Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠   ۧ
مَا كَانَ : نہیں ہیں مُحَمَّدٌ : محمد اَبَآ : باپ اَحَدٍ : کسی کے مِّنْ رِّجَالِكُمْ : تمہارے مردوں میں سے وَلٰكِنْ : اور لیکن رَّسُوْلَ اللّٰهِ : اللہ کے رسول وَخَاتَمَ : اور مہر النَّبِيّٖنَ ۭ : نبیوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر شے کا عَلِيْمًا : جاننے والا
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے
اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ جب نبی کریم ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے شادی کرلی تو لوگوں نے کہا : آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے شادی کی ہے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی حضرت زید رسول اللہ ﷺ کے بیٹے نہیں یہاں تک کہ آپ ﷺ پر اس کی بیوی حرام ہوتی، بلکہ آپ اپنی امت کے باپ ہیں۔ یہ شان و عظمت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ حضور ﷺ کی بیویاں ان پر حرام ہیں منافقوں اور دوسرے لوگوں کے دلوں میں جو کچھ واقع ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ساتھ سب کو دور کردیا۔ یہ چیز ذہن نشین کرلو کہ حضرت محمد ﷺ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، جو آپ ﷺ کے معاصر تھے۔ اس آیت سے یہ مقصد نہیں کہ حضور ﷺ کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ آپ کے مذکر بچے ہوئے حضرت ابرہیم، حضرت قاسم، حضرت طیب اور حضرت طاہر، لیکن کوئی بیٹا زندہ نہ رہا یہاں تک کہ وہ مرد کہلاتا۔ جہاں تک حضرت حسن اور حضرت حسین کا تعلق ہے وہ آپ کے ہم عصر مرد نہیں تھے۔ مسئلہ نمبر 2۔ آیت ولکن رسول اللہ اخفش اور فراء نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے ولکن کان رسول اللہ دونوں نے رفع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ آیت ولکن رسول اللہ وخاتم النبین اسی طرح ابن ابی عبلہ اور بعض لوگوں نے ولکن رسول اللہ رفع کے ساتھ قراءت کی ہے معنی ہوگا ھو رسول اللہ وخاتم النبین ایک جماعت نے ولکن نون کی تشدید کے ساتھ قراءت کی ہے۔ رسول اللہ کو نصب اس بنا پر دی کے لکن کا اسم ہے اور خبر محذوف ہے۔ عاصم نے صرف وخاتم تاء کے فتحہ کے ساتھ قراءت کی ہے معنی ہوگا آپ کے ساتھ ان پر مہر لگائی گئی۔ پس آپ خاتم اور طابع کی طرح ہوئے۔ جمہور نے تاء کے کسرہ کے ساتھ قراءت کی ہے۔ معنی ہے آپ نے ان کو ختم کردیا ہے یعنی آپ ان کے آخر میں آئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : خاتم اور خاتم دو لغتیں ہیں جس طرح طابع اور طابع۔ دانق اور دانق، طابق اور طابق۔ آخری الفاظ گوشت کی کڑاہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 3۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ الفاظ علماء امت کی جماعت کے ہاں، وہ اسلاف میں سے ہوں یا بعد کے عموم تام کے لیے ہیں اور اس بیان کا تقاضہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں (1) ۔ قاضی ابو الطیب نے اپنی کتاب جو ” ہدایہ “ کے نام کے ساتھ موسوم ہے میں جو یہ ذکر کیا ہے اس آیت کے الفاظ میں احتمال کو جائز قرار دیا ہے، ضعیف ہے۔ اور اس آیت کی تفسیر میں امام غزالی نے جو ذکر کیا ہے یہ مفہوم ان کی اس کتاب میں ہے جسے انہیں نے ” الاقتصاد “ کا نام دیا ہے میرے نزدیک الحاد ہے۔ اور ختم نبوت کے بارے میں مسلمانوں کا جو عقیدہ ہے اس میں تشویش کرنے کی خبیث کوشش ہے۔ اس سے بچو، اس سے بچو۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے ساتھ ہدایت دینے والا ہے۔ میں کہتا ہوں : نبی کریم ﷺ سے مروی ہے فرمایا :” میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز نہیں مگر جو اللہ تعالیٰ چاہے “ (2) ابو عمرو نے کہا : جس کی استثنا کی وہ خواب ہیں ؛ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ سچے خواب نبوت کا جز ہیں۔ جس طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میرے بعد نبوت میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی صرف سچے خواب “۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے قراءت کی : من رجالکم ولکن نبیا ختم النبین (3) رمانی نے کہا : نبی کریم ﷺ کے ساتھ اصلاح احوال کو ختم کردیا۔ جو آدمی آپ کے ذریعے اپنی اصلاح نہیں کرتا تو اس کی اصلاح سے قطعی مایوسی ہے۔ میں کہتا ہوں : اس معنی میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے : بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (4) مجھے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے : ” میرے اور انبیاء کی مثال ایسے آدمی جیسی ہے جس نے گھر بنایا اسے مکمل کیا مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگ اس گھر میں داخل ہوئے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے اور کہتے اس اینٹ کی جگہ کو کیوں نہیں مکمل کیا “ (5) ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں اس اینٹ کی جگہ ہوں میں آیا اور انبیاء کے سلسلہ کو ختم کردیا “۔ اسی کی مثل حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے مگر یہ کہا :” میں وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبین ہوں “۔
Top