Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 17
وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌ
وَاِذَا بُشِّرَ : حالانکہ جب خوش خبری دی جاتی ہے اَحَدُهُمْ : ان میں سے کسی ایک کو بِمَا : ساتھ اس کے جو ضَرَبَ للرَّحْمٰنِ : اس نے بیان کیا رحمن کے لیے مَثَلًا : مثال ظَلَّ : ہوجاتا ہے وَجْهُهٗ : اس کا چہرا مُسْوَدًّا : سیاہ وَّهُوَ كَظِيْمٌ : اور وہ غم کے گھونٹ پینے والا ہوتا
حالانکہ جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی خوش خبری دی جاتی ہے جو انہوں نے خدا کے لئے بیان کی ہے تو اس کا منہ سیاہ ہوجاتا اور وہ غم سے بھر جاتا ہے
واذابشر احدھم بما ضرب للرحمن مثلا ظل و ضھہ مسود اوھو کظیم۔ ” اور جب اطلاع دی جاتی ہے ان میں سے کسی کو اس کی جس کی نسبت اس نے رحمن کی طرف کی ہے تو اس کا چہرہ (فرط رنج سے) سیاہ ہوجاتا ہے اور اس کا دل غم سے بھر جاتا ہے “۔ واذابشر احدھم بما ضرب للرحمن مثلا یعنی اس کی بیٹی پیدا ہوئی تو اسکا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کی یہ صورت حال اس لیے ہوتی ہے کہ اس نے جو مثال بیان کی تھی وہ باطل ہوچکی ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اسے بچی کی جو بشارت دی گئی ہے اس کی یہ حالت ہوگئی ہے اس کی دلیل سورة نحل میں موجود ہے واذابشر احدہم بالانثی ان کی حالت یہ ہے کہ جب ان میں سے ایک کو یہ کہا جاتا ہے کہ اس کی بچی پیدا ہوئی ہے تو وہ غمگین ہوجاتا ہے اور اس کا چہرہ غصے اور افسوس سے سیاہ ہوجاتا ہے جبکہ وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ ایک عرب کے بارے میں یہ مروی ہے کہ اس کی عورت نے بچی جنی تو اس نے اس گھر کو چھوڑ دیا جس میں اس کی بیوی تھی تو اس عورت نے کہا : ما لابی حمزہ لایاتینا یظل فی البیت الذی یلینا غضبان الاتلد البنینا وانما نخذ ما اعینا (1) ابو حمزہ کو کیا ہوگیا ہے وہ ہمارے پاس نہیں آتا اور اس گھر میں رہتا ہے جو ہمارے پڑوس میں ہے۔ وہ ناراض ہے کہ ہم بیٹوں کو کیوں نہیں جنتیں ہم تو وہی کچھ لیتی ہیں جو کچھ ہمیں عطا کیا گیا ہے۔ اسے مسود ” اور مسواد “ بھی پڑھا گیا ہے۔ جماعت کی قراءت کے مطابق وجھہ یہ ظل کا اہم ہے اور مسودا اس کی خبر ہے () ۔ یہ بھی جائز ہے کہ وجھہ ‘ مبتدا ہونے کی حیثیت سے مرفوع ہو اور مسودا کو رفع اس لیے دیا جائے کہ یہ اس کی خبر ہو۔ ظل میں اس کا اہم ہو اور جملہ اس کی خبر ہو کظیم کا معنی ہے غمگن (2): یہ قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس معنی مکروب ہے : یہ عکرمہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ خاموش ہے : یہ ابن ابی حاتم کا قول ہے (1) ، یہ سب کچھ اس کی مثل کے باطل ہونے اور دلیل کے باطل ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس نے اس افر کو جائز قرار دیا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں تو اس نے ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کا مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ بچہ اپنے والد کی جنس اور اسکے مشابہ ہوا کرتا ہے جس آدمی کا چہرہ اس لیے سیاہ ہوتا ہے کہ اس کی طرف اسے منسوب کیا جائے جو اس سے بھی جلیل الشان ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو منسوب کرنا کیسا ہوگا ؟ اس آیت کی وضاحت میں سورة نحل میں ایسی بحث گذر چکی ہے جو کافی وشافی ہے۔
Top