بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - An-Najm : 1
وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ
وَالنَّجْمِ : قسم ہے تارے کی اِذَا هَوٰى : جب وہ گرا
تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے
والنجم اذا ھویٰ ۔ حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا، والنجم اذا ھوی ٰ سے مراد ہے ثریا جب فجر کے ساتھ غروب ہوجائے۔ عرب ثریا کو نجم کہتے ہیں اگرچہ تعداد میں یہ نجوم ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ سات ستارے ہیں ان میں سے چھ ظاہر ہیں اور ایک مخفی ہے جس کے ساتھ لوگ اپنی نظروں کا امتحان کرتے ہیں۔ قاضی عیاض کی ” الشفا “ میں ہے کہ نبی کریم ﷺ ثریا میں گیارہ ستارے دیکھا کرتے تھے۔ مجاہد سے یہ بھی مروی ہے : معنی ہے قسم ہے قرآن کی جب وہ نازل ہو (1) کیونکہ وہ آیات درآیات نازل ہوتا تھا، یہ فراء کا قول ہے۔ ان سے یہ بھی مروی ہے : مراد تمام ستارے ہیں جب وہ غروب ہوں، یہ حضرت حسن بصری کا قول ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ستاروں کی قسم اٹھائی جب وہ غائب ہوں۔ لفظ واحد کے ساتھ تعبیر کرنا ممتنع نہیں اس کا معنی جمع کا ہے۔ ایک چرواہے نے کہا : عمر بن ابی ربیعہ نے کہا : احسن النجم فی السماء الثریا والثریا فی الارض زین النسائ۔ آسمان میں سب سے خوبصورت ستارہ ثریا ہے، زمین میں ثریا، عورتوں کی زینت ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : نجم سے مراد ستارے ہیں جب قیامت کے روز وہ گریں گے۔ (3) سدی نے کہا : یہاں نجم سے مراد زہرہ ہے کیونکہ عربوں میں سے کچھ لوگ اس کی عبادت کیا کرتے تھے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس سے مراد وہ ستارے ہیں جن کے ساتھ شیاطین کو رجم کیا جاتا ہے اس کا سبب ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو مبعوث کرنے کا ارادہ کیا تو آپ کی ولادت سے قبل ستارے ٹوٹ کر گرے اس وجہ سے بہت سے عرب ڈر گئے وہ اپنے کاہن کے پاس گئے جو نابینا تھے وہ انہیں حادثات کی خبر دیتا تھا لوگوں نے اس سے ستاروں کے ٹوٹنے کے بارے میں پوچھا : اس نے کہا، بارہ برجوں کی طرف دیکھو اگر ان میں سے کوئی ایک ٹوٹ گرے تو یہ دنیا کی تباہی کی علامت ہے۔ اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ٹوٹے تو دنیا میں کوئی عظیم حادثہ رونما ہوگا اس کا علم حاصل کرو۔ جب رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی یہی وہ عظیم امر تھا جس کا انہیں احساس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے والنجم اذا ھوی کو نازل فرمایا وہ ستارہ جو گرا وہ اس نبوت کی وجہ سے تھا جو اس وقت رونما ہونے والی تھی۔ ایکق ول یہ کیا گیا ہے : مراد اس سے ایسی نباتات ہے جس کا تنانہ ہو۔ ھویٰ یعنی وہ زمین پر گر گئی۔ جعفر بن محمد لعی بن حسین نے کہا : النجم سے مراد حضرت محمد ﷺ کی ذات ہے۔ اذا ھوی جب معراج کی رات آپ آسمان سے اترے۔ حضرت عوہ بن زبیر سے مروی ہے کہ عتبہ بن ابی لہب جس کے عقد میں رسول اللہ ﷺ کی بیٹی تھی (1) اس نے شام کی طرف نکلنے کا ارادہ کیا اس نے کہا، میں (حضرت) محمد ﷺ کے پاس جائوں گا اور ضرور انہیں اذیت دوں گا وہ آپ کے پاس آیا اور کہا، اے محمد چ وہ النجم اذا ھویٰ اور الذی دنافتدلی کا انکار کرنے والا ہے پھر اس نے رسول اللہ ﷺ کے چہرے پر لعاب پھینکا العیاذ باللہ۔ آپ ﷺ کی بیٹی آپ ﷺ کی طرف لوٹا دی اور اسے طلاق دے دی۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی :” اے اللہ ! اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلط کر دے۔ “ ابوطالب موجود تھے غم کی زیادتی کی وجہ سے سرجھکا لیا اور کہا : اے بھتیجے ! اس دعوت نے تجھے کیا فائدہ دیا ؟ عتبہ اپنے باپ کے پاس آیا اور اسے سارا واقعہ بتایا پھر وہ قافلہ شام کی طرف چلا۔ انہوں نے ایک جگہ پڑائو کیا۔ ایک راہب اپنے کلیسا سے ان پر جھانکا اس نے کہا، یہ علاقہ درندوں کا ہے۔ ابولہب نے اپنے ساتھیوں سے کہا : اے جماعت قریش ! اس رات ہماری مدد کرنا۔ میں (حضرت) محمد ﷺ کی داع کی وجہ سے اپنے بیٹے کے بارے میں ڈرتا ہوں۔ انہوں نے انے اونٹوں کو جمع کیا اور اپنے گرد بٹھا لیا اور عتبہ کا محاصرہ کرلیا۔ شیران کے منہ سونگھتا ہوا آیا یہاں تک کہ عتبہ پروار کیا اور اسے قتل کردیا : حضرت حسان نے یہ شعر کیا : من یرجع العام الی اھلہ فما اکیل السبع بالراجع اس سال کون اپنے گھر کی طرف لوٹے گا، درندے کا کھایا ہوا واپس نہیں لوٹتا۔ نجم کا اصل معنی طلوع رنا ہے یہ جملہ کہا جاتا ہے : نجم السن دانت نکل آیا۔ نجم فلان ببلاد کذا فلاں نے فلاں علاقہ میں بادشاہ کے خلاف بغاوت کی۔ الھوی کا معنی نازل ہونا اور گرنا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے : ھوی یھوی ھویا جس طرح مضی یمضی مضیا ہے : شاعر نے کہا : بینما نحن بالبلاکث فالقا سراعاً والعیس تھوی ھویا اسی اثناء میں کہ ہم بلاکث اورق اع میں تیزی سے گزر رہے تھے جب کہ عمدہ اونٹ اتر رہے تھے۔ اصمعی نے کہا، ہوی، یھوی ھویا جب بلندی سے پستی کی طرف گرے اسی طرح انھوی فی السیر ہے جب وہ گزر جائے۔ ھوی اور انھوی دو لغتیں ہیں جن کا معنی ایک ہے، شاعر نے دونوں کو اس شعر میں جمع کردیا ہے : وکم منزل لولای لمحت کما ھوی باجوامہ من قلۃ النیق منھوی کتنی ہی منزلیں ہیں اگر میں نہ ہوتا تو سرگرداں رہتا جس طرح ہپاڑ کی چوٹی سے گرنے والی چیز نہیں گرتی ہے۔ محبت میں کہا جاتا ہے، ھوی یھوی ھوی جب وہ محبت کرے۔ ماضل صاحبکم یہ جواب قسم ہے معنی ہے حضرت محمد ﷺ حق سے گمراہ نہ ہوئے اور نہ اس سے پھرے۔ وما غوی۔ غی اشد کی ضد ہے معنی ہے گمراہ نہ ہوئے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آپ نے باطل گفتگو نہ کی۔ ایکق ول یہ کیا گیا : جو طلب کیا اس میں خائب و خاسر مراد ہے۔ غنی کا معنی خسارہ ہے۔ شاعر نے کہا : فمن یلق خیراً یحمد الناس امرہ ومن یغو لایعدم علی الغی لائما (1) جو مال پاتا ہے لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں اور جو خسارہ اٹھاتا تو وہ ملامت کرنے والے سے خالی نہیں ہوتا۔ مراد ہے جو اپنی طلب میں ناکام رہتا ہے لوگ اس کو ملامت کرتے ہیں۔ پھر یہ بھی جائز ہے کہ آپ کو خبر دی جا رہی ہو جو وحی کے بعد ہونا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ عمومی طور پر آپ کے احوال کی خبر دی جا رہی ہو یعنی آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی توحید پر کار بند رہے ہیں سورة شوریٰ آیت 52 میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فرمان ما کنت تدری ما الکتب ولا ایمان کے ضمن میں جو بیان کیا ہے اس اعتبار سے یہی صحیح ہے۔
Top