Al-Qurtubi - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں گے اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں۔
آیت نمبر 9۔ اس آیت میں دو مسئلے ہیں : مسئلہ نمبر : (1) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” والیخش “۔ لیخش سے الف حذف کیا گیا ہے لام امر کی وجہ سے جزم ہونے کی وجہ سے اور سیبویہ کے نزدیک لام امر کا اضمار حروف جر پر قیاس کرتے ہوئے جائز نہیں مگر ضرورت شعری کے لیے جائز ہے۔ اور کو فیوں نے جزم کے ساتھ لام کے حذف کو جائز قرار دیا ہے اور تمام نے یہ شعر پڑھا ہے : محمد تفد نفسک کل نفس اذا ما خفت من شئی تبالا، اے پیارے محمد ! ہر نفس کو تیری ذات پر فدا ہونا چاہیے جب آپ کسی چیز سے اندیشہ محسوس کریں۔ اس شعر میں تفد سے مراد لتفد لیا ہے، اور یخش کا معفول، دلالت کلام کی وجہ سے محذوف ہے اور خافوا لو کا جواب ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے لو ترکوا الخافوا “۔ لو کے جواب میں لام کا حذف جائز ہے اور اس آیت کی تاویل میں علماء کا اختلاف ہے، ایک طائفہ نے کہا : یہ اوصیاء کے لیے وعظ ہے یعنی تم یتیموں کے ساتھ وہی سلوک کرو جو تم کو پسند کرتے ہو کہ تمہاری اولاد کے ساتھ تمہارے بعد کیا جائے، یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما “۔ اور ایک طائفہ نے کہا : اس سے مراد تمام لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں یتیموں اور لوگوں کی اولاد کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا ہے اس وجہ سے شیبانی نے حکایت کیا ہے کہ ہم قسطنطینہ پر مسلمہ بن عبد الملک کے لشکر میں تھے ہم ایک دن اہل علم کی ایک جماعت میں بیٹھے تھے ان میں ابن الدیلمی بھی تھے آخری زمانہ کی ہولناکیوں کا ذکر ہوا میں نے ابن الدیلمی سے کہا : اے ابو بشر ! میری خواہش ہے کہ میری اولاد نہ ہو، اس نے مجھے کہا : یہ تیرے ذمہ نہیں ہے جس شخص سے جس روح کے پیدا کرنے اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما رکھا ہے وہ ضرور پیدا ہوگی خواہ وہ پسند کرے یا ناپسند کرے، لیکن اگر تو ان پر امن کا خواہش مند ہے تو دوسروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ایک روایت میں ہے انہوں نے فرمایا : کیا میں تیری ایسے امر پر دلالت نہ کروں کہ تو اگر اس سے دو چار ہوگا تو اللہ تعالیٰ تجھے اس سے نجات عطا فرمائے گا اور اگر تو اپنے بعد اولاد چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ان کی حفاظت فرمائے گا ؟ میں نے کہا : ضرور بتائیے، تو انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ” ولیخش الذین لو ترکوا “۔ الخل (1) (تفسری طبری، جلد 6، صفحہ 452) میں کہتا ہوں : یہی معنی محمد بن کعب القرظی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا : ” جو اچھا صدقہ کرے گا وہ پل صراط سے گزر جائے گا اور جو کسی بیوہ کی ضرورت پوری کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے باقی ماندہ لوگوں کے لیے بہتر خلیفہ بنا دے گا “۔ (2) (حلیۃ الاولیاء جلد 3، صفحہ 220) تیسرا قول وہ ہے جو اکثر مفسرین کا ہے یہ اس شخص کے بارے میں ہے جس پر موت آتی ہے تو وہ اپنی وصیت کے وقت پاس موجود آدمی کو کہتا ہے : اللہ تعالیٰ تجھے اولاد عطا فرمائے گا تو اپنے لئے اس کا خیال رکھنا، اپنے مال کی اللہ کے راستہ میں وصیت کر اور صدقہ کر اور غلام آزاد کر حتی کہ وہ اپنے عام مال پر پہنچ جاتا ہے یا اس کو وصیت کے ساتھ گھیر لیتا ہے پھر وہ اپنے ورثاء کو نقصان پہنچاتا ہے پس انہوں نے اس سے منع کیا گیا گویا یہ آیت انہیں کہہ رہی ہے کہ جس طرح تم اپنے ورثاء اور اپنی اولاد کے بارے میں اپنے بعد خوف کرتے ہو اسی طرح اپنے غیر کے ورثاء پر خوف کرو اسے مال میں فضول خرچی پر نہ ابھارو۔ یہ حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت قتادہ ؓ سدی ؓ ، ابن جبیر، ؓ ضحاک اور مجاہد کا قول ہے، سعید بن جبیر ؓ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : جب آدمی وصیت کیی وقت حاضر ہو تو اسے یہ کہنا مناسب نہیں کہ وہ مرنے والے کو کہے کہ تو اپنے مال کی وصیت کر اللہ تعالیٰ تیری اولاد کا رازق ہے لیکن وہ کہ کہے کہ تو اپنے نفس کے لیے نیک اعمال آگے بھیج اور اپنی اولاد کے لیے (کچھ) چھوڑ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” فلیتقوا اللہ “۔ سے یہی مراد ہے مقسم اور حضرمی نے کہا : یہ آیت اس کے برعکس میں نازل ہوئی ہے وہ یہ مرنے والے کے قریب موجود شخص اسے کہے کہ اپنے ورثاء کے لئے مال محفوظ کرلے اور اپنے بچوں کے لئے باقی رکھ کوئی دوسرا تیرے مال کا تیری اولاد سے زیادہ حق دار نہیں ہے اور وہ اسے لیے مال محفوظ کرلے اور اپنے بچوں کے لیے باقی رکھ کوئی دوسرا تیرے مال کا تیری اولاد سے زیادہ حق دار نہیں ہے اور وہ اسے وصیت سے منع کرے پس اس سے قریبی رشتہ داروں اور ہر شخص کو نقصان ہوگا جس کے لیے وصیت کرنے کا حق ہے انہیں کہا گیا کہ جس طرح تم اپنی اولاد کے متعلق خوف کھاتے ہو اور خوش ہوتے ہو کہ ان سے اچھا سلوک ہو، پس اسی طرح مساکین، یتامی کی جہت سے بھی اچھی بات کرو اور ان کو نقصان پہنچانے میں اللہ سے ڈرو، یہ دونوں قول آیت میراث کے نزول سے پہلے وصیت کے وجوب کے وقت پر مبنی ہیں یہ سعید بن جبیر ؓ اور ابن مسیب ؓ سے مروی ہے، ابن عطیہ (رح) نے کہا : یہ دونوں قول تمام لوگوں میں عام نہیں ہیں بلکہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں ایک صنف کے لیے ایک قول بہتر ہے اور دوسری صنف کے لیے دوسرا قول بہتر ہے، یہ اس طرح ہے کہ آدمی جب ایسے ورثاء چھوڑ جائے جو خود کفیل ہوں غنی ہوں تو پھر اسے وصیت کی طرف بلانا قول بہتر ہے، یہ اس طرح ہے کہ آدمی جب ایسے ورثاء چھوڑ جائے جو خود کفیل ہوں، غنی ہوں تو پھر اسے وصیت کی طرف بلانا چاہیے اور اپنے لیے آگے بھیجنے پر ابھارنا چاہیے اور جب ایسے ورثاء چھوڑے جو ضعیف اور کمزور ہوں اور مفلس ہوں تو ان کے لئے مال چھوڑے اور احتیاط کرنے کی طرف بلانا بہتر ہے، کیونکہ اس ارادہ میں بھی اس کا اجر مساکین کو مال دینے کی اجر کی طرح ہے اور رعایت کا دارومدار ضعف اور کمزوری ہے پس اس کے ساتھ میلان واجب ہے۔ میں کہتا ہوں ؛ یہ تفصیل صحیح ہے، کیونکہ نبی مکرم ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو فرمایا تھا : ” تو اپنے ورثاء کو غنی چھوڑے تو یہ انہیں غریب چھوڑنے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہیں ‘۔ (2) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 14) اگر انسان کی اولاد نہ ہو یا وہ غنی اور خود کفیل ہو اور اس کا مال اس کے باپ کی طرف سے ہو اور اس پر اسے امن ہے تو اس وقت انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے مال کو آخرت کے ذخیرہ کے لیے آگے بھیجے تاکہ اس کے بعد اد کی اولاد اس کے بعد برے کاموں میں خرچ نہ کرے اور پھر وہ اس پر بوجھ ہو۔ مسئلہ نمبر : (2) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ولیقولوا قولا سدیدا “۔ السدید کا معنی ہے عدل پر مبنی اور درست قول۔ یعنی مریض کو حکم دو کہ وہ اپنے مال سے واجبی حقوق ادا کرے پھر اپنے قریبی رشتہ داروں کے لیے اتنی مقدار وصیت کرے جس کی وجہ سے چھوٹے ورثاء کو نقصان نہ پہنچے، بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے میت کو عدل پر مبنی قول کہو، وہ یہ ہے کہ اسے ” لا اللہ الا اللہ “۔ کی تلقین کرے اور اسے اس کے پڑھنے کا حکم نہ کرے، بلکہ آہستہ آہستہ خود پڑھے تاکہ وہ سن لے اور اسے تلقین کرے اس طرح نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : اپنے قریب المرغ لوگوں کو ” لا الہ الا اللہ “۔ کی تلقین کرو اور آپ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ انہیں کلمہ پڑھنے کا حکم دو ، کیونکہ اگر اس کا اسے حکم دیا گیا تو وہ سکتا ہے وہ غصہ میں آجائے اور اس کا انکار کر دے، بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد یتیم ہے یعنی اسے نہ جھڑکو اور نہ اسے حقیر سمجھو۔
Top