Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 35
وَ زُخْرُفًا١ؕ وَ اِنْ كُلُّ ذٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَزُخْرُفًا : اور سونے کے وَاِنْ كُلُّ : اور بیشک سب ذٰلِكَ : سامان ہے لَمَّا : اگرچہ مَتَاعُ : سامان ہے الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی کا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے ہاں لِلْمُتَّقِيْنَ : متقی لوگوں کے لیے ہے
اور (خوب) تجمل و آرائش (کر دیتے) اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے اور آخرت تمہارے پروردگار کے ہاں پرہیزگاروں کے لئے ہے
وزحرفاً یہاں زخرف سے مراد سونا ہے (1) حضرت ابن عباس اور دوسرے علماء سے مروی ہے اویکون لک بیت من زخرف یہ بحث پہلے گذر چکی ہے۔ ابن زید نے کہا، اس سے مراد وہ سامان ہے جو لوگ اپنے گھروں میں رکھتے ہیں (2) حضرت حسن بصری نے کہا، اس سے مراد نقوش ہیں (3) اس کا اصل معنی زینت ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے : زخرفت الدار۔ میں نے گھر کو مزید کیا تزحرف فلان۔ فلاں مزین ہوا۔ زخرفاً کو نصب اس لئے دی گئی کہ اس کی تعبیر یوں ہے وجعلنا لھم مع ذلک زخرفا اس کے ساتھ ساتھ ہم نے ان کے لئے زینت بنا دی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، یہ حرف جار کے حذف کے ساتھ منصوب ہے معنی ہے ہم نے ان کے لئے چھت، دروازے، سونے اور چاندی کے پلنگ بنائے جب من کو حذف کیا تو کہا وزخرفاً تو اسے نصب دی گی۔ و ان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا عاصم، حمزہ اور ہشام نے ابن عامر سے ان شدید کے ساتھ پڑھا جبکہ باقی قراء نے اسے مخفف پڑھا یہ بحث بھی ذکر کی جا چکی ہے۔ ابو رجاء سے لما کے لام کو م کسور نقل کیا یا اس کے نزدیک ما، الذی کے معنی میں ہے اس کی ضمیر عائد محذوف ہے تقدیر کلام یوں ہے ان کل ذلک الذی ھو متاع الحیاۃ الدنیا یہاں سے ضمیر کو حذف کردیا گیا ہے جس طرح اسے حذف کیا گیا ہے اس کی قرأت کے مطباق جس نے قرأت کی مثلاً مابعوضۃ فما فوقھا (البقرہ : 26) تماما علی الذی احسن (الانعام : 154) ابوالفتح نے کہا کہ اس قرأت کی بنا پر لک مصنبو ہے کیونکہ ان مشقلہ سے مخففہ ہے جب اسے مخفف کردیا جائے اور اس کا عمل باطل ہوجائے تو کلام کے آخر میں لام لازم ہوتا ہے تاکہ اس کے اور ان نافیہ میں فرق ہوجائے جو ما کے معنی میں ہوتا ہے جس طرح ان زیدلقائم یہاں لام جارہ کے سوا کوئی لام نہیں۔ والاخرۃ عند ربک المتقین۔ یعنی جو متقی بنتا ہے اور خوف کھاتا ہے اس کے لئے جنت ہے۔ کعب نے کہا، میں اللہ تعالیٰ کی نزل کتب میں سے بعض میں پاتا ہوں لولا ان یحزن عبدالمومن لکلت راس عبدی الکافر بالا کفیل والا یتصدع ولاینبض منہ عرق بوجع اگر یہ نہ ہوتا کہ میرا مومن بندہ غمگین ہوگا تو میں اپنے کافر بندے کے سر پر تاج پہنا تا اس کو سر درد نہ ہوتا اور نہ ہی درد کی وجہ سے اس کا پسینہ پھوٹتا۔ صحیح ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : الدین سجن المومن وجنۃ الکافر ” دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے۔ “ (4) سہل بن سعد سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لومنت الدنیا تعدل عند اللہ جناح بعوض ما سقی کافرامنھا شربۃ ماء ” اگر دنیا اللہ تعالیٰ کے ہاں مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کافر پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پیتا “ (5) اس باب میں حضرت ابوہریرہ سے مروی روایت ہے کہا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ لوگوں نے یہ اشعار پڑھے : فلو کا نت الدنیا جزاء لمحسن اذالم یکن فیھا معاش لظالم لقد جاع فیھا الانبیاء کر امۃ وقد شبعت فیھا بطون البھائم اگر دنیا محسن کی جزا ہوتی تو اس میں ظلم کی زندگی کا وجود ہی نہ ہوتا اس میں انبیاء کرامت کے باوجود بھوکے رہے اور چوپائوں کے پیٹ سیر ہوئے۔ ایک اور شاعر نے کہا : تمتع من الآیام ان کنت حازما فانک فیھا بین ناہ و آمر تو اگر محتاج ہے تو ان ایام سے تھوڑا سا لطف اٹھا لے بیشک تو اس میں روکنے والے اور حکم دینے والے کے درمیان ہے۔ اذا ابقت الدنیا علی المرء دینہ فما فاتہ فیھا فلس بضائر جب دنیا انسان پر اس کا دین باقی رکھے تو جو چیز اس سے فوت ہوئی وہ اس کو نقصان دینے والی نہیں۔ فلاتزن الدنیا جناح بعوضۃ ولا وزن رق من جناح لطائر دنیا کا وزن مچھر کے پر سے نہ کر اور نہ ہی پرندے کے بازو کے ایک پر سے۔ فلم یرض بل دنیا ثوابا لمحسن ولا رضی الدنیا عقا بالکافر وہ محسن کو دنیا کے ساتھ بدلہ دینے پر راضی نہیں اور نہ ہی کافر کو سزا دینے پر دنیا سے راضی ہے۔
Top