Al-Qurtubi - Adh-Dhaariyat : 20
وَ فِی الْاَرْضِ اٰیٰتٌ لِّلْمُوْقِنِیْنَۙ
وَفِي الْاَرْضِ : اور زمین میں اٰيٰتٌ : نشانیاں لِّلْمُوْقِنِيْنَ : یقین کرنے والوں کیلئے
اور یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (بہت) سی نشانیاں ہیں
۔ وفی الارض ایت للموقین، جب دونوں فر یقوں کے معاملہ کا ذکر کیا تو اس امر کو بیان فرمایا کہ زمین میں ایسی علامات ہیں جو بعث اور نشور پر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ہر چیز ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے تو پھر وہاں نباتات اگ آتی ہے، ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں رزق کو مقدر کیا جو حیوانات کے لئے سہارا ہے، ان میں سے یہ بھی ہے وہ مختلف علاقوں میں جاتے ہیں جن میں ہلاکت کے آثار کر دیکھتے ہیں جو جھٹلانے والی قوموں پر ہلاکت واقع ہوتی تھی۔ موقنین ہی حقیقت میں رب العالمین کی وحدانیت اور اپنے نبی کی نبوت کی صداقت کو پہچاننے والے اور ثابت کرنے والے ہیں ان کا خصو صاذکر کیا کیونکہ یہی ان آیات اور ان کے نتائج سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ وفی انفسکم، افلا تبصرون، ایک قول یہ کیا گیا ہے : تقدیر کلام یہ ہے وفی الارض و فی انفسکم آیات للموقنین۔ قتادہ نے کہا : معنی ہے جو آدمی زمین میں گھومتا پھرتا ہے وہ آیات اور عبرت کی چیزوں کو دیکھتا ہے اور جو اپنی ذات میں غوروفکر کرتا ہے تو اسے علم ہوجاتا ہے کہ اسے اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ ابن زبیر اور مجاہد نے کہا : مراد بڑی چھوٹی حاجت کا راستہ ہے (2) ۔ سائب بن شریک نے کہا : انسان کھاتا پیتا ایک جگہ سے ہے اور یہ چیزیں دو جگہ سے نکلتی ہیں جو آدمی خالص دودھ پیتا ہے تو اسی سے پانی اور اسی سے براز نکلتا ہے۔ یہ نفس آیت ہے۔ ابن زید نے کہا : اللہ تعالیٰ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور تمہارے لئے کان آنکھیں اور دل بنادئیے ثم اذا انتم بشر تنتشرون، ، (الروم) سدی نے کہا وفی انفسکم سے مراد ہے تمہارے زندگی اور تمہاری موت میں اور جو کچھ تم میں داخل ہوتا ہے اور جو کچھ تم سے نکلتا ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : شباب کے بعد بڑھاپے میں، قوت کے بعد ضعف میں، سیاہ بالوں کے سفید بالوں میں (3) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے تمہیں پیدا کرنے میں یعنی نطفہ، جما ہوا خون، گوشت کا لوتھڑا اور ہڈی یہاں تک کہ اس میں روح پھونکی، زبانیں، رنگ اور صورتیں مختلف بنائی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ظاہری اور باطنی نشانیاں ہیں تیرے لئے دل، ان میں جو عقول رکھ دئیے گئے ہیں، ان میں معافی اور فنون کی جو انواع خاص کردی گئی ہیں، زبانیں، قوت گویائی، حروف کے مخارج، آنکھیں اور باقی ماندہ تمام اعضاء ان امور کو بجا لانا جن کے لئے انہیں پیدا کیا گیا، جوڑوں سے اعضاء میں جو یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ایک طرف مڑ جاتے ہیں اور دوہرے ہوجاتے ہیں جب ان میں سامنے کوئی چیز خشک ہوجائے تو ان میں عجز واقع ہوجاتا ہے اور جب وہ ڈھیلے ہوجائیں تو بےبسی ڈیرا لگا لیتی ہے۔ فتبرک اللہ احسن الخلقین، (المومنون) افلا تبصرون، کیا تمہارے دلوں میں بصرت نہیں کہ تم اس کی کمال قدرت کو پہچان لو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے کیا تم عاجز کی کامیابی اور محتاط کی محرومی نہیں دیکھتے۔ میں کہتا ہوں ؛ جو کچھ ذکر کیا گیا ہے یہ عبرت حاصل کرنے میں مراد ہے ہم نے سورة بقرہ کی آیت توحید میں یہ بحث ذکر کردی ہے کہ بدن انسانی جو عام عالم صغیر ہے اس میں جو کچھ ہے عالم کبیر میں اس کی مثال موجود ہے ہم نے وہاں قیام کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے حوالے سے جو ذکر کیا ہے وہ کافی ہے اور جو آدمی غورو فکر کرتا ہے وہ اسے دوسری بحث سے بےنیاز کردے گا۔ و فی السماء رزقکم وما تو عدون، ، سعید بن جبیر اور ضحاک نے کہا : یہاں رزق سے مراد وہ چیز ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے جیسے بارش اور برف جس کے ذریعے کھیتی اگتی ہے اور مخلوق زندگی پاتی ہے (1) ۔ سعید بن جیر نے کہا : مراد ہر جاری چشمہ ہے کیونکہ یہ برف سے پیدا ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصری سے مروی ہے جب آپ بادل دیکھتے تو اپنے ساتھیوں سے فرماتے : اللہ کی قسم ! اس میں تمہارے لئے رزق ہے مگر تم اپنی غلطیوں کی وجہ سے محروم کر دئیے جاتے ہو۔ علماء معافی نے کہا : وفی السماء رزقکم کا معنی ہے بارش میں تمہارے لئے رزق ہے۔ بارش کو سماع کا نام دیا کیونکہ بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے۔ شاعر نے کہا : اذا سقط السماء بارض قوم رعیناہ وان کانوا غضابا جب کسی قوم کی سر زمین میں بارش نازل ہوتی ہے تو ہم اس گھاس کو چرتے ہیں اگرچہ وہ لوگ بہت ہی غصیلے ہوں۔ ابن کسی ان نے کہا : معنی ہے آسمان کے ذمہ تمہارا رزق ہے اس کی مثل یہ ارشاد ہے وما من دا بہ فی الارض الا علی اللہ رزقھا (ہود :6) سفیان ثوری نے کہا : اس سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں آسمان میں تمہارا رزق ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : معنی ہے آسمان میں تمہارے رزق کی تقدیر ہے اور تمہارے لئے جو کچھ ہے وہ ام الکتاب میں لکھا ہوا ہے۔ سفیان ثوری سے مروی ہے (2) کہ واصل احدب نے ان کلمات و فی السماء رزقکم کو پڑھا کہنے لگے : خبردار ! میں اپنے رزق کو آسمان میں پاتا ہوں اور اسے تلاش زمین میں کرتا ہوں۔ وہ ایک کھنڈر میں داخل ہوئے وہ تین دن تک وہاں رہے کسی چیز کو نہ پایا تیسرے دن انہوں نے تر کھجوروں کی ایک ٹوکری پائی اس کا ایک بھائی اچھی نیت والا تھا وہ اس کے ساتھ داخل ہوا تو وہ دو ٹوکریاں ہوگئیں ان کا یہی طریقہ رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے موت کے ساتھ ان دونوں کے درمیان جدائی پیدا کی۔ ابن محصین اور مجاہد نے اسے پڑھائو فی السماء رزقکم اسی طرح اس کے آخر میں پڑھا ان اللہ ھو الرزاق۔ وما تو عدون مجاہد نے کہا : مراد خیر اور شر جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے۔ دوسروں نے کہا : یہاں اس سے مراد صرف خیر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مرادصرف شر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد جنت ہے یہ سفیان بن عینیہ سے مروی ہے۔ ضحاک نے کہا : وماتو عدون سے مراد جنت اور دوزخ ہے (1) ۔ ابن سیریں نے کہا : وما توعدوں سے مرادقیامت ہے ؛ یہ ربیع کا قول ہے۔ فو رب السماء والارض انہ الحق، اللہ تعالیٰ نے انہیں بعث بعد الموت اور آسمان میں رزق کی تخلیق فرمائی ہے اس کی جو خبردی تھی اس کو موکد کیا پر یہ قسم اٹھائی کہ یہ حق ہے اور پھر اس فرمان مثل ما انکم تنطقون، کو موکد کیا اور حواس میں سے نطق کو خاص کیا کیونکہ اس کے علاوہ جو حواس ہیں ان میں مثل (شبہ) ہو سکتی ہے جس طرح آئینہ میں دیکھا جاسکتا ہے جب صفراء کا غلبہ ہو تو چکھنا محال ہوجاتا ہے، اسی طرح کانوں میں دوی اور طنین (بنھبناہٹ) واقع ہوسکتی ہے، قوت گویائی اس سے محفوظ ہوتی ہے۔ صدائے باز گزشت سے اعتراض نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کا حصول اس وقت ہوتا ہے جب گفتگو کرنے والا کلام کرلے اس میں ایسی چیز کی آمیزش نہیں ہوتی جو اس پر معاملہ کو مثتبہ کردے۔ ایک حکیم نے کہا : جس طرح ہر انسان خود بات کرتا ہے اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ غیر کی زبان سے بات کرے اسی طرح ہر انسان اپنا رزق کھاتا ہے اس کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ غیرکا رزق کھائے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا قاتل اللہ اقواما اقسم لھم ربھم بنفسہ ثم لم یصد قوہ، قال اللہ تعالیٰ فو رب السماء والارض انہ لحق (2) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہلاک کرے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنی ذات کی قسم اٹھائی پھر بھی انہوں نے اس کی تصدیق نہ کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فو رب السماء والارض انہ لحق۔ اصمعی (3) نے کہا : ایک دفعہ میں بصرہ کی مسجد سے آیا کہ ایک بدو جو اکھڑمزاج، ترش، رو اپنی سواری پر موجود تھا اس نے تلوار گلے میں لٹکائی ہوئی تھی اس کے ہاتھ میں کمان تھی وہ قریب ہوا اور سلام کیا اس نے پوچھا : تو کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے ؟ میں نے کہا : میں بنی اصمعی ہے ؟ میں نے کہا : ہاں۔ اس نے پوچھا : تو کہاں سے آیا ہے ؟ میں نے جواب دیا : اس جگہ سے آیا ہوں جہاں رحمن کے کلام کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس نے کہا : رحمن کا کلام ہے جسے لوگ پڑھتے ہیں ؟ میں نے کہا : ہاں۔ اس نے کہا : اس میں سے کچھ مجھ پر پڑھو تو میں نے اس پر اس سورت کو وفی السماء رزقکم تک پڑھا اس نے کہا : اے اصمعی ! کافی ہے۔ پھر اپنی اونٹنی کی طرف اٹھا اسے ذبح کیا اس کی جلد اتاری اور کہا : اس کے تقسیم کرنے میں میری مدد کرو۔ ہم نے اس کا گوشت آنے جانے والے پر تقسیم کرنے میں میری مدد کرو۔ ہم نے اس کا گوشت آنے جانے والے پر تقسیم کردیا پھر اس نے تلوار اور کمان کا قصد کیا ان دونوں کو توڑ دیا اور دونوں کو کجا وے کے نیچے رکھ دیا اور جنگل کی طرف چل دیا وہ کہہ رہا تھا : و فی السماء رزقکم وماتو عدون۔ میں نے اپنے آپ پر نارضگی کا اظہار کیا اور اپنے آپ کی ملامت کی۔ پھر میں نے ہارون الرشید کے ساتھ حج کیا اسی اثنا میں کہ میں طواف کر رہا تھا تو میں ایک کمزور سی آواز کے پاس تھا میں متوجہ ہوا تو میں اسی بدو کے پاس تھا وہ انتہائی کمزور اور زرد رنگ والا ہوچکا تھا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا : مجھ پر رحمن کا کلام پڑھو اور مقام ابراہیم کے پاس مجھے بٹھا لیا، تو میں نے سورة الذاریات پڑھی یہاں تک کہ و فی السماء رزقکم وما توعدون، تک پہنچا اس بدو نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ کیا ہم نے اسے حق پایا ہے۔ اس نے کہا : اس کے علاوہ بھی کلام ہے ؟ میں نے کہا : ہاں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : فورب السماء والارض انہ لحق مثل ما انکم تنطقون ،۔ بدو نے چیخ ماری کہا : سبحان اللہ ! کس نے رب جلیل کو غضبناک کیا یہاں تک کہ اس نے قسم اٹھائی کیا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کی تصدیق نہ کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو قسم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ اس نے یہ بات تین دفعہ کہی تو اس کی روح قفس عنصری پرواز کرگئی۔ یزید بن مرثد نے کہا : ایک آدمی کو ایسی جگہ بھوک لگ گئی جہاں کوئی چیز نہ تھی اس نے عرض کی : اے اللہ ! جس کا رزق تو نے وعدہ کیا ہے تو وہ مجھے عطا کر تو وہ اسی وقت سیر ہوگیا۔ کھانے اور پینے کے بغیر اس کا پیٹ بھر گیا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : لو ان احد کم فر من رزقہ لتبعہ کمایتبعہ الموت اگر تم میں کوئی اپنے رزق سے بھاگتا ہے تو رزق اس کا پیچھا کرتا ہے جس طرح موت اس کا پیچھا کرتی ہے ؛ اسے ثعلبی نے ذکر کیا ہے۔ سنن ابن ماجہ میں حبہ اور سواء جو خالد کے بیٹے ہیں سے مروی ہیں سے مروی ہے، دونوں نے کہا : ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کوئی کام کر رہے تھے ہم نے اس کام میں آپ کی مدد کی آپ نے فرمایا : لاتیا سا من الرزق ماتھززت رئو و سکما فان الانسان تلدہ امہ احمر لیس علیہ قشر ثم یرزقہ اللہ (1) جب تک تمہارے سر حرکت کرتے ہیں (یعنی تم زندہ ہو) تم رزق سے مایوس نہ ہو کیونکہ انسان کو اس کی ماں گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں جنتی ہے اس پر لباس بھی نہیں ہوتا، پھر اللہ تعالیٰ اسے رزق باہم پہنچا تا ہے۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ بدو لوگوں میں سے ایک قوم نے کھیتی کاشت کی اسے ایک آفت نے آلیا وہ اس وجہ سے غمگین ہوئے ایک بدوی عورت ان کے پاس آئی اس نے کہا : کیا وجہ ہے تم نے اپنے سر جھکائے ہوئے ہیں، تمہارے سینے تنگ ہوچکے ہیں جب کہ وہ ہمارا رب ہے اور ہمارے بارے میں علم رکھتا ہے، ہمارا رزق اس کے ذمہ ہے وہ ہمیں عطا فرماتا ہے جہاں سے چاہتا ہے پھر وہ یہ شعر پڑھنے لگی : میں کہتا ہوں : اس معنی میں اشعریوں کا قصہ بھی ہے جب انہوں نے اپنا قاصد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا اس نے اللہ تعالیٰ کا فرمان سنائو ما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا (ہود :6) وہ لوٹ آیا اور نبی کریم ﷺ سے گفتگو نہ کی اور کہا : اشعری اللہ تعالیٰ کے چو پائوں سے زیادہ ذلیل نہیں۔ ہم نے اس کا ذکر سورة ہود میں کیا ہے۔ لقمان نے کہا : یبنی انھا ان تک متقال حمۃ من خردل فتکن فی صخرۃ (لقمان :16) یہ بحث سورة لقمان میں گزر چکی ہے ہم نے یہ بحث کتاب قمع الحرص با لذھڈو القنا عۃ میں مفصل بیان کی ہے۔ الحمد اللہ۔ یہی وہ حقیقی تو کل ہے جس میں کسی چیز کی آمیزش نہیں۔ یہی رب العالمین کے ساتھ لو لگا کر غیر سے دل کو فارغ کرنا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق دے اور اپنے احسان اور کرم کے ساتھ اپنے سوا کسی اور کے حوالے نہ کرے۔ مثل ما انکم تنطقون، عام قرات مثل کے نصب کے ساتھ ہے یہ کاف حرف جار کے حذف کے ساتھ منصوب ہے یعنی کمثل نطقکم اس میں ما زائدہ ہے ؛ یہ بعض کو فیوں کا نقطہ نظر ہے۔ زجاج اور فراء نے کہا : یہ بھی جائز ہے تاکید کے طور پر منصوب ہو، تقدیر کلام یہ ہو لحق حقا مثل نطقک گویا یہ مصدر محذوف کی صفت ہے۔ سیبو یہ کا قول ہے : یہ مبنی ہے کیونکہ یہ مبنی کی طرف مضاف ہے اور ما زائدہ ہے جو تاکید کے لئے ہے۔ مازنی نے کہا : مثل، مع کے ساتھ مل کر ایک شے کے حکم میں ہے، اسی وجہ سے یہ مبنی بر فتحہ ہے۔ ابو عبید اور ابو حاتم نے اسے ہی پسند کیا ہے۔ کہا : کیونکہ عربوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو مثل کو ہمیشہ منصوب بناتے ہیں تو کہتا ہے : قال لی رجل مثلک، مررت برجل مثلک،۔ ابو بکر، حمزہ، کسائی اور اعمش نے مثل کو مرفوع پڑھا ہے کیونکہ یہ حق کی صفت ہے کیونکہ یہ نکرہ ہے اگرچہ معرفہ کی طرف مضاف ہے کیونکہ مثل کے لفظ اضافت کے باجود اختصاص پیدا نہیں ہوتا۔ مثل کا لفظ انکم کی طرف مضاف ہے اور ما زائدہ ہے اس کا ما بعد مصدر کے حکم میں نہیں ہوتا کیونکہ اس کے ساتھ کوئی ایسا فعل نہیں جس کے ساتھ مل کر وہ مصدر ہوجائے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ لحق سے بدل ہو۔
Top