Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 36
وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَهٗ شَیْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِیْنٌ
وَمَنْ : اور جو يَّعْشُ : غفلت برتتا ہے۔ اندھا بنتا ہے عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے ذکر سے نُقَيِّضْ : ہم مقرر کردیتے ہیں لَهٗ : اس کے لیے شَيْطٰنًا : ایک شیطان فَهُوَ لَهٗ : تو وہ اس کا قَرِيْنٌ : دوست ہوجاتا ہے
اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کرلے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہوجاتا ہے۔
ومن یعش عن ذکر الرحمٰن نقص لہ شیطناً فھولہ قرین۔ حضرت ابن عباس اور عکرمہ نے ومن یعش پڑھا ہے (1) اس کا معنی اندھا ہونا ہے اسی معنی میں ہے عشق یعشی عشا جب وہ اندھا ہو، رجل اعشق، امراۃ عشواء جب وہ دیکھتا نہ ہو اس معنی میں اعشی کا قول ہے : رات رجلاً غائب الوافدین مختلف الخلق اعشق ضریرا اس نے ایک ایسا آدی دیکھا جس کے ساتطھ جا چکے تھے شکل و صورت بڑی عیجب اور وہ اندھا تھا۔ باقی قرئا نے اسے ضمہ کے ساتھ پڑھا ہے یہ عشایعشو سے مشتق ہے جب اسے ایصا عارضہ لاحق ہو جو اندھے کو لاحق ہوتا ہے خلیل نے کہا : عشو سے مراد کمزور نظر دیھکنا (1) : اور یہ شعر پڑھا : متی تاتہ تغشو الی ضو نارہ تجد خیر نار عندھا خیر موقد (2) ایک اور شاعر نے کہا : لنعم الفتی یعشو الی ضو نارہ اذا الریح ھبت والمکان جدیب وہ کتنا اچھا نوجوان ہے جو اپنی اگٓ کی روشنی کی طرف لڑکھڑاتے ہوئے جاتا ہے جب کہ ہوا چل رہی ہے اور مکان چنیل ہے۔ جوہری نے کہا : عشق الق مقصورہ کے ساتھ اعشی کا مصدر ہے یہ اس شخص کو کہتے ہیں جو رات کو نہیں دیکھ سکتا وہ صرف دن کو دیکھتا ہے اس کے یہ صیغے استعمال ہوتے ہیں امراۃ عشوائ، امراتان عشواوان، اعشاہ اللہ فعشی یعشی عشی۔ ھما یعشیان وہ یہ نہیں کہتے یشموان کیونکہ وائو جب واحد کے صیغہ میں ماقبل کے کسرہ کی وجہ سے یاء ہوجائے تو تنثنیہ کے صیغہ میں اپنی حالت پر رہتی ہے تعاشی جب وہ اپنے بارے میں یہ ظاہر کرے کہ وہ اندھا ہے اعشی کا اسم منسبو اعشری آتا ہے اور عشیہ کا اسم نسوب عشوی آتا ہے عشواء اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو سامنے نہ دیکھ سکے تو وہ بےہنگم اپنے پائوں ہر چیز پر مارتی ہے رکب فلان العشواء جب وہ اپنیی معاملہ میں سوچے سمجھے بغیر شروع ہوگیا۔ فلان خابط خبط عشواء فلاں آمی اندھی اونٹنی کی طرح ٹامک ٹوٹیاں مار رہا ہے۔ یہ آیت سورت کے آغاز افنضرب عنکم الذکر صفحاً کے ساتھ متصل ہے یعنی سہم تمہارے لئے پے در پے ذکر کرتے ہیں جو آدمی اس ذکر سے اندھا بنا رہتا ہے کہ اس سے اعرضا کرتا ہے اور گمراہوں اور باطل لوگوں کے اقوال کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے کفر کی جزا کے طور پر ہم ایک شیطان اس پر سملط کردیتے ہیں فھولہ قرین وہی اس کا ساتھی ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، یہ دنیا میں ایسا ہوتا ہے جو حلال چیز سے اسے روکتا ہے اور حرام چیز پر اسے برانگیختہ کترا ہے اسے اطاعت سے منع کرتا ہے اور اسے معصیت کا حکم دیتا ہے، حضرت ابن عباس کے قول کا یہی معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گا ہے : یہ آخرت میں سے ہوگا جب وہ اپنی قبر میں سے اٹھے گا، یہ حضرت سعید بن جبیر کا قول ہے حدیث طیبہ میں ہے ” کافر جب اپنی قبر سے نکلتا ہے تو ایک شیطان اس کے ساتھ ہو لیتا ہے وہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے یہاں تک کہ وہ دونوں جہنم میں داخل ہو اجتے ہیں اور مومن کا ساتھی فرشتہ بنا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ ‘ یہ مہدوی نے ذکر کیا ہے۔ قشیری نے کہا، صحیح یہ کہ وہ شیطان دنیا اور آخرت میں اس کا ساتھی ہوتا ہے۔ ابو ہیثم اور ازہری نے کہا، عشوت الی کذا۔ میں نے اس کا قصد کیا۔ عشوت عن کذا میں نے اس سے اعراض کیا الی اور عن صلہ کی وجہ سے معنی میں فرق ہوگا جس طرح ملت الیہ اور ملت عنہ میں فرق ہے۔ قتادہ نے بھی اسی طرح کہا ہے یعش یعنی وہ اعراض کرتا ہے، یہ فرئا کا قول ہے نحاس نے کہا، یہ لغت میں معروف نہیں۔ قرظی نے کہا، وہ اپنی کمر کو دہرا کرتا ہے۔ معنی ایک ہی ہے۔ ابوعبیدہ اور اخفش نے کہا، اس کی آنکھ تاریک ہوجاتی ہے۔ عتبی نے اس کا انکار کیا ہے کہ عشوت، اعرضیت کے معنی میں ہے کہا درست تعاشیت ہے یہ قول، ابوہیثم اور ازہری کا ہے تمام اہل علم نے یہی کہا ہے، سلمی، ابن اسحاق، یعقوب اور عصمہ نے عاصم اور اعمش سے یقیض پڑھا ہے کیونکہ الرحمٰن کا ذکر ہے معنی ہوگا رحمٰن اس کے لئے شیطان مسلط کردیتا ہے باقی فراء نے اسے نون کے ساتھ پڑھا ہ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے : نقض لہ شیطنا فھولہ قرین۔ قرین کا معنی ساتھ رہنے والا اور ساتھی ہے۔ ایکق ول یہ کیا گیا ہے کہ یہ شیطان سے کنایہ ہے جس طرح پہلے گذر چکا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ اعراض عن القرآن سے کنایہ ہے یعنی وہ شیطان کا قرین ہے وانھم لیدونھم عن السبیل شایطین انہیں ہدایت کے راستہ سے روکتے ہیں یہاں جمع کا صیغہ ذکر کیا کیونکہ ومن یغش میں من جمع کے معنی میں ہے یوحسبون وائو ضمیر سے مراد کفار ہیں یعنی کفار گمان کرتے ہیں کہ وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ کفار یہ گمان کرتے ہیں کہ شیاطین ہدایت یافتہ ہیں پس کفار ان کی اطاعت کرتے ہیں حقی اذا جآء نا فعل کا صیغہ واحد ہے۔ ابو عمرو، حمزہ، کسائی اور حفص نے یہ پڑھا ہے یعنی جب کافر قیامت کے روز ہمارے پاس آئے گا، باقی قراء نے اسے جآء نا تثنیہ کا صیغہ پڑھا ہے یعنی کافر اور اس کا ساتھی جب ہمارے پاس آئے گا دونوں کا ایک سل سلہ میں رکھا گیا ہے تو کافر کہے گا : یلیت بینی وبینک بعد المشرقین یعنی موسم سرما اور موسم گرما کا مشرق، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : رب المشرقین و رب المغربین۔ (الرحمٰن) اسی کی مثل مقاتل کا قول ہے۔ واحد کے صیغہ کی قرأت اگرچہ اس کا ظاہر تو افراد کے منی پر ہے تاہم معنی دونوں کے لئے کیونکہ مابعد کلام سے اسے پہچان لیا گیا ہے جس طرح شاعر نے کہا : وعین لھا حدرۃ بدرۃ شقت مآتیھا من اخر محل استدلال عین ہے لفظ میں واحد ہے اور معنی میں تثنیہ، کیونکہ مآقیھا اس پر دلالت کر رہا ہے۔ مقاتل نے کہا، کافر تمنا کرے گا کہ کاش اس کے اور اس کے ساتھی کے درمیان اتنی دوری ہوتی جو سال کے طویل ترین اور مختصر ترین دن کے درمیان ہوتی ہے اسی وجہ سے فرمایا : بعد المشرقین۔ فراء نے کہا : مراد مشرق و مغرب ہے ان دونوں ہی سے ایک کے اسم کو غلبہ دیا جس طرح کہا جاتا ہے قمران، مراد سورج اور چاند ہوا کرتا ہے۔ عمران مراد حضرت ابوبکر صدیق، اور عمر فاورق ہیں بصرتان کوفہ اور بصرہ کے لئے۔ عصران، صبح اور عصر کے لئے ذکر کرتے ہیں۔ شاعر نے کہا : اخذنا بآفاق السماء علیکم لنا قمراھا و النجوم الطوالع (1) ہم نے تمہارے خلاف آسمان کے آفاق کو پانی گرفت میں لے لیا ہے ہمارے پاس اس کا سورج اور چاند روشن ستارے ہیں۔ ابو عبیدہ نے جریر کا شعر پڑھا : ما کان یرضی رسول اللہ فعلھم والعمران ابوبکر ولا عمر ان کے عمل سے رسول اللہ ﷺ ، عمران یعنی حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر راضی نہیں۔ سیبویہ نے یہ شعر پڑھا : قدنی من نصر الخبیبین قدی خبیبین سے مراد عبداللہ اور مصعب ہے جو حضرت زبیر کے بیٹے تھے وہ ابوخبیب عبداللہ تھے۔ فبئس القرین تو کتنا برا ساتھی ہے کیونکہ وہ اسے آگ پر لے جائے گا۔ حضرت ابو سعید خدری نے کہا، جب کافر کو اٹھایا جائے گا تو شیطان میں سے اس کیس اتھی کو ساتھ ملا دیا جائے گا وہ اس سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ اس کے ساتھ جہنم میں چلا جائے گا۔ (1) ۔
Top