Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Hashr : 9
وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَیْهِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِهِمْ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ١۫ؕ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ
وَالَّذِيْنَ
: اور جن لوگوں نے
تَبَوَّؤُ
: انہوں نے قرار پکڑا
الدَّارَ
: اس گھر
وَالْاِيْمَانَ
: اور ایمان
مِنْ قَبْلِهِمْ
: ان سے پہلے
يُحِبُّوْنَ
: وہ محبت کرتے ہیں
مَنْ هَاجَرَ
: جس نے ہجرت کی
اِلَيْهِمْ
: ان کی طرف
وَلَا يَجِدُوْنَ
: اور وہ نہیں پاتے
فِيْ
: میں
صُدُوْرِهِمْ
: اپنے سینوں (دلوں)
حَاجَةً
: کوئی حاجت
مِّمَّآ
: اس کی
اُوْتُوْا
: دیا گیا انہیں
وَيُؤْثِرُوْنَ
: اور وہ اختیار کرتے ہیں
عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ
: اپنی جانوں پر
وَلَوْ كَانَ
: اور خواہ ہو
بِهِمْ خَصَاصَةٌ ڵ
: انہیں تنگی
وَمَنْ يُّوْقَ
: اور جس نے بچایا
شُحَّ نَفْسِهٖ
: بخل سے اپنی ذات کو
فَاُولٰٓئِكَ
: تو یہی لوگ
هُمُ
: وہ
الْمُفْلِحُوْنَ
: فلاح پانے والے
اور (ان لوگوں کے لئے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (یعنی مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے اور جو لوگ ہجرت کر کے انکے پاس آتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور خلش) نہیں پاتے اور انکو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرص نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔
آیات۔
9
۔ اس میں گیارہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ والذین تبو والدار ولایمان من قبلھم اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ الذین تبوا الدار سے مراد انصر ہیں جنہوں نے مہاجرین سے قبل مدینہ طیبہ کو اپنا وطن بنایا تھا۔ الایمان کا لفظ تبو وا کی بجائے کسی اور فعل کی وجہ سے منصوب ہے کیونکہ تبئوا کا تعلق مکان سے ہوتا ہے۔ من قبلھم، من تبو وا کے متعلق ہے معنی ہے جنہوں نے مہاجرین سے منصوب ہے کیونکہ تبئوک تعلق مکان سے ہوتا ہے۔ من قبلھم، منو بتو وا کے متعلق ہے معنی ہے جنہوں نے مہاجرین سے پہلے یہاں رہائش اختیار کی، ایمان کا اعتقاد رکھا اور اسکے لئے اخلاص کا مظاہرہ کیا کیونکہ ایمان ایسی چیز نہیں جس کو ٹھکانہ بنایا جائے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فاجمعوا امرکم وشرکاء کم (یونس :
71
) یہاں بھی تقدیر کلام یہ ہے وادشرکاء کم ابو علی، زمحشری اور دوسرے علماء نے اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ کلام بھی اس طریقہ پر ہے علفتھا تبنا و ماء بارد ایہاں بھی ایجاز حذف کا قاعدہ ہے۔ اصل میں سقیتھا ماء باردا یہ بھی جائز ہے کہ مضاف کے حذف پر اسے محمول کیا جائے گویا یوں ارشاد فرمایا : تبوء والدار مواضع الایمان یہ بھی جائز ہے کہ اسے اس پر محمول کیا جائے جس پر تبو ادلالت کرتا ہے۔ گویا فرمایا : لزموا الدار ولزموا الایمان یہ بھی جائز ہے کہ تبوا الایمان ضرب المثل کے طریقے پر ہو جس طرح تو کہتا ہے : تبوا من بنی فلانالصمیم۔ البتواء سے مراد تمکن اور استقرار ہے۔ یہ مراد نہیں کہ انصار مہاجرین سے پہلے ایمان لائے بلکہ یہ ارادہ کیا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے پہلے ایمان لائے۔ مسئلہ نمبر
2
۔ اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے کیا اس آیت کا ماقبل آیت سے اعرابی تعلق نہیں یا اس کا ماقبل پر عطف ہے ؟ ایک قوم کی یہ رائے ہے : اس کا عطف للفقراء المھرجین پر ہے سورة حشر میں جتنی بھی آیات ہیں سب ایک دوسرے پر معطوف ہیں۔ پس اگر اس میں وہ غوروفکر کرتے اور انصاف سے کام لیتے تو جو نقطہ نظر انہوں نے اپنایا ہے اس کے خلاف پاتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان : ……………میں نبی نضیر اور بنی قینقاع کے بارے میں خبر دی ہے، پھر فرمایا : ……… ء اس میں خبر دی کہ یہ اموال رسول اللہ ﷺ کے لئے ہیں کیونکہ جب اموال ان سے چھڑوائے گئے ان پر کوئی گھوڑے نہیں دوڑائے گئے۔ ان کے بارے میں جو گزرا کہ قتال ہوا، ان کے درخت کاٹے گئے۔ صحابہ نے اسے چھوڑ دیا تھا اور امر ختم ہوگیا تھا۔ پھر فرمایا : ……… اس کا ماقبل کلام پر کوئی عطف نہیں اسی طرح والذین تبواء الداروا الایمان انصار کی مدح اور ان کی ثنا کا آغاز ہورہا ہے کیونکہ انہوں نے اس مال فئی کو مہاجرین کے سپرد کردیا تھا گویا فرمایا : مال فئی مہاجر فقراء کے لئے ہے۔ انصار ان سے محبت کرتے ہیں اور مال فئی جو مہاجرین کے لئے خاص کیا گیا انہوں نے اس سے حسد نہ کیا اسی طرح والذین جاء و من بعدھم نئی کلام ہے اور اس کی خبر ……… ہے۔ اسماعیل بن اسحاق نے کہا : والذین تبوا الدار اور والذین جاء و کا ماقبل پر عطف ہے۔ وہ مال فئی میں شریک ہیں، یعنی یہ مال مہاجرین اور انصار کے لئے ہے۔ مالک بن اوس نے کہا : حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہ آیت پڑھی۔ انما الصدقت للفقرائ (التوبۃ :
60
) فرمایا : یہ ان کے لئے پھر ………(الانفال :
41
) فرمایا : یہ ان کے لئے، پھر ……………آیات پڑھیں۔ پھر فرمایا : اگر میں زندہ رہا تو ایک چرواہا جو حمیر کے پہاڑوں ( جو یمن کا علاقہ ہے) میں ہوگا اس کا حصہ اس کے پاس پنچے گا، اس کی پیشانی کو پسینہ سے شرابور نہ ہوناپڑے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : حضرت عمر ؓ نے انصار و مہاجرین کو بلایا اور اللہ تعالیٰ نے جو فتوحات عطا فرمائی تھیں ان کے بارے میں مشورہ طلب کیا فرمایا : معاملہ میں خوب غوروفکر کرو پھر اگلے روز میرے پاس آئو، آپ نے رات بھر سوچ و بچار کی تو آپ یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ آیات اس معاملہ میں نازل ہوئی ہیں۔ جب وہ صبح آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے فرمایا : میں نے گزشتہ رات ان آیات کو پڑھا جو سورة حشر میں ہے اور ان آیات کو تلاوت کیا۔ ………۔ تک پہنچا فرمایا : تک پہنچے فرمایا : یہ اموال صرف ان کے لئے نہیں اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی ………پھر فرمایا : اہل اسلام میں سے کوئی آدمی نہیں بچا جو اس میں داخل نہ ہو۔ مسئلہ نمبر
3
۔ امام مالک نے زندبن اسلم سے وہ اپنے باپ سے وہ حضرت عمر ؓ سے روایت نقل کرتے ہیں : اگر بعد میں آنے والے لوگوں کا خیال نہ ہوتا تو کوئی بستی فتح نہ کی جاتی مگر میں اسے اس طرح تقسیم کردیتا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے خیبر کو تقسیم کیا۔ کثیر سندوں سے اخبار مشہورہ میں یہ موجود ہے۔ تو حضرت عمر ؓ نے عراق کا دیہاتی علاقہ، مصر اور ان کی غنیمتوں کو مجاہدین میں تقسیم کیے بغیر باقی رہنے دیا تاکہ ان اموال سے مجاہدین کے عطیات، کمزور لوگوں اور بچوں کو روزینہ کا بندوبست ہوسکے۔ حضرت زبیر ؓ ، حضرت بلال ؓ اور دوسرے صحابہ نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقوں کو ان میں تقسیم کردیا جائے۔ حضرت عمر ؓ ان کی اس رائے کو پسند نہ کیا۔ اور حضرت عمر ؓ نے جو کچھ کیا اس میں اختلاف کیا گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا : آپ نے عمل یہ غازیوں کی خوشنودگی سے کیا۔ جس نے اپنا حصہ بغیر قیمت کے چھوڑ دیا تاکہ مسلمانوں کے لئے باقی چھوڑے اور وہ اس پر راضی تھا وہ آپ نے لے لیا اور جس نے ایسا کرنے سے انکار کیا آپ نے اسے اس کے حصہ کی قیمت دے دی۔ کچھ نے کہا : آپ نے لوگوں کی رضا مندی کے بعد زمین کو اس طرح رہنے دیا آپ کے اس عمل کی بنیاد نبی کریم ﷺ کا فعل بنا دیا جائے گا کیونکہ آپ نے خیبر کے علاقہ کو تقسیم کیا، کیونکہ حضور ﷺ نے اسے خریدا اور جس نے اپنے حصہ کو خوشدلی سے ترک کردیا یہ اس کی تقسیم کے قائم مقام ہی ہے : ایک قول یہ کیا گیا ہے : آپ نے مجاہدین کو کوئی چیز دیئے بغیر اس علاقہ کو مملکت اسلامیہ کی ملکیت میں باقی رہنے دیا تھا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آپ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان …………۔ میں تاویل کردی تھی۔ مسئلہ نمبر
4
۔ زمینوں اور جاگیروں کی تقسیم میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ امام مالک نے کہا : امام کو حق حاصل ہے کہ وہ ان زمینوں کو مسلمانوں کے مصالح کے لئے وقف کردے۔ امام ابوحنیفہ نے کہا : امام کو اختیار حاصل ہے کہ ان زمینوں کو تقسی کردے یا مسلمانوں کی ضروریات کے لئے اسے وقف کردے۔ امام شافعی نے کہا : مجاہدین کی رضا کے بغیر امام کو وہ زمینیں روکنے کا حق نہیں بلکہ دسرے اموال کی طرح ان زمینوں کو بھی ان میں تقسیم کردے۔ جس نے خوشی دلی سے اپنا حق امام کے حوالے کردیا کہ وہ لوگوں کے مصالح کے لئے اسے وقف کردے تو اسے یہ حق حاصل ہوگا اور جو راضی نہ ہو تو وہ اپنے مال کا زیادہ حقدار ہے۔ حضرت عمر ؓ نے مجاہدین کا راضی کیا اور ان سے وہ زمینیں خرید لیں (
1
) ۔ میں کہوں گا : اس تعبیر کی بنا پر والذین جاء و من بعدھم ما قبل کلام سے لا تعلق ہوگا انہیں پہلوں کے حق میں دعا اور ان کی تعریف کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر
5
۔ ابن وہب نے کہا : میں نے امام مالک کو مدینہ طیبہ کی دوسرے علاقوں پر فضیلت کا ذکر کرتے ہوئے سنا : مدینہ کو ایمان اور ہجرت کا ٹھکانہ بنایا گیا جبکہ دوسری بستیاں انہیں بزور شمشیر فتح کیا گیا۔ پھر آپ نے اس آیت و……………کی قراءت کی۔ اس بارے میں گفتگو پہلے گزر چکی ہے اور اسی طرح دونوں مسجدوں مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نما زکی فضیلت کی بحث گزر چکی ہے۔ اسے کے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ مسئلہ نمبر
6
۔ ……۔ مال فئی اور دوسری چیزوں کو جو مہارجین کے لئے خاص کیا گیا ہے اس پر انصار کوئی حسد نہیں کرتے ؛ اسی طرح لوگوں نے کہا : اس میں دو مضاف مقدر ہونگے تقدیر کلام یہ ہوئی مس حاجۃ من فقدما اوتوا انسان اپنے سینہ میں کوئی ایسی چیز پاتا ہے جس کے ازالہ کی اسے ضرورت ہوتی ہے تو اسے حاجت کہتے ہیں مہاجرین، انصار کے گھروں میں رہتے جب نبی کریم ﷺ کو بنو نضیر کے اموال حاصل ہوئے تو آپ ﷺ نے انصار کو بلایا انہوں نے مہاجرین کے ساتھ جو سلوک کیا کہ انہیں اپنے گھروں میں ٹھہرایا اور اپنے اموال میں انہیں شریک کیا اس پر ان کا شکریہ ادا کیا پھر فرمایا :” اگر تم پسند کرو تو اللہ تعالیٰ نے بنو نضیر کے جو اموال ہمیں عطا کیے ہیں وہ میں تمہارے اور ان کے درمیان تقسیم کردوں اور مسلمان اسی طرح تمہارے گھروں اور اموال میں حصہ دار رہیں اور اگر تم پسند کرو تو میں یہ اموال ان کو دے دوں اور وہ تمہارے گھروں سے نکل جائیں “۔ حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ ؓ نے عرض کی : نہیں بلکہ ان اموال کو مہاجرین میں تقسیم کردو اور وہ ہمارے گھروں میں ہی رہیں جس طرح وہ پہلے گھروں میں رہتے تھے۔ سب انصار نے یک زبان ہو کر کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم اس پر راضی ہیں اور سر تسلیم خم کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق میں یوں دعا کی : اللھم الائصار و بناء الانصارای اللہ ! انصار اور انصار کی اولادوں پر رحم فرما۔ رسول اللہ ﷺ نے وہ اموال مہاجرین کو دے دئیے اور انصار کے تین افراد کے سوا کسی کو کچھ نہ دیا جن کا ذکر ہم پہلے آیت
10
کے ضمن میں کرچکے ہیں۔ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ اس سے مراد ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوا ہو ۔ مال تھوڑا ہو تو وہ اس پر قناعت کرتے ہیں اور اسی پر راضی ہوتے ہیں وہ نبی کریم ﷺ کی ظاہری زندگی میں اسی طرح تھے اور آپ ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد بھی اسی طرح رہے نبی کریم ﷺ نے انہیں خبردار کیا تھا فرمایا : سترون بعد اثرۃ فاصبرا حتی تلقونی عی الحوص (
1
) تم میرے بعد دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دیا جاتا دیکھو گے تم صبر کرنا یہاں تک کہ تم حوض پر مجھے ملو۔۔ مسئلہ نمبر
7
۔ ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ۔ ترمذی شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے کہ ایک آدمی کے پاس مہمان نے رات گزاری۔ اس کے پاس صرف اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کھانا موجود تھا۔ اس نے اپنی بیوی سے کہا : بچوں کو سلادو، چراغ بجھا دو اور جو کچھ تیرے پاس ہے مہمان کی خدمت میں پیش کر۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصۃ۔ کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسے امام مسلم نے نقل کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے : ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : میں بری مشقت میں مبتلا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک بیوی کے پاس آدمی بھیجا انہوں نے عرض کی : اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ! میرے پاس تو صرف پانی ہی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دوسری کے پاس آدمی بھیجا انہوں نے بھی اس کی مثل عرض کی یہاں تک کہ تمام ازواج مطہرات نے یہی گزارش کی۔ نہیں اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا میرے پاس تو پانی نہیں۔ فرمایا :” آج رات کو اس کی جو مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے “۔ ایک انصاری اٹھا عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں (یہ خدمت سرانجام دوں گا) وہ انصاری اس مہمان کو گھر لے گیا اپنی بیوی سے کہا : کیا تیرے پاس کوئی شے ہے۔ اس نے کہا : نہیں مگر بچوں کا کھانا ہے۔ کہا : بچوں کو کسی طرح بہلا پھسلا لینا، جب ہمارا مہمان گھر میں داخل ہو تو چراغ کو بجھا دینا، میں اسے یہ ظاہر کروں گا کہ میں کھانا کھا رہا ہوں۔ جب وہ کھانا کھانے کے لئے جھکا تو عورت چراغ کی طرف اٹھی اور اسے گل کردیا۔ کہا : وہ سب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھالیا۔ جب صبح ہوئی تو وہ نبی کریم ﷺ کی خدت میں حاضر ہوئے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :” اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے بہت خوش ہوا ہے “۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ حضور ﷺ اس کو کھانا کھلائیں۔ آپو کے پاس کوئی کھانا نہیں تھا جو آپ اسے کھلاتے فرمایا :” کیا کوئی ایسا آدمی نہیں جو اس کی ضیافت کرے، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے “۔ ایک انصاری اٹھا جسے ابو طلحہ کہتے وہ اسے اپنے گھر لے گئے اور پہلی حدیث کی مثل حدیث نقل کی۔ اس میں آیت کے نزول کا ذکر کیا۔ مہدوی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت حضرت ثابت بن قیس اور انصار کے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت ثابت اس کے پاس مہمان کے طور پر آئے تھے جسے ابو المتوکل کہا جاتا۔ حضرت ابو المتوکل کے پاس اپنے اور اپنے بچوں کے لئے کھانا تھا۔ آپ نے اپنی بیوی سے کہا : چراغ کو گل کر دو اور بچوں کو سلا دو جو کچھ کھانا ہے اسے مہمان کے سامنے پیش کرد ؛ نحاس نے بھی سی کی مثل ذکر یا ہے۔ کہا : حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہا : ایک انصاری جس کو ابو المتوکل کہا جاتا ہے کے پاس حضرت ثابت بن قیس مہمان کے طور پر ٹھہرے ان کے پاس اپنے اور بچوں کے کھانے کے سوا کوئی کھانا نہیں تھا۔ آپ نے اپنی بیوی سے کہا : چراغ کو گل کرد و اور اپنے بچوں کو سلا دو ۔ تو یہ آیت …………نازل ہوئی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ عمل کرنے والے حضرت طلحہ ؓ تھے (
1
) ۔ قشری ابو نصر عبد الرحیم بن عبد الکریم نے ذکر کیا حضرت ابن عمر ؓ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک کو ایک سرتحفہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس نے کہا : میرا فلاں بھائی اور اس کے اہل ہم سے اس کی زیادہ ضرورت رکھتے ہیں۔ اس نے وہ سر اس کی طرف بھیج دیا۔ وہ سر لگاتار ایک گھر سے دوسرے گھر کی طرف بھیجا جاتا رہا یہاں تک کہ وہ سات گھروں تک پہنچا اور پھر انہیں تک واپس آگیا تو یہ آیت نازل ہوئی ؛ ثعلبی نے اسے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے ایک کو بکری کا سرتحفہ کے طور پر پیش کیا گیا وہ بڑے تنگدست تھے۔ اس نے وہ سر اپنے پڑوسی کو بھیج دیا۔ وہ سر سات گھروں میں سے سات افراد تک گھومتا رہا، پھر وہ پہلے کی طرف لوٹ آیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : نبی کریم ﷺ نے بنی نضیر کے ساتھ جنگ کے موقعہ پر انصار سے فرمایا :” اگر تم چاہو تو میں تمہارے گھروں اور اموال کو مہاجرین کے لئے تقسیم کردوں اور تم بھی اس غنیمت میں شریک ہوجائو۔ اگر تم چاہو تو تمہارے گھر اور تمہارے اموال تمہارے پاس رہیں اور مال غنیمت میں سے کوئی چیز تمہیں نہ دیں۔ “ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ پہلی روایت زیادہ صحیح ہے۔ صحیحن میں حضرت انس ؓ سے روایت مروی ہے کہ ایک صحابی اپنی زمین میں سے کچھ کھجوروں کے درخت نبی کریم ﷺ کے لئے مختص کرتا یہاں تک کہ بنو نضیر اور بنو قریظہ پر آپ ﷺ کو فتح ہوئی۔ اس صحابی نے جو درخت آپ ﷺ کو عطا کیے تھے وہ آپ ﷺ نے اسے واپس کردیے۔ الفاظ مسلم شریف کے ہیں۔ انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جب مہاجر مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ آئے، ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ انصار زمینوں اور جائیدادوں والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان میں یوں تقسیم کی کہ انصار ہر سال اپنے اموال کا نصف مہاجرین کو دیں گے اور مہاجرین کام اور مشقت کے ذمہ دار ہونگے۔ حضرت انس بن مالک کی ماں جسے حضرت ام سلمہ کہتے ہیں جو حضرت عبد اللہ بن ابی طلحہ کی والدہ تھی۔ یہ حضرت انس کے ماں کی طرف سے بھائی تھے۔ حضرت انس ؓ کی والدہ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی کھجوروں کے کچھ درخت پیش کئے رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی لونڈی حضرت ام ایمن عطا کی جو حضرت اسامہ بن زیدی والدہ تھی۔ ابن شہاب نے کہا : حضرت انس بن مالک ؓ نے مجھے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ جب اہل خیبر کے ساتھ جنگ سے فارغ ہوئے اور مدینہ طیبہ واپس تشریف لائے مہاجرین نے انصار کو ان کے عطیات واپس کردئیے جو انہوں نے مہاجرین کو عطا فرمائے تھے رسول اللہ ﷺ نے میری ماں (ام انس بن مالک) کو کھجوریں واپس کردیں اور رسول اللہ ﷺ نے ام ایمن کو ان کی جگہ اپنے باغ میں سے کھجوریں عطا کیں۔ مسئلہ نمبر
8
۔ ایثار کا معنی ہے کسی غیر کو اپنی ذات اور نفس کے دنیاوی فوائد پر مقدم کرنا اور دینی منافع کی خواہش رکھنا۔ یہ چیز اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مضبوط یقین، قوی محبت اور مشقت پر صبر کری صلاحیت موجود ہو۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : اثرتہ بکذا میں نے اسے اس کے ساتھ خاص کیا اور اسے فضیلت دی۔ ایثار کا مفعول یہاں محذوف ہے تقدیر کلام یہ ہوئی یوثرونھم منازلھم وہ اپنے اموال اور اپنے گھروں کے بارے میں انہیں اپنی ذاتوں پر ترجیح دیتے ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ خود غنی ہیں بلکہ انہیں اس کی سخت ضرورت ہوتی ہے جس طرح اس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ اماممالک کو یہ خبر پہنچی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ایک سائل نے سوال کیا جبکہ وہ روزے سے تھیں، آپ کے گھر میں صرف ایک روٹی موجود تھی۔ آپ نے اپنی لونڈی سے فرمایا : روٹی اسے دے دو ۔ اس نے عرض کی : آپ کے لئے کوئی ایس چیز نہیں جس کے ساتھ آپ روزہ افطار کریں گی۔ فرمایا : روٹی اسے دے دو ۔ لونڈی نے کہا : میں نے اسی طرح کیا۔ اس نے کہا : جب ہم نیش ام کی تو کسی گھر والے یا کسی انسان نے ہمارے لئے وہ ہدیہ بھیجا جو وہ بھیجا کرتا تھا، یعنی بکری کا بھنا ہوا گوشت جسے روٹیوں میں لپیٹا گیا تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے مجھے بلایا فرمایا : اس سے کھائو یہ تیری اس روٹی سے بہتر ہے۔ ہمارے علماء نے کہا : یہ نفع مند مال میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑھنے والا فعل ہے، جتنا چاہتا ہے جلدی بدلہ دے دیتا ہے اور اس کے لئے آخرت میں جو ذخیرہ کیا ہوا ہے اس میں سے کوئی کمی نہیں کرتا۔ جو آدمی اللہ تعالیٰ کے لئے کسی چیز کو چھوڑتا ہے تو اس کو ناپید ہونے والا نہیں پاتا۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اپنے اس فعل کی وجہ سے ان لوگوں میں شامل ہوگئی ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی ہے کہ خود انہیں ایک چیز کی سخت ضرورت ہوتی ہے اس کے باوجود وہ دوسرے ولگوں پر اپنی ذات کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس نے یہ عمل کیا تو اس نے اپنے آپ کو نفس کے بخل سے بچا لیا اور کامل کامیابی حاصل کرلی اس کے بعد اس کے لئے کوئی خسارہ نہیں۔ شاۃ و کفنھا کا معنی ہے تمام عرب، بعض عرب یا ان میں سے بعض روسا کا یہ کھانا ہوا کرتا تھا۔ وہ بکری یا بکرے کے بچہ کی جلد جب اتار لیتے تو گندم کا آٹا اس پر مل دیتے اور کوئی حصہ خالی نہ چھوڑتے۔ پھر اسے تنور میں لٹکا دیتے اس کی چربی اسی آتے میں ہی رہتی۔ یہ ان کے نزدیک سب سے عمدہ کھانا شمار ہوتا تھ۔ امام نسائی نے حضرت نافع سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ بیمار ہوئے اور انگور کی خواہش کی۔ ایک درہم میں ان کے لئے انگور کا گھچا خریدا گیا۔ ایک مسکین آیا اس نے سوال کیا۔ فرمایا : گچھا اسے دو دو۔ ایک آدمی اس کے پیچھگے گیا اس نے وہ انگور کا گچھا اس سے ایک درہم میں خریدا اور حضرت ابن عمر ؓ کی خدمت میں لایا۔ سائل نے ارادہ کیا کہ وہ لوٹے تو اسے روک دیا گیا۔ اگر حضرت ابن عمر کو اس بات کا علم ہوجاتا کہ یہ وہی گچھا ہے تو اسے نہ کھاتے کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دفعہ ہاتھ سے نکلجائے تو آپ اس کی طرف نہ لوٹتے۔ حضرت عبد اللہ ابن مبارک نے ذکر کیا کہ محمد بن مطرف، ابو حازم سے وہ عبد الرحمن بن سعید بن یربوع سے وہ مالک الدار سے روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے چار سو دینار لیے انہیں ایک تھیلی میں رکھا پھر غلام سے کہا : یہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح کے پاس لے جائو، پھر کسی بہانے سے وہاں ٹھہر جانا تاکہ دیکھو آپ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ غلام وہ تھیلی لے کر وہاں گیا۔ عرض کیا : حضرت امیر المومنین کہتے ہیں انہیں اپنی ضرورت کے لئے خرچ کرو۔ حضرت ابو عبیدہ نے کہا : اللہ تعالیٰ امیر المومنین پر رحم کرے پھر فرمایا : اے بچی ! یہ سات دینار فلاں کو دے آئو اور یہ پانچ فلاں کو دے آئو یہاں تک کہ انہیں خرچ کردیا۔ غلام حضرت عمر کے پاس واپس آیا تو سب واقعہ عرض کیا۔ اور حضرت عمر ؓ کو پایا کہ آپ نے اسی کی مثل دینار حضرت معاذ کے لئے شمار کر رکھے ہیں۔ فرمایا : یہ دینار حضرت معاذ بن جبل کے پاس لے جائو اور وہاں بہانے سے کچھ دیر ٹھہرنا تاکہ دیکوھ کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟ غلام وہ مال لے کر ان کے پاس گیا۔ عرض کی : امیر المومنین فرماتے ہیں انہیں اپنی کسی ضرورت میں خرچ کرو۔ حضرت معاذ بن جبل نے کہا : اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے۔ فرمایا : اے بچی ! اتنے فلاں کے گھر لے جائو، اتنے فلاں کے گھر لے جائو۔ حضرت معاذ ؓ کی بیوی کو اس کی اطلاع ہوئی عرض کی اللہ کی قسم ! ہم مساکین ہیں ہمیں بھی کچھ دو اس تھیلی میں صرف دو دینار باقی تھے وہ دونوں آپ نے اسے دے دیے غلام حضرت عمر کی طرف واپس لوٹا اور سب واقعہ بتایا۔ حضرت عمر ؓ اس وجہ سے خوش ہوئے۔ فرمایا : وہ سب ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ اس کی مثل واقعہ حضرت عائشہ صدیقہ کا بھی ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے آپ کی خدمت میں مال بھیجا جس کی تعداد دس ہزار دینا تھی حضرت منکدر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے… اگر یہ سوال کیا جائے : انسان جتنے مال کا مالک ہو تمام مال صدقہ کرنے سے نہی وارد ہوئی ہے اور اس کے بارے میں صحیح احادیث ہیں۔ اس کی خدمت میں عرض کی جائے گی : یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جسے فقر کے عالم میں صبر پر اعتماد نہ ہو اور جب ضروریات کے لئے مال نہ پائے تو سوال کرنے کا خوف ہو۔ جہاں تک انصار کا تعلق ہے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کو اپنی ذاتوں پر ترجیح دیتے ہیں تو وہ اس صفت کے حامل نہیں بلکہ وہ اس طرح ہیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ……(البقرۃ :
177
) ان کے بارے میں ایثار مال روکنے سے بہتر ہے اور جو آدمی صبر نہ کرے اور سوال کے لئے ہاتھ پھیلائے تو اس کے لئے ایثار کی بجائے مال روک لینا افضل ہے۔ روایت بیان کی جاتی ہے : ایک آدمی ایک انڈے کے برابر سونا لے کر حاضر ہوا۔ عرض کی : یہ صدقہ ہے۔ حضور ﷺ نے اسے پھینکا فرمایا : ” تم میں سے کوئی ایک وہ تمام مال لے آتا ہے جو اس کے پاس ہوتا ہے اسے صدقہ کرتا ہے پھر لوگوں سے سوال کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہے “ (
1
) ۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ مسئلہ نمبر
9
۔ ذات کی قربانی مال کی قربانی سے بڑھ کر ہے اگرچہ وہ آخر کار نفس کی طرف ہی لوٹ آئے مشہورو معروف ضرب الامثال میں سے یہ ہے : ……… ذات کی سخاوت سب سے بڑی سخاوت ہے۔ محبت کی تعریف میں صوفیاء کی عمدہ عبارات ہیں وہ یہ کہ یہ بھی ایثار ہے کیا تم نہیں دیکھتے جب عزیر مصر کی بیوی حضرت یوسف (علیہ السلام) کی محبت میں اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اپنی قربت پر آپ کو ترجیح دی کہا : انا راودتہ عن نفسہ میں نے اسے اپنے برے میں بہلانا چاہا۔ اپنی ذات کی سخاوت میں سے سب سے افضل سخاوت حضور ﷺ کی حمایت میں سخاوت ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے غزوہ (احد) کے موقع پر اپنے آپ کو نبی کریم کے سامنے ڈھال بنایا۔ نبی کریم ﷺ جھانکتے تھے تاکہ قوم کو دیکھیں تو حضرت ابو طحہ عرض کرتے : یا رسول اللہ ! ﷺ نہ جھانکیے کہیں وہ آپ کو تیر ہی نہ مار دیں میری گردن حاضر ہے، نہ کہ آپ کی گردن، تیر مجھے لگے نہ کہ آپ ﷺ کو۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کا دفاع کیا تو ان کا ہاتھ شل ہوگیا۔ حضرت حذیفہ عدوی نے کہا : میں جنگ یرموک کے موقع پر اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا میرے پاس کچھ پانی تھا۔ میں کہہ رہا تھا ؟ اگر اس میں زندگی کی رمق ہوئی تو میں اسے پانی پلائوں گا، اچانک میں اس کے پاس تھا۔ میں نے کہا : میں تجھے پانی پلائوں ؟ اس نے سر سے اشارہ کیا : ہاں، تو اچانک میں ایک ایسے آدمی کو پاتا ہوں جو آہ آہ کہہ رہا ہے۔ میرے چچا زاد بھائی نے میری طرف اشارہ کیا کہ اس کی طرف جائو ( میں اس کی طرف گیا) تو وہ فوت ہوچکا تھا میں واپس ہشام کی طرف آیا تو وہ بھی فوت ہوچکا تھا، میں اپنے چچا زاد بھائی کی طرف لوٹا تو وہ بھی فوت ہوچکا تھا۔ حضرت بایزید بسطامی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا : مجھ پر کبھی کوئی آدمی اس طرح غالب نہیں آیا جس طرح بلخ کا ایک نوجوان مجھ پر غالب آیا۔ وہ حج کے ارادہ سے ہمارے پاس آیا۔ اس نے پوچھا : اے ابا یزید ! تمہارے نزدیک زہد کی کیا تعریف ہے ؟ میں نے کہا : اگر ہم کوئی چیز پاتے ہیں تو کھالیتے ہیں اور اگر نہیں پاتے تو صبر کرتے ہیں۔ اس نے کہا : ہمارے پاں بلخ کے کتوں کی یہی صورتحال ہے۔ میں نے پوچھا : تمہارے نزدیک زہد کی کیا تعریف ہے ؟ اس نے کہا : اگر ہم نہ پائیں تو شکر کرتے ہیں اور اگر ہم کوئی چیز پائیں تو دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں (
1
) ۔ حضرت ذوالنون مصری سے پوچھا گیا : وہ زاہد جسے انشراح صدر حاصل ہوتا ہے اس کی کیا تعریف ہے ؟ فرمایا : تین چیزیں، جمع شدہ چیز کو تقسیم کردینا، مفقود چیز کی طلب کو ترک کرنا اور روزی کے حصول کے وقت دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا۔ ابو الحسن انطا کی سے مروی ہے : ری کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات میں ان کے پاس تیس سے زائد آدمی جمع ہوگئے۔ ان کے پاس چند روٹیاں تھیں جو سب کو سیر نہیں کرتی تھیں۔ انہوں نے روٹیوں کے ٹکڑے کیے، چراغ کو گل کردیا اور کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ جب کھانے کو اٹھایا گیا تو کھانا اسی طرح تھا۔ اس کھانے میں سے کسی نے بھی کوئی چیز نہ کھائی تھی، مقصد دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینا تھا۔ مسئلہ نمبر
01
۔ ولو کان بھم خصاصۃ۔ خصاصۃ سے مراد ایسی حالت ہے جس کی وجہ سے اموال میں خلل واقع ہوجائے۔ اس کی اصل اختصاص ہے اس سے مراد کسی امر کے لئے خاص ہونا۔ خصاصۃ کا معنی ہواحاجت میں منفرد ہونا یعنی اگرچہ انہیں فاقہ اور حاجت لاحق ہو ؛ اس معنی میں شاعر کا قول ہے : اما الربیع اذا تکون خصاصۃ جہاں تک ربیع کا تعلق ہے جب اسے حاجت لاحق ہوتی ہے۔ ………۔ شیح اور بخل دونوں برابر ہیں، رجل شعیح جس کا بخل واضح ہو اس کے لئے شح، شح اور شحاصہ کا لفط استعمال ہوتا ہے : عمرو بن کلثوم نے کہا : تر اللحز الشحیع تو انتہائی بخیل کو دیکھے گا۔ بعض اہل لغت نے شح کو بخل سے بھی زیادہ شدید قرار دیا ہے۔ صحاح میں ہے : شح سے مراد بخل کے ساتھ حرص مراد ہے۔ تو کہتا ہے :………… آیت سے مراد ہے زکوٰۃ میں بخل کرنا اور ذوی الارحام کے ساتھ صلہ رحمی اور ضیافت وغیرہ جو فرض نہیں ان میں بخل کرنا۔ جو آدمی ان مصارف پر مال خرچ کرے اور اپنے لئے بھی کچھ روک لے تو وہ شحیح اور بخیل نہیں اور جو آدمی اپنی ذات پر زیادہ خرچ کرے اور ہم نے زکوٰۃ اور طاعات میں سے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے ان میں خرچ نہ کرے تو اس نے اپنے آپ کو بخل سے نہیں بچایا۔ اسود نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک آدمی انکی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : مجھے خوف ہے کہ میں ہلاک ہو جائوں گا۔ پوچھا : کیا بات ہے ؟ اس نے عرض کی : میں نے اللہ تعالیٰ کا ارشاد فرماتے ہوئے سنا ……… میں ایک بخیل آدمی ہوں، میں اپنے ہاتھ سے کوئی چیز نہیں نکالتا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے کہا : یہ وہ شح نہیں جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کیا ہے۔ بیشک وہ شح جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا مال ظلماً کھائے، لیکن جس چیز کا تو نے ذکر کیا ہے وہ بخل ہے اور بخل بھی کتنی بری چیز ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے شح اور بخل میں فرق کیا ہے ؟ طائوس نے کہا : بخل سے مراد یہ ہے کہ انسان کے قبضہ میں جو کچھ ہے اس میں بخل کرے اور شح یہ ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں میں جو ہے اس کے بارے میں کنجوسی کرے۔ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ لوگوں کے ہاتھوں میں جو کچھ ہے حلال و حرام کے طریقہ سے حاصل کرے، وہ اس میں قناعت نہیں کرتا۔ ابن جبیر نے کہا : شح سے مراد زکوٰۃ روک لینا اور حرام چیز کو ذخیرہ کرنا۔ ابن عینیہ نے کہا : شیح سے مراد ظلم ہے۔ لیث نے کہا : فرائض کو ترک کرنا اور حرام کو کردہ چیزوں کو اپنانا۔ حضرت عباس ؓ نے کہا : جو اپنی خواہش کی اتباع کرے اور ایمان کو قبول نہ کرے وہ شحیح ہے۔ ابن زید نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے منع کیا ہو وہ نہ لے اور اللہ تعالیٰ نے اسے جس چیز کا حکم دیا ہے شح اسے اس چیز سے نہ روک سکے تو اللہ تعالیٰ نے اسے شح سے بچا لیا ہے۔ حضرت انس ؓ نے کہا : نبی کریم و نے ارشاد فرمایا : ………وہ آدمی جس نے زکوٰۃ دی، مہمان کی ضیافت کی اور مصیبت کے وقت کسی کو مال دیا تو وہ شح سے بری ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ سے یہ بھی مروی ہے۔ …………اے اللہ ! میں اپنے نفس کے شح، اس کیا سراف اور اس کے وساوس سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ابو الہیاج اسدی نے کہا : میں نے طواف میں ایک آدمی کو یہ دعا کرتے ہوئے دیکھا : اے اللہ ! مجھے میرے نفس کے شح سے بچا۔ وہ اس سے زیادہ کوئی دعا نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اس سے اس کی وجہ پوچھی۔ اس نے جواب دیا : جب میں نے اپنے نفس کو شح سے بچا لیا تو میں چوری نہیں کروں گا، بدکاری نہیں کروں گا اور اور اس جیسا کوئی فعل نہیں کروں گا۔ کیا دیکھتا ہوں وہ حضرت عبد الرحمن بن عوف ہیں۔ میں کہتا ہوں اس پر آپ ﷺ کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے :……ظلم سے بچو کیونکہ قیامت کے روز ظلم تاریکیاں ہوں گے کیونکہ قیامت کے روز ظلم تاریکیاں ہوں گے، شح سے بچو کیونکہ شح نے ان لوگوں کو ہلاک کردیا جو تم سے پہلے تھے اس نے لوگوں کو برانگخیتہ کیا کہ وہ اپنے خونوں کو بہائیں اور اپنی محارم کو حلال جانیں۔ ہم نے اس کی وضاحت سورة آل عمران کے آخر میں کی ہے۔ کسری نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا : انسان کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز کیا ہے ؟ لوگوں نے کہا : فقر و تنگدستی۔ کسری نے کہا : شیخ فقر سے زیادہ نقصان دینے والی ہے کیونکہ فقیر جب کوئی چیز پاتا ہے تو سیر ہوجاتا ہے اور صحیح جب پاتا ہے تو کبھی بھی سیر نہیں کرتا۔
Top