Al-Qurtubi - An-Nisaa : 85
مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یَّكُنْ لَّهٗ نَصِیْبٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَیِّئَةً یَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقِیْتًا
مَنْ : جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : شفارش حَسَنَةً : نیک بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے نَصِيْبٌ : حصہ مِّنْھَا : اس میں سے وَمَنْ : اور جو يَّشْفَعْ : سفارش کرے شَفَاعَةً : سفارش سَيِّئَةً : بری بات يَّكُنْ لَّهٗ : ہوگا۔ اس کے لیے كِفْلٌ : بوجھ (حصہ) مِّنْھَا : اس سے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز مُّقِيْتًا : قدرت رکھنے والا
جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے تو اس کو اس کے (عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
آیت نمبر : 85۔ اس آیت میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” من یشفع “۔ الشفاعۃ اور الشفعۃ وغیرہ الشفع سے مشتق ہیں اور اس کا معنی جفت عدد ہے۔ اسی سے الشفیع (شفعہ کرنے والا) کیونکہ وہ صاحب حاجت کے ساتھ شفع (جفت) ہوجاتا ہے اس سے ناقۃ شفوع ہے جب ایسی اونٹنی جو ایک بچہ جنم دینے کے بعد پھر حاملہ ہوجائے الشفع، ایک کو دوسرے کے ساتھ ملانا، الشفعۃ شریک کی ملکیت کو اپنی ملکیت کے ساتھ ملانا، الشفاعۃ کسی دوسرے کو اپنی جاہ اور وسیلہ کے ساتھ ملانا، یہ حقیقۃ شفیع کی قدر ومنزلت کا مشفع کے پاس اظہار کرنا ہے اور جس کے لیے سفارش کی گئی ہے اس کو نفع پہنچانا ہے۔ مسئلہ نمبر : (2) اس آیت کی تاویل میں مفسرین کا اختلاف ہے، مجاہد، حسن، ابن زید، رحمۃ اللہ علیہم وغیرھم نے کہا : یہ لوگوں کا اپنی ضروریات کے لیے آپس میں سفارش کرنا ہے پس جو اس لیے سفارش کرے گا تاکہ وہ کسی نفع پہنچائے تو اس کے لیے حصہ ہوگا اور جو کسی کو ضرر اور نقصان پہنچانے کے لیے سفارش کرے گا اس کے لیے بوجھ ہوگا۔ بعض علماء نے فرمایا : شفاعت حسنۃ وہ ہے جو نیکی اور اطاعت میں ہو اور سئیۃ سفارش وہ ہے جو معاصی (گناہوں) میں ہو (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 86 دارالکتب العلمیہ) جو اچھی سفارش کرے گا تاکہ دو آدمیوں کے درمیان صلح کرائے تو وہ اجر کا مستحق ہوگا اور جو چغلی اور غیبت کرے گا وہ گنہگار ہوگا، یہ پہلی کے قریب ہے، بعض علماء نے فرمایا : شفاعت حسنۃ سے مراد مسلمانوں کیے لیے دعا کرنا ہے اور سئیۃ سیے مراد مسلمانوں کے لیے بددعا کرنا ہے صحیح حدیث میں ہے : ” جس نے کسی کی غیر موجودگی میں اس کے لیے دعا کی تو اس لیے دعا قبول کی جاتی ہے اور فرشتہ کہتا ہے آمین اور تیرے لیے اس کی مثل ہے “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الزکر، جلد 2، صفحہ 352) یہ ہے وہ حصہ جس کا ذکر کیا گیا ہے اسی طرح جو کسی کے لیے برائی کی دعا کرتا ہے تو اس کی نحوست اس کی اپنی طرف لوٹ کر آتی ہے، یہود مسلمانوں کے لیے بددعا کرتے تھے، بعض علماء نے فرمایا : جو جہاد میں اپنے ساتھی کے ساتھ ملے گا اس کے لیے اجر میں سے حصہ ہوگا اور جو باطل میں اپنے ساتھی سے ملے گا اس کے لیے گناہ کا بوجھ ہوگا، حسن سے بھی مروی ہے الحسنۃ جو دین میں جائز ہو اور السئۃ جو دین میں جائز نہ ہو گویا یہ جامع قول ہے، الکفل کا مطلب بوجھ اور گناہ ہے حسن، قتادہ، سدی اور ابن زید رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے کہ اس سے مراد نصیب (حصہ) ہے، یہ کفل البعیر سے مشتق ہے وہ کپڑا جو سوار اونٹ کی کہ ان کے ارد گرد لپیٹتا ہے تاکہ وہ گر نہ جائے۔ کہا جاتا ہے : اکتلفت البعیر، جب کوئی اونٹ کی کہ ان کے اردگرد کپڑا لپیٹے اور اس پر سوار ہو اس کو کہا جاتا ہے اکتفل کیونکہ اس نے ساری پیٹھ کو استعمال نہیں کیا بلکہ پیٹھ کا ایک حصہ استعمال کیا۔ یہ خیر وشر کے حصہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ہے : (آیت) ” یؤتکم کفلین من رحمتہ “۔ (الحدید : 28) سفارش کرنے والے کو اجر مل جاتا ہے جب وہ جائز کام کی سفارش کرتا ہے اگرچہ اس کی سفارش قبول نہ بھی کی جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” من یشفع “۔ (جو سفارش کرے گا) (آیت) ” من یشفع “۔ (جس کی سفارش قبول کی جائے گی) نہیں فرمایا صحیح مسلم میں ہے ” سفارش کرو تمہیں اجر دیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ جو چاہے گا اپنے نبی کی زبان پر فیصلہ فرمائے گا “۔ (1) (صحیح مسلم، کتاب البر والصلہ والادب جلد 2، صفحہ 330) مسئلہ نمبر : (3) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وکان اللہ علی کل شیء مقیتا “۔ ، مقتا “۔ کا معنی ہے قدرت والا، اسی سے زبیر بن عبدالمطلب کا شعر ہے : وذی ضغن کففت النفس عنہ وکنت علی مساء تہ مقیتا : (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 86 دارالکتب العلمیہ) اس میں شاعر نے مقیتا کو قدیرا کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کو روزی دینے والا ہے، اسی سے نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : کفی بالمراثما ان یضیع من یقیت (3) (سنن ابی داؤد کتاب الزکوۃ جلد 1، صفحہ 238) ۔ انسان کے لیے یہ گناہ کافی ہے کہ وہ اپنے عیال وغیرہ کو ضائع کر دے یعنی جن کو وہ خوراک دیتا ہے جو اس کی قدرت میں ہیں اور قبضہ ہیں۔ یہ ابن عطیہ نے ذکر کیا ہے، اسی سے وہ کہتا ہے۔ قتہ اقوتہ قوتا واقتہ اقیۃ اقاتۃ فانا قائت ومقیت۔ ان تمام کا معنی روزی دینا اور رزق دینا ہے۔ کسائی نے حکایت کیا ہے : اقات، یقیت، شاعر کا قول ہے۔ انی علی الحساب مقیت : (4) (احکام القرآن للطبری، جلد 5، صفحہ 223) ” میں حساب سے خوراک دینے والا ہوں “۔ طبری نے اس کے بارے کہا : یہ مذکورہ معنی سے نہیں ہے بلکہ یہ موقوف کے معنی میں ہے۔ (5) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 87 دارالکتب العلمیہ) ابو عبیدہ نے کہا : المقیت کا معنی الحافظ، (حفاظت کرنے والا) ہے۔ کسائی نے کہا : المقیت کا معنی المقتدر ہے۔ نحاس نے کہا : ابو عبیدہ کا قول اولی ہے، کیونکہ یہ القوت سے مشتق ہے اور القوت کا معنی ہے، وہ مقدار جو انسان کی حفاظت کرتی ہے۔ الفراء نے کہا المقیت وہ ہوتا ہے جو ہر شخص کو رزق اور خوراک دیتا ہے، حدیث شریف میں ہے : کفی بالمرء اثما ان یضیع من یقوت (6) (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوۃ جلد 1، صفحہ 238) انسان کے لیے یہ گناہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جن کو وہ خوراک دیتا ہے ہے۔ ثعلبی نے ذکر کیا ہے : ابن الفارس نے ” المجمل “۔ میں حکایت کیا ہے : المقیت المقتدر، المقیت الحافظ والشاھد، وما عندہ قیت لیلۃ وقوت لیلۃ، یعنی المقیت کا معنی قدرت والا ہے، اور اس کا معنی حافظ وشاہد بھی ہے اور وہ بھی جس کے پاس رات کی خوراک ہو۔ واللہ اعلم۔
Top