Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-An'aam : 145
قُلْ لَّاۤ اَجِدُ فِیْ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰى طَاعِمٍ یَّطْعَمُهٗۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ
: فرما دیجئے
لَّآ اَجِدُ
: میں نہیں پاتا
فِيْ
: میں
مَآ اُوْحِيَ
: جو وحی کی گئی
اِلَيَّ
: میری طرف
مُحَرَّمًا
: حرام
عَلٰي
: پر
طَاعِمٍ
: کوئی کھانے والا
يَّطْعَمُهٗٓ
: اس کو کھائے
اِلَّآ
: مگر
اَنْ يَّكُوْنَ
: یہ کہ ہو
مَيْتَةً
: مردار
اَوْ دَمًا
: یا خون
مَّسْفُوْحًا
: بہتا ہوا
اَوْ لَحْمَ
: یا گوشت
خِنْزِيْرٍ
: سور
فَاِنَّهٗ
: پس وہ
رِجْسٌ
: ناپاک
اَوْ فِسْقًا
: یا گناہ کی چیز
اُهِلَّ
: پکارا گیا
لِغَيْرِ اللّٰهِ
: غیر اللہ کا نام
بِهٖ
: اس پر
فَمَنِ
: پس جو
اضْطُرَّ
: لاچار ہوجائے
غَيْرَ بَاغٍ
: نہ نافرمانی کرنیوالا
وَّلَا عَادٍ
: اور نہ سرکش
فَاِنَّ
: تو بیشک
رَبَّكَ
: تیرا رب
غَفُوْرٌ
: بخشنے والا
رَّحِيْمٌ
: نہایت مہربان
کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں میں ان میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا۔ بجز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا لہو یا سور کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا گناہ کی کوئی چیز ہو کہ اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہے۔ (اور) اگر کوئی مجبور ہوجائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمہارا پروردگار بخشنے والا مہربان ہے۔
اس میں چار مسائل ہیں مسئلہ نمبر۔ قولہٰ تعالیٰ : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان چیزوں کے بارے میں بتایا ہے جو اس نے حرام قرار دی ہے۔ اور معنی یہ ہے : اے محمد ! ﷺ آپ فرمادیجئے جو ( کتاب) میری طرف وحی کی گئی ہے میں اس میں کوئی چیز حرام نہیں پاتا سوائے ان چیزوں کے، نہ کہ وہ جنہیں تم اپنی مرضی سے حرام قرار دیتے ہو۔ یہ آیت مکی ہے۔ اس وقت شریعت میں سوائے ان چیزوں کے کوئی چیز حرام نہ تھی، پھر مدینہ طیبہ میں سورة المائدہ نازل ہوئی۔ اور محرمات میں اضافہ کیا گیا جیسا کہ المنخنقۃ ( گلا گھونٹنے سے مرا ہوا جانور) الموقوذۃ ( چوٹ سے مرا ہوا جانور) المتردیۃ ( اوپر سے نیچے گر کر مرا ہوا جانور) النطیحۃ ( سینگ لگنے سے مرا ہوا جانور) اور شراب وغیر۔ اور رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ میں درندوں میں سے ہر ذی ناب کو اور پرندوں میں سے ہر ذی مخلب ( پنچے سے شکار کرے والا) کے کھانے کو حرام قرار دیا (
1
) ۔ اس آیت کے حکم اور اس کی تاویل میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ ّ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصید، جلد
1
، صفحہ
245
) ایک وہ جس کی طرف ہم نے اشارہ کردیا ہے کہ یہ آیت مکیہ ہے اور ہر وہ حرام شے جسے رسولل اللہ ﷺ نے حرام قرار ہے یا جو کتاب میں حکم آیا ہے اسے اس ( آیت) کے ساتھ ملا دیا گیا ہے، تو یہ حکم کی زیادتی اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضور نبی مکرم ﷺ کی زبان اقدس کی وساطت سے ہے۔ اہل نطر وفکر میں سے اکثر علماء نے یہی موقف اختیار کیا ہے، اکثر فقہاء اور اہل اثر نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی نذیر عورت کا اپنی پھوپھی اور اپنی خالہ پر نکاح کرنا ہے اس کے باوجود کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : آیت : واحل لکم ما ورآء ذلکم ( النساء :
24
) اور اسی طرح قسم اور ایک شاہد کے ساتھ فیصلہ کرنا ہے اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : فان لم یکونا رجلین فرجل وامرتین (البقرہ :
282
) ( اور اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دو عورتیں) اور یہ پہلے گزر چکا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت حضور نبی مکرم ﷺ کے اس ارشاد کے ساتھ منسوخ ہے : اکل کل ذی ناب من السباع حرام (مؤطا امام مالک، صفحہ
492
) ( درندوں میں سے ہر ذی ناب کو کھانا حرام ہے) اسے امام مالک (رح) نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ اور یہ قول بھی ہے کہ یہ آیت محکم ہے اوعر کوئی شی حرام قرار نہیں دی جائے گی مگر وہی جس کا ذکر اس میں ہے۔ اور یہ قول حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت کیا جاتا ہے اور ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے۔ امام مالک (رح) نے کہا ہے : کوئی حرام بین اور واضح نہیں مگر وہی جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اور ابن خویز منداد نے کہا ہے : یہ آیت حیوانوں میں سے ہر شی کو حلال قرار دیتی ہے سوائے ان کے جن کی آیت میں استثنی ہے مثلا مردار، بہنے والا خون اور خنزیر کا گوشت، اسی لیے ہم نے کہا ہے : انسان اور خنزیر کے سوا درندوں اور تمام حیوانوں کا گوشت مباح ہے۔ اور الکیاطبری نے کہا ہے : اور اسی پر امام شافعی (رح) نے ان تمام جانوروں کو حلال قرار دینے کی بناء کی ہے جن کے بارے سکوت اختیار کیا گیا ہے، سوائے ان کے جن پر کوئی دلیل دلالت کرے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : یہ آیت اس آدمی کا جواب ہے جس نے معین شی کے بارے پوچھا تو مخصوص اس کے جواب میں یہ آیت واقع ہوئی۔ یہی امام شافعی (رح) کا مذہب ہے۔ تحقیقی امام شافعی (رح) نے حضرت سعید بن جبیر سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اس آیت میں جو چیزیں ہیں ان کے بارے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے جواب میں انہیں ان چیزوں کے حرام ہونے کے بارے بتایا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : آیت : لا اجد فی ما اوحی الی آپ نے یہ اس حال میں کہا جو وحی کی حالت تھی اور اس کے نازل ہونے کا وقت تھا، پھر اس کے بعد دوسری چیزوں کو حراب قرار دینے کے بارے میں وحی کا نزل ہونا ممتنع نہیں ہے۔ اور ابن عربی نے گمان کیا ہے (احکام القرآن لابن العربی، جلد
2
، صفحہ
764
) کہ یہ آیت مدینہ ہے حالانکہ یہ اکثر کے قول کے مطابق مکیہ ہے اور حضور نبی مکرم ﷺ پر یہ اس دن نازل ہوئی جس دن آپ پر آیت : الیوم اکملت لکم دینکم ( مائدہ :
3
) نازل ہوئی اور اس کے بعد کوئی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی لہٰذا یہ آیت محکم ہے۔ نتیجتا انہیں ہی حرام قرار دیا جائے گا جن کا ذکر اس میں کیا گیا ہے اور اسی کی طرف میں بھی مائل ہوں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ میری رائے ہے اور اسے کئی دوسروں نے بھی بیان کیا ہے۔ ابو عمر بن عبدالبر نے اس بارے میں اجماع ذکر کیا ہے کہ سورة الانعام مکی ہے سوائے اس قول کے تین آیات تک آیت : قل تعالوا اتل ما حرم ربکم علیکم (الانعام :
151
) اور اس کے بعد بہت سا قرآن کریم نازل ہوا اور بہت سی احادیث بیان ہوئیں۔ اور شراب کی حرمت کا حکم مدینہ منورہ میں سورة المائدہ میں نازل ہوا۔ اور اس پر تمام نے اجماع کیا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے درندوں (صحیح مسلم، کتاب الصید، جلد
2
، صفحہ
147
) میں سے ہر ذی ناب کو کھانے سے منع فرمایا ہے وہ مدینہ منورہ میں فرمایا۔ اسماعیل بن اسحاق نے کہا ہے : یہ سب اس پر دلالت کرتا ہے کہ کہ حکم مدینہ منورہ میں اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ہوا : آیت : لا اجد فی ما اوحی الی محرما کیونکہ یہ آیت مکی ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : علماء کے درمیان اختلاف کا سبب یہی ہے پس ایک جماعت نے ان احادیث کے ظاہر سے عدول کیا ہے جو درندوں میں سے ہر زی ناب کو کھانے سے نہیں کے بارے وارد ہیں، کیونکہ وہ اس آیت سے متاخر ہیں اور اس میں حصر ظاہر ہے پس اس کے مطابق عمل کرنا اولیٰ ہے، کیونکہ یا تو یہ اپنے متقدم کے لیے ناسخ ہیں یا پھر یہ آیت ان احادیث پر راجح ہے۔ اور رہے وہ جو تحریم کے قائل ہیں تو ان کے لیے یہ بات ظاہر ہے اور ان کے نزدیک ثابت ہے کہ سورة الانعام مکی سورت ہے اور ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ہے اور بلاشبہ اس آیت کے ساتھ جاہلیت کے اس نظریہ کو رد کرنے کا قصد کیا گیا ہے۔ جس کے تحت وہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام جانوروں کو حرام قرار دیتے تھے، پھر اس کے بعد بہت سے امور کو حرام قرار دیا گیا جیسا کہ پالتوگدھے اور خچروں کا گوشت وغیر اور درندوں میں سے ہر ذی ناب اور پرندوں میں سے ہر ذی مخلب (جامع ترمذی، باب ما جاء فی کراھیۃ کل ذی ناب وذی مخلب، حدیث نمبر
1398
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ ابو عمر نے کہا ہے : جنہوں نے یہ کہا ہے : جن چیزوں کا ذکر اس آیت میں ہے ان کے سوا کوئی شی حرام نہیں ہے ان کے اس قول پر یہ لازم آتا ہے کہ اسے بھی حرام قرار نہ دیا جائے جس جانور پر ذبح کے وقت عمدا اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے اور اس شراب کو حلال سمجھا جائے جو تمام مسلمانوں کے نزدیک حرام ہے اور انگور کی شراب کے حرام ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہونے میں اس پر واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کتاب میں ایسی چیزیں پائی ہیں جن کے حرام ہونے کے بارے آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اور وہ ان کے سوا ہیں جن کا ذکر سورة الانعام میں ہے۔ اور یہ ان میں سے ہیں جن کے بارے اس کے بعد قرآن نازل ہوا ہے۔ اور درندوں، گدھوں، اور خچروں کے گوشت کے بارے امام مالک (رح) سے مختلف روایات ہیں۔ پس آپ نے ایک بار کہا : یہ حرام ہیں، کیونکہ اس کے بارے میں حضور نبی کریم ﷺ کی نہی موجود ہے، اور یہی آپ کا قول صحیح ہے جو کہ مؤطا میں ہے۔ اور ایک بار فرمایا : یہ مکروہ ہے اور ” مدونہ “ میں ظاہر قول یہی ہے، کیونکہ آیت ظاہر ہے اور اس لیے بھی کہ حضرت ابن عباس، حضرت ابن عمر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے ان تمام کی اباحت مروی ہے اور یہی امام اوزاعی (رح) کا قول ہے۔ اور امام بخاری (رح) نے حضرت عمرو بن دینار (صحیح بخاری، کتاب الصید، جلد
2
، صفحہ
830
) کی روایت سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : میں نے حضرت جابر بن زید ؓ کو کہا کہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے ؟ تو انہوں نے جوابا کہا : ہمارے ہاں بصرہ میں حکم بن عمرو غفاری یہ کہتا رہا ہے، لیکن بحر ابن عباس نے اس کا انکار کیا ہے اور انہوں نے یہ آیت پڑھی ہے : آیت : لا اجد فی ما اوحی الی محرما اور حضرت ابن عمر ؓ عنما سے مروی ہے کہ ان سے درندوں کے گوشت کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تو آپ کو کہا گیا : ابو ثعلبہ خثنی کی حدیث ہے تو انہوں نے جوابا ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ جو ہمارا رب ہے ہم اس کی کتاب کو ایسے اعرابی کی حدیث کی وجہ سے نہیں چھوڑیں گے جو اپنی پنڈلیوں پر پیشاب کرتا ہے۔ اور حضرت شعبی (رح) سے ہاتھی اور شیر کے گوشت کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ اور قاسم نے کہا ہے : حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی تھیں جب انہوں نے لوگوں کی یہ کہتے ہوئے سنا کہ درندوں میں سے ہر ذی ناب حرام ہے : وہ حلال ہے، اور آپ یہ آیت تلاوت فرماتیں : آیت : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما انہوں نے فرمایا کہ اگر ہنڈیا کا پانی خون کی وجہ سے زرد بھی ہوجاتا اور پھر رسول اللہ ﷺ اسے دیکھتے تو آپ اسے حرام قرار نہ دیتے۔ اور اس باب میں صحیح وہی ہے جو ہم نے شروع میں ذکر کردیا ہے اور آیت کے بعد محرمات کے بارے جو کچھ بیان ہوا ہے جو سب اسی کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اور اسی پر معطوف ہے۔ اور قاضی ابوبکر بن عربی نے قبس میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے جو اسے کے خلاف ہے جو انہوں نے احکام میں ذکر کیا ہے۔ فرمایا : حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت آخر میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے۔ اور ہمارے اصحاب میں سے اہل بغداد نے کہا ہے کہ جو کچھ اس کے سوا ہے وہ سب حلال ہے، لیکن درندوں کو کھانا مکرو ہوتا ہے اور فقہاء امصار کے نزدیک ان میں سے امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور عبدالملک (رح) ہیں درندوں میں ہر ذی ناب کو کھانا حرام ہے اور یہ ممتنع نہیں ہے کہ اس قول باری تعالیٰ : آیت : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما کے بعد کوئی ایسی زیادتی واقع ہو جس میں دلیل بیان ہو رہی ہو، جیسا کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : لا یحل دم امری مسلم الا باحدی ثلاث (سننابن ماجہ، کتاب الحدود، جلد
1
، صفحہ
185
) ( کسی مسلمان کا خون حلال نہیں ہوتا مگر تین میں سے ایک چیز کے ساتے) اور آپ نے کفر، زنا اور قتل کا ذکر کیا۔ پھر ہمارے علماء نے فرمایا : بلا شبہ قتل کے اسباب دس ہیں جو دلائل سے ثابت ہیں، کیونکہ حضور نبی مکرم ﷺ اس کے بارے خبر دیتے ہیں جو آپ ﷺ تک اللہ تعالیٰ کے علم سے پہنچا اور وہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور ثابت رکھتا ہے ( اور جسے چاہتا ہے) منسوخ کردیتا ہے اور مقدر کردیتا ہے۔ اور حضور نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : ” درندوں میں سے ہر ذی مخلب کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اور مسلم نے معن سے اور انہوں نے امام مالک رحمۃ اللہ علین سے روایت کیا ہے ” کہ پرندوں میں ہر ذی مخلب کو کھانے سے منع کیا گیا ہے “ (ایضا) ۔ اور پہلی روایت اصح ہے اور درندوں میں سے ہر ذی ناب کو حرام قرار دینا ہی صریح مذہب ہے اور اسی کے بارے امام مالک (رح) نے ” المؤطا “ میں عنوان بنایا جس وقت آپ نے یہ کہا : تحریم اکل کل ذین ناب من السباع پھر حدیث ذکر کی اور اس کے بعد آپ نے فرمایا : وھو الامر عندنا ( اور یہ حکم ہمارے نزدیک ہے) پس آپ نے یہ خبر دی کہ اثر کے ساتھ عمل چھوڑ دیا گیا ہے۔ علامہ قشیری نے کہا ہے : امام مالک (رح) کا یہ قول ” کہ یہ آیت آپ ﷺ پر آخر میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہے “ ہمیں یہ کہنے سے نہیں روکتا کہ ان اشیاء میں سے بعض کی تحریم اس آیت کے بعد ثابت ہے۔ تحقیق اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیا اور رسول اللہ ﷺ نے درندوں میں سے ہر ذی ناب کو کھانے سے اور پرندون میں سے ہر ذی مخلب کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے خیبر کا سال منع فرمایا : (سنن نسائی، کتاب الصید والذبائح، جلد
1
، صفحہ
198
) ۔ اس تاویل کے صحیح ہونے پر گندگی، بول، گندگی کے کیڑے اور گدھوں کی تحریم پر اجماع دلالت کرتا ہے اور یہ ان چیزوں میں سے ہیں جو اس آیت میں مذکور نہیں ہیں۔ مسئلہ نمبر
2
۔ قولہ تعالیٰ : محرما ابن عطیہ نے کہا ہے : تحریم کا لفظ جب حضور نبی کریم ﷺ کی زبان اقدس پر واردہو تو وہ اس (معنی) کی صلاحیت رکھتا ہے کہ آپ مذکور شے سے مکمل طور پر کلیۃ رک جائیں اور لغت کے اعتبار سے بھی یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ آپ کراہت اور اس طرح کے محل میں حد درجہ توقف کریں ( رکے رہیں) اور جب اس کے ساتھ تاویل کرنے والے ( مجتہدین) صحابہ کرام کی جانب سے تسلیم کا کوئی قرینہ مقترن نہیں اور ان تمام کا اجماع ہے اور احادیث کے الفاظ میں کوئی اضطراب بھی نہیں تو پھر شرعاََ واجب ہے کہ اس کی تحریم حظر و منع کے اعتبار سے اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہو اور یہ خنزیر، مردار، خون کے ساتھ مل جائے اور یہی حال شراب کی تحریم کا ہے۔ اور ( اگر) اس کے ساتھ احادیث کے الفاظ مظرب ہونے کا قرینہ مقترن ہو اور ائمہ کا احادیث کا علم رکھنے کے باوجود اس میں اختلاف ہو جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ” درندوں میں سے ہر ذی ناب کو کھانا حرام ہے “ (صحیح مسلم، کتاب الصید، جلد
2
، صفحہ
147
) ۔ تحقیق درندوں میں سے ہر ذی ناب کو کھانے سے رسول اللہ ﷺ کی نہی وارد ہے، پھر صحابہ کرام اور جوان کے بعد ہیں ان کے درمیان ان کی تحریم میں اختلاف ہوا ہے، تو جو نظر وفکر کی صلاحیت رکھتا ہے اس کے لیے ان وجوہ کی بنا پر جائز ہے کہ وہ لفظ تحریم کو اس منع پر محمول کرے جس کے تحت کراہت وغیرہ ہیں۔ اور جس کے ساتھ تاویل کا قرینہ مقترن ہو جیسا کہ آپ ﷺ کا گھریلوگدھوں کا گوشت کو حرام قرار دینا، تو بعض صحابہ کرام جو اس وقت حاضر تھے انہوں نے یہ تاویل کی ( کہ یہ حکم اس لیے دیا گیا) کیونکہ یہ نجس ہیں اور ان میں سے بعض نے یہ تاویل کی ( کہ یہ اس لیے ہوا) تاکہ لوگوں کا بوجھ اٹھانے والے جانور ختم نہ ہوجائیں اور بعض نے تحریم محض کی تاویل کی۔ اور امت میں ان کے گوشت کی تحریم میں اختلاف ثابت ہوگیا، تو علماء میں سے جو نظر وفکر کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ لفظ تحریم کو کراہت وغیرہ کے معنی پر محمول کریں اپنے اجتہاد اور قیاس کے اعتبار سے۔ میں ( مفسر) کہتا ہوں : اس باب میں اور اختلاف کے سبب میں یہ حسین عقیدہ ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : بیشک گدھا نہیں کھایا جائے گا، کیونکہ اس کا جوہر خبیث اس وقت ظاہر ہوا جب یہ مذکر گدھے پر چڑھ دوڑا اور اس سے لواطت کی، تو اس کور جس کا نام دیا گیا ہے۔ محمد بن سیرین نے کہا ہے : چوپاؤں میں سے خنزیر اور گدھے کے سوا کوئی جانور قوم لوط کے عمل کی مثل عمل نہیں کرتا۔ اسے ترمذی نے ” نور اور الاصولا “ میں ذکر کیا ہے۔ مسئلہ نمبر
3
۔ عمرو بن دینار نے ابو الشعشائ (سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، جلد
2
، صفحہ
183
، سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، حدیث نمبر
3306
، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : زمانہ جاہلیت کے لوگ کئی چیزیں کھاتے تھے اور کئی چیزیں چھوڑ دیتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی ﷺ کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل فرمائی اور اپنی حلال چیزوں کو حلال قرار دیا اور اپنی حرام چیزوں کو حرام قرار دیا، پس جس کو اس نے حلال قرار دیا ہے وہ حلال ہے اور جسے اس نے حرام کردیا ہے وہ حرام ہے اور جس سے وہ خاموش ہے وہ عفو ( معاف) ہے اور انہوں نے یہ آیت تلاوت کی آیت : قل لا اجد الایہ یعنی وہ جیز جس کی تحریم بین اور واضح نہ ہو تو وہ اس آیت کے ظاہر کے مطابق مباح ہے۔ اور زہری نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے یہ آیت پڑھی آیت : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما اور فرمایا : بلاشبہ مردار کو کھانا حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس سے جو شے نہیں کھائی جائے گی وہ گوشت ہے۔ اور رہی اس کی جلد، ہڈی، اون اور بال تو یہ سب حلال ہیں۔ اور ابو داؤد نے ملقام بن قلب سے اور انہوں نے اپنے باپ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا، میں حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہا اور میں نے حشرات الارج (سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، جلد
2
، صفحہ
174
) کی تحریم کے بارے آپ سے نہیں سنا۔ الحشرہ کا معنی ہے زمین پر رینگ کر چلنے والے چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے مثلا یرابیع ( چوہے کی مانند ایک جانور جس کی اگلی ٹانگیں کوتاہ اور پچھلی بڑی اور دم دراز ہوتی ہے) گوہ سیہ اور انہیں کی طرح کے اوہ جانور جیسا کہ شاعر نے کہا ہے : اکلنا الربی یا ام عمرو ومن یکن غیما لدیکم یا کل الحشرات یعنی جو رینگتے ہیں اور چلتے ہیں اور الربی ربیۃ کی جمع ہے اور اس کا معنی ہے چوہیا۔ خطابی نے کہا ہے : ان کے اس قول لم اسمع لھا تحریما میں اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ وہ مباح ہیں، کیونکہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی اور نے اسے سنا ہو۔ تحقیق لوگوں نے یربوع ( جنگلی چوہا) اور دبر ( بلی سے چھوٹا ایک جانور ہے) اس کی جمع وبار ہے اور ان کی طرح کے حشرات کے بارے میں اختلاف کیا ہے اور یربوع کے بارے میں حضرات عروہ، عطا، امام شافعی اور ابوثور (رح) نے رخصت دی ہے۔ امام شافعی (رح) نے کہا ہے : وبر میں کوئی حرج نہیں اور ابن سیرین، حکم، حماد اور اصحاب رائے نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور اصحاب رائے نے قنفذ ( سیہہ) کو بھی مکروہ قرار دیا ہے۔ اور اس کے بارے مالک بن انس سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : میں نہیں جانتا۔ اور ابو عمرو نے بیان کیا ہے : اور امام مالک (رح) نے کہا ہے کہ سیہہ کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور ابو ثور بھی اس میں کوئی حرج نہ دیکھتے تھے۔ اور انہوں نے اسے امام شافعی (رح) سے بیان کیا ہے۔ اور اس کے بارے حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا گیا تو آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : آیت : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما الایہ تو ان کے پاس موجود ایک شخص نے کہا : میں نے حضرت ابوہریرہ ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ کے پاس اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : خبیثۃ من الخبائث (سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، جلد
2
، صفحہ
177
) (یہ ناپاک چیزوں میں سے ایک ہے) یہ سن کر حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا : اگر رسول اللہ ﷺ نے اس طرح فرمایا ہے تو پھر اسی طڑح ہے جیسے آپ ﷺ نے فرمایا ہے۔ اسے ابو داؤد نے ذکر کیا ہے اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : گوہ، یربوع اور ورل ( گوہ کی طرح کا ایک جانور ہے مگر اس سے بڑا ہوتا ہے) کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور آپ کے نزدیک سانپ کھانے بھی جائز ہیں بشرطیکہ انہیں ذبح کیا جائے۔ اور یہی قول ابن ابی لیلی اور امام اوزاعی کا ہے۔ اور اسی طرح اژدھا، بچھو، چوہے، غظایۃ ( چھپکلی کی طرح ایک جانور) سیہہ اور مینڈک کے بارے بھی ان کا قول ہے۔ اور ابن القاسم نے کہا ہے : امام مالک (رح) قول کے میں زمین کے چھوٹے پرندے ( یا کیڑے مکوڑے) بچھو اور کیڑے کھانے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ انہوں نے کہا ہے : پانی میں ( ان میں سے) کسی کا مرنا اسے فاسد نہیں کرتا۔ اور امام مالک (رح) نے کہا ہے : شہد کی مکھیوں کے بچے اور پنیر اور کھجور کے کیڑے اور انہین کی طرح کی اور چیزیں کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ اور ان کی دلیل ملقام بن قلب کی حدیث ہے۔ اور حضرت ابن عب اس اور حضرت ابودرداء ؓ کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جسے حلال قرار دیا ہے وہ حلال ہے اور جسے اس نے حرام قرار دیا ہے تو وہ حرام ہے اور جس سے سکوت اختیار کیا ہے تو وہ معاف ہے۔ اور چوہیا کے بارے میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا ہے : وہ حرام نہیں ہے اور انہوں نے یہ آیت پڑھی : آیت : قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما اور مدینہ طیبہ کے علماء کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے اور دیگر موذی جانوروں میں سے کسی شی کے کھانے کی اجازت نہیں دیتے مثلا سانپ، چھپکلیاں، چوہے اور انہیں مشابہ دیگر جانور۔ اور ہر وہ شے جسے مارنا جائزہ ہوتا ہے اس کے نزدیک اسے کھانا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ان کے نزدیک ذبح کا عمل ہو سکتا ہے۔ اور یہ قول ابن شہاب، عروہ، امام شافعی، امام ابوحنیفہ اور آپ کے اصحاب وغیرہم رحمۃ اللہ علیہم کا ہے۔ اور امام مالک اور آپ کے اصحاب کے نزدیک تمام وحشی درندوں میں سے کوئی شی نہ کھائی جائے گی اور نہ ہی گھریلوبلی کھائی جائے گی اور نہ ہی جنگلی کیونکہ وہ بھی درندہ ہے۔ اور فرمایا : نہ بجو کھایا جائے گا اور نہ ہی لومڑ اور چیر پھاڑ کرنے والے پرندوں کو کھانے میں کوئی حرج نہیں مثلا گدھیں، چیلیں اور عقاب وغیرہ، وہ بھی جس نے کوئی مردار کھایا اور وہ بھی جس نے نہ کھایا۔ اور امام اوزاعی (رح) نے کہا ہے : تمام کے تمام پرندے حلال ہیں، مگر گدھوں کو ناپسند کرتے ہیں ( اور مکرو جانتے ہیں) اور امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے اہل علم میں سے کسی کو نہیں پایا جو چیر پھاڑ کرنے والے پرندے کھانا مروہ جانتا ہو اور انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ کی اس حدیث کا انکار کیا ہے کہ ” آپ ﷺ نے پرندوں میں سے ہر ذی مخلب کو کھانے سے منع کیا ہے “ (صحیح مسلم، کتاب الصید، جلد
2
، صفحہ
147
) ۔ اور اشہب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ہاتھی کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ اسے ذبح کیا جائے۔ اور یہی امام شعبی (رح) کا قول ہے۔ اور اس سے امام شافعی نے منع فرمایا ہے۔ اور حضرت نعمان ( امام اعظم ابو حنیفہ) (رح) اور آپ کے اصحاب نے بجو اور لومڑ کھانے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اور اس بارے میں امام شافعی (رح) نے رخصت دی ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ وہ بجو کھاتے رہتے تھے۔ اور امام مالک (رح) کی دلیل وہ عام نہی نہیں ہے جس میں آپ ﷺ نے درندوں می سے ہر ذی ناب کو کھانے سے منع فرمایا ہے اور آپ نے درندوں میں سے کسی درندے کو خاص نہیں کیا۔ اور بجو کو کھانے کی اباحت کے بارے میں وہ حدیث جسے امام نسائی نے روایت کیا ہے وہ ان احادیث میں سے نہیں ہے جونہی والی حدیث کے معارض آسکتی ہو (سنن نسائی، کتاب الصیدوالذبائح، جلد
1
، صفحہ
198
) ، کیونکہ اس حدیث کو بیان کرنے میں عبدالرحمن بن ابی عمار منفرد ہیں اور وہ نقل علم کے ساتھ مشہور نہیں اور نہ وہ راوی ان میں سے ہے جسے حجت بنایا جاسکتا ہو جب کہ اس کے خلاف وہ ہے جو اس سے زیادہ ثابت اور ثقہ ہے۔ ابو عمر نے کہا ہے : درندوں میں سے ہر ذی ناب کو کھانے سے نہی کی حدیث اسناد متواترہ سے مروی ہے۔ اور ثقہ اور انتہائی مضبوط ائمہ کرام کی ایک جماعت نے اسے روایت کیا ہے اور یہ محال ہے کہ ان کے معارض ابن ابی عمار کی حدیث کی مثل لائی جائے۔ ابو عمر نے کہا ہے : مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ بندر کھانا جائز نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے کھانے سے منع فرمایا ہے اور اس کی خریدو فروخت بھی جائز نہیں، کیونکہ اس میں کوئی منفعت نہیں ہے۔ فرمایا : اور میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اسے کھانے کی رخصت دی ہو مگر وہ روایت جسے عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے ایوب سے ذکر کیا ہے۔ حضرت مجاہد (رح) سے بند رکھانے کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : وہ بھیمۃ الانعام میں سے نہیں ہے ( یعنی وہ چوپائے جن کا گوشت کھایا جاسکتا ہے) میں (مفسر) کہتا ہوں : ابن منذر نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : ہم نے حضرت عطا سے روایت کیا ہے کہ ان سے بندر کے بارے پوچھا گیا جسے حرم پاک میں مار دیا جاتا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : اس کے بارے دو عادل آدمیوں کا فیصلہ ہوگا۔ فرمایا : پس حضرت عطا (رح) کے مذہب کے مطابق اس کا گوشت کھانا جائز ہے، کیونکہ جزا اس پر واجب نہیں ہوتی جو شکار کے علاوہ کسی ( جانور) کو قتل کر دے۔ اور رویانی کی ( بحر المذہب) میں ہے جو کہ امام شافعی (رح) کے مذہب پر ہے اور امام شافعی نے کہا ہے بندروں کی بیع کرنا جائز ہوتا ہے۔ کیونکہ انہیں سکھلایا جاتا ہے اور ان سے مال کی حفاظت کا نفع اٹھایا جاتا ہے اور کشفی نے ابن شریح سے بیان کیا ہے کہ اس کی بیع جائز ہے، کیونکہ اس سے نفع حاصل کیا جاسکتا ہے۔ تو ان سے پوچھا گیا اس سے نفع کی صورت کیا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا : ان کے ساتھ بچے خوش ہوجاتے ہیں۔ ابو عمر نے کہا ہے : کتا، ہاتھی اور تمام کے تمام ناب والے جانور میرے نزدیک بندر کی مثل ہیں اور حجت رسول اللہ ﷺ کے قول میں ہے نہ کہ کسی اور کے قول میں۔ تحقیق لوگوں نے یہ گمان کیا ہے کہ عرب میں ایسا کوئی نہیں ہے جو کتے کا گوشت کھاتا ہو سوائے فقعس کی قوم کے۔ اور ابو داؤد نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا جانور کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ہے جو غلاظت اور گندگی کھاتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اونٹوں میں جلالہ سے مراد یہ ہے کہ اس پر سوار ہوا جاتا یا اس کا دودھ پیا جاتاہو۔ حلیمی ابو عبداللہ نے کہا ہے : جلالہ وہ ہوتا ہے جو گندگی اور غلاظت کھاتا ہو چاہے وہ جو پایا ہو یا آزاد پھرنے والی مرغی (جامع ترمذی، کتاب الاطعمۃ، جلد
2
، صفحہ
446
، سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، جلد
2
، صفحہ
175
) ۔ اور حضور نبی کریم ﷺ نے اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اور علماء نے کہا ہے : ہر وہ جانور جس کے گوشت میں غلاظت کی بو ظاہر ہوجائے یا اس کا ذائقہ اس میں ظاہر ہوجائے تو وہ حرام ہے اور اگر وہ ظاہر نہ ہو تو فھو حلال تو وہ حلال ہوگا۔ اور علامہ خطابی نے کہا ہے : یونہی یہ نہی تنزیہ ہے او وہ یہ کہ جب وہ کی غذا کھائے اور اس کی بو اس کے گوشت میں پائی جائے اور یہ تب ہوگا جب اس کا غالب چارہ اس میں سے ہو اور اگر وہ گھاس چرے اور وہ دانے کھائے اور اس کے ساتھ وہ گندگی میں سے بھی کوئی شی کھالیتا ہو تو وہ جلالہ نہیں ہوگا، بلاشبہ یہ آزاد پھرنے والی مرغی کی طرح ہے۔ اور اسی طرح وہ حیوان جو کبھی کبھار گندگی میں سے کوئی شی پائے لیکن اس کی غالب غذا اور چارہ اس کے سوا ہو تو اس کا گوشت کھانا مکروہ نہیں ہوگا۔ اور اصحاب الرائے، امام شافعی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : اسے نہیں کھایا جائے گا یہاں تک کہ اسے کچھ دنوں تک روک کر رکھا جائے اور وہ گندگی کے علاوہ صاف چارہ کھائے۔ پس جب اس کا گوشت صاف اور پاک ہوجائے تو پھر اسے کھالیا جائے۔ تحقیق حدیث میں مروی ہے کہ ” گائے، بیل کو چالیس دن تک چارہ کھایا جائے گا پھر اس کا گوشت کھایا جائے گا “۔ اور حضرت ابن عمر ؓ مرغ کو تین دن تک روکتے تھے اور پھر اسے ذبح کرتے تھے۔ اور اسحاق نے کہا ہے : اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اس کے بعد کہ اس کے گوشت کو اچھی طرح دھو ڈالا جائے۔ اور حسن جلالہ کے گوشت کو کھانے میں کوئی حرج نہ دیکھتے تھے۔ اور اسی طرح امام مالک بن انس کا بھی نظریہ ہے اور اس باب میں سے یہ بھی ہے کہ زمین میں گندگی پھینکنے سے منع کیا گیا ہے۔ بعض سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کی زمین کرائے پر دیتے تھے اور اس پر شرط عائد کرتے تھے جو اسے کرائے پر لیتا تھا کہ وہ اس میں گندگی نہ پھینکے۔ اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنی زمین کرائے پر دیتے تھے اور یہ شرط لگاتے تھے کہ اس میں گندگی اور غلاظت کے ساتھ کھاد نہیں ڈالی جائے گی۔ اور یہ روایت ہے کہ ایک آدمی اپنی زمین میں غلاظت ڈال کر اسے کاشت کرتا تھا تو حضرت عمر رضیا للہ عنہ نے اسے فرمایا : تو وہ ہے جو لوگوں کو وہی کھلاتا ہے جو ان سے نکلتا ہے۔ گھوڑے کا گوشت کھانے میں ائمہ کا اختلاف ہے۔ پس امام شافعی (رح) نے اسے مباح قرار دیا ہے اور یہی صحیح ہے۔ اور امام مالک (رح) نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ اور جہاں تک خچر کا تعلق ہے تو وہ گھوڑے اور گدھے کے درمیان سے پیدا ہوا ہے اور ان میں سے ایک کھایا جاتا ہے یا مکروہ ہے اور وہ گھوڑا ہے اور دوسرا حرام ہے اور وہ گدھا ہے پس تحریم کا حکم غالب رہے گا، کیونکہ جب حلت اور حرمت کا حکم ایک معین چیز میں جمع ہوجائے تو اس میں تحریم کے حکم کو غالب قرار دیا جائے گا۔ اس مسئلہ کی مزید تفصیل عنقریب سورة النحل میں آئے گی۔ اور مکڑی کا حکم سورة الاعراف میں آئے گا۔ جمہور اسلاف واخلاف کا موقف ہے کہ خرگوش کھانا جائزہ ہے اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نے اس کے تحریم کو بیان کیا ہے۔ اور ابن ابی لیلی سے اس اس کے مکروہ ہونے کا حکم منقول ہے۔ حضرت عب اللہ بن عمرو ؓ نے بیان کیا ہے : رسول اللہ ﷺ کے پاس اسے ( خرگوش کو) لایا گیا اور میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے اسے نہ کھایا اور نہ اسے کھانے سے منع فرمایا۔ اور گمان یہ ہے کہ اسے حیض آرہا تھا۔ اسے ابو داؤد نے ذکر کیا ہے۔ اور نسائی نے موسییٰ بن طلحہ سے مرسل روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ حضور بنی مکرم ﷺ کے پاس خرگوش لایا گیا، اسے ایک آدمی نے بھونا تھا اور اس نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ میں نے اس کا خون دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھوڑ دیا اور اسے نہ کھایا۔ اور وہ جس کے پاس تھا اسے فرمایا : ” تم کھاؤ کیونکہ اگر میں اسے چاہتا ( اور پسند کرتا) تو میں اسے کھا لیتا “ (سنن نسائی، کتاب الصید والذبائح، جلد
1
، صفحہ
198
) میں ( مفسر) کہتا ہوں : اس میں ایسی کوئی شی نہیں ہے جو اس کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہو اور بلاشبہ یہ آپ ﷺ کے اس قول کی طرح ہے : ” بیشک یہ میری قوم کی زمین میں نہیں ہے کہ میں بذات خود پاؤن اور اسے عفو قرار دوں “ (صحیح بخاری، کتاب الذبائح، جلد
2
، صفحہ
831
) ۔ مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہم مرالظہر ان کے مقام سے گزرے پس ہم نے ایک خرگوش کو بھگایا اور وہ سب اس کے پیچھے دوڑ پڑے تو انہوں اس پر غلبہ پالیا ( یعنی اسے پکڑ لیا) فرمایا : پس میں اس کے پیچھے دوڑپڑا یہاں تک کہ میں نے اسے پالیا اور اسے ابو طلحہ کے پاس لے آیا اور انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی سریں اور اس کی ران رسول اللہ ﷺ کی طرف بھیج دیں اور میں اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے اسے قبول فرما لیا (صحیح مسلم، کتاب الذبائح، جلد
2
، صفحہ
152
) ۔ مسئلہ نمبر
4
: قولہ تعالیٰ : آیت : علی طاعم یطعمہ یعنی کھانے والے پر جو اسے کھاتا ہے۔ اور ابن عامر سے روایت ہے کہ انہوں نے اوحی ہمزہ کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے یطعمہ طا کو مشدد پڑھا ہے۔ انہوں نے یطعمہ کا ارادہ کیا اور پھر ادغام کردیا۔ اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ اور محمد بن حنفیہ نے اسے فعل ماضی کے ساتھ علی طاعم طعمہ پڑھا ہے۔ آیت : الا ان یکون میہۃ اسے یا اور تا دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ یعنی الا ان تکون العین او الجثۃ او النفس میہۃ ( یعنی ضمیر مستتر کا مرجع ان تینوں میں سے کوئی شی ہو سکتی ہے اور یکون یا کے ساتھ پڑھا گیا ہے اور میتۃ کو مرفوع یعنی معنی یہ ہوگا تقع وتحدث میتۃ ( مراد واقع ہوگا) اور مسفوح سے مراد وہ جاری ہے جو بہہ رہا ہو اور یہ حرام کیا گیا ہے۔ اور جو اس کے سوا ہے معفو عنہ ہے۔ ماوردی نے بیان کیا ہے ( تفسیر ماوردی، جلد
2
، صفحہ
181
) کہ ایسا خون جو دم مسفوح ( بہنے والا خون) نہ ہو اگر وہ رگوں والا ہو اور ان پر جما ہوا ہو جیسا کہ جگر اور تلی تو وہ حلال ہے، کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا : ” ہمارے لیے دو مردے اور دو خون حلال کیے گئے ہیں “ (ایضا، جلد
2
، صفحہ
182
) ۔ الحدیث۔ اور اگر وہ رگوں والانہ ہو کہ وہ ان پر جامد ہو اور وہ گوشت کے ساتھ ہو تو اس کی تحریم میں دو قول ہیں : ان میں سے ایک قول ہے کہ وہ حرام ہے، کیونکہ وہ نہ تو سارا دم مسفوح ہے اور نہ بعض۔ اور بلاشبہ جگر اور تلی کی استثنا کے لیے مسفوح کا ذکر کیا گیا ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ حرام نہیں ہے، اس لیے کہ تحریم مسفوح کے ساتھ مختص ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : اور یہی صحیح ہے عمران بن جریر نے کہا ہے : میں نے ابو مجلز سے اس گوشت کے بارے پوچھا جو خون کے ساتھ لتھڑا پڑا ہو اور ہانڈی میں خون کی سرخی اس پر غالب آرہی ہو تو انہوں نے فرمایا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے دم مسفوح (بہنے والے خون) کو حرام قرار دیا ہے۔ اور اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضیا للہ عنہما وغیرہ نے کہا ہے اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔ اور عکرمہ نے کہا ہے : اگر یہ آیت نہ ہوتی تو مسلمان ان رگوں کی اتباع کرتے جن کا یہودی اتباع کر رہے ہیں۔ اور ابراہیم نخعی (رح) نے کہا ہے : عرق ( رگ) دماغ میں خون ہونے کا کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کا اور مضطر ( مجبور) کا حکم سورة البقرہ میں پہلے گزر چکا ہے۔ واللہ اعلم
Top