Al-Qurtubi - At-Tur : 22
وَ اَمْدَدْنٰهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَّ لَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَهُوْنَ
وَاَمْدَدْنٰهُمْ : اور مدد دیں گے ہم ان کو۔ زیادہ دیں گے ہم ان کو۔ پے در پے دیں گے ہم ان کو بِفَاكِهَةٍ : پھل وَّلَحْمٍ : اور گوشت مِّمَّا يَشْتَهُوْنَ : اس میں سے جو وہ خواہش کریں گے
اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے
وامددنھم بفا کھۃ ولحم مما یشتھون ،۔ یعنی ہم ان کے اعمال سے بڑھ کر انہیں یہ کثیر چیزیں دیں گے یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے زیادتی ہوگی یعنی اللہ تعالیٰ انہیں وہ وہ چیزیں عطا فرمائے گا جس کے وہ مستحق نہ تھے۔ یتنازعون فیھا کا سا وہ جام ایک دوسرے سے لیں گے وہ جنت میں مومن، اس کی بیویاں اور ان کے خادم ہوں گے۔ کاس شراب کا برتن جو شراب وغیرہ سے بھرا ہوا ہو، جب وہ خالی ہو تو اسے کاس نہیں کہتے۔ لغت میں تنازع اور کاس کی تائید اخطل کا شعر کرتا ہے : وشارب مریح بلک اس نادمنی لا بالحصور ولا فیھا بسوار (1) نازعتہ طیب الراح الشمول وقد صاح الدجاج وجانت وقعۃ الساری بھرے ہوئے جام پینے والا میرا ندیم ہے تنگ دل بخیل میرا ندیم نہیں اور شراب کو برتن میں چھوڑنے والا میں۔ نے عمدہ خوشبو والی شراب اس سے لی جب کہ مرغ اذان دے رہا تھا اور رات وقت چلنے والے کے گرنے کا وقت ہوچکا تھا۔ امراء القیس نے کہا۔ فکما تنازعنا الحدیث ،۔ جب ہم نے باہم گفتگو کی، ،۔ سورة صافات میں گزر چکی ہے۔ لا لغو فیھا، ھا ضمیر سے مراد کاس ہے یعنی ان میں کوئی لٖغوبات نہیں ہوگی۔ ولا تا ثیم، نہ اس میں کوئی گناہ ہوگا۔ تاثیم یہ اثم سے تفعیل کا وزن ہے یعنی وہ جام انہیں گناہ گار نہیں بنائے گا کیونکہ یہ ان کے لئے مباح ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : فیھا میں ھا ضمیر جنت کے لئے ہے۔ ابن عطاء نے کہا : اس مجلس میں کوئی سی بات ہوسکتی ہے جس کا محل جنت عدن ہو (1) ، اس کے ساقی فرشتے ہوں، ان کا مشروب اللہ کے ذکر پر ہو، انکی خوشبو اور سلام اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہو اور قوم اللہ تعالیٰ کی مہمان ہو۔ ولاتاثیم یعنی کوئی جھوٹ نہیں (2) ؛ یہ حضرت ابن عباس ؓ کا قول ہے۔ ضحاک نے کہا : وہ ایک دوسرے سے جھوٹ نہیں بولیں گے۔ ابن کثیر، ابن محصین اور ابو عمر و نے کہا : لا لغو فیھا ولاتاثیم یعنی آخر کو فتحہ دیا ہے باقی قراء نے اسے مرفوع پڑھا ہے۔ یہ بحث سورة بقرہ آیت 254 میں ولا خلۃ ولا شفاعۃ میں گزر چکی ہے۔ الحمد للہ ،
Top