Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 5
وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْهُمْ فِیْهَا وَ اكْسُوْهُمْ وَ قُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
وَلَا
: اور نہ
تُؤْتُوا
: دو
السُّفَھَآءَ
: بےعقل (جمع)
اَمْوَالَكُمُ
: اپنے مال
الَّتِىْ
: جو
جَعَلَ
: بنایا
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لئے
قِيٰمًا
: سہارا
وَّارْزُقُوْھُمْ
: اور انہیں کھلاتے رہو
فِيْھَا
: اس میں
وَاكْسُوْھُمْ
: اور انہیں پہناتے رہو
وَقُوْلُوْا
: اور کہو
لَھُمْ
: ان سے
قَوْلًا
: بات
مَّعْرُوْفًا
: معقول
اور بےعقلوں کو ان کا مال جسے خدا نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے مت دو (ہاں) اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔
آیت نمبر
5
۔ اس آیت میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) جب اللہ تعالیٰ نے یتیموں کو مال دینے، عورتوں کو مہر دینے کو بیان کردیا تو وضاحت فرمائی کہ بیوقوف اور غیر بالغ کو مال دینا جائز نہیں، یہ آیت یتیموں کے لئے وصی، ولی، اور کفیل کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے علماء کا اجماع ہے کہ مسلمان، آزاد معتبر، عادل شخص کو وصی بنانا جائز ہے اور آزاد عورت کو وصی بنانے میں اختلاف ہے عوام اہل العلم نے کہا : آزاد عورت کو وصی بنانا جائز ہے، امام احمد (رح) نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت حفصہ ؓ کو وصی بنایا تھا، عطا بن ابی رباح ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اس شخص کو فرمایا جس نے اپنی عورت کو وصی بنایا تھا، عورت وصی نہیں ہو سکتی اگر عورت وصی بنائی گئی تو وہ اس کی قوم کے مرد کی طرف وصیت پھیر دی جائے گی غلام کو وصی بنانے میں اختلاف ہے امام شافعی، ابو ثور، امام محمد اور یعقوب رحمۃ اللہ علیہم نے اس سے منع فرمایا ہے، امام مالک، اوزاعی، ابن عبدالحکم نے اس کو جائز قرار دیا ہے، یہ نخعی کا قول ہے، جب اپنے غلام کو وصی بنایا اس کے متعلق گفتگو سورة بقرہ میں بالتفصیل گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” السفھآء “۔ سورة بقرہ میں السفہ کا لغوی معنی بیان ہوچکا ہے ان سفھاء سے کون مراد ہیں اس کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، سالم افطس نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : اس سے مراد وہ یتیم بچے ہیں جن کو تم مال نہیں دیتے، نحاس (رح) نے کہا : یہ بہتر قول ہے جو اس آیت کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔ اسماعیل بن ابی خالد (رح) نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا ہے فرمایا : یہ چھوٹی اولاد ہے تم ان کو مال نہ دو تاکہ وہ خراب نہ کردیں اور تم بغیر کسی چیز کے باقی نہ رہ جاؤ (
2
) (جامع البیان للطبری، جلد
3
،
4
، صفحہ
306
) سفیان نے حمید اعرج سے انہوں نے مجاہد سے روایت کیا ہے فرمایا : اس سے مراد عورتیں ہیں۔ (
3
) (ایضا) نحاس وغیرہ نے کہا : یہ قول صحیح نہیں ہے عرب عورتوں کے بارے میں سفائۃ یا سفیھات کہتے ہیں، کیونکہ فعیلہ کی جمع اکثر اسی طرح آتی ہے، کہا جاتا ہے تم اپنا مال نہ مضاربت پر دو اور نہ ایسے وکیل کو دو جو تجارت اچھی طرح نہ کرسکتا ہو، حضرت عمر ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : جو عقل نہ رکھتا ہو، وہ ہمارے بازار میں تجارت نہ کرے پس اس کے متعلق فرمایا (آیت) ” ولا تؤتوالسفھآء اموالکم “ یعنی جو احکام سے جاہل ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کفار کو مال نہ دو اسی وجہ سے علماء نے مکروہ قرار دیا ہے کہ مسلمان کسی ذمی کو خرید وفروخت کا وکیل بنائے یا اسے مضاربت پر مال دے، حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا : (آیت) ” السفھآء “۔ سے مراد یہاں ہر وہ شخص ہے۔ (
1
) (زاد المسیر، جلد
2
، صفحہ
10
) جو حجر کا مستحق ہے، یہ جامع قول ہے، ابن خویز منداد نے کہا : سفیہ پر حجر، تو سفیہ کے کئی احوال ہوتے ہیں اس پر اس کے عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے حجر کیا جاتا ہے، جنون وغیرہ کی وجہ سے عقل نہ ہونے کی حالت میں حجر کیا جاتا ہے، اپنے مال میں اچھی سوچ نہ رکھنے کی حالت میں حجر کیا جاتا ہے، رہا وہ شخص جس پر غشی طاری ہوتی ہے امام مالک (رح) نے اس پر حجر نہ کرنے کو مستحسن قرار دیا ہے، کیونکہ غشی جلد ختم ہوجاتی ہے، حجر کبھی انسان کے اپنے حق کے لیے ہوتا ہے اور کبھی دوسروں کے حق کے لیے ہوتا ہے، جسے اپنی ذات کے حق کی وجہ سے حجر کیا جاتا ہے وہ ہے جس کا ذکر ہم نے کردیا ہے اور جنہیں دوسروں کے حق کی وجہ سے حجر کیا جاتا ہے وہ غلام بہت زیادہ مقررض اور مریض جو دو ثلث میں وصیت کرتا ہے، مفلس خاوند والی عورت، جنہیں اپنے ساتھی کے حق کی وجہ سے حجر کیا جاتا ہے باکرہ کو اپنے نفس کے حق کی وجہ سے حجر کیا جاتا ہے، رہا چھوٹا بچہ اور مجنون ان پر حجر کے بارے کوئی اختلاف نہیں ہے، رہا بڑا آدمی جو اپنے مال میں اچھی نظر نہیں رکھتا اور اس سے مال کو بلاوجہ تلف کرنے سے امن نہیں ہوتا، تو وہ بچے کے مشابہ ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے جو آگے آئے گا، اس میں فرق نہیں کہ وہ اپنے مال کو گناہوں میں تلف کرتا ہو یا قرب اور مباحات میں تلف کرتا ہو، ہمارے اصحاب کا اختلاف ہے اس میں جو مال کو قرب میں خرچ کرتا ہو بعض نے اس پر حجر کیا ہے اور بعض نے اس پر حجر نہیں کیا، غلام کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور مقروض کے ہاتھ میں جو کچھ ہوگا وہ قرض خواہوں کے لئے لیا جائے گا، کیونکہ اس پر صحابہ کا اجماع ہے، حضرت عمر ؓ نے اسیفع جھینہ سے ایسا کیا تھا، امام مالکرحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا میں یہ ذکر کیا ہے : وہی باکرہ جب تک وہ پردے میں ہے اس پر حجر ہوگا، کیونکہ وہ اپنے بارے صحیح نظر نہیں رکھتی حتی کہ جب نکاح کرے اور لوگ اس پر داخل ہوں اور وہ باہر نکلے اور اس کا چہرہ ظاہر ہوگا اور منافع اور نقصان کو پہچان لے تو اس پر حجر ختم ہوجائے گا اور رہی خاوند والی عورت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” کسی عورت کے لیے جائز نہیں جس کا خاوند اس کی عصمت کا مالک ہو کہ وہ اپنے مال میں فیصلہ کرے مگر تہائی میں اسے اجازت ہے، (
2
) (مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللہ عمرو، جلد
2
، صفحہ
221
) میں کہتا ہوں : رہا احکام سے جاہل شخص اگرچہ اس پر حجر تو نہیں کیا جاتا لیکن مال میں عدم تدبیر کی وجہ سے اسے مال دیا نہیں جائے گا، کیونکہ اسے فاسد بیوع اور صحیح بیوع کا علم نہیں ہے اور حل و حرمت سے ناواقف ہے، ذمی بھی بیوع کی جہالت میں اس کی مثل ہے، اس کے متعلق اندیشہ ہے کہ وہ سودی معاملات کرے گا، واللہ اعلم۔ اس بنا پر مخاطبین کی طرف مال کی اضافت کیوجہ سے اختلاف ہے۔ یہ اضافت سفھاء کے لیے ہے، مال کی نسبت ان کی طرف اس لیے کی، کیونکہ وہ ان کے قبضہ میں ہے اور وہ اس میں نگران ہیں پس وسعت کی بنا پر ان کی طرف نسبت کی گئی جیسے ارشاد ہے۔ (آیت) ” فسلموا علی انفسکم “ (النور :
61
) اور فرمایا (آیت) ” فاقتلوا انفسکم “۔ (بقرہ :
53
) اور بعض علماء نے فرمایا : ان کی طرف اموال کی نسبت اس لیے کی، کیونکہ وہ ان کے اموال کی جنس سے ہے کیونکہ اموال مخلوق کے درمیان مشترک ہیں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف منتقل ہوتے ہیں، ایک ملکیت سے دوسری ملکیت میں جاتے ہیں یعنی یہ مال ان کے لیے ہیں جب وہ انکے محتاج ہوتے ہیں جس طرح تمہارے وہ مال ہیں جو تمہاری عزت کو بچاتے ہیں اور تمہاری حفاظت کرتے ہیں اور تمہاری اقدار کو بڑھاتے ہیں اور ان کے ساتھ تمہارے معاملات زندگی کا قیام ہے، دوسرا قول حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت حسن اور حضرت قتادہ ؓ کا ہے، مخاطبین کے مال حقیقۃ مراد ہیں۔ (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
9
) حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تو اپنا وہمال اپنی بیوی اور بیٹے کو نہ دے جو تیری معیشت کا سبب ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ تو فقیر ہوجائے اور تو انکامنہ تکتا رہے اور ان کے ہاتھوں میں جو ہے اس کو تکتا رہے بلکہ تو خود ان پر خرچ کرنے والا ہو، اس مفہوم کی بنا پر (آیت) ” السفھآء “ سے مراد عورتیں اور بچے ہوں گے، چھوٹی اولاد اور اس کی بیوی، مجاہد (رح) اور ابو مالک (رح) کا قول بھی سفیاء کے بارے میں یہی تھا (
2
) (جامع البیان اللطبری، جلد
3
،
4
صفحہ
310
) مسئلہ نمبر : (
3
) یہ آیت سفیہ پر حجر کرنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے : (آیت) ” ولا تؤتوا السفھآء اموالکم “۔ اور فرمایا : (آیت) ” فان کان الذی علیہ الحق سفیھا اوضعیفا “۔ (بقرہ :
282
) سفیہ پر ولایت کو اسی طرح ثابت فرمایا جس طرح ضعیف پرولایت کو ثابت فرمایا اور ضعیف کا معنی صغیر (چھوٹے) کی طرف راجع ہے اور سفیہ کا معنی بڑے بالغ کی طرف راجع ہے کیونکہ اسفہ مذمت کا اسم ہے اور انسان کی اس پر مذمت نہیں کی جاتی جو اس نے کیا نہ ہو اور قلم غیر بالغ سے اٹھا لیا گیا ہے پس مذمت اور حرج اس سے منفی ہوگئے، یہ خطابی کا قول ہے۔ مسئلہ نمبر : (
4
) سفیہ پر حجر سے پہلے کے افعال کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، مالک (رح) اور ابن القاسم (رح) کے علاوہ ان کے تمام اصحاب نے کہا کہ سفیہ کا فعل اور اس کا امر تمام جائز ہے حتی کہ امام اس کے ہاتھ کو روک لے، یہی امام شافعی اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، ابن القاسم (رح) نے کہا : اس کے افعال جائز نہیں ہے، اگرچہ امام اس کو نہ بھی روکے، اصبغ نے کہا : اگر اس کی سفاہت ظاہر ہو تو اس کے افعال مردود ہیں اور اگر سفاہت ظاہر نہیں ہے تو اس کے افعال رد نہیں کیے جائیں گے حتی کہ امام اس پر حجر کر دے، سحنون نے امام مالک کے قول کے لیے یہ دلیل دی ہے کہ اگر سفیہ کے افعال حجر کیے جانے سے پہلے ایک شخص نے غلام آزاد کیا جب کہ اس کے پاس اس غلام کے علاوہ کوئی مال نہیں تھا تو نبی مکرم ﷺ نے وہ آزاد غلام کا آزاد کرنا رد کردیا (
3
) (صحیح بخاری، کتاب الخصومات، جلد
1
، صفحہ
325
) جب کہ اس سے پہلے اس پر حجر نہیں کیا تھا۔ مسئلہ نمبر : (
5
) بالغ شخص پر حجر کرنے کے متعلق علماء کا اختلاف ہے، امام مالک (رح) اور جمہور علماء نے فرمایا : اس پر حجر کیا جائے گا (اگر وہ بیوقوف ہوگا) امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا : اس شخص پر حجر نہیں کیا جائے گا جو بالغ ہو دراں حالیکہ وہ عاقل ہو مگر جب وہ اپنا مال کو خراب کرنے والاہو (تو اس پر حجر کیا جائے گا) جب وہ ایسا ہوگا تو مال اس کے سپرد نہیں کیا جائے گا حتی کہ وہ پچیس سال کی عمر کو پہنچ جائے، جب اس عمر کو پہنچ جائے گا تو ہر حال میں مال اس کے سپرد کیا جائے گا خواہ وہ مفسد مال ہو یا نہ ہو، کیونکہ بارہ سال کی عمر میں اس سے عورت حاملہ ہوجاتی ہے، پھر اس کے لیے چھ مال کا بچہ پیدا ہوگا تو وہ پچیس سال کی عمر میں وہ باپ دادا بن جائے گا اور میں اس شخص پر حجر کرنے حیا کرتا ہوں جو دادا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے، امام ابوحنیفہ (رح) کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مال کو اس سے روکنے کی مدت میں جب وہ مفسد ہونے حالت میں بالغ ہو تو اس کا تصرف علی الاطلاق نافذ ہوتا ہے، مال صرف احتیاط اسے نہیں دیا جاتا، یہ نظر اور اثر کے اعتبار سے سب ضعیف ہے، دارقطنی نے روایت کیا ہے ہمیں محمد بن حسن صواف نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں حامد بن شعیب نے خبر دی انہوں نے کہا ہمیں شریح بن یونس نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں یعقوب بن ابراہیم (ابو یوسف القاضی) نے بتایا انہوں نے کہا ہمیں ہشام بن عروہ نے بتایا انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن جعفر، ؓ حضرت زبیر ؓ کے پاس آئے اور کہا : میں نے اتنے اتنے کی بیع کے ساتھ خرید کی ہے اور حضرت علی ؓ چاہتے ہیں کہ وہ امیر المومنین کے پاس جائیں گے اور ان سے مجھ پر حجر کرنے کا سوال کریں گے حضرت زبیر ؓ نے کہا : میں بیع میں تمہارا شریک ہوں پس حضرت علی ؓ ، حضرت عثمان ؓ کے پاس آئے اور کہا : ابن جعفر نے اتنے پیسوں میں خرید کیا ہے اس پر حجر کروں جس میں زبیر اس کا شریک ہے، یعقوب نے کہا : میں حجر پر عمل کرتا ہوں اور میرا یہی خیال ہے اور میں محجور کی بیع وشرا کو باطل کروں گا اور جب وہ حجر سے پہلے بیع وشرا کرے گا تو اس کو جائز قرار دوں گا، یعقوب بن ابراہیم (ابو یوسف) نے کہا : ابوحنیفہ (رح) حجر نہیں کرتے، اور نہ حجر پر عمل کرتے ہیں اور حضرت عثمان کا قول کہ ” میں اس پر کیسے حجر کروں “ بڑے آدمی پر بھی حجر کرنے کی دلیل ہے، عبداللہ بن جعفر ؓ کو اس کی والدہ نے حبشہ کی زمین میں جنم دیا تھا یہ پہلا بچہ تھا جو اسلام میں پیدا ہوا تھا وہ فتح خیبر کے سال اپنے باپ کے ساتھ نبی مکرم ﷺ کے پاس آیا تھا اس نے نبی مکرم ﷺ سے حدیث سنی تھی اور یاد کی تھی اور خیبر سنہ
5
ہجری کو فتح ہوا تھا، اس کا قول امام ابوحنیفہ (رح) کے قول کو رد کرتا ہے، ان کی حجت آگے آئے گی ان شاء اللہ۔ مسئلہ نمبر : (
6
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” یعنی تمہاری معاش اور تمہارے دین کی اصلاح کے لیے بنایا ہے (آیت) ” التی میں تین لغات ہیں التی واللت تا کے کسرہ کے ساتھ اللت تا کے سکون کے ساتھ، اس کے تثنیہ میں بھی تین لغات ہی، اللتان، لالتا (نون کے حذف کے ساتھ) اللتان، نون کی شد کے ساتھ اور اس کی جمع کی لغات اسی سورت میں اپنے موقع پر آجائیں گی انشاء اللہ تعالیٰ ” القیام والقوام ‘، معنی جو تجھے قائم کرے، کہا جاتا ہے : فلان قیام اھلہ وقوام بیتہ “۔ یعنی وہ شخص جو اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کرتا ہے اور ضروریات زندگی مہیا کرتا ہے جب قاف کو قوام میں کسرہ دیا گیا تو واؤ کو یا سے بدل دیا گیا، اہل مدینہ کی قرات قیما بغیر الف کے ہے، کسائی اور فراء نے کہا : قیما اور قواما کا معنی قیام ہے، کسائی اور فراء کے نزدیک اس کی نصب مصدر کی بنا پر ہے یعنی تم اپنے وہ مال بیوقوفوں کو نہ جن کے ساتھ تمہارے امور درست ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ تمہارا قیام ہے، اخفش نے کہا : اس کا معنی ہے جو تمہارے امور کو قائم کرنے والے ہیں، انہوں نے اس کو جمع خیال کیا ہے بصریوں نے کہا : قیما قیمۃ کی جمع ہے جیسے دیمۃ اور دیم یعنی اللہ تعالیٰ جن اموال کو اشیاء کے لیے قیمت بنایا ہے، ابو علی نے اس قول کو غلط کہا ہے اس نے کہا : یہ مصدر ہے جیسے قیام اور قوام مصدر میں اس کی اصل قوم ہے لیکن با کی طرف لوٹانے میں شاذ ہے جیسے جواد کی جمع میں جیاد کا قول شاذ ہے، قوماو قواما وقیاما اس کا معنی ہے اصلاح حال میں دوام اور ثبات، حسن اور نحعی نے اللاتی پڑھا ہے انہوں نے التی کی جمع بنایا ہے اور عام قرات جماعت کے لفظ پر التی ہے، فراء نے کہا : اکثر کلام عرب میں النساء اللواتی اور الاموال التی استعمال ہوتا ہے اسی طرح اموال کے علاوہ میں بھی التی استعمال ہوتا ہے یہ نحاس نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
7
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وارزقوھم فیھا واکسوھم “۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ان مالوں میں ان کے لیے رکھو، یا ان کے لیے ان مالوں میں حصہ مقرر کرو اور یہ اس شخص کا قول ہے جو انسان پر بیوی اور چھوٹے بچوں کا خرچ اور لباس لازم کرتے ہیں (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
10
) یہ بچے کے خرچ کا باپ پر واجب ہونے اور بیوی کے خرچ کا خاوند پر لازم ہونے کی دلیل ہے۔ بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : افضل صدقہ وہ ہے جو غنا کو چھوڑے اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور صدقہ کا آغاز اسی سے کرو جس کی تم کفالت کرتے ہو، عورت کہے گی : یا تم مجھے کھلاؤ یا مجھے طلاق دو ۔ غلام کہے گا : مجھے کھلاؤ یا مجھے کام پر لگاؤ، بیٹا کہے گا : مجھے کھلاؤ تم مجھے کس کے آسرا پر چھوڑ رہے ہو، صحابہ نے کہا : اے ابوہریرہ ؓ تو نے یہ نبی مکرم ﷺ سے سنا ہے ؟ حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا نہیں یہ ابوہریرہ ؓ کے ذہن سے ہے (
2
) (ایضا جلد
2
، صفحہ
808
) مہلب نے کہا : اہل و عیال پر خرچ کرنا بلاجماع واجب ہے، یہ حدیث اس مسئلہ میں حجت ہے۔ مسئلہ نمبر : (
8
) ابن المنذر نے کہا : بالغ بچہ کے خرچ میں علماء کا اختلاف ہے جس کے پاس مال نہ ہو اور اس کا کسب بھی نہ ہو، ایک گروہ کا خیال ہے والدہ کو اپنی مذکر اولاد پر خرچ کرنا لازم ہے حتی کہ وہ بالغ ہوجائیں اور مؤنث اولاد پر خرچ کرنا لازم ہے حتی کہ ان کی شادی ہوجائے اور ان کے ساتھ حقوق زوجیت ادا ہوجائیں، اگر خاوند نے حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اسے طلاق دے دی یا خاوند مرگیا تو اس عورت کا خرچہ اس کے باپ پر نہ ہوگا۔ اگر حقوق زوجیت ادا کرنے سے پہلے طلاق دے دی تو اس کا خرچ باپ پر ہوگا۔ مسئلہ نمبر : (
9
) پوتے کا نفقہ دادا پر نہیں ہے، یہ امام مالک (رح) کا قول ہے، ایک طائفہ نے کہا : پوتے پر دادا خرچ کرے گا حتی کہ وہ بالغ ہوجائے اور عورتوں کو حیض آجائے، پر دادا پر نفقہ نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ پوتے پوتیاں اپاہج ہوں، برابر ہے کہ وہ مذکر ہوں یا مؤنث ہوں جب کہ ان کے پاس مال بھی نہ ہو، برابر ہے اولاد ہو یا اولاد کی اولاد ہو اگرچہ کتنین ہی نیچے ہوں بلکہ ان کا باپ نہ ہو اور وہ ان پر خرچ کرنے پر قادر بھی ہو۔ یہ امام شافعی (رح) کا قول ہے، اور ایک گروہ نے تمام بچوں اور بالغوں، مردوں اور عورتوں کا نفقہ واجب کیا ہے جب کہ ان کے پاس ایسے اموال نہ ہوں جن کے ساتھ وہ والد کے نفقہ سے مستغنی ہوجائیں دلیل کے طور پر نبی مکرم ﷺ کا ہندہ کو یہ فرمانا پیش کیا ہے : خذی ما یکفیک وولدک بالمعروف (
3
) (ایضا، جلد صفحہ
808
) تو ابو سفیان کے مال سے اتنا لے لیا کر جو معروف طریقہ پر تجھے اور تیری اولاد کو کافی ہو اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے بیٹا کہے گا : مجھے کھلاؤ مجھے کس کے سپرد کر رہے ہو، یہ دلیل ہے کہ وہ یہ کہے گا جسے کسب اور پیشہ کی طاقت نہ ہوگی، اور جو بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے گا وہ یہ نہیں کہے گا کیونکہ وہ خود کمانے اور محنت کرنے کی عمر کو پہنچ چکا ہے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : (آیت) ” حتی اذا بلغوالنکاح “۔ حتی کہ جب نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں، نکاح کی عمر کو پہنچنے کو اس میں حد بنایا ہے اور نبی مکرم ﷺ کے ارشاد میں ہے عورت کہے گی یا مجھے کھانا کھلا یا مجھے طلاق دے۔ یہ اس کے قول کا رد کرتا ہے جو کہتا ہے : تنگی کی وجہ سے تفریق نہیں کرتا ہے اور عورت پر صبر کو لازم کرتا ہے اور نفقہ خاوند کے ذمہ حاکم کے حکم سے کرتا ہے۔ یہ عطا اور زہری (رح) کا قول ہے اور کو فیوں کا نظریہ بھی یہی ہے وہ بطور دلیل یہ آیت پیش کرتے ہیں : (آیت) ” وان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ “۔ (بقرہ :
280
) ترجمہ : اگر وہ تنگ دست ہو تو خوشحالی تک مہلت دو ۔ وہ کہتے ہیں : خوشحال ہونے تک مہلت دینا واجب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ” وانکحوا الایامی منکم “۔ (نور :
32
) وہ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فقیر کے نکاح کرنے کا حکم دیا ہے پس فقر کو فرقت کا سبب بنانا جائز نہیں ہے، فقر کے ہوتے ہوئے نکاح کرنے کو کہا گیا ہے، اس آیت میں ان کی کوئی حجت نہیں ہے اس کا بیان اپنی جگہ پر آئے گا اور حدیث اختلاف کی جگہ میں نص ہے، بعض علماء نے فرمایا : خطاب یتیم کے ولی کو ہے تاکہ وہ اس کے مال سے اس پر خرچ کرے تو مالی ولی کی نگرانی میں ہے جیسا کہ پہلے مال کی اضافت میں اختلاف گزر چکا ہے وصی اس یتیم کے مال اور حال کے مطابق اس پر خرچ کرے اگر وہ چھوٹا ہو اور اس کا مال کثیر ہو تو اس کے لیے دایہ کا بندوبست کرے اور اس کی پرورش کرنے والیوں کا اہتمام کرے اور اس پر خرچ میں وسعت کرے، اگر یتیم بڑا ہو تو اس کے لئے نرم لباس اور لذیذ کھانے اور خدام کا انتظام کرے، اگر اس کا مال کم ہو تو اس کے مطابق خرچ کرے، اگر مال بالکل تھوڑا ہو تو حاجت کی مقدار موٹا لباس اور سادہ کھانا مہیا کرے اگر یتیم فقیر ہو اس کا مال نہ ہو تو امام پر واجب ہے کہ بیت المال سے اس کا بندوبست کرے، امام اگر ایسا نہ کرے تو مسلمانوں پر یہ واجب ہے، جو اس کا زیادہ قریبی ہوگا اس پر واجب ہوگا پھر جو زیادہ قریبی ہوگا اس پر واجب ہوگا، ماں اس کی زیادہ قریبی ہے تو اس پر اسے دودھ پلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا واجب ہے اور نہ تو بچے پر رجوع کرے گی اور نہ کسی اور پر رجوع کرے گی : (آیت) ” والوالدات یرضعن اولادھن “۔ (بقرہ :
233
) کے تحت گزر چکا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
10
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وقولوا لھم معروفا “۔ یعنی ان سے نرم لہجہ میں بات کرنا اور خوبصورت وعدہ کرنا، قول معروف کے بارے علماء کا اختلاف ہے، بعض نے فرمایا : اس کا معنی ہے اس کے لیے دعا کرو اللہ تعالیٰ تم میں برکت دے، اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے اور تمہارے لیے نیک بندوبست فرمائے (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
10
دارالکتب العلمیہ) اور میں تمہاری دیکھ بھال کروں گا یہ احتیاط ایسی ہے جس کا نفع تیری طرف لوٹے گا، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے ان سے اچھا وعدہ کرو یعنی تم جب پختگی کی عمر کو پہنچ جاؤ گے تو ہم تمہارے مال تمہیں واپس کردیں گے (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
10
دارالکتب العلمیہ) باپ بیٹے سے کہے : میرا مال تجھے ہی ملے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ تو ہی اس کا مالک ہوگا جب تو دانائی کا مالک ہوگا اور جب تو تصرف کرنے کو پہچان لے گا۔
Top