء نے کیں اور میری شادی اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ سے کی (
2
) ۔ امام نسائی نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت زینب نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات پر فخر کیا کرتی تھیں اور کہتیں : اللہ تعالیٰ نے میرا نکاح آسمان میں کیا۔ انہیں کے بارے میں حجاب کا حکم نازل ہوا (
3
) ۔ اس کی بحث آگے آئے گی۔ مسئلہ نمبر
5
۔ اس آیت میں منعم علیہ حضرت زید بن حارثہ ہیں جس طرح ہم نے بیان کیا ہے۔ اس کی خبر سورت کے آغاز میں گزرچکی ہے۔ روایت بیان کی گئی ہے کہ ان کا چچا ایک دن انہیں مکہ مکرمہ میں ملا، وہ مکہ مکرمہ میں اپنے ایک کام کے لیے آیا تھا۔ اس نے پوچھا : تیرا کیا نام ہے اے بچے ؟ آپ نے جواب دیا : زید۔ اس نے پوچھا : تو کس کا بیٹا ہے ؟ جواب دیا : حارثہ کا بیٹا ہوں۔ پوچھا : وہ کس کا بیٹا ہے ؟ آپ نے جواب دیا : شراحیل کلبی کا۔ اس نے پوچھا : تیری ماں کا کیا نام ہے ؟ آپ نے جواب دیا : سعدی۔ اور میں بنو طی کے ننہال سے ہوں۔ چچا نے زید کو اپنے سینے سے لگایا۔ اور چچا نے اپنے بھائی اور قوم کو پیغام بھیجا تو وہ حاضر ہوگئے۔ انہوں نے آپ سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان کے ساتھ رہے۔ انہوں نے پوچھا : تو کس کی زیر کفالت ہے ؟ حضرت زید نے جواب دیا : حضرت محمد بن عبداللہ کے ہاں۔ وہ لوگ حضور ﷺ کے پاس آئے اور گزارش کی : یہ ہمارا بیٹا ہے۔ اسے ہماری طرف لوٹا دیں۔ فرمایا : میں یہ معاملہ اس پر پیش کرتا ہوں اگر اس نے تمہیں اختیار کیا تو اس کا ہاتھ پکڑ لینا۔ حضور ﷺ نے حضرت زید کی طرف پیغام بھیجا۔ فرمایا : کیا تو انہیں پہچانتا ہے ؟ عرض کی : جی ہاں۔ یہ میرا باپ ہے، یہ میرا بھائی ہے اور یہ میرا چچا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے فرمایا :” میں تیرے لیے کیسا مالک ہوں ؟ “ تو حضرت زید رونے لگے اور عرض کی : آپ نے مجھ سے اس بارے میں کیوں پوچھا ہے ؟ فرمایا : ” میں تجھے اختیار دینا چاہتا ہوں اگر تو پسند کرے کہ ان کے ساتھ جائے تو ان کی طرف چلے جانا اگر تو ارادہ کرے کہ تو یہاں ہی رہے تو مجھے تو پہچانتا ہی ہے “۔ حضرت زید نے عرض کی : میں آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دیتا۔ ان کے چچا نے انہیں اپنی طرف کھینچا اور کہا : اے زید ! تو نے اپنے باپ اور چچا پر غلامی کو ترجیح دی ہے۔ حضرت زید نے کہا : اللہ کی قسم ! حضرت محمد مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثنا کے ہاں غلامی مجھے اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ میں تمہارے پاس ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”’ گواہ رہنا میں اس کا وارث ہوں اور یہ میرا وارث ہے “۔ تو پھر زید بن محمد کے نام سے وہ پکارے جاتے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : آیت ادعوھم لاباء ھم اور یہ آیت نازل ہوئی : آیت ماکان محمد ابا احدمن رجالکم مسئلہ نمبر
6
۔ امام ابو القاسم عبد الرحمن سہیلی نے کہا : ان کو زید بن محمد ہی پکارا جاتا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی : آیت ادعوھم لاباء ھم تو انہوں نے کہا : میں زید بن حارثہ ہوں۔ ان کا یہ کہنا حرام ہوگیا : انا زید بن محمد جب ان سے یہ شرف اور یہ فخر لے لیا گیا اور اللہ تعالیٰ کو ان کی وحشت و تنہائی کا علم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کا نام لیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : آیت فلما قضی زید منھاوطرا ضمیر سے مراد حضرت زینب ہے اللہ تعالیٰ جس کا نام قرآن حکیم میں رکھ دے تو اس کا نام بھی قرآن ہوگیا جس کا عبادت گاہوں میں تلاوت کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ انہیں انتہائی شہرت سے نوازا۔ اس میں آپ کے لیے انس تھا اور حضرت محمد ﷺ کی ابوت کے فخر کے مقابلہ میں اس عزت سے نوازا گیا۔ آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی رحمۃ اللہ علیہرحمۃ اللہ علیہ اللہ عنہ کا یہ قول سنا جب نبی کریم ﷺ نے انہیں کہا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ پر فلاں سورت پڑھوں “ (
1
) تو وہ رونے لگے عرض کی : کیا میرا وہاں ذکر ہوا ؟ ان کا یہ رونا خوشی کے طور پر تھا، جب انہیں یہ خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے تو اس کا کیا حال ہوگا جس کا اسم قرآن میں ہوگا جس کو ہمیشہ تلاوت کیا جائے گا جو کبھی ختم نہ ہوگا۔ جب اہل دنیا قرآن کو پڑھیں گا تو اسے بھی پڑھیں گے۔ اہل جنت کا بھی یہی حال ہے یہ مومنوں کی زبان پر ہمیشہ رہے گا، جس طرح رب العالمین کے ہاں اس کا خصوصی ذکر ہوتا رہے گا کیونکہ قرآنی کلام قدیم ہے وہ باقی رہنے والا ہے ختم نہ ہوگا۔ حضرت زید کا نام ان مکرم، مرفوع اور مطہر صحیفوں میں موجود ہے سفرہ کراما بررۃ، تلاوت کرتے وقت اس کا ذکر کرتے ہیں یہ شرف مومنوں کے ناموں میں سے کسی نام کو حاصل نہیں مگر انبیاء میں سے نبی کے اسم کو حاصل ہے۔ حضرت زید بن حارثہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ بدلہ عطا ہوا جو آپ سے حضرت محمد ﷺ کے اب ہونے کا شرف لیا تھا۔ آیت میں یہ زائد ہے کہ فرمایا : واذتقول للذی انعم اللہ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ اس پر انعام فرمایا۔ تو یہ اس امر پر دال ہے کہ وہ جنتی ہے۔ اس کا علم موت سے پہلے ہوگیا یہ ایک اور فضیلت ہے۔ مسئلہ نمبر
7
۔ وطرا، وطرمرد کی اس حاجت کو کہتے ہیں جس میں اسے کوئی پریشانی لاحق ہو۔ اس کی جمع اوطار ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جس حاجت کا ارادہ کیا یعنی جماع تو اس کو پورا کرچکے۔ اس میں اضمار ہے، یعنی جب حضرت زید نے حاجت پوری کی لی اور اسے طلاق دے دی تو ہم نے آپ کی اس سے شادی کردی۔ اہل بیت کی قراءت زوجتکھا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وطر سے مراد طلاق ہے ؛ یہ قتادہ کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر
8
۔ بعض علماء نے اس آیت سے اور حضرت شعیب (
1
) کے قول آیت انی ارید ان انکحک ( القصص :
27
) سے اس نقطہ نظر کی طرف گئے ہیں کہ نکاح میں اس معنی کی ترتیب اس طرح ہونی چاہیے انکحہ ایاھا خاوند کی ضمیر پہلے ہو جس طرح دونوں آیتوں میں ہے حضور ﷺ نے چادر والے سے یہ فرمایا تھا : اذھب فقد انکحتکھا بما معک من القرآن جا میں نے تیرا اس عورت سے نکاح کردیا ہے اس کے بدلے میں جو تیرے پاس قرآن ہے (
2
) ۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ کوئی لازم نہیں کیونکہ خاوند اس آیت میں مخاطب ہے تو اس کو مقدم رکھنا اچھا تھا (
3
) ۔ نکاح میں دونوں برابر ہیں پس جس کو چاہے مقدم کر دے۔ اب مردوں کے درجہ کے علاوہ ترجیح کی کوئی صورت باقی نہ رہی کیونکہ مرد ہی گھر کا نظام چلانے والے ہیں۔ مسئلہ نمبر
9
۔ آیت زوجنکھا اس امر پر دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کی حیثیت ثابت ہے۔ اس بارے میں ارحمۃ اللہ علیہختلاف پہلے گزر چکا ہے۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت زینب ؓ نے باہم فخر کیا۔ حضرت عائشہ نے کہا : میں وہ ہوں جسے فرشتہ سفید ریشم کے ایک ٹکڑا میں لایا اور اس نے کہا : یہ آپ کی زوجہ ہے۔ صحیح نے اسے نقل کیا ہے (
4
) ۔ حضرت زینب نے کہا : میں وہ ہوں جس کی شادی اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں سے اوپر ( رسول اللہ ﷺ سے) کی (
5
) ، امام شعبی نے کہا : حضرت زینب رسول اللہ ﷺ سے کہتیں : میں تین باتوں کی وجہ سے آپ پر نازو ادا کرسکتی ہوں۔ آپ کی ازواج میں سے کوئی ان کے ساتھ نازو ادا نہیں کرسکتیں۔ میرے جد اعلی اور آپ کے جد اعلی ایک ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ میرا نکاح آسمان میں کیا ہے۔ اور اس میں سفیر حضرت جبریل امین تھے (
6
) ۔ حضرت زینب سے مروی ہے : جب میں رسول اللہ ﷺ کے دل میں قدرو منزلت ولی ہوئی تو حضرت زید مجھ پر کوئی قدرت نہیں رکھتے وہ اس سے نہ رکے مگر اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مجھ سے روک دیا تو وہ مجھ پر قادر نہ ہوئے۔
Top