Al-Qurtubi - An-Nisaa : 75
وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا١ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا١ۙۚ وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًاؕ
وَمَا : اور کیا لَكُمْ : تمہیں لَا تُقَاتِلُوْنَ : تم نہیں لڑتے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَ : اور الْمُسْتَضْعَفِيْنَ : کمزور (بےبس) مِنَ : سے الرِّجَالِ : مرد (جمع) وَ النِّسَآءِ : اور عورتیں وَ الْوِلْدَانِ : اور بچے الَّذِيْنَ : جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں (دعا) رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اَخْرِجْنَا : ہمیں نکال مِنْ : سے ھٰذِهِ : اس الْقَرْيَةِ : بستی الظَّالِمِ : ظالم اَهْلُھَا : اس کے رہنے والے وَاجْعَلْ : اور بنا دے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس وَلِيًّۢا : دوست (حمایتی) وَّاجْعَلْ : اور بنادے لَّنَا : ہمارے لیے مِنْ : سے لَّدُنْكَ : اپنے پاس نَصِيْرًا : مددگار
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں ان بےبس مردوں اور عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا اور اپنی طرف سے کسی کو ہمارا حامی بنا اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما
آیت نمبر : 75۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) (آیت) ” ومالکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ “۔ یہ جہاد پر برانگیختہ کرنا ہے یہ اپنے ضمن میں اس بات کو لیے ہوئے ہے کہ کمزور لوگوں کو ان مشرکوں کے ہاتھوں سے آزاد کرانا ہے جو ان کمزور لوگوں کو سزا دیتے ہیں اور انہیں دین کے سلسلہ میں فتنہ میں ڈالتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے اعلائے کلمۃ اللہ، دین کے غلبہ اور کمزور مومنین کو نجات دلانے کے لیے جہاد کو واجب فرمایا اگرچہ اس میں نفوس کا تلف بھی ہو، اور قیدیوں کا چھڑانا مسلمانوں کی جماعت پر واجب ہے، خواہ وہ جہاد سے ہو یا اموال خرچ کرنے کے ساتھ ہو، اور یہ ضروری ہے، کیونکہ یہ نفس سے کم درجہ رکھتے ہیں، امام مالک (رح) نے فرمایا : لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے تمام اموال کے ذریعے قیدیوں کا فدیہ دیں، اس میں کوئی اختلاف نہیں، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : فکوالعانی “۔ (1) (شعب الایمان کتاب فی الزکوۃ، جلد 3، صفحہ 215) قیدی کو چھڑاؤ، سورة بقرہ میں یہ گزر چکا ہے اسی طرح علماء نے فرمایا : ان پر لازم ہے کہ وہ قیدیوں سے غم خواری کریں، کیونکہ مواسات (غم خواری) فدیہ دینے سے کم ہے۔ اگر قیدی غنی ہو تو وہ فدیہ دینے والے کو مال لوٹائے یا نہیں اس میں علماء کے دونوں قول ہیں لیکن اصح یہ ہے کہ وہ رجوع کرے۔ مسئلہ نمبر : (2) (آیت) ” المستضعفین “۔ اسم جلالت اللہ پر معطوف ہے یعنی وفی سبیل المستضعفین۔ کیونکہ مستضعفین ‘، (کمزور لوگوں) کو خلاصی دینا بھی فی سبیل اللہ میں سے ہے، یہ زجاج کا اختیار ہے اور یہی زہری کا قول ہے محمد بن یزید نے کہا : میرا پسندیدہ قول ہے کہ اس کا معنی ہے فی المستضعفین “۔ اس صورت میں السبیل پر عطف ہوگا، یعنی وفی المستضعفین۔ یعنی وہ جہاد کریں کمزور لوگوں کو بچانے کے لیے، پس یہ دونوں راستے مختلف ہیں، یعنی مکہ میں مومنین میں سے جو لوگ کفار قریش کی تکلیف میں ہیں۔ نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد سے یہی معنی ہے : اللھم انج الولید بن الولید وسلمۃ بن ہاشم و عیاش بن ابی ربیعہ والمستضعفین من المومنین (2) (صحیح بخاری کتاب التفسیر جلد 2 صفحہ 661) اے اللہ ولید بن ولید، سلمۃ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مومنین میں سے کمزور لوگوں کو نجات عطا فرما، حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : میں اور میری والدہ کمزور لوگوں میں سے تھے، بخاری میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے الا المستضعفین من الرجال والنساء والولدان، میں اور میری والدہ ان میں سے تھے جن کا عذر اللہ تعالیٰ قبول فرمایا اور میں بچوں میں سے تھا اور میری والدہ عورتوں میں سے تھی۔ مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا “۔ تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہاں قریۃ سے مراد مکہ مکرمہ ہے، ظالم کے ساتھ اس کا وصف بیان کیا اگرچہ یہ فعل مکہ والوں کا تھا، کیونکہ ضمیر کے ساتھ تعلق ہے یہ اس طرح ہے جیسے تو کہتا ہے : مررت بالرجل الواسعۃ دارہ، الکریم ابوہ الحسنۃ جاریتۃ۔ اس کے ساتھ آدمی کا وصف بیان کیا گیا ان کے درمیان لفظی تعلق ہے اگر تو کہے : مررت بالرجل الکریم عمرو تو یہ جائز نہیں کیونکہ کرم عمرو کے لیے ہے پس اس کو رجل کی صفت بنانا جائز نہیں مگر تعلق کے ساتھ اور وہ ضمیر ہے اس صفت کا نہ تثنیہ ہوتا ہے نہ جمع، کیونکہ یہ فعل کے قائم مقام ہوتی ہے، معنی یہ ہے کہ وہ شہر جس کے بسنے والوں نے ظلم کیا اسی وجہ سے ’ الظالمین “ نہیں فرمایا۔ تو کہتا ہے : مررت برجلین کریم ابواھما حسنۃ جاریتاھما وبرجال کریم اباء ھم حسنۃ جو اریھم “۔ یعنی دو آدمیوں کے پاس سے گزرا جن کے باپ کریم تھے ان کی لونڈی خوبصورت تھی اور ایسے مردوں کے پاس سے گزرا جن کے آباء کریم تھے انکی لونڈیاں خوبصورت ہیں۔ (آیت) ” واجعل لنا من لدنک “۔ لدنک بمعنی عندک ہے۔ ولیا جو ہمیں بچائے، (آیت) ” واجعل لنا من لدنک نصیرا “۔ جو ہماری ان کے خلاف مدد کرے۔
Top