Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - An-Nisaa : 93
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا
وَمَنْ
: اور جو کوئی
يَّقْتُلْ
: قتل کردے
مُؤْمِنًا
: کسی مسلمان کو
مُّتَعَمِّدًا
: دانستہ (قصداً )
فَجَزَآؤُهٗ
: تو اس کی سزا
جَهَنَّمُ
: جہنم
خٰلِدًا
: ہمیشہ رہے گا
فِيْھَا
: اس میں
وَغَضِبَ اللّٰهُ
: اور اللہ کا غضب
عَلَيْهِ
: اس پر
وَلَعَنَهٗ
: اور اس کی لعنت
وَاَعَدَّ لَهٗ
: اور اس کے لیے تیار کر رکھا ہے
عَذَابًا
: عذاب
عَظِيْمًا
: بڑا
اور جو شخص مسلمان کو قصدا مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے
آیت نمبر :
94
۔ اس میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر : (
1
) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن یقتل “ من شرطیہ ہے اور اس کا جواب (آیت) ” فجرآؤہ “ ہے، جان بوجھ کر قتل کرنے والے کی صفت کے بارے میں اختلاف ہے، عطا اور نخعی وغیرہما نے کہا : جس نے لوہے کے ساتھ قتل کیا جیسے تلوار، خنجر، نیزے کی انی اور اس قسم کی دوسری کوئی تیز چیز جو کاٹنے کے لیے تیار کی گئی ہو یا ایسی چیز جس کے متعلق معلوم ہو کہ اس کے استعمال میں موت ہے جیسے بھاری پتھر وغیرہ۔ ایک جماعت نے کہا : جان بوجھ کر قتل کرنے والا وہ ہے جس نے لوہے کے ساتھ قتل یا پتھر کے قتل کیا یا ڈنڈے کے ساتھ قتل کیا یا اس کے علاوہ کسی چیز کے ساتھ قتل کیا، یہ جمہور کا قول ہے۔ (
2
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
94
دارالکتب العلمیہ) ۔ مسئلہ نمبر : (
2
) اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں قتل عمد اور قتل خطا کا ذکر فرمایا اور شبہ العمد کا ذکر نہیں فرمایا : علماء کا اس کے بارے میں اختلاف ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : امام مالک (رح) نے اس کا انکار کیا، انہوں نے کہا : کتاب اللہ میں صرف عمد اور خطا کا ذکر ہے، خطابی نے بھی امام مالک (رح) سے یہ ذکر کیا اور یہ زائد ذکر کیا رہا شبہ عمد تو ہم اس کو نہیں جانتے، ابو عمر ؓ نے کہا : امام مالک اور لیث بن سعد نے شبہ العمد کا انکار کیا پس جو ان کے نزدیک ایسی چیز سے قتل کیا گیا جس کے ساتھ عام طور پر قتل نہیں کیا جاتا مثلا دانتوں سے کاٹا، طمانچہ مارا، کوڑ مارا، چھڑی ماری وغیرہ تو یہ عمد ہوگا اور اس میں قصاص ہوگا۔ ابو عمر نے کہا : ان دونوں کے قول کے موافق صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے جمہور فقہائے امصار کا یہ نظریہ ہے کہ یہ تمام صورتیں شبہ عمد کی نہیں، امام مالک (رح) سے یہ ذکر کیا گیا ہے اور یہ ابن وہب اور صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کا قول ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا : ہمارے نزدیک شبہ عمد پر عمل کیا جائے گا، جن علماء نے شبہ عمد کو ثابت کیا ہے ان میں شعبی، حکم، حماد، نخعی، قتادہ، سفیان ثوری، اہل عراق اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔ ہم نے یہ حضرت عمر بن خطاب ؓ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ صحیح ہے، خون کے سلسلہ میں احتیاط کرنی ضروری ہے، کیونکہ اصل یہ ہے کہ خون کی جلد میں حفاظت کی جائے، پس خون بہانا مباح نہیں مگر ایسی صورت میں جو بالکل واضح ہو جس میں کسی قسم کا اشکال نہ ہو اور صورت میں اشکال ہے، کیونکہ جب حکم عمد اور خطا میں متردد تھا تو اس کے لیے شبہ عمد کا حکم لگایا گیا، ضرب (مارنا) مقصود تھا، قتل مقصود نہیں تھا قتل بغیر ارادہ کے ہوا تھا، پس قصاص ساقط ہوگا اور دیت بھاری ہوگی۔ اسی کی مثال احادیث میں آئی ہے ابو داؤد نے حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” خبردار خطا کی دیت، شبۃ عمد جو کوڑے اور لاٹھی سے ہو سواونٹ ہیں جن میں چالیس، ایسی اونٹنیاں ہوں جن کے بطنوں میں بچے ہوں “ (
1
) (سنن ابی داؤد، کتاب الدیات، جلد
2
، صفحہ
269
) ۔ دارقطنی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قتل عمد میں قصاص ہے اور قتل خطا میں دیت ہے، اس میں قصاص نہیں، ہے اور جونا معلوم پتھریا ڈنڈے یا کوڑے سے قتل کیا گیا ہو تو وہ اونٹوں کی دیت مغلظہ ہے “۔ (
2
) ، (سنن دارقطنی، کتاب الحدود الدیات، جلد
3
، صفحہ
94
، حدیث نمبر
47
) سلیمان بن موسیٰ عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” شبۃ عمد کی دیت قتل عمد کی طرح مغلظ ہے، شبۃ عمد والے کو قتل نہیں کیا جائے گا “۔ (
3
) (ایضا، جلد
3
، صفحہ
95
، حدیث نمبر
53
) یہ نص ہے، طاؤوس نے اس شخص کے بارے میں کہا جو جنگ میں ڈنڈے، کوڑے یا پتھر کے ساتھ مارا گیا ہو تو اس کی دیت دی جائے گی، اور اس کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائیگا، اس لیے کہ معلوم نہیں اس کا قاتل کون ہے ؟ امام احمد بن حنبل نے کہا : العمیا وہ امرجس کا معاملہ پوشیدہ ہو اس کی وجہ معلوم نہ ہو، اسحاق نے کہا : یہ قوم میں تخارج (٭) (شرکاء کا جائیداد کو آپس میں تقسیم کرنا) اور بعض کو بعض نے قتل کی صورت میں ہوتا ہے اس کی اصل التعمیۃ “۔ (٭٭) (پوشیدہ رکھنا) سے ہے جس کا معنی تلبیس ہے یہ دارقطنی نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ : شبہ عمد کو تسلیم کرنے والوں کا دیت مغلظہ میں اختلاف ہے عطا اور امام شافعی، نے کہا : یہ تیس حقے، تیس جذعے اور چالیس خلفہ ہیں۔ یہ قول حضرت عمر، حضرت زید بن ثابت، حضرت مغیرہ بن شعبۃ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری کا ہے، یہ امام مالک کا مذہب ہے جب وہ شبہ عمد کا قول کرتے ہیں۔ اور امام مالک (رح) کا مشہور مذہب یہ ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا مگر مدلجی نے اپنے بیٹے کے ساتھ جو کچھ کیا اس جیسے مسئلے میں شبہ عمد کا قول کرتے ہیں جب اس نے اپنے بیٹے کو تلوار سے مارا، بعض علماء نے کہا : یہ چار قسم کے اونٹ ہوں گے چوتھائی بنات لبون، چوتھائی حقاق، چوتھائی جذاع اور چوتھائی بنات مخاض، یہ نعمان اور یعقوب کا قول ہے، ابو داؤد نے یہ سفیان عن ابی اسحاق عن عاصم بن ضمرہ عن علی کے سلسلہ سے ذکر کیا ہے، بعض نے فرمایا : یہ پانچ قسم کے اونٹ ہوں گے، بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون، بیس ابن لبون، بیس حقے اور بیس جذعے، یہ ابو ثور کا قول ہے۔ بعض نے فرمایا : چالیس جذعے بازل (٭) (بازل اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کی عمر آٹھ سال ہوچکی ہو اور نویں سال میں شروع ہوچکا ہو اس وقت اس کی طاقت مکمل ہوجاتی ہے اس کے بعد اسے بازل عام اور بازل عامین کہا جاتا ہے، نہایہ) عام تک، تیس حقے، تیس بنت لبون، یہ حضرت عثمان بن عفان ؓ سے مروی ہے، اور یہی حسن بصری، طاؤوس اور زہری رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے، بعض نے فرمایا : چونتیس خلفۃ بازل عما تک تینتیس حقے، تنتیس جذعے، اور یہی شعبی (رح) اور نخعی (رح) کا قول ہے، یہ ابو داؤد نے ابو الاحوص عن ابی اسحاق عن عاصم بن ضمرہ عن علی کے سلسلہ سے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
3
) ان میں اختلاف ہے جن میں شبہ عمد کی دیت لازم ہوتی ہے، حارث عکلی، ابن ابی لیلی، ابن شبرمہ، قتادہ اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : قتل کرنے والے پر اس کے مال میں ہوگی، شعبی، نخعی، حکم، امام شافعی، ثوری، امام احمد، اسحاق، رحمۃ اللہ علیہم اور اصحاب الرائے نے کہا : وہ عاقلہ پر وہ گی، ابن المنذر نے کہا : شعبی کا قول اصح ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے جنین کی دیت مارنے والی کے عاقلہ پر جاری کی تھی۔ مسئلہ نمبر : (
4
) علماء کا اجماع ہے کہ قتل عمد کی دیت عاقلہ پر نہ ہوگی بلکہ وہ مجرم کے مال میں ہوگی، سورة بقرہ میں اس کا ذکر گزر چکا ہے، علماء کا اجماع ہے کہ قتل خطا کرنے والے پر کفارہ ہے اور قتل عمد میں علماء کا اختلاف ہے، امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) کا نظریہ یہ ہے کہ قتل عمد والے پر اسی طرح کفارہ ہے جس طرح قتل خطا میں کفارہ ہے، امام شافعی (رح) نے فرمایا : قتل خطا میں جب کفارہ واجب ہے تو قتل عمد میں بدرجہ اولی واجب ہوگا، اور فرمایا : جب سہو میں سجدہ مشروع ہے تو عمد میں بدرجہ اولی مشروع ہوگا، جو اللہ تعالیٰ نے قتل عم میں ذکر فرمایا وہ قتل خطا میں جو واجب ہے اس کو ساقط کرنے والا نہیں۔ بعض علماء نے فرمایا : جان بوجھ کر قتل کرنے والے پر کفارہ نہ ہوگا جو اس کے مال سے لیا جائے گا، بعض علماء نے فرمایا : کفارہ واجب ہوگا، جس نے خود کشی کی اس پر کفارہ اس کے مال سے ہوگا، ثوری، ابو ثور، اور اصحاب الرائے رحمۃ اللہ علیہم نے کہا : کفارہ واجب نہ ہوگا، مگر وہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے کفارہ واجب کیا ہے، ابن المنذر (رح) نے کہا ؛ ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں کیونکہ کفارات عبادات ہیں اور تمثیل جائز نہیں اور کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی فرض اللہ کے بندوں پر لازم کر دے مگر کتاب اللہ یا سنت اجماع سے اور جنہوں نے عمدا قتل کرنے والے پر کفارہ لازم کیا ان کے پاس حجت نہیں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر : (
5
) اس جماعت کے بارے اختلاف ہے جنہوں نے خطاء ایک شخص کو قتل کردیا، ایک جماعت نے کہا : ہر ایک پر کفارہ ہوگا۔ حسن، عکرمہ، نخعی، حارث عکلی، امام مالک، ثوری، امام شافعی، امام احمد، اسحاق، ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم اور اصحاب الرائے نے بھی یہی کہا ہے۔ ایک طائفہ نے کہا : ان تمام پر ایک کفارہ ہوگا۔ ابو ثور نے یہی کہا ہے اوزاعی سے یہی حکایت کیا گیا ہے۔ زہری نے غلام آزاد کرنے اور روزہ رکھنے میں فرق کیا ہے، ایک جماعت کے بارے میں فرمایا : جو منجنیق پھینکتے ہیں اور ایک شخص کو قتل کر دیتیی ہیں، تمام پر ایک غلام آزاد کرنا ہوگا اور اگر وہ غلام نہ پائیں تو ہر ایک پر دو ماہ کے متواتر روزے ہوں گے۔ مسئلہ نمبر : (
6
) نسائی نے روایت کیا ہے ہمیں حسن ابن اسحاق المروزی نے بتایا وہ ثقہ ہے فرمایا، مجھے خالد بن خداش نے بتایا، انہوں نے فرمایا ہمیں حاتم بن اسماعیل نے بتایا، انہوں نے بشیر بن مہاجر سے روایت کیا، انہوں نے عبداللہ بن بریدہ ؓ سے روایت کیا، انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” مومن کا قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زوال دنیا سے بھی بڑا ہے “۔ حضرت عبداللہ ؓ سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” سب سے پہلے جس کا بندے سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے اور سب سے پہلے بندوں کے درمیان جس کا فیصلہ کیا جائے گا وہ خونوں کے متعلق ہوگا “۔ (
1
) (صحیح بخاری، باب القصاص، حدیث نمبر
6052
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، جامع ترمذی، باب ماجاء ان اول ما یحاسب بہ العبد الخ، حدیث نمبر
378
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اسماعیل بن اسحاق نے نافع بن جبیر بن مطعم سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک سائل نے ان سے کہا ؛ اے ابو العباس ! کیا قاتل کے لیے توبہ ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے اسے مسئلہ پر تعجب کرنے والے کی طرح کہا : تو کیا کہتا ہے ؟ دو یا تین مرتبہ کہا، پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : تجھ پر افسوس اس کے لیے توبہ کہاں ! میں نے نبی مکرم ﷺ کو یہ کہتے سنا ہے کہ ” مقتول آئے گا جب کے اس کا سر اس کے ایک ہاتھ میں لٹکا ہوا ہوگا وہ اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنے قاتل کو بلا رہا ہوگا، اس کی رگیں خون آلود ہوں گی حتی کہ دونوں روکے جائیں گے، مقتول اللہ تعالیٰ سے عرض کرے گا : اے رب ! اس نے مجھے قتل کیا اللہ تعالیٰ قاتل کو فرمائے گا : تو نیست ونابود ہو جائی پھر اسے آگ کی طرف لے جایا جائے گا “۔ حسن سے مروی ہے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” میں نے اپنے رب سے کسی چیز کے بارے اتنا سوال نہیں کیا جتنا کہ میں نے مومن کے قتل کے بارے میں کیا تو مجھے جواب نہ ملا “۔ مسئلہ نمبر : (
7
) جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کیا اس کے لیے توبہ ہے ؟ بخاری نے حضرت سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : اس میں اہل کوفہ نے اختلاف کیا پھر میں حضرت ابن عباس ؓ کے پاس گیا ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا : یہ آیت نازل ہوئی ہے : (آیت) ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزآؤ ہ جھنم “۔ یہ سب سے آخر میں نازل ہوا اور اسے کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا، نسائی نے حضرت ابن جبیر ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : میں نے حضرت ابن عباس سے پوچھا : کیا اس شخص کے لیے توبہ ہے جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرتا ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت مکی ہے ان پر سورة فرقان کی آیت
68
پڑھی : (آیت) ” والذین لا یدعون مع اللہ الھا اخر “۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : یہ آیت مکی ہے، اسے مدنی (آیت) ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزآؤ ہ جھنم خلدا فیھا وغضب اللہ علیہ “۔ نے منسوخ کیا ہے۔ زید بن ثابت سے اسی طرح روایت ہے اور سورة نساء کی آیت، سورة فرقان کی آیت سے چھ ماہ بعد نازل ہوئی اور ایک روایت میں آٹھ ماہ بعد نازل ہوئی، نسائی نے ان دونوں روایات کو حضرت زید بن ثابت سے روایت کیا ہے۔ حضرت زید اور حضرت ابن عباس ؓ سے مروی روایات کو دیکھ کر معتزلہ نے آیت کے عموم کا نظریہ قائم کیا ہے، انہوں نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : (آیت) ” ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء “۔ کے عموم کا مخصوص ہے، انہوں نے کہا کہ وعید ہر قاتل پر نافذ ہوگی انہوں نے دونوں آیتوں کو جمع کیا ہے کہ انہوں نے کہا : تقدیر عبارت اس طرح ہوگی، ” یغفر مادون ذالک لمن یشاء الا من قتل عمدا۔ علماء کی ایک جماعت جن میں حضرت عبداللہ بن عمر بھی ہیں، حضرت زید ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ سے بھی یہ مروی ہے، ان کا خیال ہے کہ قاتل کے لیے توبہ ہے، یزید بن ہارون نے کہا : ہمیں ابو مالک اشجعی نے بتایا انہوں نے سعد بن عبیدہ سے روایت کیا انہوں نے فرمایا : ایک شخص حضرت ابن عباس ؓ کے پاس آیا اور کہا : کیا جان بوجھ کر مومن کو قتل کرنے والے کے لیے توبہ ہے ؟ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : نہیں مگر آگ، جب وہ شخص چلا گیا تو حضرت ابن عباس ؓ سے ساتھیوں نے کہا : کیا آپ ہمیں اس طرح فتوی دیتے تھے تو آپ یہ فتوی دیتے تھے کہ قاتل کی توبہ قبول ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا میں اسے گمان کرتا تھا کہ یہ بہت غصہ میں ہے کسی مومن کو قتل کرنا چاہتا تھا، فرمایا : لوگ اس شخص کے پیچھے گئے تو انہوں اسے ویسا ہی پایا، یہ اہل السنت کا مذہب ہے اور یہ صحیح ہے، اور یہ آیت مخصوصہ ہے اور تخصیص کی دلیل آیات اور اخبار ہیں۔ علماء کا اجماع ہے کہ یہ آیت مقیس بن ضبانہ کے بارے میں نازل ہوئی ان کا واقعہ اس طرح ہے کہ وہ اور ان کا بھائی، ہسام بن ضبابہ مسلمان ہوئے، پھر مقیس نے اپنے بھائی ہشام کو بنی نجار میں مقول پایا، اس واقعہ کی خبر نبی مکرم ﷺ کو کی گئی تو آپ نے بنی نجار کو لکھا کہ ” اس کے بھائی کا قاتل اس کے حوالے کر دو “۔ اور آپ نے مقیس کے ساتھ ایک شخص کو بھیجا جس کا تعلق بنی فہر سے تھا، بنو النجار نے کہا : اللہ قسم ! ہم اس کا قاتل نہیں جانتے لیکن ہم دیت دیں گے، پس انہوں نے سو اونٹ دیت دیئے پھر وہ دونوں مدینہ طیبہ کی طرف لوٹ آئے، راستہ میں مقیس نے فہری شخص پر حملہ کر کے اسے اپنے بھائی کے قتل کے بدلے قتل کردیا، اور اونٹ لے لیے اور مرتد ہو کر مکہ چلا گیا اور وہ شعر پڑھتا تھا : قتلت بہ فھرا وحملت عقلہ سراۃ بنی النجار ارباب فارع : (
1
) (المحرر الوجیز، جلد
2
، صفحہ
95
دارالکتب العلمیہ) حللت بہ وتری وادرکت ثورتی وکنت الی الاوثان اول راجع : تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اسے حل وحرم میں امن نہیں دیتا “ (
2
) (احکام القرآن للطبری، جلد
5
، صفحہ
257
) آپ ﷺ نے فتح مکہ کے دن اس کے قتل کا حکم دیا جب کہ وہ کعبہ کے ساتھ متعلق تھا، جب اہل تفسیر اور علماء دین کی نقل سے یہ ثابت ہے تو اسے مسلمانوں پر محمول کرنا مناسب نہیں پھر اس آیت کے ظاہر کو (آیت) ” ان الحسنت یذھبن السیات “۔ (ہود :
114
) اور (آیت) ” وھو الذی یقبل التوبۃ عن عبادہ “۔ (الشوری :
25
) اور (آیت) ” ویغفر مادون ذلک لمن یشآئ “۔ کے ظاہر کو لینے سے اولی نہیں ہے، ان دونوں آیات کے ظاہر کو لینے میں تناقص ہے، پس تخصیص ضروری ہے پھر سورة فرقان کی آیت اور اس آیت کو جمع کرنا ممکن ہے، نہ نسخ ہے اور نہ تعارض ہے، سورة نساء کی مطلق آیت کو سورة فرقان کی مقید آیت پر محمول کیا جائے گا معنی یہ ہوگا کہ اس کی جزا یہ ہے کہ مگر جو توبہ کرلیے خصوصا جب کہ موجب یعنی قتل اور موجب یعنی عقاب کی دھمکی متحد ہیں، رہی تو وہ بہت سی ہیں جیسے حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی حدیث جس میں فرمایا : ” تم میری بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے اور نہ زنا کرو گے اور نہ چوری کرو گے اور نہ اس نفس کو قتل نہیں کروں گے جس کو قتل کرنا اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ، جو تم میں سے ان احکام کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اور جو ان باتوں میں سے کسی کا ارتکاب کرے گا اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، اگر وہ چاہے گا تو اسے معاف کردے گا، اگر چاہے گا تو اسے عذاب دے گا “۔ (
1
) (صحیح مسلم، کتاب الحدود، جلد
2
صفحہ
73
، صحیح بخاری، حدیث نمبر
17
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس حدیث کو ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے اس کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے، جیسے حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث جو نبی کریم ﷺ سے اس شخص کے بارے مروی ہے جس نے سو آدمیوں کو قتل کیا تھا، اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں، ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔ (
2
) (ابن ماجہ باب ھل لقاتل المؤمن توبۃ، حدیث نمبر
2611
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اس کے علاوہ بھی اخبار ثابت ہیں پھر ہمارے ساتھ ان کا اس شخص کے بارے میں اجماع ہے جس کے خلاف قتل کی گواہی دی گئی اور وہ اقرار کرتا ہو کہ اس نے جان بوجھ کر قتل کیا ہے، پھر اس کے اولیاء سلطان کے پاس آئیں اور اس پر حد قائم کی جائے اور قصاصا قتل کیا جائے تو آخرت میں اس کا پیچھا نہیں کیا جائے گا، حضرت عبادہ ؓ کی حدیث کے مقتضی پر بالاجماع اس پر وعید نافذ نہ ہوگی، تو انہوں نے (آیت) ” ومن یقتل مؤمنا متعمدا “۔ کے عموم سے جو عمارت تعمیر کی تھی وہ ان پر ٹوٹ گئی اور جو ہم نے ذکر کیا اس کے ساتھ تخصیص داخل ہوگئی، جب معاملہ اس طرح ہے تو معلوم ہوا کہ یہ آیت مخصوص ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا یا یہ اس قول پر محمول سمجھنے والا ہے، یہ بالاجماع کفر کی طرف لوٹتا ہے، ایک جماعت نے کہا : قاتل کا معاملہ مشیت الہی کے سپرد ہے خواہ وہ توبہ کرے یا نہ کرے، یہ امام ابوحنیفہ (رح) اور ان کے مسلک ہے، اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد : (آیت) ” فجزآؤہ جھنم خلدا فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ “۔ یہ اس کے کفر پر دلیل ہے، اللہ تعالیٰ غضب نہیں فرماتا مگر کافر پر جو ایمان سے خارج ہوتا ہے، ہم اس کے جواب میں کہیں گے یہ وعید ہے اور وعید میں خلف کرم ہے جس طرح کہ شاعر نے کہا : وانی متی اوعدتہ اوعدتہ لمخلف ایعادی ومنجز موعدی : یہ پہلے گزر چکا ہے، دوسرا جواب یہ ہے اگر وہ اسے یہ جزا دے یعنی وہ اپنے بڑے گناہ کی وجہ سے اس گناہ کا مستحق اور سزاوار ہے، ابو مجلز لاحق بن حمید اور ابو صالح وغیرہما نے اس پر نص قائم کی ہے۔ حضرت انس بن مالک ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” جب اللہ تعالیٰ بندے کے لیے ثواب کا وعدہ فرماتا ہے تو وہ اسے پورا کرتا ہے اور اگر اس کے لیے عقوبت مقرر فرماتا ہے تو اس کے لیے مشیت ہے اگر چاہے گا تو اسے عتاب دے گا اور اگر چاہے گا تو اسے معاف کر دے گا “۔ ان دونوں تاویلوں میں نظر ہے رہی پہلی تاویل، قشیری نے کہا : اس میں نظر ہے، کیونکہ رب تعالیٰ کا کلام خلف کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ اس سے عام کی تخصیص مراد لی جائے اور یہ کلام میں جائز ہے اور رہی دوسری تاویل ،۔ اگرچہ روایت کیا گیا ہے کہ یہ مرفوع ہے۔ نحاس نے کہا : اس میں غلطی واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ذلک جزآؤھم جھنم بما کفروا “۔ (کہف :
106
) کسی نے یہ نہیں کہا : ان جازاھم (اگر وہ انہیں جزا دے گا) یہ عربی جاننے میں خطا ہے، کیونکہ اس کے بعد (آیت) ” غضب اللہ علیہ “۔ ہے وہ جازاہ کے معنی پر محمول ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ اس کی جزا جہنم ہے اگر وہ توبہ نہ کرے اور گناہ پر اصرار کرے حتی کہ وہ اپنے رب سے معاصی کی نحوست کے ساتھ کفر پر ملاقات کرے، ہبۃ اللہ نے اپنی کتاب ” الناسخ والمنسوخ “ میں ذکر کیا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے اور اس کی ناسخ (آیت) ” ویغفر مادون ذلک لمن یشآء “۔ ہے اور فرمایا : اس پر لوگوں کا اجماع ہے مگر حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت ابن عمر ؓ نے کہا یہ آیت محکمۃ ہے، ہبۃ اللہ کے قول میں نظر ہے، کیونکہ یہ عموم اور تخصیص کا مقام ہے، نہ کہ نسخ کا مقام۔ یہ ابن عطیہ کا قول ہے : (
1
) (المحرر الوجیز، زیر آیت ہذہ) میں کہتا ہوں : یہ حسن ہے، کیونکہ نسخ اخبار میں نہیں ہوتا معنی یہ ہے کہ وہ اسے جزا دے گا۔ نحاس نے ” معانی القرآن “ میں کہا : علماء اہل نظر کے نزدیک یہ حکم محکم ہے وہ جزا دے گا جب وہ توبہ نہیں کرے گا۔ اگر وہ توبہ کرے گا تو اسکا حکم بیان کردیا۔ (آیت) ” وانی لغفار لمن تاب “۔ (طہ :
82
) پس قاتل اس سے خارج نہیں ہے الخلود دوام پر دلالت نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” وما جعلنا لبشر من قبلک الخلد “۔ (الانبیائ :
34
) اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” یحسب ان مالہ اخلدہ۔ “۔ (الہمزہ :
3
) زہیر نے کہا : ولا خالد الاا لجبال الرواسیا : یہ تمام شواہد دلالت کرتے ہیں کہ خلد کا لفظ تابید کے معنی کے علاوہ پر بھی بولا جاتا ہے، کیونکہ پہاڑ بھی اور مال بھی دنیا کے زوال کے ساتھ زائل ہوجائیں گے اسی طرح عرب کہتے ہیں : لاخلدن فلانا فی السجن (میں فلاں کو ہمیشہ قید خانہ میں رکھوں گا) السجن ختم ہوجائے گی اور فنا ہوجائے گی اسی طرح مسجون بھی، اس کی مثل دعا میں ہے : خلد اللہ ملکہ وابد ایامہ، یہ لفظ اور معنی تمام گزر چکے ہیں۔
Top