Al-Qurtubi - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما۔ اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔
تفسیر اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ …مراد تابعین اور قیامت تک اسلام میں داخل ہونے والے ہیں۔ ابن ابی لیلی نے کہا : لوگوں کے دین درجے ہیں (1) مہاجرین (2) انصار جن کا ذکر ان الفاط میں کیا گیا ہے۔ ……(3) بعد کے مومنین جو قیامت تک آئیں گے جن کا ذکر والذین جاء و من بعدھم کے ساتھ کیا گیا ہے، اس لئے کوشش کرو کہ ان سے باہر نہ نکلو۔ کسی نے کہا : سورج بنو، اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو چاند بنو، اگر یہ بھی طاقت نہیں رکھتے تو روشن ستارہ بنو۔ اگر تم یہ بھی طاقت نہیں رکھتے تو چھوٹا ستارہ بن جائو اور نور کی جہت ختم نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا معنی ہے مہاجر ہی بن جائو۔ اگر تو کہتے : میں تو ایسا موقع نہیں پاتا تو انصاری بن جائو اگر تم یہ بھی نہ پائو تو ان کے اعمال جیسے اعمال کرو، اگر یہ بھی طاقت نہ رکھو تو ان سے محبت کرو اور ان کے حق میں بخشش طلب کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھے حکم دیا ہے۔ حضرت مصعب بن سعد نے کہا : لوگوں کو تین منازل ہیں دو منزلیں گزر چکی ہیں اور ایک منزل باقی ہے جس پر تم ہو اس میں بہترین یہ ہے کہ جو منزل باقی ہے تو اسی منزل پر رہو۔ جعفر بن محمد بن علی اپن باپ سے وہ اپنے دادا حضرت علی بن حسین ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اس نے عرض کیا : اے رسول اللہ ﷺ کے نواسے ! آپ حضرت عثمان کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ آپ نے اسے فرمایا : اے بھائی : تو اس قوم سے تعلق رکھتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : للفقراء المھجرین اس نے عرض کی : نہیں۔ فرمایا : اگر تو اس آیت کا مصداق نہیں تو ان لوگوں سے تعلق رکھتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : والذین تبود الدار والایمان اس نے عرض کی : نہیں، فرمایا : اللہ کی قسم ! اگر تو تیسری آیت کا مصداق بھی نہ بنے تو تم اسلام سے خارج ہوجائو گے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ………۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ حضرت محمد بن علی بن حسین ؓ اپنے والد سے روایت نقل کرتے ہیں کہ عراق کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ؓ کو سب و شتم کیا پھر حضرت عثمان غنی ؓ کو بھی برا بھلا کہا اور حد سے تجاوز کیا۔ آپ نے انہیں فرمایا : کیا تم مہاجرین اولین میں سے ہو ؟ انہوں نے کہا : نہیں، پوچھا : کیا تم انصار میں سے ہو جنہوں نے دار حجرت کو پہلے ہی ٹھکانہ بنایا ہوا تھا، انہوں نے کہا : نہیں، فرمایا : تم ان دونوں جماعتوں سے نہ ہونے کا اعلان کرچکے ہو۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے بھی نہیں جن کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے :………۔ اٹھ جائو اللہ تعالیٰ تمہیں ذلیل و رسوا کرے (1) ۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ آیت صحابہ کرام کی محبت کے وجوب پر دلیل ہے کیونکہ ان کے بعد جو لوگ بھی ہونگے مال فئی میں انکا حصہ اس صورت میں ہے جب تک وہ لوگ صحابہ کی محبت، ان کی حمایت اور بخشش طلب کرنے پر قائم رہیں گے جس نے ان سب کو گالیاں دیں یا ان میں سے ایک کو گالیاں دیں یا ان میں کسی شر کا اعتقاد رکھا تو مال فئی میں ان کا کوئی حق نہیں : یہی چیز امام مالک اور دوسرے علماء سے بھی مروی ہے۔ امام مالک نے کہا : جو آدمی حضرت محمد ﷺ کے اصحاب میں سی کسی سے بھی بغض رکھتا ہے یا اس کے دل میں ان کے بارے میں کوئی کینہ ہے تو مسلمانوں کے مال فئی میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں، پھر اس آیت کی تلاوت کی (2) ۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ علماء کے اقوال میں سے صحیح یہ ہے کہ منقولہ اموال کو تقسیم کردیا جائے اور جائیداد اور زمین کو تمام مسلمانوں کی ضروریات کے لئے باقی رکھا جائے جس طرح حضرت عمر ؓ نے کیا مگر یہ کہ والی اجتہاد کرے، وہ امر نافذ کرے اور اس کا عمل اس میں جاری وساری ہوجائے کیونکہ لوگوں کا اس میں اختلاف تھا یہ آیت اس بارے میں فیصلہ کرنیوالی ہے کیونکہ اللہ تعاولیٰ نے فئی کے بارے میں خبر دی اور اسے تین طائفوں کے لئے بنایا، مہاجرین، انصار یہ تو معلوم و مشہور ہیں، ………یہ آیت تابعین اور ان کے بعد قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے عام ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ نبی کریم ﷺ قبرستان کی طرف تشریف لے گئے، فرمایا : السلام علیکم دار قوم مومنین و انا ان شاء التدبکم لاحقون وددت ان رایت اخواتنا، اے مومن قوم کے گھر (والو ! ) تم پر سلام ہو ہم انشاء اللہ تمہیں لاحق ہونے والے ہیں میں پسند کرتا ہوں کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں۔ صحابہ نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟ فرمایا : بلکہ تم میرے صحابہ ہو ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے میں حوض پر پہلے جا کر ان کا انتظام کرنے والا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے واضح کیا کہ ان کے بھائی وہ ہیں جو انکے بعد آئیں گے (3) ۔ بات اس طرح نہیں جس طرح سدی اور کلبی نے کہی کہ جنہوں نے اس کے بعد ہجرت کی۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا : والذین جاء و من بعد چم سے مراد ہے جس نے ہجرت کے ختم ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ کا قصد کیا اور مدینہ آیا۔ مسئلہ نمبر 4 ۔ یقولون حالہونے کی حیثیت سے محل نصب میں ہے۔ ……… اس میں دو وجوہ ہیں۔ 1 : انہیں حکم دیا گیا کہ اہل کتاب میں سے جو جو مومن اس امت سے پہلے ہو گزرے ہیں ان کیلئے بخشش طلب کرو۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا : انہیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ وہ ان کے لئے بخشش کے طلب گار ہوں تو انہوں نے ان کو گالیاں دیں۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ مہاجرین و انصار میں سے اولون ساتھیوں کے لئے بخشش طلب کریں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے صحابہ کیلئے بخشش طلب کرنے کا حکم دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ انہیں آزمائش میں ڈالا جائے گا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا : تمہیں تو یہ حکم دیا گیا کہ تم حضرت محمد ﷺ کے صحابہ کے لئے بخشش طلب کرو تو تم نے انہیں گالیاں دیں۔ میں نے تمہارے نبی ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” یہ امت بلاک نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس کے بعد والا پ ہے والے کو لعنت کرے گا “۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :” جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہیں تو کہو : اللہ تعالیٰ تم میں سے سب سے شریر پر لعنت کرے “۔ عوام بن حوشب نے کہا : میں نے اس امت کے متقدمین کو پایا وہ کہتے : رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے محاسن بیان کرو تاکہ تمہارے دل ان سے محبت کرنے لگیں اور ان کے درمیان جو تنازعات پیدا ہوئے ان کا ذکر نہ کرو کہ تم لوگوں کو بھی ایسی باتیں کرنے پر جری بنا دو گے۔ شعبی نے کہا : یہ یہودیوں اور نصاری، رافضیوں پر ایک خصلت میں فضیلت رکھتے ہیں۔ یہودیوں سے پوچھا جائے : تمہارے ملت میں سے سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ وہ کہتے ہیں : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صحاب نصاری سے پوچھا جائے : تمہارے ملت میں سے سب سے بہتر لوگ کون ہیں ؟ وہ جواب دیں گے : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے صحابہ۔ رافضیوں سے پوچھا جائے تمہاری ملت میں سے سب سے برئے کون ہیں ؟ وہ کہیں گے : حضرت محمد ﷺ کے صحابہ۔ لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان کے لئے استغفار کریں تو رافضیوں نے انہیں برا بھلا کہا۔ قیامت تک ان پر تلوار سونتی جاتی رہے گی نہ ان کے لئے جھنڈا قائم ہوگا اور نہ ان کے قدم ثابت ہونگے اور نہ ان کی جمعیت اکٹھی ہوگی۔ جب وہ جنگ کی آگ بھڑکائیں گے اللہ تعالیٰ ان کے خون بہانے اور ان کی حجت کو پست کرنے کے ساتھ سے بھی دے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں گمراہ کن خواہشات سے محفوظ رکھے۔ غل سے مراد کینہ اور حسد ہے۔
Top