Al-Qurtubi - An-Najm : 8
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ
ثُمَّ دَنَا : پھر قریب آیا فَتَدَلّٰى : پھر اتر آیا
پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے
ثم دنا فتدلی۔ یعنی افق علی میں ظاہر ہونے کے بعد حضرت جبرئیل امین زمین کے قریب ہوئے فتدلی یعنی وحی کے ساتھ نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئے مطلب یہ ہے جب نبی کریم ﷺ نے اس کی عظمت کو دیکھا جو دیکھا اور اس وجہ سے آپ خوفزدہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کو آدمی کی صورت میں لوٹا دیا جب وہ وحی کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے قریب ہوئے یہی اللہ تعالیٰ کے فرمان فاوحی الی عبدہ ما اوحی۔ کا مقصود ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امین کی طرف وحی کی اور جبرئیل امین قاب قوسین او ادنیٰ ۔ کے مقام پر فائز تھے (1) یہ حضرت ابن عباس، حضرت حسن بصری، قتادہ اور بیع وغیرہ کا نقطہ نظر ہے۔ حرت ابن عباس سے یہ بھی منقول ہے کہ ثم دنا فتدلی۔ کا مفہوم یہ ہے اللہ تعالیٰ حضرت محمد ﷺ کے قریب ہوا۔ حضرت انس بن مالک نے نبی کریم ﷺ سے اس کی مثل روایت نقل کی ہے۔ معنی ہوگا اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کا حکم قریب وہا۔ التدلی کا اصل معنی ہے کسی چیز کی طرف اترنا یہاں تک کہ اس کے قریب ہوجائے تو اسے قرب کی جگہ رکھا گیا ہے : لبید نے کہا فتدلیت علیہ قافلاً میں لوٹتے ہوئے اس پر اترا۔ فراء اس طرف گیا ہے کہ فتدلی میں فاء وائو کے معنی میں ہے تقدیر کلام یہ ہے پھر جبرئیل امین (علیہ السلام) نیچے اترے اور قریب ہوئے لیکن یہ جائز ہوتا ہے جب دو فعلوں کا معنی ایک ہو یا ایک کی طرح ہو تو جس کو چاہو اسے پہلے رکھ لو۔ تو کہہ سکتا ہے : فدنا فقرب اور قرب فدنا۔ شتمنی فاساء اور اساء فشتمی کیونکہ گالی دینا اور برا سلوک کرنا ایک ہی معنی میں ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ا قتربت الساعۃ وانشق القمر۔ (القمر) اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے معنی ہے چاند پھٹ گیا اور قیامت قریب آگئی۔ جرجانی نے ہا : کلام میں تقدیر و تاخیر ہے یعنی تدلی فدنا کیونکہ نیچے اترنا قریب ہونے کا سبب ہے۔ ابن انباری نے کہا : یعنی پھر جبرئیل امین آسمان سے اترے اور حضرت محمد ﷺ کے قریب ہوئے۔ حضرت ابن عباس نے کہا، معراج کی رات رفرف حضرت محمد ﷺ کی طرف اترا آپ اس پر بیٹھے پھر اسے بلند کیا گیا تو آپ اپنے رب کے قریب ہوگئے۔ اس کا ذکر ابھی آئے گا۔ جس نے یہ کہا معنی ہے جبرئیل امین بلند ہوئے جب کہ حضرت محمد ﷺ افق اعلی پر تھے وہ ضرور کہے گا پھر حضرت محمد ﷺ اپنے رب کے قریب ہوئے (2) یہ کرامت کا قرب ہے تو نبی کریم ﷺ سجدہ ریز ہوگئے، یہ ضحاک کا قول ہے۔ قشیری نے کہا، ایک قول یہ کیا گیا ہے تدلی اصل میں تدلل تھا جس طرح تیرا یہ قول ہے تظنی اصل میں تظنن ہے یہ بعید ہے کیونکہ دلال عبودیت کی صفت میں پسندیدہ نہیں۔
Top