Al-Qurtubi - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہِ ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے ہر شخص اپنے اعمال میں پھنسا ہوا ہے
والذین امنو او اتبعتھم ذریتھم، عام قراءت واتبعتھم ہے ہمزہ وصلی، تاء مشد د، عین مفتوحہ اور تاء ساکن۔ ابو عمرو نے واتبعنا ھم پڑھا ہے ہمزہ قطعی تاء اور عین ساکن اور نون۔ وہ اسے الحقنا بھم پر قیاس کرتے ہیں تاکہ کلام ایک ہی طریقہ پر رہے۔ جہاں تک پہلے ذریتھم کا تعلق ہے تو ابن عامر، ابو عمرو اور یعقوب نے جمع کے ساتھ پڑھا ہے اور اسے نافع سے پڑھا ہے مگر ابو عمرو نے تاء کے کسرہ کے ساتھ پڑھا کیونکہ مفعول ہے باقی نے اسے ضمہ دیا ہے باقی قراء اسے واحد کا صیغہ اور تاء کو ضمہ دیا ہے نافع سے بھی یہی مشہور ہے جہاں تک دوسرے لفظ ذریۃ کا تعلق ہے نافع، ابن عامر، ابو عمرو اور یعقوب نے تاء کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے کہ یہ جمع کا صیغہ ہے باقی نے اسے واحد کا صیغہ اور تاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اس کے معنی میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ سے چار روایات مروی ہیں ؛ (1) اللہ تعالیٰ مومن کی اولاد کو جنت میں اس کے درجہ میں بلند فرمائے گا اگرچہ اولاد درجہ میں اس سے کم ہوتا کہ ان کے ساتھ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور اس آیت کی تلاوت کی (1) ۔ نحاس نے ناسخ و منسوخ میں اسے مرفوع نقل کیا ہے۔ سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس ؓ سے رویت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ مومن کی اولاد کو جنت میں اس کے درجہ میں بلند فرمادے گا اگرچہ وہ اپنے عمل کے ساتھ اس درجہ تک نہیں پہنچیں گے تاکہ ان کے ساتھ اس کی آنکھ ٹھنڈی ہو، ، (2) ۔ پھر اس آیت کی تلاوت کی والذین امنو واتبعتھم ذریتھم با یمان۔ ابو جعفر نے کہا : حدیث نبی کریم ﷺ سے مرفوع ہوگی اس طرح ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ حضرت ابن عباس ؓ خود اپنی جانب سے یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ اس امر کی خبر دینا ہے جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے نازل کیا ہے۔ زمحشری نے کہا : اللہ تعالیٰ ان کے لئے مختلف قسم کے سرور جمع فرمادے گا ان کی ذاتوں میں سعادت رکھ دے گا، حورعین کے ساتھ ان کو جمع کرے گا، مومن بھائیوں کے ساتھ موانست پیدا کردے گا اور انکی اولاد ان کی نسل کو ان کے ساتھ جمع کردے گا (1) ۔ حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کے ساتھ اس کی چھوٹی اولاد کو لاحق کردے گا جو ایمان لانے کی حد کو نہیں پہنچیں ہوگی (2) ؛ یہ مہدوی کا قول ہے۔ ذریۃ کا لفظ چھوٹوں اور بڑوں سب پر بولا جاتا ہے۔ اگر یہاں ذریۃ سے مراد چھوٹی اولاد لے تو بایمان کا قول دونوں مفعولوں سے حال ہوگا تو تقدیر کلام یہ ہوگی بایمان من الاباء اگر ذریتہ سے مراد بڑی اولاد لے تو بایمانکا لفظ دونوں فاعلوں سے حال ہوگا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک قول تیسرا قول بھی ہے کہ الذین امنوا سے مراد مہاجرین و انصار ہیں اور ذریۃ سے مراد تابعین ہیں۔ آپ سے ایک روایت یہ بھی ہے ؛ اگر آباء درجہ میں بلند ہوئے تو اللہ تعالیٰ بیٹوں کو بھی آباء تک بلند کردے گا، اگر بیٹے بلند درجہ کے حامل ہوئے تو اللہ تعالیٰ آباء کو بیٹوں کی طرف بلند فرمادے گا (3) ۔ آباء ذریۃ کے اسم میں داخل ہوں گے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وایتہ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون، (یسین) حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے : وہ اس رویت کو نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ، جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو ان میں سے کوئی اپنے والدین، اپنی بیوی اور اپنی اولاد کے بارے میں چوچھے گا تو انہیں کہا جائے گا : انہوں نے وہ رتبہ پایا جو تو نے رتبہ پایا ہے۔ تو عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں نے اپنے لئے اور ان کیلئے عمل کیا تو ان کے اسکے ساتھ لاحق کرنے کا حکم دیا جائے گا، ، (4) ۔ حضرت خدیجہ ؓ نے کہا : میں نبی کریم ﷺ سے اپنے والدین کے بارے میں پوچھا جو دور جاہلیت میں فوت ہوگئے تھے تو آپ نے فرمایا ؛ ، ، وہ دونوں آگ میں ہیں ،۔ جب آپ نے میرے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے فرمایا ؛ اگر تو ان کے مکان کو دیکھے تو تو ان سے بغض رکھنے لگے ،۔ پوچھا ؛ یا رسول اللہ ! میرا وہ بچہ جو آپ سے ہوا ؟ فرمایا : وہ جنت میں ہے، پھر فرمایا :، ، مومون اور ان کی اولادیں جنت میں ہوں گی اور مشرک اور ان کی اولادیں آگ میں ہوں گی۔ پھر اس آیت والذین امنوا۔۔۔۔ کی تلاوت کی۔ وما التنھم من عملھم من شیء یعنی ہم نے بیٹوں کے اعمال کے ثواب میں ان کی عمروں کے کم ہونے کی وجہ سے کوئی کمی نہیں اور بیٹوں کو ان کے آباء کے ساتھ لاحق کرنے کی وجہ سے ان کے آباء کے اعمال کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس تاویل کی صورت میں ھم ضمیر ذریۃ کے لئے ہوگا۔ ابن کثیر نے اسے وما التنا ھم پڑھا ہے باقی قراء نے لام کو فتحہ دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے : التنا ھم لا کے ساتھ ہے۔ ابن اعرابی نے کہا : التہ، بالتہ التا التہ یولتہ ایلاتا، لا لہ یلیتہ لیتا سب کا معنی ہے جب اس میں کمی کرے۔ صحاح میں ہے : ولاہ عن وجھہ یلوتہ ولیتہ اس کو سامنے سے روک دیا اور اسے پھیر دیا اسی طرح الاہ عن وجھہ مجرد اور مزید دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ یہ سب بھی کہا جاتا ہے ؛ ما الاہ من عملہ شیئا میں نے اس کے عمل میں سے کوئی چیز کم نہ کی۔ یہ بھی اللہ کی طرح ہے سورة حجرات میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ کل امری بما کسب رھین ،۔ ایک قول یہ کیا گیا : وہ جہنمیوں کی طرف لوٹے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جہنمی اپنے اعمال کے بدلے میں رکھ دئیے گئے ہیں اور جنتی اپنی جنت کی طرف لوٹ جائیں گے ؛ اسی وجہ سے فرمایا ؛ کل نفس بما کسبت رھینۃ، الا اصحب الیمین، (المدثر) ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ہر انسان کو عام ہے اسے اپنے عمل کے بدلے میں رہن تکھا گیا ہے کسی کے عمل کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی جہاں تک عمل پر زیادتی کا مسئلہ ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فضل و احسان ہے۔ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ یہ حکم اس ذریت کے بارے میں ہو جو ایمان نہ لائی ہو وہ اپنے مومن آباء کے ساتھ لاحق نہیں کیے جائیں گے نل کہ وہ اپنے کفر کے بدلے میں محبوس ہوں گے۔
Top