Al-Qurtubi - Adh-Dhaariyat : 41
وَ فِیْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الرِّیْحَ الْعَقِیْمَۚ
وَفِيْ عَادٍ : اور عاد میں اِذْ اَرْسَلْنَا : جب بھیجا ہم نے عَلَيْهِمُ : ان پر الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ : بےنفع ہوا کو۔ بیخبر ہوا کو۔ بانجھ ہوا کو
اور عاد (کی قوم کے حال) میں بھی (نشانی ہے) جب ہم نے ان پر نامبارک ہوا چلائی
و فی عاد اذا ارسلنا علیھم الریح العقیم، ماتذر من شیء اتت علیہ الا جعلتہ کالر میم ،۔ اور (قصہ) عاد میں نشان عبرت ہے جب ہم ان پر آندھی بھیجی جو خیرو برکت سے خالی تھی نہیں چھوڑتی تھی کسی چیز کو جس پر گزرتی مگر اس کو ریزہ ریزہ کردیتی۔ وفی عاد ہم نے عاد میں ان لوگوں کے لئے نشانی چھوڑی جو غور فکر کریں۔ اذارسلنا علیھم الریح العقیم، اریح العقیم سے مراد وہ ہوا ہے جو نہ بادلوں کے بننے کا باعث بنتی ہے نہ درختوں میں ملاقحہ کا عمل کرتی ہے نہ اس میں رحمت، برکت، اور منفعت ہوتی ہے اسی سے امراۃ عقیم ہے جو نہ حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے۔ پھر یہ کہا گیا ہے : اس سے مراد وہ ہوا ہے جسے جنوب کہتے ہیں۔ ابن ابی ذئب نے حرث بن عبدالرحمن سے وہ بنی کریم ﷺ سے روایت نقل کرتے ہیں فرمایا : ریح عقیم سے مراد جنوب (1) ہے (1) ۔ مقاتل نے کہا : اس سے مراد دبور ہے، جس طرح صیحح میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے، ، میری مدد صبا سے کی گئی اور قوم عاد ربور (2) سے ہلاک کی گئی۔ (2 ) ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اس سے مراد نکباء (3) ہے، عبید بن عمیر نے کہا : اس ہوا کا مسکن چھوتی زمین ہے عاد پر صرف اس قدر اسی کو کھولا گیا جس طرح بیل کا نتھنا ہوا کرتا ہے۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے یہ قول بھی نقل کیا ہے : اس سے مراد صبا ہے (3) ۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ ماتذرمن شیء اتت علیہ الا جعلتہ کالر میم، یعنی ایسی چیز کی طرح جسے ریزہ ریزہ کردیا گیا ہو۔ جب نباتات خشک ہوجائے اور ریزہ ریزہ ہوجائے تو اسے کہتے ہیں : رمیم، مثیم۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ایسی چیز کی طرح جو ہلاک ہونے والی ہو اور بوسیدہ ہو ؛ یہ مجاہد کا قول ہے : اسی معنی میں شاعر کا قول ہے : ترکتنی حین کف الدھر من بصری راذ بقیت کعظم الرمۃ المالی ،۔ تو نے مجھے چھوڑا جب زمانہ نے میری نظر روک لیا۔ اور جس میں بوسیدہ ہڈی کی طرح باقی تھا۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد ہے جسے خشک نباتات سے ریزہ ریزہ کیا جائے۔ ابو العالیہ اور سدی نے کہا : باریک مٹی کی طرح۔ قطرب نے کہا : رمیم سے مراد راکھ ہے۔ یمان نے کہا : مراد ہے چوپائے جس گھاس کو پھینک دیتے ہیں۔ ہونٹ کو مرمۃ اور مقمہ کہتے ہیں۔ مرمہ بھی اس میں لغت ہے کلمہ کی اصل رم العظم ہے جب وہ بوسیدہ ہوجائے۔ تو اسی سے یہ باب ذکر کرتا ہے رم العظم یرم رمۃ فھو رمیم۔ شاعر نے کہا : ورای عواقب خلف ذاک مذمۃ تبقی علیہ والعظام رمیم، ، اس نے اس وعدہ کے توڑنے کے انجام میں مذمت دیکھی جو اس پر باقی رہنے والی تھی جب کہ ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں۔ رمۃ جب راء کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اس سے مراد بوسیدہ ہڈیاں ہیں اس کی جمع رمم اور رمام ہے اس کی مثل یہ آیت ہے تدمر کل شیء (الاحقاف :25) جس طرح پہلے گزر چکا ہے۔
Top