Al-Qurtubi - An-Nisaa : 54
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَقَدْ اٰتَیْنَاۤ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ اٰتَیْنٰهُمْ مُّلْكًا عَظِیْمًا
اَمْ : یا يَحْسُدُوْنَ : وہ حسد کرتے ہیں النَّاسَ : لوگ عَلٰي : پر مَآ اٰتٰىھُمُ : جو انہیں دیا اللّٰهُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَقَدْ اٰتَيْنَآ : سو ہم نے دیا اٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : آل ابراہیم الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاٰتَيْنٰھُمْ : اور انہیں دیا مُّلْكًا : ملک عَظِيْمًا : بڑا
یا جو خدا نے لوگوں کو اپنے فضل سے دے رکھا ہے اس کا حسد کرتے ہیں تو ہم نے خاندان ابراہیم کو کتاب اور دانائی عنایت فرمائی تھی اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی
آیت نمبر : 54، تا 55) اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ام یحسدون “ اس سے مراد یہود ہیں، ” الناس “ سے مراد خاص نبی مکرم ﷺ ہیں حضرت ابن عباس ؓ اور مجاہد ؓ وغیرہما سے روایت ہے (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 68 دارالکتب العلمیہ) یہود نے نبی مکرم ﷺ سے نبوت ملنے پر حسد کیا تھا آپ کے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر حسد کیا تھا ان کے ایمان لانے پر، قتادہ ؓ نے کہا : ” الناس “ سے مراد عرب ہیں (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 68 دارالکتب العلمیہ) یہود نے نبوت کی وجہ سے ان سے حسد کیا، ضحاک ؓ نے کہا : یہود نے قریش سے حسد کیا، کیونکہ ان میں نبوت تھی، حسد مذموم ہے اور حسد کرنے والا مغموم ہے حسد نیکیوں کو اس طرح کھاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھاتی ہے، حضرت انس ؓ نے نبی مکرم ﷺ سے یہ روایت کیا ہے حسن نے کہا : میں نے حاسد سے زیادہ کوئی ظالم نہیں دیکھا جو مظلوم کے زیادہ مشابہ ہو جس کا نفس ہمیشہ قلق میں رہتا ہے، غم لاحق رہتا ہے اور اس کے آنسو ختم ہی نہیں ہوتے، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا : اللہ کی نعمتوں پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں عطا فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی بعض کتب میں فرماتا ہے : حسد کرنے والا میری نعمتوں کا دشمن ہے، میری قضا سے ناراض ہے اور میری تقسیم پر خوش نہیں ہے، منصور الفقیہ نے کہا : الاقل لمن ضل لی حاسدا اتدری علی من اساءت الادب : اسات علی اللہ فی حکمہ اذا انت لم ترض لی ما وھب : ” خبردار میرے حاسد کو کہو : کیا تو جانتا ہے تو نے کس کی بےادبی کی ؟ تو نے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے سلسلہ میں اس کی بےادبی کی جب تو مجھ سے خوش نہیں جو اس نے مجھے عطا فرمایا “۔ کہا جاتا ہے : حسد پہلا گناہ ہے جس کے ساتھ آسمان میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی اور پہلا گناہ ہے جس کے ساتھ زمین میں نافرمانی کی گی، آسمان میں ابلیس نے حضرت آدم (علیہ السلام) سے حسد کیا اور زمین میں قابیل نے ہابیل سے حسد کیا، ابو العتاہیہ نے لوگوں کے بارے میں کہا : فیارب ان الناس لا ینصفوننی فکیف ولو انصفتھم ظلمونی : وان کان لی شیء تصدوا لاخذہ وان شئت ابغی شیئھم منعونی : وان نالھم بذلی فلا شکر عندھم وان انا لم ابذل لھم شتمونی : وان طرقتنی نکبۃ فکھوا بھا وان صحبتی نعمۃ حسدونی : سامنع قلبی ان یحن الیھمو واحجب عنھم ناظری وجفونی : (1) (دیوان ابی البتاہیۃ، صفحہ 308) بعض علماء نے فرمایا : جب تجھے پسند ہو تو حاسد سے سلامت رہے تو اس پر اپنا معاملہ ظاہر نہ کر۔ قریش سے ایک شخص نے کہا : حسدوا النعمۃ لما ظھرت فرموھا یاباطیل الکلم : واذا ما اللہ اسدی نعمہ لم یضرھا قول اعداء النعم : اور کتنا خوب کہا ہے : اصبر علی حسد الحسود فان صبرک قاتلہ : فالنار تاکل بعضھا انلم تجد ماتاکلہ : بعض اہل تفسیر نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد (آیت) ” ربنا ارنا الذین اضلنا من الجن والانس نجعلھما تحت اقدامنا لیکونا من الاسفلین “۔ (حم السجدہ) کے تحت فرمایا : کہ الذین سے مراد جنوں میں سے ابلیس ہے اور انسانوں میں سے قابیل ہے، کیونکہ ابلیس پہلا فرد ہے جس نے کفر کا طریقہ جاری کیا اور قابیل پہلا شخص ہے جس نے قتل کا طریقہ جاری کیا۔ اس کی اصل حسد ہے، شاعر نے کہا : مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” فقد اتینا “ پھر اللہ تعالیٰ نے نے بتایا کہ اس نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا فرمائی اور انہیں ملک عظیم بخشا، ہمام بن حارث نے کہا : ان کی فرشتوں کے ذریعے تائید کی گئی (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 68 دارالکتب العلمیہ) بعض نے فرمایا : یہاں ملک سے مراد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی بادشاہی ہے (3) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 169) حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس کا معنی ہے کیا وہ حضرت محمد ﷺ سے حسد کرتے ہیں اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے عورتیں حلال کیں ؟ پس اس بنا پر ملک عظیم سے مراد یہ ہوگا کہ اس نے حضرت داؤد (علیہ السلام) کے لیے ننانوے عورتیں حلال کیں اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے اس سے بھی زائد عورتیں حلال کیں، طبری نے فرمایا : اس سے مراد جو اللہ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو بادشاہی اور عورتوں کی حلت عطا فرمائی تھی، اور مراد یہود کی تکذیب اور ان پر رد ہے انہوں نے جو کہا تھا کہ اگر یہ محمد ﷺ نبی ہوتے تو زیادہ عورتوں میں رغبت نہ رکھتے اور نبوت انہیں ان سے علیحدہ رکھتی، اللہ تعالیٰ نے اس کی خبر دی جو حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے تھا، انہیں (یہود) توبیخ فرمائی پس یہود نے اقرار کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ہزار عورتیں تھیں، نبی مکرم ﷺ نے انہیں کہا کہ ان کی ہزار عورتیں تھیں ؟ انہوں نے کہا : ہاں، تین سو مہر والی اور سات سو لونڈیاں اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کے پاس سو عورتیں تھیں، نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا : ” ایک شخص کے پاس ہزار عورتیں تھیں ایک شخص کے پاس سو عورتیں تھیں یہ زیادہ ہیں یا نو عورتیں زیادہ ہیں “۔ یہود خاموش ہوگئے اس وقت آپ ﷺ کی نوازواج مطہرات تھیں۔ مسئلہ نمبر : (3) کہا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی تمام انبیاء سے زیادہ بیویاں تھیں۔ کثرت ازواج میں فائدہ یہ تھا کہ ان میں چالیس انبیاء کی قوت تھی، جو جتنا طاقت ور ہوتا ہے وہ زیادہ نکاح کرتا ہے، کہا جاتا ہے : نکاح سے آپ نے زیادہ تعلقات قائم کرنے کا ارادہ کیا تھا، کیونکہ ہر عورت کے دو قبیلے ہوتے ہیں ایک باپ کی طرف سے، ایک ماں کی طرف سے، پس جب کوئی کسی عورت سے نکاح کرتا ہے تو دو قبیلے اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ہر قبیلہ اس کے لیے اس کی دشمنوں کے خلاف مددگار ہوجاتا ہے کہا جاتا ہے : جو متقی ہوتا ہے اس کی شہوت زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ جو متقی نہیں ہوتا وہ نظر اور لمس کے ذریعے شہوت کم کرتا رہتا ہے۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا جو حدیث میں مروی ہے کہ ” آنکھیں زنا کرتی ہیں، ہاتھ زنا کرتے ہیں “ (1) (مسند احمد بن حنبل، جلد 1 صفحہ 412) جب دیکھنا اور چھونا شہوت کے پورا کرنے کی ایک قسم ہے تو جماع کم ہوتا ہے اور متقی نہ کسی کی طرف دیکھتا ہے نہ چھوتا ہے تو اس کی شہوت اس کے نفس میں جمع ہوتی ہے پس وہ زیادہ جماع پر قادر ہوتا ہے۔ ابوبکر الوراق نے کہا : ہر شہوت دل کو سخت کرتی ہے مگر جماع دل کو صاف کرتا ہے اسی وجہ سے انبیاء زیادہ نکاح کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر : (4) (آیت) ” فمنھم من امن بہ “۔ یعنی جو نبی مکرم ﷺ پر ایمان لائے۔ کیونکہ پہلے گزر چکا ہے کہ آپ ﷺ سے حسد کیا جاتا تھا۔ (آیت) ” ومنھم من صد عنہ “۔ یعنی جس نے اعراض کیا اور آپ ﷺ پر ایمان نہیں لایا، بعض علماء نے فرمایا : بہ کا مرجع حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 68 دارالکتب العلمیہ) معنی یہ ہوگا کہ آل ابراہیم میں سے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لایا اور جنہوں نے اس سے روکا بعض نے فرمایا : ضمیر کا مرجع الکتاب ہے۔
Top