Al-Qurtubi - Az-Zumar : 53
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ
قُلْ : فرمادیں يٰعِبَادِيَ : اے میرے بندو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے اَسْرَفُوْا : زیادتی کی عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانیں لَا تَقْنَطُوْا : مایوس نہ ہو تم مِنْ : سے رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کی رحمت اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَغْفِرُ : بخش دیتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ (جمع) جَمِيْعًا ۭ : سب اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ : وہی الْغَفُوْرُ : بخشنے والا الرَّحِيْمُ : مہربان
(اے پیغمبر ﷺ میری طرف سے لوگوں سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہونا خدا تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے (اور) وہ تو بخشنے والا مہربان ہے
53 ۔ 59:۔ قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا یقنطو امن (رح) اگر تو چاہے تو یاء کو حذف کر دے کیونکہ ندا بھی حذف کا موقع ہے۔ نحا نے کہا : اس میں نمایاں ترین وہ روایت ہے جسے محمد بن اسحاق نے نافع سے وہ حضرت ابن عمر ؓ اور وہ حضرت عمر ؓ سے نقل کرتے ہیں (1) جب ہم نے ہجرت کا ارادہ کرلیا تو میں ‘ ہشام بن عاص بن وائل سہمی اور عیاش بن ابی ربعہ بن عتبہ نے عہد و پیمان کیا کہا : ہمارے اکٹھے ہونے کی جگہ بنو غفار کا کنواں ہے ہم نے کہا : جو ہم سے پیچھے رہ گیا تو وہ محبوس سمجھا جائے گا پس اس کا ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہیں اور عیاش عتبہ پہنچ گئے اور ہشام کو ہم سے روک لیا گیا اسے آزمائش میں ڈالا گی اپس وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا ہم مدینہ میں کہا کرتے تھے : یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو پہچانا ‘ اللہ کے رسول پر ایمان لائے پھر انہیں آزمائش میں ڈالا گیا جو انہیں لاحق ہوگئی ہم ان کے لئے کوئی توبہ نہیں دیکھتے وہ اپنے دلوں میں بھی یہی تصور کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ نازل فرمایا : حضرت عمر ؓ نے کہا : میں نے اپنے ہاتھ سے اس ایت کو لکھا پھر اسے ہشام کی طرف بھیج دیا ‘ ہشام نے کہا : جب خط میرے پاس پہنچا تو میں اسے لے کر ذی طوی کی طرف نکلا میں نے کہا : اے اللہ ! مجھے اس کی سمجھ عطا فرما دے تو میں پہچان گیا کہ یہ آیت میرے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے میں لوٹا اپنے اونٹ پر بیٹھا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے : مشرکوں میں سے کچھ لوگوں نے قتل کیے تو بہت زیادہ قتل کیے انہوں نے بدکاری کی تو بہت زیادہ بدکاری کی (1) انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی یا انہوں نے نبی کری ﷺ کی طرف پاغام بھیجا جس چیز کی طرف آپ دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی ہے کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ ہمارے لئے توبہ ہے : تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا : قل لعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم۔ امام بخاری نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے وہ سورة فرقان میں گزر چکی ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ وہ اہل مکہ کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے کہا : حضرت محمد ﷺ گمان کرتا ہے کہ جس نے بتوں کی پوجا کی اور جس نے ایسے نفس کو قتل کیا جس کا قتل کرنا حرام تھا اسے نہیں بخشا جائے گا تو ہم کیسے ہجرت کریں اور اسلام قبول کریں جب کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور معبودوں کی عبادت کی اور ہم نے ایسے نفوس کو قتل کیا جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت مسلمانوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے عبادت کے معاملہ میں اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا اور انہیں خوف تھا کہ ان کی توبہ ان گناہوں کی وجہ سے قبول نہ ہوگی جو دور جاہلیت میں ان سے ہوئے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور عطا نے کہا : یہ آیت وحشی کے حق میں نازل ہوئی جس نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا اس نے یہ گمان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کا اسلام قبول نہیں کرے گا۔ ابن جریج نے عطا سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کرتے ہوئے کہ وحشی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا عرض کی : اے محمد ﷺ میں آپ سے پناہ مانگنے کے لئے آیا ہوں مجھے پناہ دیجئے تاکہ میں اللہ کا کلام سنوں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں یہ پسند کرت اتھا کہ میں تجھے پناہ کے بغیر دیکھوں مگر جب تو پناہ چاہتے ہوئے آگیا ہے تو تو میری پناہ میں ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنے “۔ اس نے کہا : میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا ‘ میں نے اس نفس کو قتل کیا جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا تھا اور میں نے بدکاری کی کیا اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول فرمائے گا تو رسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے یہاں تک کہ یہ آیت نازل فرمائی : والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر ولا یقتلون النفس التی حزم اللہ الا بالحق ولا یزنون) الفرقان (68: رسول اللہ ﷺ نے اس پر یہ آیت تلاوت کی اس نے عرض کی : میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں ممکن ہے میں کوئی نیک عمل نہ کرسکوں میں آپ کی پناہ میں ذ رہنا چاہتا ہوں تاکہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام سنوں تو یہ آیت نازل ہوئی : ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ و یغفر مادون ذلک لمن یشاء) النساء (48: رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور اس پر آیت کی تلاوت کی اس نے عر کی : ممکن ہے میں ان لوگوں میں سے ہوں جن کے بارے میں وہ نہ چاہے میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں یہاں تک کہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام سنوں تو یہ آیت نازل ہوئی : قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ) الزمر (53: اس نے عرض کی : اب میں کوئی شرط نہیں دیکھتا تو وہ مسلمان ہوگیا۔ حماد بن سلمہ نے ثابت سے وہ وہشہر بن حوشب سے وہ حضرت اسماء ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا : قل یعبادی الذین اسرفو علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ ان اللہ یغفرالدنوب جمعیا اسے کوئی پرواہ نہیں کیونکہ وہ غفور و رحیم ہے (1) ۔ حضرت ابن مسعود کے مصحف میں ہے ان اللہ یغفر الذنوب جمیعا لمن یشاء۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : یہ دونوں قرائتیں تفسیر ہیں یعنی اللہ تعالیٰ جس کے حق میں چاہتا ہے اسے بخش دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کی پہچان کرا دی ہے جن کو وہ بخشنا چاہتا ہے وہ توبہ کرنے والا ہے یا جس نے گناہ صغیرہ تو کیا اور اس کا گناہ کبیرہ نہ تھا اور اس پر راہنمائی کی کہ وہ ما بعد کلام سے تائب ہونے کا ارادہ کرتا ہے و انیبوا الی ربکم تائب کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اس پر یہ آیت دلالت کرتی ہے و انی الغفار لمن تاب) ظہ (82: یہ ایسا امر ہے جس پر کوئی اشکال نہیں۔ حضرت علی بن طالب ؓ نے فرمایا : اس آیت سے بڑھ کر کوئی وسعت والی آیت نہیں قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطو من رحمۃ اللہ یہ بحث سورت سبحان) الاسرائ ( میں گزر چکی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا : قرآن حکیم میں سب سے امید والی آیت یہ ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا رد کیا ہے کہ اور کہا : قرآن حکیم میں سب سے امید والی ایت و ان ربک لذو مغفرۃ للناس علی ظلمھم) الرعد (6: ہے سورة الرعد میں یہ بات گزر چکی ہے اسے ولا تقنطوا یعنی نون کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے ‘ سورة ہجر میں اس کی وضاحت گزر چکی ہے۔ و انیبوا الی ربکم یعنی اطاعت کے ساتھ اس کی طرف لوٹ آئو جب اس امر کی وضاحت کی کہ جس نے شرک سے توبہ کی اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے اب تو بہ اور اس کی بارگاہ کی طرف لوٹنے کا حکم دیا۔ انابہ کا معنی ہے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنا ہے۔ و اسلموا لہ اس کے سمانے خضوع کا اظہار کرو اور اس کی اطاعت کرو۔ من قبل ان یاتیکم العذاب قبل اس کے کہ دنیا میں عذاب آجائے ثم لا تنصرون۔ پھر تمہیں اس کے عذاب سے محفوظ نہیں رکھا جائے گا۔ حضرت جابر ؓ سے حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : من السعادۃ ان یطیل اللہ عمر المزفی الطاعۃ و یرزقہ الانابۃ و ان من الشقادۃ ان یعمل المر ئو یعجب بعملہ (1) یہ سعادت میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں انسان کی عمر کو لمبا کرے اور اسے انابت) اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ( کی توفیق دے اور شقاوت میں سے یہ بھی ہے کہ انسان عمل کرے اور اپنے عمل پر عجب کا اظہار کرے۔ واتبعوا احسن ما انزل الیکم من ربکم میں قبل ان یاتیکم العذاب بغتۃ و انتم لا تشعرون۔ احسن ما انزل سے مراد قرآن حکیم ہے۔ اور یہ سب کا سب حسن ہے حضرت حسن بصری نے جو کہا اس کا معنی ہے اس کی اطاعت کو لازم پکڑو اور اس کی معصیت اور اجتناب کرو (2) ۔ سعدی نے کہا : احسن سے مراد وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حکم دی ا ہے۔ ابن زید نے کہا : اس سے مراد محکمات ہیں اور متشابہ کا علم اس کے عالم کے سپرد کردو کہا : اللہ تعالیٰ نے کئی کتابیں نازل کیں تو رات ‘ اجنیل ‘ زبور اور قرآن حکیم کو نازل کیا اور اس کی اتباع کا حکم دیا ‘ یہی احسن ہے اور وہ معجزہ ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے۔ یہ احسن ہے کیونکہ یہ تمام کتابوں کے لئے ناسخ اور ان پر غالب ہے تمام کتابیں منسوخ ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد عفو ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم کو عفو اور قصاص میں اختیار دیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم کو جس کا علم دی اجب کہ وہ قرآن نہیں ہے پس وہ حسن ہے اور جو قرآن آپ کی طرف وحی کیا گیا ہے وہ احسن ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سابقہ امتوں کی جو خبریں نازل کی ہیں وہ احسن ہیں۔ انتقول نفس یحسرتی ‘ ان محل نصب میں ہے تقدیر کلام یہ ہے کہ کر امۃ ان تقول کر فیوں کے نزدیک یہ تقدیر ہے لٔلا تقول بصریوں کے نزدیک حزر ان تقول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تقدیر کلام یہ ہے ان تقول نفس کیونکہ اس سے نفوس میں سے بعض نفوس ہیں وہ اکفر کا نفس ہے۔ یہ جائز ہے اس سے مراد وہ نفس ہو جو انفس میں ممتاز ہے یا اس وجہ سے کہ وہ کفر میں شدید جھگڑا کرتا ہے یا اسے عظیم عقاب دیا جائے گا۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس سے مراد کثرت ہو جسطرح اعشی نے کہا : و رب یقیع لوھتفت بجوہ اتانی کریم ینفض الراس مغضا (3) یہاں کریم سے مراد معززین کے جماعتیں ہیں یہاں ایک کریم مراد نہیں جس طرح یہ ہے رب بلدقطعت ‘ رب بطل قارعت ان دو مثالوں میں بھی کثرت کا ہی ارادہ ہے یا حسرت اصل میں یا حسرتی تھا یاء کو الف سے بدل دیا گیا کیونکہ یہ حرف خفیف ہے اور آواز کو لمبا کرنے کے ساتھ استغاثہ میں زیادہ موثر ہے بعض اوقات اس کے آخر میں ھاء لا حق کر دیت یہیں فراء نے شعر پڑھا ہے : یا مرحباہ بحمار ناجیہ ازا اتی قربتہ للسانیہ محل استدلال مرحباہ ہے۔ بعض اوقات وہ الف کے بعد یاء کو لاحق کردیتے ہیں تاکہ وہ اضافت پر دلات کرے۔ ابو جعفر نے بھی اسے اسی طرح پڑھا ہے یا حسرتای حسرت سے مراد شرمندگی ہے۔ علی مافرطت فی جسب اللہ حضرت حسن بصری نے کہا : فی جنب اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے (1) ۔ ضحاک نے کہا : اللہ عزوجل کے ذکر میں کہا یعنی قرآن اور اس پر عمل کرنا۔ ابو عبیدہ نے کہا : فی جنب اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے ثواب میں۔ فراء نے کہا : جنب سے مراد قرب اور پڑوس ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے : فلان یعیش فی جنب فلان یعنی فلاں ‘ فلاں کے پڑوس یا پناہ میں رہتا ہے اسی سے الصاحب الجنب ہے یعنی میں نے اس کے جوار اور قرب کی طلب میں یعنی جنت کی طلب میں کوتاہی کی ہے۔ زجاج نے کہا : یعنی میں نے اس راستہ میں کوتاہی کی جو اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے مجھے دعوت دی۔ عرب کسی شے کی طرف جانے والے راستہکو جنب کہتے ہیں ‘ تو کہتا ہے : تجرعت فی جنبک غصا یہاں فی جنب کا معنی تیرے لئے تیرے سبب سے اور تیری رضا کی خاطر۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فی جنب اللہ سے مراد ہے اس جانب میں جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور ثواب کی طرف لے جاتی ہے عرب جانب کو جنب کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا : الناس جنب والامیر جنب یعنی لوگ ایک جانب میں ہیں اور امیر دوسری جانب میں ہے۔ ابن عرفہ نے کہا : میں نے اللہ تعالیٰ کا امر ترک کردیا یہ جملہ کہا جاتا ہے مافعلت ذلک فی جنب حاجتی۔ یعنی میں نے یہ کام اپنی ضرورت کی وجہ سے نہیں کیا ‘ کثیر نے کہا : الا ستقین اللہ فی جنب عاشق (2) کیا تو عاشق کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتی۔ مجاہد نے بھی اسی طرح کہا یعنی میں نے اللہ تعالیٰ کا امر ضائع کردیا (3) نبی کریم ﷺ سے مروی ہے : ” کوئی آدمی کسی مجلس میں نہیں بیٹھا ‘ نہ چلنے والی جگہ چلا اور نہ کسی بستر پر لیٹا جس میں وہ اللہ تعالیٰ کو یاد نہیں کرتا مگر قیامت کے روز وہ اس پر حسرت میں نہیں بیٹھا ‘ نہ چلنے والی جگہ چلا اور نہ کسی بستر پر لیٹا جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی یاد نہیں کرتا مگر قیامت کے روز وہ اس پر حسرت میں ہوگا “۔ ابو دائود نے اسی معنی کی رویت نقل کی ہے ابراہیم تیمی نے کہا : قیامت کے روز حسرتوں میں سے ایک یہ ہوگی کہ انسان اپنے اس مال کی جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا تھا قیامت کے روز غیر کے میزان میں دیکھے گا جس کا دوسرے فرد وارث بنا تھا اور اس میں حق کے مطابق عمل کیا تو عمل کرنے والے کے لئے اجر ہوگا اور دوسرے پر بوجھ ہوگا۔ اور حسرتوں میں سے ایک سے حسرت یہ بھی ہوگی کہ ایک بندہ اپنے علام کو دیکھے گا جو اللہ تعلای نے اسے دنیا میں عطا کیا تھا وہ مقام و مرتبہ میں مالک سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا یا ایک آدمی کو دیکھ گا جسے وہ دنیا میں نابینا پہچانتا تھا اب قیامت کے روز وہ بینا ہے اور وہ خود نابینا ہے۔ و ان کنت لمن السخرین۔ یعنی تو نہیں ہے مگر دنیا میں قرآن ‘ رسول اور اللہ کے اولیاء سے استہزاء کرنے والوں میں سے (1) ۔ قتادہ نے کہا : یعنی اس کے لئے یہ ات کافی نہیں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ضائع کیا یہاں تک کہ اس نے اطاعت گزاروں کا مذاق اڑانا شروع کردیا ان کنت حال ہو نیکی حیثیت سے منسوب ہے گویا کہا : میں نے کوتاہی کی جب کہ میں مذاق کرنے والا تھا یعنی میں نے مذاق اڑانے کی حالت میں کوتاہی کی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ میں نہیں تھا مگر مذاق ‘ کھیل اور باطل میں یعنی میری سب کاوش غیر اللہ کی عبادت میں تھیں۔ او تقول لو ان اللہ ہدینی لکنت من المتقین۔ یا یہ نفس کہے گا : کاش ! اللہ تعامی میری راہنمائی اپنے دین کی طرف کرتا تو میں شرک اور معاصی سے بچنے والوں میں سے ہوت ایہ قول ” اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت دیتا تو میں ہدایت یافتہ ہوجاتا “ سچا قول ہے یہ مشرکینکے اس استدلال کے قریب ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں ہے : سیقول الذین اشرکوا لو شاء اللہ ما اشرکنا) الانعام (148: یہ کلمہ حق ہے جس کے ساتھ باطل کا ارادہ کیا گیا جس طرح حضرت علی شیر خدا ؓ نے فرمایا جب ایک خارجی نے کہا : لا حکم الا اللہ۔ او تقول حین تری العذاب لو ان لی کرۃ فاکون من المحسنین۔ یعنی جب وہی نفس عذاب دیکھے گا تو وہ کہے گا : کاش ! میرے لئے دوبارہ لوٹنا ہوتا فاکون تمنی کے جواب کے طور پر منصوب ہے اگر تو چاہے تو یہ کرۃ پر معطوف ہو کیونکہ اس کا معنی ہے ان اکر جس طرح شاعر نے کہا : للبس عباء ۃ و تقر عینی احب الی من لبس الشفوف فراء نے یہ شعر پڑھا : فما لک منھا غیر زکر و خشیۃ و تسال عن رکبانھا بن یسمو (2) یہاں و تسال کو نصب الذکری کے محل کی وجہ سے ہے کیونکہ کلام کا معنی ہے فمالک منھا الا ان تذکر یہی صورت حال للبس عباء ۃ و تقر میں ہے کیونکہ اس کا معنی ہے لان البس عباء ۃ و تقر ابو صالح نے کہا : بنی اسرائیل کے ایک عالم میں رقعہ پایا کہ ایک آدمی طویل عرصہ تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے وہ اپنے حق میں اپنے عمل کا اختتام جہنمی کے عمل سے کرتا ہے تو وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے ایک آدمی طویل عرصہ تک اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں عمل پیرا رہتا ہے پھر وہ اپنے حق میں اپنے عمل کا اختتام جنتی کے عمل سے کرتا ہے تو وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے اس نے کہا : میں کس وجہ سے اپنے آپ کو تھکائوں اس نے عمل ترک کردیا اور فسق و معصیت میں شروع ہوگیا ابلیس نے اسے کہا : تیری عمر طویل ہے تو دنیا سے اندوز ہولے پھر توبہ کرلینا وہ فسق میں شروع ہوگیا اور اپنا مال فجور میں خرچ کرنے لگا موت کا فرشتہ اس کے پاس اس حالت میں آیا جب وہ لذیز ترین عمل میں مصروف تھا تو اس نے کہا : ہائے افسوس ! جو میں نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کوتاہی کی میری عمر شیطان کی اطاعت میں گزر گئی اس نے اس وقت شرمندگی کا اظہار کیا جس وقت سرمندگی اسے نفع دینے والی نہ تھی ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر قرآن میں نازل کی۔ قتادہ نے کہا : اس کی کئی صنفیں ہیں ان میں سے ایک صنف نے کہا : یحسرتی علی مافرطت فی جنب اللہ ایک صنف نے کہا : لو انا اللہ ہدینی لکنت من المتقین۔ ایک صنف نے کہا : لو ان لی کرۃ فاکون من المحسنین۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کلام کا رد کرتے ہوئے کہا : بلی قد جاء تک ایتی۔ زجاج نے کہا : بلی ‘ نفی کا جواب ہے کلام میں نفی نہیں لیکن لو ان اللہ ہداینی کا معنی ہے ما ھد انی اس نے مجھے ہدایت نہیں دی گویا اس قائل نے کہا : میری راہنمائی نہیں کی گئی تو کہا گیا : کیونکہ نہیں تیرے لئے ہدایت کا راستہ واضح کیا گیا اگر تو ارادہ کرتا کہ تو ایمان لائے تو تیرے لئے ایمان لانا ممکن تھا ایتی سے مراد قرآن ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : آیات سے مراد معجزات ہیں یعنی دلیل واضح ہوگئی اور تو نے اسکا انکار کردیا اور اس کو جھٹلا دیا۔ واستکبرت و کنت من الکفرین۔ تو نے ایمان لانے سے تکبر کیا کہا : و استکبرت و کنت یہ مذکر کو خطاب ہے کیونکہ نفس کا لفظ مذکر اور مونث پر واقع ہوتا ہے یہ کہا جاتا ہے : ثلاثۃ انفس مبرد نے کہا : عرب کہتے ہیں نفس واحد یعنی ایک انسان۔ ربیع بن انس نے حضرت ام سلمہ ؓ سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے یوں قراءت کی قد جاء تک ایتی فکذبت بھا واستکبرت و کنت من الکفرین۔ اعمش نے اسے یوں پڑھا بلی قد جاء تک ایتی یہ مذکر پر دال ہے (1) ۔ ربیع بن انس حضرت ام سلمہ ؓ سے نہیں ملے مگر قراءت جائز ہے کیونکہ نفنس کا لفظ مذکر اور مونث دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اس قراءت کا بعض لوگوں نے انکار کیا ہے اور کہا : پھر اس صورت میں تاء کو کسرہ دیتے ہوئے یہ پڑھنا واجب ہوگا و کنت من الکوافرا و من الکافرات۔ نحاس نے کہا : یہ لازم نہیں کیا تو نہیں دیکھتا کہ اس سے پہلے ان تقول نفس ہے پھر فرمایا : و انت کنت لمن السخرین من السواخر اور من الساخرات نہیں فرمایا تاء کے کسرہ کی صورت میں تقدیر کلام یہ ہوگی واستکبرت و کنت من الجمع الساخرین او من الناس الساخرین او من القوم الساخرین۔
Top