Tafheem-ul-Quran - At-Tur : 3
الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُقِيْمُوْنَ : قائم رکھتے ہیں الصَّلٰوةَ : نماز وَيُؤْتُوْنَ : اور ادا کرتے ہیں الزَّكٰوةَ : زکوۃ وَهُمْ : اور وہ بِالْاٰخِرَةِ : آخرت پر هُمْ : وہ يُوْقِنُوْنَ : یقین رکھتے ہیں
جو نماز قائم کرتے اور زکوٰة دیتے ہیں3، اور پھر وہ ایسے لوگ ہیں جو آخرت پر پُورا یقین رکھتے ہیں4
سورة النمل 3 یعنی قرآن مجید کی یہ آیات رہنمائی بھی صرف انہی لوگوں کی کرتی ہیں اور انجام نیک کی خوشخبری بھی صرف انہی لوگوں کو دیتی ہیں جن میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں، ایک یہ کہ وہ ایمان لائیں، اور ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن اور محمد ﷺ کی دعوت کو قبول کرلیں، خدائے واحد کو اپنا ایک ہی الہ اور رب مان لیں، قرآن کو خدا کی کتاب تسلیم کرلیں، محمد ﷺ کو نبی بر حق مان کر اپنا پیشوا بنالیں، اور یہ عقیدہ بھی اختیار کرلیں کہ اس زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں ہم کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور جزائے اعمال سے دو چار ہونا ہے، دوسری خصوصیت ان کی یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو محض مان کر نہ رہ جائیں بلکہ عملا اتباع و اطاعت کے لیے آمادہ ہوں اور اس آمادگی کی اولین علامت یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، یہ دونوں شرطیں جو لوگ پوری کردیں گے انہی کو قرآن کی آیات دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتائیں گے، اس راستہ کے ہر مرحلے میں ان کو صحیح اور غلط کا فرق سمجھائیں گے، اس کے ہر موڑ پر انہیں غلط راہوں کی طرف جانے سے بچائیں گی، اور ان کو یہ اطمینان بخشیں گی کہ راست روی کے نتائج دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوں، آخر کار ابدی اور دائمی فلاح اسی کی بدولت انہیں حاصل ہوگی اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی سے سرفراز ہوں گے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک معلم کی تعلیم سے وہی شخص فائدہ اٹھا سکتا ہے جو اس پر اعتماد کر کے واقعی اس کی شاگردی قبول کرلے اور پھر اس کی ہدایات کے مطابق کام بھی کرے، ایک ڈاکٹر سے استفادہ ہی مریض کرسکتا ہے جو اسے اپنا معالج بنائے اور دوا اور پرہیز وغیرہ کے معاملہ میں اس کی ہدایات پر عمل کرے، اسی صورت میں معلم اور ڈاکٹر یہ اطمینان دلا سکتے ہیں کہ آدمی کو نتائج مطلوبہ حاصل ہوں گے۔ بعض لوگوں نے اس آیت میں يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ اخلاق کی پاکیزگی اختیار کریں، لیکن قرآن مجید میں اقامت صلوۃ کے ساتھ ایتاء زکوٰۃ کا لفظ جہان بھی آیا ہے اس سے مراد وہ زکوٰۃ ادا کرنا ہے جو نماز کے ساتھ اسلام کا دوسرا رکن ہے۔ علاوہ بریں زکوٰۃ کے لیے ایتاء کا لفظ استعمال ہوا ہے جو زکوٰۃ مال ادا کرنے کے معنی متعین کردیتا ہے، کیونکہ عربی زبان میں پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے تزکی کا لفظ بولا جاتا ہے نہ کہ ایتاء زکوٰۃ، دراصل یہاں جو بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ کہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایمان کے ساتھ عملاً اطاعت و اتباع کا رویہ اختیار کرنا بھی ضروری ہے، اور اقامت صلوۃ و ایتاء زکوٰۃ وہ پہلی علامت ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ آدمی نے واقعی اطاعت قبول کرلی ہے، یہ علامت جہاں غائب ہوئی وہاں فورا یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آدمی سرکش ہے، حاکم کو حاکم چاہے اس نے مان لیا ہو، مگر حکم کی پیروی کے لیے وہ تیار نہیں ہے۔ سورة النمل 4 اگرچہ آخرت کا عقیدہ ایمانیات میں شامل ہے، اور اس بنا پر " ایمان لانے والوں " سے مراد ظاہر ہے کہ وہی لوگ ہیں جو توحید اور رسالت کے ساتھ آخرت پر بھی ایمان لائیں، لیکن ایمانیات کے ضمن میں اس کے آپ سے آپ شامل ہونے کے باوجودیہاں اس عقیدے کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے خاص طور پر زور دے کر اسے الگ بیان کیا گیا ہے، اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے کہ جو لوگ آخرت کے قائل نہ ہوں ان کے لیے اس قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا بلکہ اس پر قدم رکھنا بھی محال ہے، کیونکہ اس طرز فکر کے لوگ طبعا اپنا معیار خیر و شر صرف انہی نتائج سے متعین کرتے ہیں جو اس دنیا میں ظاہر ہوتے یا ہوسکتے ہیں۔ اور ان کے لیے کسی ایسی نصیحت و ہدایت کو قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا جو انجام اخروی کو سود و زیاں اور نفع و نقصان کا معیار قرار دے کر خیر و شر کا تعین کرتی ہو، ایسے لوگ اول تو انبیاء (علیہم السلام) کی تعلیم پر کان ہی نہیں دھرتے، لیکن اگر کسی وجہ سے وہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل بھی ہوجائیں تو آخرت کا یقین نہ ہونے کے باعث ان کے لیے ایمان و اسلام کے راستے پر ایک قدم چلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس راہ میں پہلی ہی آزمائش جب پیش آئے گی جہاں دنیوی فائدے اور اخروی نقصان کے تقاضے انہیں دو مختلف سمتوں میں کھینچیں گے تو وہ بےتکلف دنیا کے فائدے کی طرف کھچ جائیں گے اور آخرت کے نقصان کی ذرہ برابر پروا نہ کریں گے، خواہ زبان سے وہ ایمان کے کتنے ہی دعوے کرتے رہیں۔
Top