Al-Qurtubi - At-Tur : 29
فَذَكِّرْ فَمَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ
فَذَكِّرْ : پس نصیحت کیجیے فَمَآ اَنْتَ : پس نہیں آپ بِنِعْمَتِ : نعمت سے رَبِّكَ : اپنے رب کی بِكَاهِنٍ : کا ھن وَّلَا مَجْنُوْنٍ : اور نہ مجنون
تو (اے پیغمبر ! ) تم نصیحت کرتے رہو تم اپنے پروردگار کے فضل سے نہ تو کاہن ہو اور نہ دیوانے
فذکر اے محمد ! ﷺ اپنی قوم کے ذریعے سمجھا تے رہیے۔ فما انت بنعمت ربک بکاھن یعنی اپنے رب کی رسالت کا فریضہ سر انجامدینے کی وجہ سے کاہن نہیں کہ آپ خود ہی اپنی طرف سے قول گھڑتے ہیں اور وحی کے بغیر اگلے روز خبر دے دیتے ہوں۔ ولا مجنون، اس میں ان کے قول کا رد کیا گیا ہے جو وہ نبی کریم ﷺ کے بارے میں کیا کرتے تھے۔ عقبہ بن ابی معیط نے کہا تھا : وہ مجنون ہیں۔ شیبہ بن ربیعہ نے کہا تھا : وہ جادوگر ہیں۔ دوسرے نے کہا تھا : کاہن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جھٹلایا اور ان کا رد کیا، پھر یہ کہا گیا : فما انت بنعمت رب قسم ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمت کی قسم آپ کاہن اور مجنون نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ قسم نہیں یہ کلام اسی طرح ہے جس طرح تو کہتا ہے : بحمدللہ آپ جاہل نہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے تجھے اس امر سے بری کیا ہے۔ ام یقولون شاعر بلکہ وہ کہتے ہیں ؛ حضرت محمد ﷺ شاعر ہیں۔ سیبو یہ نے کہا : لوگوں سے اس کے ساتھ خطاب کیا گیا جو ان میں کلام جارہی رہتی تھی۔ ابو جعفر نحاس نے کہا : یہ اچھی کلام ہے مگر غیر واقع ہے۔ سیبویہ یہ ارادہ کرتے ہیں کہ کلام عرب میں ام کا کلمہ ایک بات سے دوسری بات کی طرف نکلنے کے لئے ہے، جس طرح کہا : اتھجر غانیۃ ام تلم یہاں کلام مکمل ہوگئی پھر ایک دوسری بات کی طرف نکل گیا تو کہا ام الجبل واہ بھا منجدم، کتاب اللہ میں جو اس طرح کی کلام ہوتی ہے اس سے مراد تقریر، توبیخ اور ایک بات سے دوسری بات کی طرف نکلنا مقصود ہوتا ہے۔ نحوی اس (ام) کو بل کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ،۔ نتربص بہ ریب المنون، قتادہ نے کہا : کفار میں سے ایک قوم نے کہا تم حضرت محمد ﷺ کی موت کا انتظار کرو وہ تمہاری جانب سے اسے کافی ہوجائے گی، جس طرح موت فلاں قوم کے شاعر کو کافی ہوگئی (1) ۔ ضحاک نے کہا : وہ بنو عبد الدار تھے انہوں نے آپ کی طرف اس امر کو منسوب کیا تھا آپ شاعر ہیں، یعنی قریب ہی ہلاک ہوجائیں گے جس طرح ان سے پہلے شعراء ہلاک ہوئے ان کے والد جوانی میں فوت ہوگئے جس طرح ان کے والد فوت ہوئے ممکن ہے یہ بھی فوت ہوجائیں۔ اخفش نے کہا : تقدیر کلام یہ ہے نتربص بہ الی ریب المنون تو حرف جار کو حذف کردیا گیا ؛ جس طرح تو کہتا ہے ؛ قصدت زید اوقصدت الی زید۔ منون سے مراد حضرت ابن عباس کے قول میں موت ہے (2) ۔ ابو الغول طہوی نے کہا : ھم منعوا حمی الو قبی بضرب یولف بین اشتات المنون (3) منون سے مراد موتیں ہیں۔ شاعر کہتا ہے ؛ بیشک ضرب (جنگ) ایسی قوموں کو جمع کردیتی ہے جن کے علاقے الگ الگ ہوتے ہیں اگر ان کی موتیں ان کے اپنے اپنے علاقوں تو انہیں متفرق آتیں وہ ایک جگہ جمع ہوگئے تو موتیں انہیں اکٹھے آگئیں۔ سعدی نے ابو مالک سے وہ حضرت ابن عباس ؓ سے رویت نقل کرتے ہیں : لفظ ریب قرآن حکیم میں جہاں کہیں ہے اس کا معنی شک ہے مگر سورة طور میں ایک جگہ شک کے معنی نہیں ہے : یعنی ریب المنون سے مراد حادثات زمانہ ہیں۔ شاعر نے کہا : تربض بھا ریب المنون لعلھا تطلق یوما او یموت حلیلھا (4) یہاں بھی ریت المنون سے مراد حادثات زمانہ ہیں۔ مجاہد نے کہا : ریب المنون سے مراد حادثات زمانہ ہیں (1) ، منون سے مراد زمانہ ہی ہے ؛ ابو ذوہیب نے کہا : امن المنون وریبہ تتوجع والدھر لیس بمعتب من یجزع (2) ۔ کیا تو حادثات زمانہ سے دکھی ہوتا ہے اور جو جزع فزع کرتا ہے زمانہ اس پر عتاب نہیں کرتا۔ اصمعی نے کہا : منون سے مراد رات اور دن ہے۔ ان دونوں کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں عمر کو کم کرتے ہیں اور اجل کو ختم کرتے ہیں۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ دہر (زمانہ) کو منون کہتے ہیں ؛ کیونکہ زمانہ حیوان کی قوت کو ختم کردیتا ہے ؛ اسی طرح منیۃ ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : دھر کو منون کہتے ہیں کیونکہ یہ قوت کو کمزور کرنے والا ہے۔ عربوں کا قول ہے ؛ حبل منین کمزور غبار ہے۔ فراء نے کہا ؛ منون مونث ہے یہ واحد اور جمع ہے۔ اصمعی نے کہا ؛ منون واحد ہے اس کی جمع نہیں آتی۔ اخفش نے کہا : یہ جمع ہے اس کا واحد نہیں۔ منون مذکر اور موئنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ جس نے اسے مذکر قرار دیا ہے اس نے اس سے مراد دھر اور موت لی ہے جس نے اسے مئونث قراردیا ہے اس نے اسے معنی پر محمول کیا ہے گویا اس نے منیۃ مراد لی ہے۔ قل تربصوا اے محمد ! ﷺ انہیں کہو تم انتظار کرو فانی معکم من المتربصین، میں بھی تمہارے بارے میں عذاب کا انتظار کرنے والا ہوں۔ انہیں غزوہ بدر کے موقع پر تلوار سے عذاب دیا گیا۔
Top