Al-Qurtubi - Al-An'aam : 27
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
کاش تم (انکو اس وقت) دیکھو جب یہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے اور کہیں گے کہ اسے کاش ہم پھر (دنیا میں) لوٹا دیئے جائیں تاکہ اپنے پروردگار کی آیتوں کی تکذیب نہ کریں اور مومن ہوجائیں۔
آیت نمبر 27 :۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : و لو تری اذ وقفوا علی النار یعنی کل جب کھڑے کیے جائیں گے، کیونکہ اذ کبھی اذا کی جگہ استعمال ہوتا ہے اور کبھی اذا، اذ کی جگہ استعمال ہوتا ہے۔ مستقبل کا امر گویا ہوچکا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کبر حق اور سچ ہے، اسی وجہ سے ماضی کے صیغہ کے ساتھ تعبیر فرمایا۔ اور اذ وقفوا کا معنی ہے جب وہ روک لیے جائیں گے کہا جاتا ہے : وقفتہ وقفا فوقف وقوفا۔ ابن السمیقع نے اذ وقفوا واو اور قاف کے فتحہ کے ساتھ وقوف سے مشتق کر کے پڑھا ہے۔ علی النار یعنی وہ پل صراط کے اوپر ہوں گے اور آگ ان کے نیچے ہوگی۔ بعض علماء نے فرمایا : علی بمعنی با ہے یعنی جب وہ اس کے قریب ٹھہریں گے اور اسے دیکھیں گے۔ ضحاک نے کہا : اس کا معنی ہے جمعوا یعنی جب آگ کے دروازوں پر جمع کیے جائیں گے کہا جاتا ہے : وہ جن ہم کی پیٹھ پر روکے جائیں گے گویا وہ پگھلی ہوئی چربی کی پیٹھ ہے، پھر ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا (اے آگ ! ) اپنے ساتھی پکڑ لے اور میرے ساتھی چھوڑ دے۔ بعض علماء نے فرمایا : وقفوا کا معنی ہے وہ اس میں داخل ہوں گے۔ (اللہ تعالیٰ ہمیں آگ سے بچائے) اس صورت میں علی بمعنی فی ہوگا یعنی وہ آگ میں داخل کیے جائیں گے۔ لو کا جواب محذوف ہے تاکہ ہر چیز کی طرف وہم جائے۔ یہ ڈرانے کے لیے زیادہ بلیغ ہے، معنی یہ ہے اگر آپ انہیں اس حالت میں دیکھیں گے تو بہت بری حالت میں دیکھیں گے یا بہت ہولناک منظر دیکھیں گے یا آپ بہت عجیب امر دیکھیں گے۔ اور اس تقدیر کی مثل کوئی اور تقدیر بھی ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فقالو یلیتنا نرد ولا نکذب بایت ربنا و نکون من المومنین اہل مدینہ اور کسائی کی قراءت تینوں افعال پر رفع ہے۔ ابوعمرو، ابوبکر نے عاصم سے ضمہ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ابن عامر نے نکذب پر رفع اور تکون پر نصب پڑھی ہے (1) (المحررالوجیز، جلد 2، صفحہ 281) یہ سب تمنی کے معنی میں داخل ہیں یعنی وہ تمنا کریں گے کہ انہوں نے نہ جھٹلایا ہوتا اور مومنین میں سے ہوتے سیبویہ نے ولا نکذب کو علیحدہ کر کے پڑھا ہے اور اس کو تمنی کے تحت داخل نہیں کیا ہے معنی یہ ہے کہ ہم نہیں جھٹلائیں گے تکذیب کے ترک پر ثبات کے معنی کی بنا پر ہم نہیں جھٹلائیں گے۔ ہم لوٹائے گئے یا نہ لوٹائے گئے۔ سیبویہ نے کہا : یہ اسی قول کی مثل ہے دعنی ولا اعود یعنی مجھے چھوڑ دو میں کسی حال میں نہیں لوٹوں گا آپ مجھے چھوڑ دیں یا نہ چھوڑیں (2) (ایضا) ابوعمرو نے تمنی سے اس کے خروج پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے : وانھم لکذبون کبھی جھوٹ تمنی میں نہیں ہوتایہ خبر میں ہوتا ہے۔ انہوں نے تمنی میں داخل کیا ہے ان کے نزدیک مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں قیامت کے انکار اور رسولوں کی تکذیب میں جھوٹے ہیں۔ حمزہ اور حفص نے نکذب اور تکون کو تمنی کے جواب کی بنا پر نصب کے ساتھ پڑھا ہے، کیونکہ یہ واجب نہیں یہ دونوں تمنی میں داخل ہیں اس معنی پر کہ لوٹنے، تکذیب ترک کرنے اور مومنین سے ہونے کی تمنا کریں گے۔ ابواسحاق نے کہا ولا نکذب کا معنی ہے اگر ہم لوٹائے گے تو ہم نہیں جھٹلائیں گے نکذب اور تکون کی نصب ان کے اضمار کے ساتھ ہے جیسے استفہام، امر، نہی اور عرض کے جواب میں نصب دی جاتی ہے، کیونکہ یہ تمام واجب نہیں اور ابھی تک واقع نہیں ہوا۔ پس جواب کو واو کے ساتھ نصب دی جاتی ہے گویا پہلے فصل کے مصدر پر عطف کیا گیا ہے گویا انہوں نے کہا : یالیتنا یکون لناردو اتفاء من الکذب و کون من المومنین پس ان دونوں کو نرد کے مصدر پر محمول کیا گیا ہے رفع کی طرف معنی کی تبدیلی کی وجہ سے، پس اس میں ان کا اضمار ضروری ہے دونوں فعلوں میں نصب مکمل ہوگا۔ ابن عامر نے تمنی کے جواب کی بنا پر تکون پر نصب پڑھی ہے جیسے تیرا قول ہے : لیتک تصیر الیانکرمک یعنی لیت مصیرک یقع واکر امنا یقع پہلے دونوں فعلوں کو تمنی میں داخل کیا یا یہ ارادہ کیا کہ و نحن لا نکرمک علیحدہ ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ حضرت ابی نے ولا نکذب بایات ربنا ابدا پڑھا ہے اور حضرت ابی اور حضرت ابن مسعود سے یلیتنا نرد لا نکذب فا اور نصب کے ساتھ بھی مروی ہے۔ فا کے ساتھ بھی جواب میں نصب دی جاتی ہے جس طرح واو کے ساتھ نصب دی جاتی ہے۔ یہ زجاج سے مروی ہے۔ اور اکثر بصری علماء جواب میں نصب کو جائز قرار نہیں دیتے مگر فا کے ساتھ۔
Top