Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا کہ وہ اس کا ذکر کریں اور اس کا شکر بجا لائیں اور ذکر کثرت سے کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر انعام کیا اللہ تعالیٰ نے بندے کی سہولت کی خاطر اسے بغیر کسی حد کے بنایا ہے۔ اور اس لیے بھی کیونکہ اس میں اجر عظیم ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہمانے کہا : اللہ کا ذکر ترک کرنے میں کوئی معذور نہیں مگر جس کا عقل مغلوب ہو (1) ۔ حضرت ابو سعید نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے : ” اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیا کرو یہاں تک کہ لوگ کہیں کہ یہ مجنوں ہے “ (2) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ذکر کثیر وہ ہے جو دل کے ارحمۃ اللہ علیہخلاص کے ساتھ ہو۔ اور قلیل ذکر وہ ہے جو نفاق کی صورت میں ہو جس طرح صرف زبان سے ذکر۔ یعنی اپنے احوال کے اکثر حصہ میں اپنی زبانوں کو تسبیح ( سبحان اللہ) تہلیل ( لا الہ الا اللہ) تحمید ( الحمد للہ) اور تکبیر ( اللہ اکبر) کے ساتھ مشغول رکھا کرو۔ مجاہد نے کہا : یہ وہ کلمات ہیں جنہیں پاکیزہ، جس کا وضو نہ وہ اور جنبی بھی کہہ سکتا ہے (3) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا معنی ہے اس کی بارگاہ میں دعا کیا کرو۔ جریر نے کہا : فلاتنس تسبیح الضحیانیوسفادعاربہ فاختارہحینسبحا (4) چاشت کی دعا نہ بھولو کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت چن لیا جب انہوں نے دعا کی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے صبح شام اللہ کی نماز پڑھا کرو۔ نماز کو تسبیح کہتے ہیں۔ فجر، مغرب اور عشاء کا خصوصا ذکر کیا کیونکہ یہ برانگیختہ کیے جانے کے زیادہ لائق ہیں کیونکہ یہ رات کی اطراف کے ساتھ متصل ہیں۔ قتادہ اور طبری نے کہا : اشارہ صبح اور عصر کی نماز کی طرف ہے (5) ۔ الاصل سے مراد پچھلا پہر ہے اس کی جمع اصائل اور الاصل یہ اصیل کے معنی میں ہے اس کی جمع آصال آتی ہے ؛ یہ مبرد کا قول ہے۔ دوسرے علماء نے کہا : اصل یہ اصیل کی جمع ہے جس طرح رغیف کی جمع رغف آتی ہے۔ یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ : یہ آیت مدنی ہے۔ جس نے یہ گمان کیا کہ نماز اصل میں پہلے دو نمازوں کے طور پر فرض کی گئی یہ دن کی دونوں اطراف میں تھی۔ اس کے ساتھ اس آیت کا تعلق نہیں اس کے بارے میں روایت ضعیف ہے اس کی طرف توجہ نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ نماز کے فرض ہونے کی کیفیت کے بارے میں گفتگو اور علماء کا اس بارے میں جو نقطہ نظر ہے وہ سورة اسراء میں گزر چکا ہے۔ الحمد للہ۔
Top